اگر کوئی افسر اپنے ماتحت سے یہ کہے کہ ا س طرح درخواست لکھ کر لاؤپھر منظور ہو گی ۔اوروہ اسی طرح لکھ کر لے جائے اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر پیش بھی کر دے تو اس درخواست کی منظوری میں کیا شک رہ جاتا ہے ۔اسی طرح بلا تشبیہہ سمجھنے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں قرآن کی دعائیں وہ دعائیں ہیں جو اللہ نے انبیا کے واسطے سے انسانوں کو خود سکھائی ہیں۔ اور جب اللہ خود کہے کہ اس طرح مانگو تو اس کی قبولیت میں کیا شک رہ جاتاہے ۔ اس لیے مانگنے کے اعتبار سے قرآن مجید کی دعائیں سب سے زیادہ بابرکت ہیں کیونکہ قبول کرنے والے نے خود بتا دیا ہے کہ اس طرح مانگو۔احادیث کی دعائیں نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس کے الفاظ ہیں جو بلا شبہ قرآن کے بعد سب سے محترم اور مقدس ہیں۔علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کے ذخیرے میں نبی کریم ﷺ کے خطوط او ردعائیں ہی وہ سرمایہ ہیں جن میں نبی کریم ﷺ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں بعینہ محفوظ ہیں۔ ا س لیے دعائیں مانگتے ہوئے اگر نبی کریم کا اسلوب اختیار کیا جائے تو قبولیت کا امکان دوچند ہو جاتا ہے ۔
ویسے دعاتو ایسی چیز ہے کہ جس کے لیے الفاظ بھی ضروری نہیں ہوتے اللہ خاموشی کی زبان بھی جان لیتا ہے اور دل کی دھڑکنوں میں بسے خیالات بھی۔الفاظ اور زبان تو اظہار مدعا کا ایک طریقہ ہیں اور بس۔بعض اوقات ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی کافی ہوا کرتے ہیں۔ جب کسی ان پڑھ جاہل ماں کاجواں سال بیٹا فوت ہوتا ہے اور وہ اس کی میت پر جو بین کرتی ہے اس کے سامنے دنیا بھر کا ادب دم بخود رہ جاتا ہے۔ دل ساتھ ہو تو الفاظ خودبخود ساتھ دیتے نظر آتے ہیں اور الفاظ نہ بھی ہوں تو آہیں اور آنسو ہی کافی ہوا کرتے ہیں۔ اکابرین امت کااس بات پر اتفاق ہے کہ دعا تمام عملیات اور وظائف سے بڑھی ہوئی چیز ہے کیونکہ یہ انسان کا تعلق براہ راست اللہ سے قائم کر دیتی ہے ۔فرض عبادات کے بعد تعلق باللہ کے لیے شاید ہی دعا سے بڑھ کر کوئی چیز ہو اسی لیے تو اسے حضورؐ نے عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔
دعاؤں کا یہ حسین مجموعہ اسی نیت سے پیش کیا جار ہا ہے کہ بعض اوقات انسان مانگنا تو چاہتا ہے لیکن اسے مانگنا نہیں آتا۔ یہ دعائیں ہمیں مانگنے کا ایک مقدس اور نہایت خوبصورت اسلوب سکھاتی ہیں۔اس اسلوب کو سیکھ کراگر ہم د ل کا دردزبان سے ہم آہنگ کر دیں تو یقینا عرش سے دعاؤں کا جواب آئے گا۔