آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو میرے جسم میں ویکسین لگے چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں جس کے بارے میں طرح طرح کی سازشی تھیوریاں، ابہام، غیر منطقی اور سنی سنائی باتیں عام گردش کر رہی ہیں - لیکن خدا بھلا کرے ان ہزاروں لوگوں کا جو ویکسین لگوا کر اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا رہے ہیں تا کہ کسی ایک بھی جان کو ان وسوسوں اور سازشی نظریوں سے بچا یا جا سکے جو بذات خود کرونا سے بھی زیادہ مہلک اور پولیو سے بھی زیادہ اپاہج کرنے والے ہیں -آج میری اس تحریر کا مقصد کرونا ویکسین کے بارے میں عام زبان میں وہ سب معلومات لکھنا ہے جو کسی ڈاکٹر یا سائنسدان کے علاوہ عام عوام کیلئے سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے -اپنی اس تحریر میں میں کوشش کروں گا کہ اس تمام جھوٹے پروپیگنڈے کا سائنسی اور منطقی جواب لکھوں جس کی وجہ سے میرے دیس میں آج بھی بچے پولیو سے اپاہج ہو جاتے ہیں اورکرونا کی وجہ سے سانس لیتے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں - تحریر طویل ہے لیکن سازشی نظریے بھی بہت گھمبیر ہیں - مجھے یقین ہے پوری تحریر پڑھنے کے بعد کوئی بھی منطقی ذہن ابہام کا شکار نہیں رہے گا - جس علم کو مجھے سیکھنے میں پندرہ سال لگے آپ کو کم سے کم پندرہ منٹ تو لگانے پڑینگے - چلیے - آئیے میرے ساتھ - زندگی پھیلاتے ہیں -
ویکسین کیا ہوتی ہے؟
ویکسین کو سمجھنے کیلئے آپ کو پہلے وائرس کو سمجھنا ہوگا - کرونا وائرس کے جسم کے دو بڑے حصے ہیں - ایک بیرونی خول جس کو ''سپایک پروٹین '' کہتے ہیں ' جس کے ذریعے یہ جسم کے خلیوں سے جڑتا ہے اور دوسرا اس خول کے اندر موجود وہ ذرہ ہے جو خلیے میں داخل ہو کر انفیکشن پھیلاتا ہے- اس تحریر میں ہم اس کو ''خطرناک ذرہ'' کہیں گے - ''سپایک پروٹین'' کا خول خلیوں سے جڑ جاتا ہے اور ایسا راستہ بناتا ہے کہ اس خول کے اندر موجود ''خطرناک ذرہ'' خلیوں میں داخل ہوجائے - قدرت نے انسانی جسم کو یہ صلاحیت دے رکھی ہے کہ وہ اس پروٹین خول کو ڈیٹکٹ کر لیتا ہے اور الارم بجادیتا ہے جسکی وجہ سے جسم کا دفاعی نظام ایکٹو ہوجاتا ہے اور اس نظام کے وہ خلیے جن کو '' سفید خلیے '' کہتے ہیں جو جسم کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں وہ اینٹی باڈی بنا کر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب تک اینٹی باڈی وافر مقدار میں بن پاتی ہیں وہ خطرناک ذرہ جو خول کے اندر تھا وہ خلیوں میں داخل ہو کر تباہی پھیلانا شروع کر دیتا ہے - اب اگر انسان اس تباہی سے بچ کر صحت یاب ہوجائے تو وہ اینٹی باڈی لمبے عرصے تک خون میں موجود رہتی ہیں اور ہمیں مستقبل کے انفیکشن سے بچاتی ہیں - اور اسی کو '' پلازمہ '' کہتے ہیں - یہ وہی پلازمہ ہے جس کو اپنے بیمار مریض کی جان بچانے کیلئے ہم لاکھوں روپوں میں ان لوگوں سے خریدنے پر رضامند ہوجاتے ہیں جو کرونا سے صحت مند ہو چکے ہیں - یہ پڑھ کر ذہن میں خیال آتا ہے کہ کاش ایسا کوئی طریقہ ہوتا کہ جسم میں وہ خطرناک ذرہ نہ داخل ہوتا جو نقصان پہنچاتا ہے بس ''پروٹین والا خول ہی داخل ہوتا جس کو بھانپ کر جسم اینٹی باڈی بنانے والا الارم بجا دیتا' اور جسم میں اینٹی باڈی پیدا ہوجاتی جو مستقبل میں بھی ہمیں پلازما کی طرح انفیکشن سے بچاتی رہتیں- کیا ایسا کوئی طریقہ ہے؟
جی ہاں - اسی طریقے کو ''ویکسین'' کہتے ہیں - گویا جنگ سے قبل فوجیوں کی جنگی مشق کروائی جاتی ہے- دشمن کا نقلی پتلا رکھا جاتا ہے لیکن بندوق میں گولیاں اصلی ہوتی ہیں جو اس پتلے پر پریکٹس کرتی ہیں - جب کبھی بعد میں اصل دشمن حملہ آور ہو تو بندوقیں اس مشق کی وجہ سے لوڈڈ رہتی ہیں -اسی طرح ویکسین میں بھی وائرس کے ہی ایک حصے کو پروسیس کر کے اس طرح چھلنی کیا جاتا ہے کہ وہ ''خطرناک ذرہ '' یعنی اصل دشمن شامل نہیں ہوتا - بس وہ پروٹین والا خول یعنی دشمن کا پتلا ہی جسم کے میدان جنگ میں داخل کیا جاتا ہے جس کو دیکھتے ہی جسم ''اینٹی باڈی '' کی گولیاں بندوق میں لوڈکرنے کی مشق کرنے لگتا ہے - اور جب کبھی بعد میں اصل دشمن یعنی کرونا وائرس حملہ کرتا ہے تو جسم کی فوج تیار رہتی ہے اور یہ حملہ ناکام ہوجاتا ہے -
اس پروٹین والے ''خول'' کو بنانے کے مختلف طریقے ہیں کبھی بنے بنائے''پروٹین خول '' کو بغیر خطرناک ذرے کے جسم میں داخل کردیا جاتا ہے جو کہ عام طریقہ ہے اور کبھی اس پروٹین بنانے والے خول کے اجزاء یعنی ایم آر این اے (mRNA) کو جسم میں داخل کیا جاتا ہے - تحریر میں ہم اس کو '' مفید ذرہ '' کہیں گے - یہ مفید ذرہ یعنی ''ایم آر این اے (mRNA)'' خلیے میں داخل ہو کر وہ خول والی پروٹین بناتا ہے جس کو ڈیٹیکٹ کر کے جسم اینٹی باڈی پیداکرتا ہے-آپ سب نے ڈائٹ (شوگر فری) مٹھائی تو کھائی ہوگی جو شوگر کے مریض استعمال کرتے ہیں - اس مٹھائی میں چینی کو پروسیس کر کے اس طرح کے اجزا ڈالے جاتے ہیں کہ کھانے کے بعد میٹھا تو محسوس ہوتا ہے لیکن جسم شوگر کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے - اسی طرح ویکیسن بھی وائرس کے ہی حصے '' ایم آر این اے (mRNA) کو پروسیس کر کے اس طرح سے بنائی جاتی ہے کہ جسم میں جاتے ہی جسم میں اینٹی باڈی تو پیدا ہوجاتی ہیں لیکن جسم وائرس کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے -لیجیے - کلاس ختم ہوئی - اب تک آپ میرے ساتھ ہیں؟ اب آتے ہیں سازشی تھیوریوں کی طرف - اوپر بتائی گئی پروسیسنگ کو ذہن میں رکھیے - میں نہ صرف ہر سازشی تھیوری کا منطقی جواب دوں گا بلکہ آپ کو کچھ میڈیکل بھی پڑھانے کی کوشش کرونگا -
پہلی سازشی تھیوری: کرونا وائرس کی ویکسین میں ایسا ذرہ ڈالا گیا ہے جو جسم کے ڈی این اے میں داخل ہوگا اور اس کو اس طرح سے بدل دے گا کہ ہمارا ڈی این اے کسی جانور کا ڈی این اے بن جائے گا اور ہمیں مذہب اور محرم نامحرم رشتوں کی پہچان نہیں رہے گی۔ خلیے میں کسی چیز کو بدلنے کیلئے اس تک رسائی لازمی ہوتی ہے - ایک مثال سے سمجھاتا ہوں - ہر ایئر پورٹ پر ایک کنٹرول ٹاور ہوتا ہے جو رن وے پر اترنے والی اور اڑنے والی ہر پرواز کو کنٹرول کرتا ہے - لیکن کوئی بھی مسافر حتی کہ ائر پورٹ کا بھی کوئی غیر متعلقہ بندہ اس کنٹرول ٹاور میں داخل نہیں ہوپاتا پھر بھی مسافر کا سارا کام رن وے اور ایئر پورٹ پر جاری رہتا ہے - اسی طرح ہمارے خلیے کے درمیان میں ایک سخت جھلی والا نیوکلیس (بیضہ) ہوتا ہے جس کے اندر ڈی این اے موجود ہوتا ہے جو ہمارے جسم میں موجود ہر چیز کا مرکزی کنٹرول سینٹر ہوتا ہے - قدرت نے اس کے گرد ایسی جھلی بنائی ہے کہ خلیے کے اپنے اجزا بھی اکثر اس جھلی کو کراس نہیں کرسکتے - اسی طرح کورونا ویکسین میں پروٹین بنانے والا مفید ''ذرہ ''ایم آر این اے '' (جس کا میں نے دوسرے پیرا گراف میں ذکر کیا) شامل ہے وہ بھی خلیے کے اندر کی اس جھلی کو کراس کرکے ڈی این اے تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا - خلیے میں نیوکلیس کے باہر ہی ایک حصے میں جس کو '' رائبو سوم '' کہتے ہیں ' اینٹی باڈی کی پروڈکشن ہوجاتی ہے - اس لیے یہ بات کہ کرونا ویکسین ''ڈی این اے'' میں جا کر فِٹ ہو جائے گی جھوٹ اور جہالت کا مرکب ہے - اگر ایسا ہوتا تو تمیز اور تھذیب تو بعد میں جاتی پہلے جان چلی جاتی کیوں کہ ڈی این اے انسان کے جسم میں موجود ہر چیز کا مرکزی یونٹ ہے۔ اس میں معمولی تبدیلی کرنے سے بھی کئی دفعہ کینسر اور مہلک جینیاتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جو زندگی کے ساتھ مطابقت رکھ ہی نہیں سکتی - آج اگر دنیا میں اب تک ایک کروڑ کے قریب افراد ویکسین لگوا چکے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنی جانوں کو یوں ختم کرنے کی سازش چل رہی ہوتی اورآپ اور میں مزے سے یہ تحریر پڑھ رہے ہوتے اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں ستو پی کر سو رہی ہوتیں - آپ میں سے بہت سے لوگوں نے '' ہیپا ٹائٹس - بی اور فلو '' کی ویکسین لگوائی ہوگی - کیا کبھی اس کی وجہ سے محرم ،نا محرم کا فرق ختم ہوا؟ یا ماں باپ کے نا فرمان ہوئے؟ اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوا ہے تو یہ آپ کی اپنی ذلالت ہے ویکسین کا قصور نہیں -- بتانا یہ مقصود ہے کہ محرم رشتوں کا تقدس، مذہب کی طرف میلان وغیرہ طبعی عوامل سے زیادہ شعوری رویے ہیں، یعنی کسی کا ڈی این اے تبدیل کر بھی دیں تو آپ اس انسان کو مارنے کا بندوبست تو کر سکتے ہیں لیکن اس میں یوں مخصوص شعوری تبدیلیاں برپا نہیں کر سکتے - اور یہاں ڈی این اے تبدیلی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں سو یہ نافرمانی کا چورن نہ بیچیں -
دوسری سازشی تھیوری: اس ویکسین کے اجزا میں سور کا گوشت یا انسانی فیٹس کی چربی شامل ہے؟ ایسی ہی تھیوری پولیو کے قطروں کے بارے میں آئی اور نہ جانے کتنی ٹانگیں مفلوج گئی - اس ویکسین میں ''پولی ایتھیلن گلایکول'' کی ایک کوٹنگ شامل ہے جو اس کے ''مفید ذرے '' یعنی ''ایم ار این اے'' (mRNA) کو بحفاظت انسانی خون سے انسانی خلیوں میں پہنچانے کا کام کرتی ہے - خدا کیلئے گوگل کرلیں - کہ ''پولی ایتھیلن گلایکول'' کیا ہوتا ہے - یہ محض ایک کیمیکل ہوتا ہے اور اس جیسے اجزاء ہماری بہت سی روز مرہ کی ادویات کا عام جز ہیں اور سب سے عام دوائی جس میں ایسے جز استعمال ہوتے ہیں ''انسولین '' ہے تا کہ انسولین کا کام کرنے کا دورانیہ بڑھ سکے اور وہ اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے سے پہلے جسم کے اندر کیمیکلز سے تباہ نہ ہوجائے - یہ محض ایسے ہے جیسے سردی میں آپ جیکٹ پہن کر کہیں جاتے ہیں تا کہ منزل مقصود پر پہنچتے پہنچتے سردی سے جم نہ جائیں اور خیریت سے گھر پہنچ جائیں - اسی طرح لیب میں تیار کردہ اس مفید ذرے mRNA کے گرد ایک قدرتی اجزاء سے مماثل خول چڑھایا جاتا ہے تا کہ یہ جسم کی سردی گرمی سے متاثر نہ ہو اورمتعلقہ خلیوں میں پہنچ کر اپنا کام کر سکے۔- جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں کہ ویکسین میں وائرس کا ہی حصہ (ایم آر این اے جسے ہم نے ''مفید ذرہ '' کہا) ڈالا جاتا ہے جو اینٹی باڈی بناتا ہے - اور اس وائرس کا نام ''کرونا'' ہے ''سور یا بندر یا فیٹس '' نہیں -- سو ویکسین میں '' بندر سور '' کی چربی شامل ہونا یا ان کا ''ڈی این اے '' شامل ہونا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے-
. تیسری سازشی تھیوری: عموماً ویکسین بننے میں کئی سال لگ جایا کرتے ہیں، یہ ویکسین اتنی جلدی کیسے بن گئی؟ الہ دین کا چراغ؟
یہ بات حقیقت ہے کہ آج تک ایک سال سے کم کے عرصے میں کبھی ویکسین نہیں بنی تھی - لیکن کیا آج تک کبھی پورا کا پورا کمپیوٹر بھی ایک چھوٹے سے موبائل فون میں سمایا تھا؟ آج تک کبھی ایسا ہوا تھا کہ امریکا میں بیٹھ کر ایک ویڈیو کال پر اپنوں سے بات کی جاسکے؟ بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان مسلسل ارتقاء کی منزلوں کا مسافر رہا ہے - ہر صدی پچھلی صدی سے زیادہ ترقی یافتہ اور ہر دھائی گزشتہ دہائی سے زیادہ تیز اور جدید ثابت ہوئی ہے - ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے - 1920 میں'' سپینش فلو '' کی عالمی وباء آئی تو انسان نے ''فلو ویکسین '' بنا لی - اسی طرح یہ ترقی ویکسین ٹیکنالوجی میں بھی ہوئی ہے - ایم آر این اے ویکسین پر ریسرچ 1995 سے چل رہی ہے - 2005 میں اس میں بہت تیزی آئی - ماضی میں ''فلو، ریبیز اور زیکا'' وائرس جیسے انفیکشن میں بھی اس طرز کی ویکسین کا جانوروں پر کامیاب تجربہ کیا گیا - اب جب کرونا کی عالمی وبانے آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو گھٹنوں کے بل کرڈالا تو انسان کی ضرورت نے پھر اس ٹیکنالوجی کو دوام بخشا اسی سال جنوری میں چینی سائنسدانوں نے وائرس کا ڈی این اے کوڈ دریافت کر کے آدھا کام پہلے ہی کر دیا تھا- بجائے اصل وائرس استعمال میں لانے کے (جو کہ پرانا طریقہ تھا) سائنسدانوں نے وائرس کا یہی کوڈ پڑھ کر اس کے کچھ اجزاء یعنی وائرس کا مفید ذرہ ''mRNA مصنوعی طور پر لیب میں بنا ڈالا- اور پھر یہی جانوروں پر ٹیسٹ کر کے اس کی سیفٹی کے بارے میں تسلی کر کے تین مراحل (سیفٹی ،افادیت اور ڈوزینگ) سے گزر کرانسانوں کے لیے منظورکیا گیا۔ اس لئے اس کا ایک سال میں بن جانا ہر گز اس امر کی توجیح نہیں ہوسکتی کہ یہ کوئی سازش ہے - اگر ایسا ہے تو اس وقت آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون سب سے بڑی سازش ہے -
چوتھا سازشی نظریہ: کرونا ویکسین کے ذریعے چپ جسم میں داخل کر کے ہمارے ذہن کو کنٹرول کیا جائے گا کیوں کہ '' بل گیٹس نے ایسا کہا ہے -
ویکسین پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کی اپنی کیمپین کی وجہ سے بل گیٹس ہمیشہ سازشی نظریوں کا سامنا کرتا آرہا ہے - جس طرح عربی خبریں سن کر ایک پاکستانی کو یہ نہیں سمجھ آسکتی کہ آج جدہ میں یا شارجہ میں کیا ہوا تھا اسی طرح ''انگریزی زبان سمجھے بغیر اور سائنسی زبان جانے بغیر ہمیں مائیکرو چپ والی ''کوانٹم ڈاٹس تھیوری '' والی بات کہاں سمجھ آئے گی جس پر بل گیٹس بچوں کی صحت عامہ کیلئے پیسے ڈونیٹ کر رہا ہے - جہاں ہم ''مائکرو چپ '' سنتے ہیں وہاں ہم طوفان برپا کر دیتے ہیں - میں حیران ہوں کہ یہی لوگ جب ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو اینجیو گرافی کروا کر جسم میں ''میٹل سٹینٹ '' کیسے ڈلوا لیتے ہیں یا دل میں ''دھاتی پیس میکر '' پر آمادہ کیسے ہوجاتے ہیں - جس ''کوانٹم ڈاٹ '' پروجیکٹ کو لوگ ''دماغ میں چپ '' لگوانا سمجھتے ہیں اس کے بارے میں بتا تا چلوں کہ میسیچوسٹ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) میں ایک تحقیق ہورہی ہے جس میں ایک ایسی چپ جس میں ہر مریض کا مکمل میڈیکل ریکارڈ اور ہر بچے کی بچپن سے لے کر اب تک کی ویکسین کا شیڈول لوڈ کیا جائیگا اور اس کو جلد میں اسی طرح لگایا جائیگا جس طرح ہمارے ہاں خواتین '' حمل سے روکنے کیلئے پروجسٹرون ہارمون کا ڈیپو'' جلد میں لگواتی ہیں - اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہ بچہ یا مریض کسی بھی ہسپتال میں جائے گا تو اس کا میڈیکل ریکارڈ بس انگلی سکین کرتے ہی اس ہسپتال کے سامنے آجائے گا جس سے اس کے علاج میں بہت مدد ملے گی - اس ٹیکنالوجی کے قابل استعمال ہونے میں ابھی بہت سال لگ جائینگے اور میری دعا ہے کہ اللہ کرے جلد از جلد یہ ٹیکنالوجی عام ہو تا کہ پاکستان کے کشمور سے لیکر افریقہ کے کیمرون تک تمام ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے بچوں کا میڈکل ریکارڈ ایک جگہ محفوظ ہوسکے اور کوئی بچہ کسی ویکسین سے کبھی بھی محروم رہ کر بیساکھیوں کا محتاج نہ ہوسکے - یہ
ہے اس ''مائکرو کواٹنم'' والی تھیوری کی تفصیل جو اپنی پیدائش سے پہلے ہی بہت سے ''دانشوروں '' اور ''سازش سازوں '' کیلئے ''ہتھیار'' بنی ہوئی ہے اور اس کا شکار ہورہی فقط انسانیت -ایک اور وجہ بھی ہے - ہمیں بل گیٹس فاونڈیشن کی سخاوت محض اس لئے سخاوت نہیں لگ رہی کیوں کہ پولیو اور کرونا ویکسین پر اربوں ڈالر خرچ کرنے والا یہ بل گیٹس ''ایدھی صاحب '' کی طرح مسلمان یا پاکستانی نہیں بلکہ ایک امریکی عیسائی گورا ہے جس نے محض ویکسین پر ہی نہیں بلکہ دنیا میں لائبریریوں ' کالجوں، یونیورسٹیوں اور غریب طلبا کیلئے سکالر شپ جیسے پروجیکٹس پر بھی بے تحاشا کام کیا ہے -
وہ کہتے ہیں کہ علم والا '' ع'' نہ ہو تو ''شعور'' بھی شور سنائی دیتا ہے - بل گیٹس اور ویکسین کیمپین کے معاملے میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے - ہماری ذاتی معلومات اور دماغ پر کنٹرول کرنے کیلئے اگر چپ لگانی ہوتی تو آپ کے موبائل میں اس وقت موجود سم کارڈ کافی تھا۔
. پانچواں سازشی نظریہ - یہ سب یہودیوں کا کاروبار ہے - ویکسین بیچنے اور پیسے کمانے کا شوشہ ہے؟میں یہ بات ضرور مان لیتا اگر بس ایک ملک ہی یہ ویکسین بنا کر پوری دنیا کو بیچ رہا ہوتا - لیکن یہاں تو امریکا کا عیسائی ملک ہو یا اسرائیل کا یہودی ملک؛ کومیونسٹ روس ہو یا ایتھیسٹ چائنا ہو' سب ویکسین فراہم کر رہے ہیں - کیا سب
کاروبار کر رہے ہیں؟ وہ بھی اپنے ہی لوگوں سے؟ باقی اس دنیا میں ہر چیزکی قیمت ہوتی ہے - 2010 اور 2012 میں پاکستان میں جب ڈینگی کی وباء آئی تھی تو کیا آپ نے مچھر مار سپرے اور ''موسپیٹل لوشن ''مفت دئیے تھے؟ - ابھی جب کرونا آیا ہوا ہے تو کیا ہمارے ہاں ماسک ' صابن ' ہینڈ سینی ٹا ایزر خیرات میں ملتے ہیں؟ ہم نے تو پلازما جیسی چیز جو عطیہ ہونی چاہیے تھی دو دو لاکھ میں بکتے دیکھی ہے صاحب - یہ ہوتا ہے کاروبار - یہ سب ہے تو پھر آپ کیوں امید رکھ کر بد گمانی کا شکار ہیں کہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں ان تحقیقات کی قیمت نہیں لیں گی جن پر انہوں نے کروڑوں ڈالر لگادیے؟ باقی اگر ویکسین بنانا ہی کاروبار ہوتا تو بل گیٹس فاونڈیشن ہر سال پولیو ویکسین کی مفت فراہمی کیلئے کروڑوں ڈالر پاکستان پر نہ خرچتی - سو یہ کمرشل سازشی نظریہ بھی غیر معقول ہے -
کیا کرونا ویکسین کے سائیڈ ایفکٹ ہیں؟
جی - اب کیا نہ ایک اچھا منطقی سوال - پیناڈول سے لیکر آگمنٹن تک ہر دوائی کے سائیڈ ایفکٹ ہوتے ہیں - لیکن انتہائی معمولی سائیڈ ایفکٹ ہونے اور انتہائی غیر معمولی افادیت ہونے کی وجہ سے وہ استعمال ہوتی ہیں - اسی طرح کرونا ویکسین میں بھی کبھی کبھی سر درد، جسم میں ایک دن تک درد، ٹیکے والی جگہ درد یا الرجی جیسے سائیڈ ایفکٹ ممکن ہیں لیکن کرونا ویکسین سے کرونا انفیکشن نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس ویکسین میں وائرس کا صرف پروٹین خول بنانے والے مفید ذرہ ہے ' بیماری پھیلانے والا وہ خطرناک ذرہ نہیں (جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے)- جس طرح روزانہ کام پر جاتے ہویے سڑک پر حادثوں کا خطرہ اور روزانہ روٹی پکاتے ہویے گیس کے چولہے پھٹنے کا رسک ہمیشہ ہوتا ہے اسی طرح کرونا ویکسین سے بھی ان معمولی اثرات کا خطرہ ہوتا ہے - تو کیا ہم سڑک پر نکلنا بند کر دیتے ہیں یا روٹیاں ہمیشہ تندور والی ماسی سے ہی لگواتے ہیں؟ اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں -
. کرونا میں موت کی شرح سو میں سے دو فیصد ہے - تو اتنی کم شرح ہونے وکی وجہ سے ہم کیوں پریشان ہوں؟
میں سوال کا جواب دینے کی بجائے سوال پر سوال کروں گا- اگر آپ کو پتا ہو کہ محلے کے سو لوگوں میں دو لوگوں نے مرنا ہے اور وہ دو
لوگ اللہ نہ کرے آپ کے ماں باپ ہوں تو کیا آپ کا جواب یہی ہوگا کہ شرح اموات بس دو فیصد ہے تو ڈاکٹروں نے شور کیوں مچا رکھا ہے؟ یاد رکھیے - دنیا میں آٹھ ارب لوگ ہیں - جن کا دو فیصد سولہ کروڑ بنتا ہے - کیا اتنی بڑی تعداد میں انسانیت کی موت جو کہ ویکسین سے بچائی جاسکتی ہے ' ہمیں قابل قبول ہوگی؟ اس کے بعد بھی اگر آپ یہ شرح قبول کرنا چاہتے ہیں اور ویکسین نہیں لگوانا چاہتے تو آپ کو اختیار حاصل ہے کوئی زور زبردستی نہیں - جواب آپ پر چھوڑتا ہوں -
کیا ماسک لگانا ویکسین لگانے کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اگر ذہن میں یہ سوال ابھرا ہے تو خوبصورت سوال ہے- ماسک کالونی کے چوکیدار کی طرح ہے اور ویکسین اپنے گھر کے بیرونی دروازے پر چٹخی لگانے کے مترادف ہے - اگر چوکیدارکالونی میں پہرا دے رہا ہو تو کیا آپ رات کو گھر کے دروازے کھول کر سوتے ہیں؟ اسی طرح ماسک وائرس کی جسم میں انٹری کو روکنے کا موثر طریقہ ہے لیکن پھر بھی اگر کسی طرح وائرس کا چور اندر داخل ہوجائے تو ویکسین سے بننے والے اینٹی باڈی کی ''چٹخنی'' جسم کو اس چورکے حملے سے بچا لیتی ہے -
. آخری سازشی نظریہ: ڈاکٹر وقاص نواز کو بل گیٹس نے ہزروں ڈالر دیے ہیں؟ ورنہ یہ ہم پر وقت کیوں برباد کرتا؟
اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں - ہم دراصل اس معاشرے اور دور سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کوئی مفت میں اپنا بخار بھی کسی کو نہیں دیتا - ایسے میں کسی بھی ایسی تحریر پر ایسے خیالات کا آنا غیر فطری نہیں - اس پر میں بس اتنا لکھ سکتا ہوں کہ میری اس تحریر اور اس سے پہلے لکھی گئیں تمام تحریروں میں کسی ایک لفظ سے بھی اگر میری ذات کا کوئی فائدہ جڑاہو تو اللہ مجھ سے راضی نہ ہو - اور اگر ایسا نہیں ہے تو میری ایسی ہی کوئی تحریر میری نجات کا ذریعہ بن جائے- اس پیج پر جو لوگ مجھے ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں وہ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ان سب تحریروں کا اصل مقصد کیا ہے - اس تحریر کو پڑھ کر کوئی سوال رہ جائے تو کومنٹ میں لکھیے - میں جواب دینے کی کوشش کروں گا -
میری یہ تحریر ان سب شہید ڈاکٹروں کے نام ہے جنہوں نے اس جنگ میں اپنی سانسیں کھو دیں- میری یہ تحریر ہر اس انسان کے لیے لکھی گئی ہے جو اپنے ماں باپ سے محبت کرتا ہے - اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے - - انسانیت سے محبت کرتا ہے - - اس کو پڑھیے - اس کو پڑھایے- اس کو پھیلایے- تا کہ ان سازشی نظریات اور جھوٹے شوشوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے جو ہماری آنے والی نسلوں کو اپاہج بنا رہی ہیں اور ہمارے بزرگوں کے دم گھٹ رہی ہیں۔
٭٭٭