یہ ۱۹۹۲ کے جنوری کی۲۸ ،اور ۱۴۱۲ کے رجب کی ۲۲ تاریخ اور منگل کا دن تھا۔ وہ حسب معمول اپنے دفتر کے کام میں مشغول تھا کہ گیار ہ بجے فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ دوسر ی طرف اس کے ایک کولیگ جو محلے میں اس کے ہمسائے بھی تھے یہ خبر سنا رہے تھے کہ سارے محلے میں کہرا م مچا ہے کیونکہ آپ کا دوسالہ بیٹا عثمان اغوا ہو گیا ہے۔ کوئی شخص اسے موٹر سائیکل پربٹھاکر لے گیاہے ۔یہ سنتے ہی اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسی اثنا میں اس کا بھانجا بھی یہ خبر لے کر دفتر پہنچ گیا۔وہ ہانپتے کانپتے جلدی میں کسی کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گھر پہنچا۔اس کے گھر کے آگے مردوں کا مجمع تھا اور گھر میں عورتوں کا ۔اس کی بیوی گھر کی ڈیوڑھی میں بیٹھی برقعہ پہنے آنسو بہا رہی تھی۔ محلے کی ایک سیانی عورت اسے نصیحت کر رہی تھی کہ یہ برقعہ وغیر ہ چھوڑو اور باہر بیٹھ کر بچوں کی دیکھ بھال کیا کرو۔ تم نے بچے کو اکیلے گلی میں جانے دیا تو یہ واقعہ پیش آیا۔ باہر نکلا کرو اور بچوں کی نگرانی کیا کرو۔اتارو یہ برقعہ ۔ یہ سن کر اس کی بیوی کہہ رہی تھی ، باجی میرا بیٹا گم ہوا ہے میری شرم و حیا تو رخصت نہیں ہو گئی، میں کیسے اتار وں برقعہ۔ ایک دوسری عورت کہہ رہی تھی کہ بی بی فلاں بابے کی منت مانووہ تمہارے بیٹے کو ضرور واپس کر دے گا۔یہ سن کر وہ کہہ رہی تھی اماں میرا اللہ زندہ اورموجود ہے اس کے ہوتے ہوئے میں بابے سے کیوں کہوں؟ بیوی کی یہ باتیں سن کر اس دکھ اور غم کے دریا میں بھی اس کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔
اس کی سمجھ میں کچھ نہ آرہاتھا کہ وہ کیا کرے ۔ اس کے بھانجے نے بتایاکہ وہ کسی کام کے لیے سائیکل پر باہر نکلا تو بچے نے سائیکل پر جھولے لینے کی ضد کی ۔ اس نے گلی کی ُنکر تک اسے جھولے دیے اورواپس گھر کے دروازے پر اتا رکر چلاگیا۔ باہر اس کا بڑا بھائی عمر بھی کھیل رہاتھا۔ مگر بچہ واپس سائیکل کے پیچھے پیچھے گلی کی نکر تک پہنچ گیا۔ نہ بھانجے نے نوٹ کیا اورنہ بڑے بھائی نے ۔گلی کی نکر پر ایک موٹر سائیکل سوار کھڑا تھا ا س نے بچے کے ہاتھ میں ٹافی پکڑائی اور اسے موٹر سائیکل کی ٹینکی پر آگے بٹھا لیا۔ بچہ چونکہ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا عادی تھا اس لیے بلا جھجک بیٹھ گیا۔موٹر سائیکل والااسے بٹھا کر چلا اور ادھر سے وہ(بھانجا) جس کے پیچھے پیچھے چلتا یہ بچہ گلی کی نکر تک پہنچ گیا تھا ، اپنا کام کر کے واپس ہورہا تھا کہ اس کی نظر موٹر سائیکل پر پڑی۔اس نے نوٹ کیا کہ یہ تو کوئی اجنبی ہے ۔ اس نے وہیں سے اس کا پیچھا کیا مگر موٹر سائیکل اور سائیکل کا کیا مقابلہ ۔ اس نے بہتیرا شورمچانے کی کوشش کی کہ اس موٹر سائیکل سوار کو روکو مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔ موٹر سائیکل والا ملتان روڈ کراس کر کے اقبال ٹاؤن میں داخل ہو گیا۔ تو وہ واپس لوٹ آیا۔
وہ اسی کشمکش میں تھا کہ کیا کرے کہ اسی اثنا میں اس کے بہت سے دوست اور کولیگز بھی پہنچ گئے سب نے مشورہ دیا کہ پولیس کو اطلاع کی جائے۔چنانچہ وہ زندگی میں پہلی بار تھانے پہنچا۔ راستے میں اس نے ایک ٹریفک سارجنٹ کو درخواست کی کہ اس طرح معاملہ ہوا ہے وہ وائرلیس پر پیغام نشر کرے کہ اس طرح کا یاماہا موٹر سائیکل جس پر آگے ایک دو سالہ بچہ بیٹھا ہے جس نے گرے رنگ کی جیکٹ ،نیلے رنگ کا ٹراؤزر اور فیروزی بوٹ پہن رکھے ہیں،جہا ں پایا جائے اسے روکا جائے۔سارجنٹ نے پیغام نشر کر دیا۔تھانے والوں نے شکایت درج کی اور فوراً ہی اس کے ساتھ چل پڑے۔وہ حیران ہوا کہ یہ لوگ کیوں فوراً چل پڑے۔گھر پہنچا تو وہاں متعلقہ ایس ایچ او او راے ایس پی بھی پہنچے ہوئے تھے اور پولیس کی بھار ی نفری بھی۔ یہ تو اسے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ اس کی درخواست پر فوراً نہیں چل پڑے تھے بلکہ جب سارجنٹ نے وائرلیس پر پیغام نشر کیا تو ڈی آئی جی انٹیلییجنس نے اپنے دفتر میں اسے سنا تو اس نے ہدایات نشر کیں کہ فوری عمل کیا جائے ۔ پولیس والے تو اصل میں اس ڈی آئی جی کے کہنے پر بھاگے پھر رہے تھے۔مگر وہ دیکھ رہا تھاکہ پولیس والے کیا کر سکتے ہیں۔سوائے پوچھ گچھ کے اور وہ بھی گھر والوں سے۔تماشا یہ کہ وہ نقشہ بنا رہے تھے کہ کس کس راستے سے موٹر سائیکل والا گیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ مولا اس طرح بچہ کیسے مل سکتا ہے؟ؤ لے جانے والا تو نہ جانے کہاں پہنچ چکا ہو گا۔تین گھنٹوں میں تو وہ اسے لاہور سے باہر کہیں بھی پہنچا سکتا ہے او رنہیں تو لاہور ہی میں کسی گھر میں چھپالے تو کون جان سکتا ہے ۔
اسی اثنا میں ظہر کا وقت ہوا تو اس نے سوچا کہ پہلے نماز پڑھنی چاہیے ۔نماز پڑھنے کے لیے وہ مسجد پہنچا ۔ جماعت تو ہوچکی تھی۔ اس نے نماز اداکی۔بعد میں دو نفل پڑھے اور اپنے مولا کے حضور سر سجدے میں رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار اسے سمجھ آئی کہ دعا کسے کہتے ہیں اور دعا کیسے مانگتے ہیں۔ اسے یہ بھی سمجھ آئی کہ دعا پڑھنے کی نہیں مانگنے کی چیز ہے ۔اور اللہ سے مانگنے کے لیے الفاظ اور زبان کی بھی کوئی قید نہیں۔ دل کے اند رچھپے جذبات کو وہی تو ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے ۔اس کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے مگر وہ خاموش تھا۔ سارے الفاظ اس کاساتھ چھوڑ گئے تھے مگر اس کا رواں رواں مجسم دعا تھا۔ اس کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں اور اس کا دل اپنے مالک سے یہ کہہ رہا تھا ، مالک عثما ن ہماری پہنچ سے تو باہر ہو چکا مگر تیری سلطنت سے تو باہر نہیں گیا ۔ مجھے شام سے پہلے پہلے بچہ واپس چاہیے ۔ مجھے کسی بابے سے نہیں صرف آپ سے بچہ واپس لینا ہے۔آنسوؤں اور دل کی زبان سے وہ یہ درخواست سب سے بڑی سرکا ر کے حضور پیش کر کے گھر واپس آگیا۔گھر میں وہی صورت حالات تھی اند ر عورتوں کا اژدہام اور باہر مردوں کا۔ اس کی بیوی کی زبان قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی او رآنکھیں آنسوؤں کی تلاوت۔
چند ہی لمحے گزرے تھے کہ ایک صاحب آئے اور اس نے کہا کہ میری بہن اقبال ٹاؤن کی مسجد ابو ہریر ہ کے پاس سے گزر رہی تھی کہ وہاں اعلان ہو رہاتھا کہ انہیں ایک بچہ ملا ہے دو تین سال کا۔ آپ لوگ پتا کریں کہ وہ آپ ہی کا نہ ہو۔ امید کی کرن سی چمکی اوراس کے دوست موٹر سائیکلوں پر بتائے ہوئے ایڈریس کی طرف بھاگے ۔مسجد سے معلوم ہواکہ فلاں گھر میں بچہ موجودہے ۔وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ عثمان ہی ہے ۔وہ لوگ خوشی خوشی اسے لے کر لوٹے ۔ گھر پہنچتے ہی صف ماتم والا گھر خوشیوں بھرے آنگن میں تبدیل ہو گیا۔ ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مبارکباد کی صدائیں گونجنے لگیں۔اور پولیس والے اپنے کاغذات میں یہ درج کرتے ہوئے واپس سدھارے کہ ان کی کوششوں سے بچہ برآمد کر لیا گیا۔
جس گھر سے بچہ ملابعد کی کہانی ان کی زبانی معلوم ہوئی ۔یہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر داؤد صاحب کا گھر تھا۔ ان کا ملازم ارشد علی بخاری باہر پارک میں بیٹھابکر ی چرا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے بچے کو سڑک پر اتارا اور چلا گیا۔اصل میں آگے چوک میں پولیس ناکہ لگا ہو اتھا اس شخص کے دل میں اللہ نے خوف ڈالا کہ یہ پولیس اس کے لیے ہے ۔ چنانچہ وہ وہیں بچے کو اتار کر چلا گیا۔پولیس نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ارشد نے بتایا کہ بچہ وہاں کھڑ ا روتا رہا۔ یہ کچھ دیر دیکھتارہا پھر اس نے بچے کو اٹھا لیا۔بچہ تھوڑی ہی دیر میں اس سے مانوس ہو گیا اور اس سے کھیلنے لگا۔کافی دیر وہ اسے پارک میں کھلاتا رہا کہ شاید کوئی ڈھونڈتے ڈھونڈتے ادھر آئے ۔اسی اثنا میں بچے نے دودھ پینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ارشد اس کو اپنے گھر اپنی مالکن کے پاس لے گیا ۔ اس نے بھی بچے کو پیار کیا او ر گلاس میں دودھ دیا دودھ پیتے ہی بچہ سو گیا۔ اب گھر والوں نے مشورہ کیا کہ شام تک دیکھتے ہیں نہ کوئی آیا تو کسی خیراتی ادارے کو جمع کروا دیں گے۔
اس انوکھی کہانی نے اسے زندگی میں پہلی بار دعا مانگنا سکھا یا۔اس پر یہ انکشاف ہو ا کہ دعا پڑھنے کی نہیں مانگنے کی چیز ہے ، اسے معلوم ہوا کہ دعا کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور اللہ سب کچھ کے بغیر سب کچھ کیسے کر سکتا ہے ۔بچے کی واپسی اسبا ب وعلل کے تانے بانے کے بغیر صرف اللہ کے اپنے نظام کے تحت ہوئی تھی۔انسانوں نے اپنا نظام چلایا او راللہ نے اپنا اور جس طرح اس کی تقدیر ہر تدبیر پہ حاوی ہوتی ہے اس طر ح اس کانظام بھی ہر نظام پر حاوی اور حاکم ہوتا ہے۔
وہ آج بھی سوچتا ہے تو اسے اس سارے واقعے میں اگر کوئی سبب نظر آتا ہے تو وہ دعا ہے اور صرف دعا۔ ورنہ کوئی بھی سبب نہ تھا محض اللہ کا فضل ، کرم ، حکمت اور قدرت تھی جو کام کر رہی تھی۔اللہ پاک نے اس کی لاج رکھی او رساری عمر کے دکھ اورآ زمائش سے بچا لیا ۔اس آدمی کا بچے کو اٹھا لینا اور اس کے بھانجے کا اس کو دیکھ لینا ، محض اللہ کی عنایت تھی ۔ اگر بھانجا اس کو نہ دیکھتا تو گھر والے اسے ادھر ادھر گھروں اور گلیوں میں ڈھونڈتے رہتے اور اصل صورت حال کا علم ہی نہ ہوسکتا۔پھر اس کے بھانجے کا اس کا پیچھا کرنا اور اس تک نہ پہنچ سکنا، بھی اللہ کی حکمت تھی کیونکہ عین ممکن تھا کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار ہوتا اور وہ پکڑے جانے کے ڈر سے اسے چلا دیتااور زیادہ نقصان ہو جاتا۔پھر وہ دن ویسے بھی بارش کا دن تھا ہر طرف کیچڑ اورپھسلن تھی اس کے موٹر سائیکل کا سلپ نہ ہونا بھی اللہ کی حکمت تھی۔ سلپ ہوتا تو جہاں اس کوچوٹ آتی وہاں بچے کا بھی نقصان ہوتا۔پھر پولیس کو دیکھ کر اللہ کا اس کے دل میں خوف کا ڈالنا اور اس کا بچے کو اتار دینابھی اللہ کا کرم تھا۔ارشد علی بخاری کے دل میں بچے کی محبت کا آجانابھی اللہ کی طرف سے تھا ۔اس کا اور اس کے گھر والوں کا بچے کو محبت اور پیار سے رکھنا اور کسی خیراتی ادارے کے حوالے نہ کرنابھی اللہ کا احسان تھا۔ اس خاتون کا مسجد سے اعلان کا سن لینا اور گھر آکر اپنے بھائی کو بتانا اور بھائی کافوراًاس کے پاس آنابھی اللہ کی طرف سے تھا ورنہ مساجد میں روز بہت سے اعلانات ہوتے ہیں کون سنا کرتاہے۔پولیس کا فوراًایکٹو ہو جانا ، سارجنٹ کا وائرلیس کر دینا، ڈی آئی جی کا نوٹس لینا اور ہدایات دینا سب اللہ کی طرف سے تھا۔
اس دن کے بعد سے لے کر آج تک اس کا پختہ یقین ہے کہ اصل میں ہمیں مانگنا ہی نہیں آتا،ہم دعائیں مانگتے نہیں پڑھتے ہیں۔جبکہ یہ مانگنے کی چیز ہے ۔ ہو نہیں سکتا کہ اللہ سے کچھ مانگا جائے اور وہ نہ دے۔ بچے جب لپٹ کر ماں باپ سے کچھ مانگتے ہیں تو انہیں بھی نہ دیتے ہوئے شرم آتی ہے وہ تو اللہ ہے خالق اور مالک اور سب کریموں سے کریم اور سب سے زیادہ پیار اور رحم کرنے والا وہ کیوں نہ دے گا؟وہ تو اپنے دشمنوں کو بھی دیتا ہے تو پھر اپنوں کو کیوں نہ دے گا۔ لیکن اپنوں کو مانگنے کا طریقہ آنا چاہیے ۔ یہ خصوصی شمارہ اسی لیے نذر قارئین ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ کس کس انداز سے اللہ سے مانگاکرتے تھے ۔ براہ کر م ان دعاؤں کو پڑھیے نہیں بلکہ مانگیے ۔اور مانگنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اس لیے ان کا ترجمہ ضرور یاد کیجیے تا کہ جب زبان کچھ کہہ رہی ہو تو دل نہ صرف سمجھ رہا ہو ابلکہ الفاظ کا ساتھ بھی دے رہاہو۔