دریائے سندھ کے نام پر تحقیق

مصنف : محمد عبدہ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2018

تاریخ
دریائے سندھ کے نام پر تحقیق
محمد عبدہ 

                                                                                                                        چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔ 
ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ 
ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے سیون ہیڈن 1907 میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر سنگی کباب یا سینگے کباب کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لئے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔ 
دریائے سندھ لداخ میں۔ 
گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ 
دریائے سندھ بلتستان میں۔ 
دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر سکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔ 
دریائے سندھ تربیلا و کالا باغ میں۔ 
اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ ہے تربیلا ڈیم۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔ 
دریائے سندھ کالا باغ سے گڈو تک۔
کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔ 
گڈو سے کیٹی بندر بحیرہ عرب تک۔ 
گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جوڈارو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گزر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گزر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔
دریائے سندھ کا نام اور مطلب پر مختصر تحقیق۔ 
دریا پارسی زبان کا لفظ ہے جس کو سنسکرت میں ندی، عربی میں نہر، ترکی میں نیلاب اور انگریزی میں river کہتے ہیں۔سنسکرت میں سندھو کا مطلب ہے سمندر یا بڑا دریا۔ سنسکرت ڈکشنری کے مطابق سندھو کا بنیادی لفظ سنید Syand ہے جس کا مطلب بہنا ہے۔ یعنی سندھو کا مطلب ہوا ''ایسی ندی جو ہمیشہ بہتی رہے یا پھر بہتی ہوئی ندی۔ پروفیسر میکس میولر کے نزدیک سندھو کا لفظ سُدھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بچاؤ کرنا۔ دریائے سندھ جن علاقوں سے بہتا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا بچاؤ کرتا ہے۔ غیروں کے حملے سے اور جنگلی سوروں سے۔ 
سندھو لفظ کے مختلف لہجے۔ 
رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ ایرانی دور 518 ق م میں ایران کے دارا نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے سندھ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں ''س'' کا حرف نہیں تھا۔ اور انہوں نے س کی جگہ ہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح سندھو سے ہندو ہوگیا۔ یونانی دور 326 ق م میں یونانیوں نے سندھ کو ہند کہا اور اس کا لہجہ ''انڈ'' کردیا۔ اور ندی کو انڈوس indos اور ملک کا نام انڈیکا Indica رکھا۔ لاطینی زبان بولنے والوں نے انڈوس کو ''انڈس Indus'' اور سندھ کو ہند اور پورے خطے کو انڈیکا سے انڈیا بنایا۔ چینی سیاح یوان نے 641 عیسوی کو سندھو کو ''سن تو'' (سنتو) لکھا ہے۔ غرض دریائے سندھ مختلف لہجوں میں کچھ یوں ہے۔
(سندھو۔ سنسکرت) (ہندو۔ ایرانی) (انڈوس۔ یونانی) (انڈس لاطینی) (سن۔ تو چینی) 
سندھ کے صفاتی نام 
سنسکرت میں ہی سندھو کو بچانے والا یا روزی دینے والا کہا گیا ہے۔ تبت والوں نے اسے شیر کے منہ سے نکلنے والا دریا یعنی شیر دریا کہا۔ قراقرم کے بیچ والے حصے میں اسے دریا کہا گیا ہے۔ قراقرم سے نیچے تربیلا تک اسے ابا سین کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے سب کا باپ یا دریاؤں کا باپ۔ سندھی زبان میں دریا کیلے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح سنسکرت ایک قدیم زبان ہے جس کا مطلب ہے ''تراشی ہوئی''۔ تو یہ کہاں سے تراشی ہوئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ موئن جوڈارو کی زبان سے تراشی گئی ہوگی۔ جس کو اگر سندھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لفظ سندھو کے دریا ہونے کا ایک ثبوت اس طرح سے ہے کہ آریہ قوم نے شمالی سندھ کو سپت سندھو کہا۔ سپت کا مطلب سات اور سندھو کا مطلب دریا۔ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین۔