اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ یا امام (امامت کی اصطلاح خلافت کے مقابلہ میں زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہے) کا تعین عوام کی رائے پر منحصر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ نص قطعی سے عمل میں آتا ہے۔ امامت کو وہ لوازمات دین میں تصور کرتے ہیں اور توحید و رسالت کی مانند ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔ شیعہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ہر امام کا ایک وصی ہوتا ہے اور اس وصی کا تقرر بالنص یا منجانب اللہ ہوتا ہے۔ اسماعیلی فرقے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب چھٹے امام (اسماعیلیوں کے نزدیک پانچویں امام کیونکہ وہ حضرت علی کو امام نہیں مانتے بلکہ انھیں وصی قرار دیتے ہیں) حضرت امام جعفر صادق 148 ہجری (765ء) فوت ہوئے (ایک روایت کے مطابق انہیں زہر دیا گیا تھا) اور ان کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہوا تو شیعہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل جو اپنے والد کے انتقال سے چند سال قبل (755ء) وفات پا چکے تھے، امام منصوص یا مامور من اللہ ہیں اور دوسرے گروہ نے ان کی بجائے ان کے دوسرے بیٹے سیدنا موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کر لیا۔پہلا گروہ حضرت اسماعیل کے نام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتا ہے اور وہ دھڑا جس نے امام موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کر لیا، اثنا عشری کہلایا اور جمہور شیعہ کا تعلق اسی فرقے سے ہے۔ یہ فرقہ امامت کی ابتدا حضرت علیؓ سے کرتا ہے اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہے اور بارہویں امام کو مستور خیال کرتا ہے۔اسماعیلیوں کے نزدیک دیگر شیعہ فرقوں کی طرح امام کا تعین نص قطعی سے عمل میں آتا ہے، اس لئے امام کو اس کے منصب سے ہٹانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ موروثی حق ہونے کے باعث امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ عقیدہ بہت بعد میں متشکل ہوا، کیونکہ اگر اس اصول کو سختی سے پیش نظر رکھا جائے تو بہت سے ایسے افراد بھی امامت کے منصب پر فائز ہوئے، جو اس اصول پر پورے نہیں اترتے تھے اور اسماعیلی ریکارڈ میں اس انحراف کا کوئی جواب بھی موجود نہیں ہے۔سنہ 1094ء میں اسماعیلی کمیونٹی میں اٹھارویں امام مستنصر کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کے مسئلے پر ان کے بڑے بیٹے نزار اور سب سے چھوٹے بیٹے اکیس سالہ مستعلی کے درمیان جانشینی کے سوال پر مناقشہ ہو گیا اور اسماعیلی ایک دفعہ پھر دو دھڑوں؛ نزاری اور مستعالی میں منقسم ہو گئے۔ مشرق میں یعنی ایران کے اسماعیلی نزار اور اس کی اولاد کو امامت اور خلافت کا مستحق خیال کرنے لگے لیکن مغرب یعنی مصر اور یمن میں مستعلی اور اس کی اولاد کو امامت کا مستحق سمجھا گیا۔ اول الذکر آغاخانی خوجے اور موخرالذکر بوہرہ کہلاتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر اقتدار کی کشمکش کو مذہبی اختلافات کا رنگ دے دیا گیا اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ قرون وسطیٰ کی مجبوری بھی تھی کیونکہ اس عہد میں سیاسی اختلافات کے اظہار کا موجود ذریعہ مذہب ہی تھا۔
اسماعیلی تحریک اسلامی عقائد اور یونانی فلسفہ کا امتزاج تھی۔ اس کا آغاز ایک واضح سیاسی مقاصد کی حامل تحریک کے طور پر ہوا تھا، جس میں معاشرتی عدل و انصاف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لئے سرگرم عمل اسماعیلی تحریک کا رحجان ابتدائی اشتراکیت کی طرف تھا یا کم از کم اس کے مخالفین کا اس کے بارے میں یہی کہنا تھا کیونکہ اس تحریک سے وابستہ افراد وسائل کو عوام کی ضرورتوں کے مطابق تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔
اسماعیلی تحریک کے نزدیک اقتدار حاضر امام کا حق تھا۔ اس لئے اس تحریک کو اس انداز میں منظم کیا گیا تھا کہ جب بھی موقع ملے ‘‘غاصبوں’’ کو ایوان اقتدار سے باہر کر کے حاضر امام کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا جائے۔ اس تحریک کے لئے کھلے طور پر عباسی حکمرانوں کو چیلنج کرنا تو ممکن نہ تھا، اس لئے اس کی تنظیم خفیہ بنیادوں پر کی گئی تھی اور اس تحریک کو ان علاقوں میں بطور خاص منظم کیا گیا تھا جہاں عباسی سلطنت کے کنٹرول کی نوعیت کمزور تھی۔ جوں جوں اس تحریک کا اثر و نٖفوذ بڑھا تو اس کے کار پردازوں نے اقتدار کی سیاست کو اپنا مطمح نظر بنا لیا اور ان کی توجہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہٹ گئی اور وہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں لگ گئے۔
اسماعیلی عقائد کے مطابق امام زمانہ کو دین اور دنیاوی امور میں اختیار کلی حاصل ہے، اس لئے اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ یا حاکم نہیں ہو سکتا اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ غاصب ہو گا۔ اسماعیلی کمیونٹی اپنی خفیہ تنظیمی سرگرمیوں اور اپنے رہنماؤں کی قابل عمل سیاسی حکمت عملیوں کی بدولت عباسی سلطنت کے لئے ایک حقیقی خطرہ بن کر ابھری۔ کئی عشروں پر محیط انڈر گراونڈ سیاسی کام کی بدولت وہ بغداد میں قائم عباسی خلافت (750-1258) کے مقابل اپنے امام کی قیادت میں فاطمی خلافت (909-1171) قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔اس سلطنت میں تیونس سے لے کر فلسطین تک کے علاقے شامل تھے۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ اور وہاں جامعہ الآزہر کی بنیاد بھی اسماعیلیوں نے رکھی تھی۔ فاطمی خلافت مصر میں 567ھ تک قائم رہی، اس کا خاتمہ صلاح الدین ایوبی نے بغداد کی عباسی خلافت کے عملی تعاون سے کیا تھا۔11ویں صدی میں اسماعیلی تحریک میں جو اختلاف پیدا ہوا، اس نے اسماعیلی دعوت کو دو مراکز میں منقسم کر دیا۔ مشرق میں ایران کو نزار کے پیروکاروں نے اپنا مسکن بنایا، جب کہ مغرب میں یمن میں مستعلی کے ماننے والوں نے اپنا مرکز قائم کیا۔ ابتدائی طور پر حصول اقتدار کی جنگ نے دو مستقل مذہبی فرقوں (اسماعیلی بوہرہ فرقہ اور نزاری اسماعیلی فرقہ) کو جنم دیا، جو آج تک موجود ہیں۔ اسماعیلیوں کا داؤدی بوہرہ فرقہ مستعلی سلسلے کے 21 ویں امام طیب کو امام مستور خیال کرتا ہے۔
اگرچہ اس وقت سے آج تک بیعت ان کے نام پر ہی لی جاتی ہے۔ بوہرے امام طیب کی امامت کے پیروکار ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام آخر الزماں یعنی امام مہدی امام طیب کی اولاد سے ہوں گے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امامت کا سلسلہ ان کی نسل میں جاری وساری ہے۔ بوہروں کے نزدیک امام طیب کی اولاد میں سے ہر زمانہ میں ایک امام مستور ہوتا ہے۔ اب اس فرقے کے رہنما داعی مطلق کہلاتے ہیں اور انھیں داؤدی بوہرے امام مستور کا نائب یا باب خیال کرتے ہیں۔ داعی مطلق امام کے باب یا نائب کی حیثیت میں جماعت کے تمام دینی اور دنیادی امور پر کلی اختیار رکھتا ہے۔ 96 سالہ سیدنا محمد برہان الدین اس فرقے کے 52ویں داعی مطلق تھے اور ممبئی بھارت میں رہتے تھے۔ پچھلے سال ان کی وفات کے بعد ان کی جانشینی پر بھی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے اور معاملہ ممبئی کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔
برصغیر میں اسماعیلی دعوت کیسے پہنچی؟ اس بارے میں تاریخی حقائق اور دیو مالائی قصے ایک دوسرے میں اس قدر گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ اس بارے میں واقعات اور شخصیات کی معروضی ترتیب مشکل امر ہے۔ ایک روایت کے مطابق 958ء میں سندھ کے کچھ حصوں میں، جن کا مرکز ملتان تھا، اسماعیلی اقتدار قائم ہو چکا تھا۔ ان علاقوں کے بہت سے ہندو اسماعیلی دعوت کے زیر اثر مسلمان ہو گئے تھے۔ 1005ء میں اسماعیلی اقتدار کا یہ مرکز تو ختم ہو گیا لیکن جہاں تک اسماعیلی افکار و نظریات کا تعلق تھا، انھیں ختم نہ کیا جا سکا۔گیارھویں صدی میں ایک دفعہ پھر یمن سے اسماعیلی داعیوں کا ہندوستان میں ورود شروع ہوا۔ یمن سے جو پہلے اسماعیلی بغرض تبلیغ ہندوستان آئے، ان کے ناموں کے بارے میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ پہلے اسماعیلی داعی کا نام محمد تھا یا احمد، اس بارے میں مورخ متفق نہیں ہیں۔ لیکن قطع نظر اس بات کے پہلے داعی کا نام کیا تھا؟ ایک بات پر سبھی متفق ہیں کہ اسماعیلیوں کی بوہرہ شاخ کے داعیوں کی جنوبی ہندوستان میں آمد کا سلسلہ 11ویں صدی ہی میں شروع ہوا۔ ان اسماعیلی داعیوں کی ہندوستان آمد کی ایک وجہ وہ تجارتی روابط بھی بنے ہوں گے جو یمن اور ہندوستان کے درمیان صدیوں سے چلے آتے تھے۔ اسماعیلی داعیوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہاں کی ہندو تجارت پیشہ برادریوں کو بنایا۔ بوہرہ لفظ بیوہار سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی تاجر ہیں۔ اس نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسماعیلی داعیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کی بدولت زیادہ تر ہندوؤں کی تجارت پیشہ برادریوں کے افراد اور دستکار ہی مسلمان ہوئے تھے۔
21 ویں امام کے مستور ہونے کے بعد اسماعیلی تحریک کے ایک حصے کا مرکز چونکہ یمن منتقل ہو گیا تھا، اس لئے سولہویں صدی کے نصف اول تک تحریک کا مرکز وہیں رہا اور 23 ویں داعی مطلق محمد عزالدین تک تمام مطلق داعیوں کا تعلق یمن ہی سے تھا، لیکن 24ویں داعی مطلق سیدنا یوسف نجم الدین نے، جن کا تعلق سدھ پور گجرات سے تھا، اپنا مرکز ہندوستان منتقل کر لیا اور آج تک وہیں قائم ہے۔ ان کے بعد داعی مطلق کے منصب پر ان کے خاندان کے افراد ہی فائز ہوتے چلے آ رہے ہیں۔
بوہروں کی بڑی تعداد بھارت کی ریاستوں گجرات، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں رہتی ہے۔ بھارت کے علاوہ بوہرے دنیا کے 31 ممالک میں آباد ہیں۔ بوہروں کی اکثریت (50 فی صد) گجرات میں رہتی ہے اور بھارت سے باہر سب سے زیادہ کراچی میں ہیں۔ بوہرے زیادہ تر تجارت پیشہ ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر جیسا کہ پاکستان میں ولیکا اور بھارت میں پریم جی (بھارت کے امیر ترین شخص) یہ کہیں بھی بڑے بزنس مین نہیں ہیں، یہ چھوٹے چھوٹے دوکاندار ہیں، سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں اور ان کی مذہبی قیادت بھی سیاست سے دور رہنے کی حوصلہ افزائی اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔کیونکہ بوہرہ مذہبی قیادت سمجھتی ہے کہ کمیونٹی میں سیاسی آگاہی اور شعور ان کے اپنے اقتدار کے لئے چیلنچ بن سکتا ہے۔ دو تین عشرے قبل کچھ بوہرہ دانشوروں نے سیدنا اور ان کے خاندان کی مالی بد عنوانیوں، سماجی اور مذہبی بے ضابطگیوں کے خلاف ایک مہم چلا ئی تھی، لیکن اصلاحات کی اس تحریک کو عام بوہروں میں بہت کم پذیرائی ملی۔ اس تحریک، جس کے روح رواں بھارت کے معروف دانشور اصغر علی انجینئر تھے، کا کہنا ہے کہ بوہروں کی اکثریت ان کے اصلاحات کے پروگرام کی حامی ہے لیکن سیدنا اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے عام بوہروں پر جو سخت سماجی کنٹرول قائم رکھا ہے، اس کی موجودگی میں انھیں یہ ڈر اور خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر انھوں نے اصلاحات کی تحریک کا ساتھ دیا تو سیدنا ان کا سماجی بائیکاٹ (بوہری محاورے میں سلام بند) کروا دے گا، اس لئے وہ تحریک کا ساتھ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔بوہرے چونکہ مقامی ہندووں کی تجارت پیشہ برادریوں ہی سے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے ان میں ابھی تک اپنی سابقہ ذاتوں کی معاشرتی اور سماجی رسوم اور ادارے موجود ہیں۔ بوہرے دیوالی جوش و خروش سے مناتے ہیں اور اپنی حساب کتاب کی کتابوں کی شروعات اسی دن سے کرتے ہیں۔ اس دن بوہرے خیر و برکت کے لئے سیدنا یا ان کے نمائندے سے اپنی اکاونٹس بکس پر بسم اللہ لکھواتے ہیں۔ اس موقع پر بوہرے سیدنا کو نقد رقم سلام کے طور پر پیش کرتے ہیں۔بوہرے دیگر اسلامی فرقوں کی طرح اسلامی مہینے کا آغاز چاند دیکھ کر نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے فاطمی عہد میں بنے کیلنڈر پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بوہرے عام مسلمانوں کی بجائے ایک دو دن بعد عید کا تہوار مناتے ہیں۔ بوہرے مردے کو دفن کرتے وقت اس کے کفن میں ایک کاغذ کا ٹکڑا رکھتے ہیں، جسے بوہرہ محاورے میں رقعہ چٹھی کہا جاتا ہے اور یہ رقعہ چٹھی سیدنا یا ان کا مجاز مقامی نمائندہ جاری کرتا ہے۔ کوئی بوہرہ یہ چٹھی حاصل کئے بغیر مردے کو دفن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بوہرے کھانے میں مچھلی نہیں لیتے کیونکہ ان کے نزدیک مچھلی مردہ ہوتی ہے اس لئے اسے کھانا جائز نہیں ہے۔روایتی بوہرے مچھلی اسی وقت کھائیں گے جب انھیں یہ یقین ہو کہ اس کو کسی بوہرے نے پکڑا تھا اور اس پر جب وہ زندہ تھی، تکبیر پڑھی تھی۔
پاکستان کی تاریخ اور معیشت کے حوالے سے اسماعیلیوں کا ایک دوسرا فرقہ نزاری بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس فرقے کے پیروکاروں کو عرف عام میں خوجے یا آغاخانی بھی کہا جاتا ہے۔ اسماعیلیوں کی اس شاخ کے امام جب بھی پاکستان آتے ہیں تو حکومت خواہ کوئی بھی ہو، ان کو سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملتا ہے۔ ہاورڈ کے تعلیم یافتہ پرنس کریم آغاخاں چہارم اس فرقے کے انچاسویں امام ہیں۔ پرنس کریم آغا خان پیرس کے نواح میں واقع دو سو ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں رہتے ہیں۔ ان کی اس رہائش گاہ کا نام ‘‘عقابوں کا نشیمن’’ ہے۔ دراصل یہ وہی نام ہے جو فارسی زبان میں البروز پہاڑی سلسلے میں واقع ان کے مرکز کا ہوا کرتا تھا۔ اسماعیلی نزاریہ کا وہ مرکز 1090ء میں قائم ہوا تھا اور اسے منگولوں نے 1256ء میں تباہ کردیا تھا۔
اسماعیلیوں کا نزاری فرقہ حاضر امام پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے نزدیک کوئی عہد اپنے امام موجود سے خالی نہیں ہوتا۔ موجودہ امام پرنس کریم آغا خان اپنا سلسلہ نسب حضر ت محمدؐ سے جوڑتے ہیں۔ حسن علی شاہ آغا خان اول سے قبل اسماعیلی فرقے کے امام کو آغا خان کے لقب سے نہیں پکارا جاتا تھا۔ ایران میں آغا خان کا لقب ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جو مال گزاری کے سلسلے میں واجبات وصول کرنے کے مجاز ہوتے تھے۔
نزاریوں کی سرکاری تاریخ کے مطابق حسن علی شاہ کو ایران کے بادشاہ نے 1817ء میں آغا خان کا لقب عطا کیا، جب کہ آغا خاں کے مصنف مہیر بوس کا کہنا ہے کہ حسن علی شاہ نے پر اسرار حالت میں یہ لقب اپنے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ آغاخان اول انیسویں صدی کے ایرانی دربار میں ہونے والی اتھل پتھل اور سازشوں سے مجبور اور ہندوستان میں موجود انگریز انتظامیہ سے مراعات کے لالچ میں ہجرت کر کے اگست 1841ء میں قندھار آ گئے، جو ان دنوں انگریزوں کے زیر کنٹرول تھا۔ آغا خان اول نے سندھ فتح کرنے میں چارلس نپئیر کی مدد کی، جس کے صلے میں انھیں پنشن اور سندھ اور بمبئی، جہاں انھوں نے 1848ء میں اپنا مرکز بنایا، میں جائیدادیں دی گئیں۔ ان کے پوتے سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوئم نے یہ ہیڈ کوارٹر بمبئی سے جنیوا منتقل کر لیاْ۔
برصغیر میں نزاری دعوت کا سب سے پہلا مبلغ نورالدین تھا، جس نے مقامی آبادی سے رسم و راہ کی خاطر ‘‘ست گر’’ کا لقب اختیار کر لیا تھا۔ روایت کے مطابق اس کا اصلی نام سعادت تھا اور اس کی ہندوستان میں آمد کا زمانہ گیارہویں صدی تھا۔ ایک غیر مستند روایت کے مطابق وہ نزار کی اولاد میں سے تھا، لیکن اس کی شخصیت اور تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں۔ اس کی تبلیغی مساعی کا مرکز گجرات اور کاٹھیاواڑ کا علاقہ رہا اور وہ فوت بھی وہیں ہوا۔ اس کے پیروکاروں کی جماعت ست پنتھی کہلاتی ہے. اس گروہ کے عقائد ہندو اور اسلامی رسوم و عقائد کا مرکب ہیں، لیکن یہ آغا خاں کو اپنا امام تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنا ایک علیحدہ روحانی پیشوا اور تنظیم رکھتے ہیں۔ خوجوں کا نزاری سلسلے میں منسلک کرنے والے پیر صدر الدین تھے، جو پنجاب کے شہر اوچ شریف میں مدفون ہیں۔صدرالدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا پڑاؤ پنجاب کا قصبہ ''بڑا گھر'' تھا لیکن فی الواقع وسطی پنجاب کے مقابلہ میں اس کی تبلیغ کے آثار سندھ اور جنوبی پنجاب میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نزاریوں کی پہلی بستی ملتان میں قائم ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کا عمل گیارہویں صدی میں ہوا۔ اس دور میں ایران میں موجود امام نے داعیوں کو جو پیروں کے روپ میں آتے تھے، بغرض تبلیغ ہندوستان بھیجا۔ ان پیروں نے ہندوؤٔں کی بہت سی برادریوں بالخصوص تجارت پیشہ برادریوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔
نزاریہ روایت کے ایک داعی پیر صدر الدین نے ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے ان افراد کو خوجہ کا نام دیا اور مرور زمانہ سے خوجے ہندوؤں میں موجود ذات پات کے نظام کے حوالے سے خود ایک ذات بن گئے۔ پاکستان کے نزاری اسماعیلیوں کے مطابق خوجہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ہندو سے مسلمان ہوا ہو اور اپنے ساتھ اپنی سابقہ ذات اور مذہب کی بہت سی رسوم و رواج لے کر آیا ہو۔ پاکستان میں نزاری اسماعیلیوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ہندوؤں سے اسماعیلی فرقے میں شامل نہیں ہوا۔ یہ لوگ پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت، چترال اور ہنزہ وغیرہ میں رہتے ہیں۔
نزاری اسماعیلیوں کی اس کمیونٹی پر وسط ایشیائی اسلامی روایت کی چھاپ بہت گہری ہے۔ نزاری خوجوں کی کتاب ‘‘دس اوتار’’ پیر صدرالدین کی تصنیف خیال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذہبی تصانیف جنھیں گنان کہا جاتا ہے، ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پیر صدر الدین کے علاوہ اور بھی اسماعیلی داعی اس زمانہ میں ہندوستان میں وارد ہوئے تھے، ان میں سے ایک حسن کبیر الدین تھے جن کی قبر بہاولپور میں ہے، ان سے بھی خوجوں کی مذہبی کتب گنان منسوب کی جاتی ہے۔ خوجوں کی تعلیم و تربیت زیادہ تر پیر صدر الدین اور حسن کبیر الدین کی سعی کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان دونوں سے زیادہ دل چسپ شخصیت پیر شمس الدین تبریزی ہیں، جو ملتان میں مدفون ہیں اور جنھیں ملتان اور پنجاب کے لوگ شمس تبریز کہتے ہیں۔
نزاریوں کے عقائد دیگر اسماعیلی فرقوں سے اس حد تک مختلف ہیں کہ ان میں خوجوں کے سابقہ ہندو ذاتوں کے عقائد کا بہت گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ خوجوں کی مذہبی کتابیں دس اوتار، گنان، مومن چتاونی وغیرہ جو پیر صدرالدین، حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی داعیوں سے منسوب ہیں، گجراتی زبان میں ہیں۔ خوجے اپنے عقائد کے بارے میں وہ شدید اخفا نہیں برتتے جو بوہروں کا خاصہ ہے۔ تکوین عالم، نبوت وامامت کے بارے میں خوجے عام اسماعیلی روش و خیال کے پابند ہیں لیکن اپنے عقائد کا اظہار ہندو پیرایہ میں کرتے ہیں۔ تمام عقائد اور تعلیمات کا ماحصل امام وقت کی اطاعت و خدمت ہے۔ خوجے کسی مستور امام کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے امام ان کے درمیان موجود ہیں۔ موجود امام پرنس کریم آغاخاں نزاری سلسلے کے انچاسویں امام ہیں۔ مغرب میں اسماعیلی امام کی شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں جو چاہے چھپتا رہے، اپنے پیروکاروں کے نزدیک وہ روحانی بلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں۔ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے نزدیک قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی ذات کے بارے میں بحث مباحثہ ان کے نزدیک گناہ کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
جمہور مسلمانوں کے برعکس نزاری عبادت، نماز نہیں دعا ہے اور یہ دن میں پانچ وقت کی بجائے تین دفعہ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ علی الصبح اور باقی دو دفعہ غروب آفتاب کے بعد۔ ہر اسماعیلی کے لئے یہ دعا فرض ہے، جو اسے جماعت خانہ میں جا کر کرنا ہوتی ہے۔ جماعت خانہ میں اذان نہیں ہوتی۔ نزاری عقائد میں امام کے فرمان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، امام وقت جو فرمان جاری کرتا ہے، ہر اسماعیلی کا فرض ہے کہ اس کی پابندی کرے اور اپنی شخصی اور سماجی زندگی کو امام کے فرامین کی روشنی میں ترتیب دے۔
ویسے تو تمام مذاہب میں دولت کے عنصر کو بہت زیادہ اہمیت نہ صرف ماضی میں حاصل رہی ہے بلکہ فی زمانہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن نزاری عقیدہ میں تو مذہبی عقائد اور دولت کا یہ اتصال کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ اسماعیلی نزاری عقیدہ میں دولت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ جو چیز اسماعیلیوں کو بالعموم اور نزاری اسماعیلیوں کو بالخصوص دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ اپنے مقامی مُکھیوں کی وساطت سے آغا خاں کو دولت پیش کرنے کے اصول کے گرد گھومتا ہے۔
نزاری عقائد میں مرکزی حیثیت چونکہ حاضر امام کو حاصل ہے اس لئے ہر اسماعیلی اپنی آمدن کا کم ازکم دسواں حصہ جسے دسوندھ (گجراتی میں دسواں) امام کو دیتا ہے۔ آغا خاں اپنے فرامین میں اکثر اپنے پیروکاروں کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ دسوندھ کو ان کے عقیدے میں کلیدی مقام حاصل ہے۔
اسماعیلی یہودیوں اور پارسیوں کی طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لئے فی زمانہ ان کے فرقے نسلی گروہ بن چکے ہیں۔ یہ فرقے زیادہ تر تجارت اور کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس لئے رواداری، لچک اور حالات سے مفاہمت کرنا ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔اسماعیلیوں نے معیشت کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں میں قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ آغاخاں فنڈ برائے معاشی ترقی، آغا خاں فاؤنڈیشن، آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر، آغا خاں رورل سپورٹ پرو گرام، آغا خاں میڈیکل کالج و ہسپتال اور اس کے تحت چلنے والے دیگر ادارے تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں میں پاکستان کے عوام کی بلا تفریق مذہب وعقیدہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔