کیا بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے 

مصنف : ادریس آزاد

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : نومبر 2018

سائنس و ٹیکنالوجی
کیا بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے 
مصنف ، ادریس آزاد
انتخاب ‘ شاکر ظہیر 

سن 2115 میں انسان نہیں ہوں گے۔ اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہوں گے اور شاید افریقہ کے دور دراز صحراؤں کے کسی اکّا دُکّا گاؤں میں پائے جائیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اِس عجیب و غریب دعوے کو سمجھنے کی کوشش کریں ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ جان لیں کہ ’’ٹرانس ہیومن اِزم‘‘ کیا ہے۔
لیکن ٹرانس ہیومن اِزم سے بھی پہلے ہمیں ایک اور ٹرم ’’ٹرانس جینک‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔ ٹرانس جینک سے مُراد ہے جینز کا باہمی تبادلہ یعنی جینز کا ایسا تبادلہ جو ایک نوع سے کسی دوسری نوع کے درمیان (لیبارٹری میں) کیا جائے۔ ایسی دو انواع کا آپس میں کسی بھی قسم کا قریبی ربط ضروری نہیں۔ ایک بیکٹیریا اور ایک مینڈک کے درمیان بھی جینز کا تبادلہ کیا جاسکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بیکٹیریا ایک یونی سیلولر آرگنزم ہے جبکہ مینڈک ایک ملٹی سیلولر جاندار ہے۔ لیکن ہم مینڈک کی خصوصیات کو بیکٹیریا میں یا بیکٹیریا کی خصوصیات کو مینڈک میں آسانی سے منتقل کرسکتے ہیں اور ایسے ٹرانسفر کو ہی ’’ٹرانس جینک‘‘ کہا جاتاہے۔ ایسا کرنے سے مخلوقات عالم میں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں اِن کا مکمل اندازہ لگانا ناممکنات میں سے ہے لیکن اب تک جو جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ بھی کائنات کی تاریخ کے سب سے حیران کُن واقعات کہلانے کے بجاطور پر حقدار ہیں۔ جن میں سے ایک یہ دعویٰ یہ بھی ہے کہ، ’’بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے‘‘۔
اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ’’ٹرانس جینک‘‘ ریسرچ میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ایک مِلٹری اور دوسرا فارماسیوٹکل انڈسٹری۔ امریکن ملٹری اس وقت ’’ٹرانس جینک ریسرچ‘‘ کو فنڈ فراہم کرنے والے ٹاپ تھری اداروں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ پیش پیش ہے۔ ڈارپا (DARPA) سے مراد ہے، ’’ڈیفینس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘‘۔ ڈارپا اب تک، ملٹری کے مقاصد کے لیے کئی کامیاب تجربے چکی ہے۔ انہوں نے ایک بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اے ملایا گیا ہے۔ ہم اِس ٹرانس جینک گوٹ کو ’’سپائڈر گوٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بکری کی پیداوار سے اُن کا مقصد سپائیڈر سلک کا حصول ہے۔ سپائیڈر سِلک جو مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے۔ اِس تجربہ سے قبل صرف مکڑی کے لعاب سے ہی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ دنیا کا مضبوط ترین دھاگہ ہے جو نہ صرف ہر شئے سے ہلکا ہے بلکہ اس کی قوتِ برداشت اور لچک بھی دنیا کے ہر سِلک سے بہتر ہے۔ بکری کے ساتھ مکڑی کے جینز کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں اب ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین سپائڈر سلک فراہم کرتی ہے۔ جو سِلک مکڑیوں سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جارہا ہے اور یوں امریکی آرمی نے اپنے لیے نئے، ہلکے پھلکے بُلِٹ پروف جیکٹس، نئے پیراشُوٹس، نئے رسّے، نئے بیگز اور نئے جال (کارگو نیٹس) بنالیے ہیں جو بڑے سے بڑے بوجھ گرادینے پر بھی نہیں ٹوٹتے۔چنانچہ یہ ایک ثبوت ہے، اس بات کا کہ مختلف انواع کے ڈی این اے کے مختلف ٹکڑے کاٹ کرایک دوسرے میں یوں لگائے جاسکتے ہیں جیسے ہم دو مختلف درختوں کی الگ الگ قلمیں آپس میں جوڑ کر ایک تیسرا نیا درخت اپنے گھر میں پیدا کرلیتے ہیں۔سپائیڈر گوٹ کے بعد سے اب تک ٹرانس جینک پروڈکٹس کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں۔ اور ایسی زیادہ تر پروڈکٹس کے لیے امریکن ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ لاکھوں ڈالر کے فنڈز مہیا کررہا ہے۔
دوسرا ادارہ جو ’’ٹرانس جینک‘‘ سائنس کو فنڈز دے رہا ہے وہ ملٹری سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ دنیا بھر میں اس ریسرچ کے لیے فنڈز دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ میرا اشارہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کی طرف ہے۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو سب سے زیادہ دلچسپی ’’نیوڈرگ تھراپیز‘‘ کے ساتھ ہے۔ انسانوں کے لیے نئے نئے علاج دریافت کرنے اور انسانی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے مقاصد کے لیے کون فنڈز نہیں دیگا؟ ڈرگ تھراپیز کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کا پراسیس بہت لمبے راستے سے ہوکر آتاہے۔دراصل فارما سیوٹیکل لیبارٹریز کو ہمیشہ ٹیسٹنگ کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ وہ جب بھی کوئی نئی دوا بناتے ہیں تو اس کا کسی انسان پر پہلا تجربہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتاہے۔ انہیں اس کام کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔امریکہ میں انہیں ایف ڈی اے سے اجازت لینا پڑتی ہے جو کہ ایک لمبا اور صبرآزما سلسلہ مراحل ہے۔چنانچہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پیسے سے ٹرانس جینک ریسرچ کے ماہرین جو کام کررہے ہیں اس کے پہلے حصہ میں وہ انسانی ڈی این اے اور کسی جانور کے ڈی این اے کے ملاپ سے ایسا جانور پیدا کرتے ہیں جس میں مخصوص انسانی کوالیٹیز ہوتی ہیں۔ وہ مخصوص انسانی کوالٹیز اس لیے پیدا کی جاتی ہیں کہ ان اجزا یا اعضا کو جو انسانی ہیں نئی ادویات کی ٹیسٹنگ کے لیے جانوروں پر آزمایا جاسکے اور اس طرح انسانی جان کو ٹیسٹنگ کے مراحل سے بلاخوف و خطر بچایا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ فارماسیوٹکل انڈسٹری کی بہت زیادہ دلچسپی ’’سٹیم سیل لائینز‘‘ Stem Cell Lines پیدا کرنے میں ہے۔
ٹرانس ہیومن ازم کیا ہے؟ یہ ایک عالمگیر کلچرل تحریک ہے۔ جس کا نصب العین ٹرانس ہیومنز Trans humans پیدا کرناہے۔ یہ بنیادی طور پر دنیا کی توجہ اس آئیڈیا کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ کہ سائنس کی مختلف فیلڈز کے ملاپ سے ہم جلد (زیادہ سے زیادہ بیس سالوں میں) اس قابل ہونگے کہ لفظ ’’انسان‘‘ کی بنیادی تعریف اور تصور کوہمیشہ کے لیے تبدیل کرسکیں۔ اب محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً ہم اب انسانی ڈی این اے کی لینگوئج کو دوبارہ لکھ سکنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ ہم محض اپنا جینٹک میک اَپ تبدیل کرکے اپنے آپ کو ایک زیادہ ارتقا یافتہ نوع میں بدل سکتے ہیں۔ ہم ہیومینز یعنی ہوموسیپینز کا ورژن 2.0 تخلیق کرنے پر قادر ہوچکے ہیں۔ اس تحریک کو عام طلبہ یا اساتذہ میں ایچ پلس (H 228) کے نام سے جانا جاتاہے، جس کا معنی ہے ہیومنز پلس۔ ٹرانس ہیومنز اصل میں ایسے انسان ہونگے جنہیں ہم ’’ٹرانزیشنز‘‘ کہہ سکتے ہیں یا اس سے بھی بہتر نام ہوگا، ’’پوسٹ ہیومینز‘‘۔ اور جب ٹرانس ہیومنز سے زمین بھر جائیگی تو پھر ہم جو اِس وقت ہیں یعنی ہماری موجودہ انسانی ساخت اور ہییت مزید انسانی ساخت اور ہییت کہلانے کی اہل نہیں رہی گی۔ یہ انسانی سطح سے کم تر سطح کہلائے گی۔ ہر وہ انسان جو نارمل ہوگا وہ ٹرانس ہیومینز کے مقابلے میں بالکل ایسے ہوگا جیسے آج ہمارے مقابلے میں بن مانس یا چمپنزیز ہیں۔ 
ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ قدرت نے ہر نوع کے جانداروں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے۔ مثلاً عقاب، شاہین، شکرا اور اس کلاس کے تمام پرندے بہت زیادہ تیز نظر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ میلوں دور تک یوں صاف دیکھ سکتے جیسے ہم اعلیٰ کوالٹی کی دوربین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح کتے کو فطرت کی طرف سے طاقتور قوتِ شامہ عطا کی گئی ہے۔ کتا چالیس ہزار ہرٹز کی کی آواز سن لیتاہے۔ ڈالفن غالباً اسی ہزار ہرٹز کی آواز سن لیتی ہے۔ بلی اور چیتے کے پٹھے حیران کن حد تک لچکدار ہیں۔ بلی اونچی سے اونچی چھت سے چھلانگ لگانے کے بعد آرام سے اُٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ شیر میں نسبتاً بے خوفی سب جانوروں سے زیادہ پائی گئی ہے اور اسی وجہ سے شیردل انسان سے مراد بہت بہادر انسان لی جاتی ہے۔ اونٹ میں قوتِ برداشت اور استقامت وافر مقدار میں موجود ہے۔ غرض ہر جاندار کسی نہ کسی خصوصی انعام سے نوازا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں یعنی جرثوموں سے لے کر بڑے بڑے جانداروں جیسے ہاتھی تک سب کے جینز ہمارے لیے بڑے قیمتی ہیں۔ ان تمام جینز کو انسانی جینز کے ساتھ ملاکر ایسے انسان پیدا کیے جاسکتے ہیں جو عقاب جیسی تیز نظر، کتے جیسی تیز قوتِ شامہ، شیر جیسے دل، چیتے جیسی چستی، بلی جیسی لچک، ہاتھی جیسی حساسیت یا کسی بھی جاندار کی خصوصی صلاحیت کا اکیلا اور یکتا حامل ہوگا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر Nick Bostrom نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ دیگر مخلوقات اِس کائنات کے بعض ایسے رازوں سے واقف ہیں جن سے ہم انسان اپنے محدود حواس کی وجہ سے واقف نہیں ہوسکتے۔ مثال کے طور پر بعض جانور زلزلے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ بعض جانور طوفان آنے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ طوفان آنے والا ہے۔ اسی طرح جانوروں کو کئی دفعہ دیکھا گیا ہے وہ بغیر کسی وجہ کے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ کتے بلا وجہ بھونکنے لگ جاتے ہیں، یا ڈر جاتے ہیں اوربلاوجہ چارپائی کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یقیناً ان کے وژن ڈفرنٹ ہونے کی وجہ سے وہ بعض ایسی چیزیں دیکھ لیتے ہیں جو ہم انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ جنگلی جانوروں میں رات کو دیکھنے کی صلاحیت ہے لیکن ہم انسان بغیر روشنی کے رات کو نہیں دیکھ سکتے۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک کا کہنا ہے کہ ’’ٹرانس ہیومینز‘‘ ایسے انسان ہوں گے جن کو ان تمام صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائیگا۔ اور اس پراسیس میں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایسا انسان شروع میں بچہ ہو۔
ایک ٹرانس ہیومن بننے کے لیے بعض تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو اب اِس وقت موجود انسانوں کو بعض ’’ٹرانس جینک ادویات‘‘ یا خوراکیں کھلانے سے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کے حق میں ہیں کہ انسان کے حواس کو عقابوں، کتوں اور دیگر جانوروں کے حواس سے بہتر ہونا چاہیے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ قدرت کے چھپے ہوئے رازوں کو جانے اوربہتر سے بہتر زندگی گزارے چنانچہ یہ صرف ٹرانس ہیومن ازم ہی ہے جو انسانوں کو ایسا بلند مرتبہ دلا سکتا ہے۔
ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے کے لیے صرف بیالوجی اور جینٹکس کے سائنسدان ہی مصروفِ عمل نہیں ہیں بلکہ ٹرانس ہیومن ازم کی بنیادی تعریف میں ہی انٹرڈسپلنری ریسرچ شامل ہے۔ اس میں نیورو فارما کالوجی، نینوٹیکنالوجی، جینٹک انجنئرنگ، سٹیم سیل سائنسز، روبوٹک اسسٹنس، برین مشین انٹرفیسنگ یعنی تقریباً سائنس کی تمام نئی شاخیں جو انسانی جسم کی ساخت اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ساتھ دے سکتی ہیں ٹرانس ہیومن ازم کی تحریک میں شامل ہیں۔ 
ابھی اس تحریک کا آغاز ہوئے چند ہی سال ہوئے لیکن یہ اس وقت تقریباً دنیا کے ہر ملک، ہرقوم اور تمام سیانے مذاہب میں موجود ہے۔ کالج سے یونیورسٹی لیول تک اور بازار سے لے کر ویران جزیروں پر لیٹے ہپّیوں تک سب اس تحریک میں نہایت تیزی کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ سیانے مذاہب نے بھی آئندہ دو عشروں میں برپا ہونے والی ٹرانس جینک قیامت کا خطرہ بھانپ لیا ہے اور اپنی اپنی تحریکیں بنا لی ہیں۔ اس وقت دنیا میں ’’کرسچئین ٹرانس ہیومنسٹ سوسائٹی‘‘، ’’بدھسٹ ٹرانس ہیومنسٹس ایسوسی ایشن‘‘ اور ’’جیوش ٹرانس ہیومنسٹ ایسوسی ایشن‘‘ موجود ہے۔ اس دوڑ میں کوئی ملک کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور کوئی سیانا مذہب بھی آنے والے وقت میں فنا نہیں ہونا چاہتا۔ ان تحریکوں کے لیڈرز نے بھانپ لیا ہے کہ آنے والے طوفان کے راستے میں بند باندھنے سے بہتر ہے کہ ’’تم سب سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا جاؤ!‘‘۔ ان تمام ایسویسی ایشنز نے مل کر ایک ورلڈ وائیڈ ایسوسی ایشن بنالی ہے۔ ورلڈز ٹرانس ہیومنز سوسائٹی کے صدر کا نام ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز (Dr. James Hughes)۔
ٹرانس ہیومنسٹس کا خیال ہے کہ وہ تیزی سے کامیابی کی منزلیں طے کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی تحریک کا نام بدل کر آئی ای ای ٹی (IEET) رکھ لیا ہے۔ جو ’’انسٹی ٹیوٹ فار ایتھکس اینڈ اِمرجنگ ٹیکنالوجی‘‘ کا مخفف ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز اب آئی ای ای ٹی کا صدر اور سی ای او ہے۔ دنیا کے چند بڑے نامور سائنسدان اور بااثر لوگ اس تحریک میں شامل ہوچکے ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی میں آئی ای ای ٹی کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر نِک باسٹرام (Nick Bostrom) ہیں۔ حال ہی میں رائل سوسائٹی آف سائنسز نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا، ’’کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں‘‘۔ اس سیمینار میں ٹرانس ہیومنسٹ تحریک کے عالمی صدر ڈاکٹر جیمز ہیوز نے بہت تفصیل کے ساتھ اس خیال پر روشنی ڈالی کہ مستقبل میں ہم ٹرانس ہیومنز کے ذریعے کائنات کا سفر بہت آسان کرنے والے ہیں۔ ایسے انسان ڈیزائن کرنے پر غور کیا جارہا ہے جو زیرو گریوٹی میں کام کرسکیں اور اسی طرح کے دیگر مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سپیس سائنس کے لیے خصوصی ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے والے ہیں۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک بہت مضبوط اور بہت سیریس تحریک ہے اور پوری دنیا اِسے بہت سیریس لے رہی ہے۔ کالجز، یونیورسٹیز، دیگر ریسرچ ادارے، اور سب اہل علم بہت تیزی کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت دنیا کا ملینز نہیں، بلینز بلکہ ٹریلینز ڈالرز اس تحریک کی بدولت ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے پر لگاہواہے۔
ٹرانس ہیومینز پیدا کرنے کیلیے کتنے اور کس کے فنڈز استعمال ہورہے؟
اگر آپ گوگل میں ’’Transhumanism‘‘ کا لفظ ٹائپ کریں تو آپ کو دولاکھ پچاس ہزار نیٹ پیجز نظر آئینگے جو ٹرانس ہیومن ازم کے لیے وقف ہیں۔ لیکن اگر آپ گوگل میں ’’Genetic Engineering Laboratories‘‘ کے الفاظ ٹائپ کریں تو آپ چوبیس ملیَن ویب سائیٹس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ سب لوگ تقریباً اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں سٹیٹ آف دی یونین کے ایڈریس میں ایک قانون کی منظوری کے لیے سفارش کی جس کے بعد انسانوں اور جانوروں کے درمیان ’’ٹرانس جینک‘‘ سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ یہی بات لمحہ فکریہ ے۔ امریکہ جیسے ملک کا صدر آخر کسی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے آن دی ریکارڈ اجلاس میں تقریر کیوں کریگا؟ یقیناً خطرہ بہت بڑا تھا۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے صدر اوبامہ نے جو پہلا کام کیا وہ یہی تھا کہ اُس نے صدر بُش کی طرف سے ٹرانس جینک ریسرچ پر لگائی گئی تمام پابندیاں یکسر اُٹھادیں۔ اور اس طرح سب سے بڑا مرحلہ یہ طے ہوگیا کہ سرکاری رقوم کا راستہ ٹرانس جینک ریسرچ کی طرف کھل گیا۔ اور یوں امریکہ کی ٹیکس پیئر رقوم کا مہیب ریلا اس عظیم اور محیرالعقول ریسرچ کی طرف بہہ نکلا۔ یہ پیسہ ہزاروں لیبارٹریز کو جارہا ہے۔ جوبات دنیا کے کسی بھی انسان کو بے پناہ پریشان کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی ریسرچ کا یہ پیسہ ایک بڑی مقدار میں جس ٹیکنالوجی پر صرف ہونا شروع ہوگیا ہے، اسے سائنس کی زبان میں،ہیومن اینمل کائمیرا Human Animal Chimera
کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے انسان اور جانوروں کے ملاپ سے پیدا کی جان والی نئی نئی انواع۔ یعنی ایسا جاندار جو ہیومن اینمل ہائی برڈ ہوگا۔ آدھا انسان اور آدھا کوئی اور جانور۔ اگرچہ ظاہراً ایسا کچھ نہیں ہے اور ہیومین اینمل کائیمرا پیدا کرنے سے فقط مراد انسانی بہبود اور نیک مقاصد ہیں۔ مثلاً آج ہم ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے دل بدلوا سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب کوئی ’’دل دینے والا‘‘ بھی موجود ہو۔ اگر کسی نے بروقت دِل نہ دیا تو ہم مرجائینگے۔ کیونکہ ہمارا دل خراب ہو چکا ہے۔ لیکن ہیومین اینمل کائمیرا کی شکل میں ہم ایسا جانور پیدا کرواسکتے ہیں جس میں ہمارے لیے ایک عدد دل پیدا کیا جائے گا۔ وہ کوئی جانور ہوگا۔ جیسے جانور ہم عموماً ذبح کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً وہ گائے، بکری یا بھیڑ ہوسکتی ہے جس کے سینے میں ہمارا دل ہوگا۔ ہم اس جانور کو ذبح کرکے اپنا دل لے لینگے اور یوں ہارٹ ٹرانسپلاٹیشن کے لیے ڈونیشن کے مسئلہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ظاہری طور پر تو ہیومین اینمل کائمیرا کی پیداوار ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس کے سائیڈ ایفیکٹس کا اندازہ لگانا ممکنات سے باہر ہے۔امریکہ کی ایک ریاست میں باقاعدہ ایک فارم ہے جہاں ایسے سؤر پیدا کیے جارہے ہیں جو تھوڑے سے انسان اور باقی سؤر ہیں۔ تھوڑے سے انسان اس طرح کہ ان سؤروں میں انسانی اعضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آرگن ٹرانسپلانٹیشن انڈسٹری کو حتمی مدد دی جا سکے ایک سؤر کے اندر انسانی ڈی این اے کا پھلنا پھولنا عجیب و غریب مظہرِ فطرت ہے ایٹم بم کی ایجاد نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی جان لی تھی لیکن معلوم نہیں یہ ٹرانس جینک پروڈکٹس کیا گل کھلائینگی؟ بظاہر اُمید ہی اچھی چیز ہے اور اچھی اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ بالآخر ٹرانس جینک پروڈکٹس انسان کی بھلائی کا ہی موجب بنیں گی۔
2006 میں امریکہ کے سب سے بڑے ڈیپارٹمنٹ، ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ نے 773,000 ڈالرز محض صرف ایک مقصد کے لیے دیا کہ دو سال کے اندر اندر اس بات کا جائزہ لے کر بتایا جائے کہ ٹرانس جینک ریسرچ کی اخلاقی پوزیشن کیاہے؟ اس ریسرچ کی اہمیت اس لیے زیادہ تھی کہ اس میں انسانی سبجیکٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی براہِ راست انسانوں کو تجربات میں شامل کرکے بالآخر حکومت کو یہ بتایا جائے کہ اگر جینٹک انجنئرنگ اُن اھداف تک پہنچ جاتی ہے جن سے انسانیت خوفزدہ ہورہی ہے تو انسان اور غیرِ انسان میں فرق کرنے کے لیے کیا اخلاقی قدریں مقرر کی جاسکیں گی؟ میکس میہل مین Max Mehlman اس پراجیکٹ کا سربراہ تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دوسال کا عرصہ پورا ہونے کے
بعد کوئی رپورٹ شائع نہ کی گئی اور ریسرچ کے نتائج کو چھپا لیا گیا البتہ کچھ ہی عرصہ بعد ریسرچ لیڈر ’’میکس میہل مین‘‘ نے امریکہ کی ایک ایک یونیورسٹی میں جاکر ’’ڈائریکٹڈ ایوولیوشن‘‘ اور ’’ٹرانس ہیومن ازم اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے لیکچرز کا سلسلہ شروع کردیا۔ ڈائریکٹڈ ایوولیوشن سے معنوی طور پر یہی مراد ہے کہ انسان کی ہدایت پر چلنے والا ارتقا۔ کیونکہ اس سے پہلے ارتقا، فطرت کی ہدایات پر چل رہا تھا۔ میکس کے لیکچرز کے عنوانات سے مترشح ہے کہ لیبارٹری میں نتائج توقعات سے کہیں زیادہ پریشان کن برآمد ہوئے تھے۔
صرف ایک ملک، امریکہ میں ہی اتنے بڑے بڑے حکومتی ادارے خود ٹرانس جینک ریسرچ کو بڑی بڑی رقوم دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت جلد نسلِ انسانی اپنی موجودہ ساخت سے کچھ اور بننے والی ہے۔
ہم نے اب تک جتنی گفتگو کی اس سے فقط اتنا تاثر ملتا ہے کہ چلو! یہ لوگ جب کچھ پیدا کرینگے تو دیکھ لینگے! لیکن یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ جینٹکلی انجنئرڈ خوراک بھی اتنی ہی تبدیلی کنندہ ہے جتنا کہ نئی نوع کو پیدا کردینے والے عناصر۔ جیسا کہ پولیو کی ویکسین کے ذریعے روئے زمین سے پولیو کا خاتمہ کرنے کی مہم محض قطرے پلا کر چلائی گئی ہے اور اب تقریباً پولیو فنا ہونے ہی والا ہے بالکل اسی طرح محض قطرے پلا کر بھی ہمیں جینٹکلی تبدیل کیا جاسکتاہے۔ یہ ہے اصل فکرمندی کا مقام۔
اسی طرح امریکن ملٹری کے ادارہ ’’ڈارپا‘‘ کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ ڈارپا بلیَنز ڈالرز صرف کررہا ہے اور اس کے کئی پروجیکٹس پر بیک وقت کام جاری ہے۔ جن میں سے ایک پروجیکٹ کا نام ہے، ’’ایکسٹینڈڈ پرفارمینس وار فائٹر‘‘۔ نام سے ہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ عام سپاہیوں کو جینٹکلی ڈیزائن کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کے اوریجنل ڈاکومینٹس نیٹ پر دستیاب ہیں جن میں واضح لکھا ہے کہ سولجرز کے ڈی این اے میں تبدیلی کرنا اس پروگرام میں شامل ہے۔ امریکی عوام نے اسے ’’سپر سولجر ٹیکنالوجی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ابھی 2011 میں ڈارپا نے ملیَنز آف ڈالرز کا بجٹ پھر منظور کیا ہے اور جس پروگرام کے لیے منظور کیا ہے اس کا نام ہے، ’’بائیو ڈیزائن‘‘۔ بائیو ڈیزائن حقیقت میں فقط ایک آؤٹ لائن ہے تاکہ بجٹ منظور کیا
جاسکے ورنہ فی الحقیقت یہ پراجیکٹ ’’لافانیت‘‘ کے نام سے شہرت پکڑرہا ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے تحت انسانی عمر بڑھانے کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کی جارہی ہے۔ اس پراجیکٹ کے ابتدائی مقاصد میں سیل کی تخریب و تعمیر کا اس نقطہ نگاہ سے مطالعہ مقصود ہے کہ آخر انسانی سیل ختم ہونا اور مرنا کیوں شروع ہوجاتے ہیں ایسا کیوں نہیں ہے کہ ہم عمر کے ایک حصہ کے بعد جسم کے تمام سیلز کی دوبارہ پیدائش کے قابل ہوسکیں۔اس عمل کی وضاحت کے لیے ’’ڈارپا‘‘ خود جو اصطلاح استعمال کررہا ہے وہ ہے، ’’کری ایٹنگ اِمّارٹل آرگانزم‘‘ Creating Immortal Organismsلیکن یہ نام بھی اس کی حدود کی ٹھیک سے وضاحت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ملٹری دراصل اس پراجیکٹ کے ذریعے اپنے فوجیوں میں ایک ’’ایسی لیتھل فورس‘‘ پیدا کردے گی جو تباہ کن ہوگی۔ اس طرح ان کے فوجی حد سے زیادہ طاقتور اور باصلاحیت ہوجائینگے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فقط امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آسٹریلیا، چائنہ، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ہزارہا لیبارٹریز ہیں جہاں جینٹک انجنئرنگ پر دن رات تیزی سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ ’’ہیومین اینمل کائمیرا‘‘ یا ’’ہیومن اینمل ہائی برڈ‘‘ پیدا کرنا اخلاقی طور پر کس حد تک درست یا غلط ہے۔ دراصل برطانوی حکومت نے اس بحث کو عوام کے سامنے جان بوجھ کر رکھا۔ برطانیہ کے سائنس دان یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے عوام انہیں اس تحقیق میں کس تک آگے جانے دینا چاہتے ہیں۔ کئی مباحث اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ اسی طرح کے ایک بڑے سیمینار میں ویٹیکن کے دو بڑے بسشپ بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ایک عورت ٹرانس جینک پروڈکشن میں حصہ لیتی ہے اور اس کے انڈے سے ایک ایسا بچہ پیدا کیا جاتاہے جو کچھ انسان اور اس کا باقی حصہ کوئی اور جانور ہے اورپھر وہ عورت بعد میں اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا بچہ ختم کردیا جائے کیونکہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتی تو پھر اسے اس کے بچے کو ختم کردینے کا اختیار دینا بھی اخلاقی طور پر فرض ہوجائیگا۔ایسے 
مباحث میں ایک بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہیومین اینمل کائمیرا میں یہ طے کرنا ایک مستقل سوالیہ نشان ہے کہ ’’کتنا انسان اور کتنا حیوان؟‘‘۔۔۔ یعنی کوئی بھی کائمیرا جو بظاہر دیکھنے میں محض ایک سؤر ہے، آخر کس حد تک انسان ہے۔ اس کے جسم میں کون کون سے اعضا انسانی ہیں اور اسے کتنے فیصد انسان مانتے ہوئے اس پر انسانی حقوق لاگو کیے جاسکتے ہیں؟ ایک بات جس سے دنیا کے عوام ابھی تک بے خبر ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اور حیوان کے درمیان کی جانے والی یہ اینٹیگریشن فیصدی میں کیا ہے؟ یعنی کیا واقعی ایسا ہے کہ دل گردے یا پھیپھڑوں کی حد تک انسان اور باقی ماندہ جانور ملا کر نئی انواع پیدا کی جارہی ہیں یا انسان اس مقدار سے زیادہ ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ففٹی پرسینٹ اینٹیگریشن کررہے ہیں۔ یعنی پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد دوسرے حیوانات کو ملایا جارہا ہے اور یہ ایک نہایت توجہ کھینچنے والا امر ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کام کو روکا جائے یا چلتے رہنے دیا جائے۔ اس پر پیسہ خرچ کیا جائے یا پیسہ بچا لیا جائے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کو اب روکا ہی نہیں جاسکتا۔ کسی بھی قیمت پر، کوئی بھی طاقت ایسی نہیں جو جینٹک انجنئرنگ کے خوفناک نتائج سے انسانوں کو باز رکھ سکے۔ کیونکہ یہ ایٹم بم بنانے جتنا مشکل کام نہیں ہے کہ پوری صدی گزرنے کے بعد بھی چند ممالک کے پاس وہ صلاحیت ہوگی، یعنی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت۔ بلکہ جینٹک انجنئرنگ کی لیبارٹری تو آپ اپنے مکان کے گیراج میں بھی کھول سکتے ہیں۔چنانچہ انسانوں اور جانوروں کے پیش آمدہ ’’قلمی‘‘ تعلق کو روکنا ممکن ہی نہیں۔ اور اس لیے امریکہ سمیت اب تمام اقوام کی یہ سوچ ہے کہ پھر کیوں نہ وہ سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور خود کو ٹرانس ہیومینز میں تبدیل کرلیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے دشمنوں نے خود کو اُن سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا لیا تو وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں غیر ارتقا یافتہ مخلوق کے طور پر کمزور رہ جائینگے۔
ٹرانس ہیومن ازم کے فوائد میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا فائدہ ہے ’’لمبی عمر‘‘۔ ٹرانس ہیومینز لمبی عمروں کے مالک ہونگے ڈاکٹرآبرے ڈگرے Dr. Aubrey De Grey کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت پچاس سال کے ہیں، ان میں بیشترلوگ اب ایک ہزار سال تک نہیں مریں گے۔ ڈاکٹر آبرے آنے والے ٹرانس جینک انقلاب کی وجہ سے ایسا کہہ رہا ہے۔ لیکن ٹرانس ہیومنز صرف لمبی عمروں کی وجہ سے ہی منفرد نہیں ہونگے۔ کیونکہ لمبی عمر ہونا کوئی زیادہ بڑا فائدہ یا زیادہ دلچسپ بات نہیں ہے۔ بعض لوگ تو لمبی عمر کو ایک عذاب خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ایک ہزار سال تک اس دنیا کی مشکلات کا سامنا کرنا فائدے کی بات نہیں بلکہ مصیبت ہے۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کا بھی پورا دھیان رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ صرف لمبی زندگی ہی نہ ہوگی بلکہ یہ ایک خوشحال زندگی بھی ہوگی۔ یہ زیادہ صحت مند زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ ذہین زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ باشعور زندگی ہوگی۔ مثلاً نیورو سائنسز کے ذریعے ہم اب بہت سی نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ ہم اب جانتے ہیں کہ دماغ کے وہ کون سے حصے ہیں جہاں ’’ڈپریشن‘‘، ’’یوفوریا‘‘ اور ’’اینگزائٹی‘‘ کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے۔ ایک ٹرانس ہیومن کے ایسے حصوں کو جینٹکلی ڈیولپ کردیا جائے گا تاکہ وہ کبھی ڈپریس نہ ہوں۔ کبھی پریشانی اور فکر مندی کا شکار نہ ہوں۔ وہ ہزاروں سال جئیں لیکن ہمیشہ خوش رہیں۔ شعوری صلاحیتوں میں بھی ایک ٹرانس ہیومن لاجواب ہوگا۔ ایک طرف تو اس کی منطقی قابلیت سقراط اور ارسطو جتنی ہوگی اور دوسری طرف اس کی سائنٹفک تفہیم کی سطح آئن سٹائن جتنی ہوگی۔ ٹرانس ہیومینز کے دماغ کمپیوٹرز کے ساتھ جڑنے اور الگ ہونے کی صلاحیتوں کے مالک ہونگے۔ وہ براہِ راست اپنے دماغ سے کمپیوٹر میں چیزیں اپ لوڈ ڈاؤن لوڈ کرسکیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ذہن اور دماغ کے علاوہ جسمانی فوائد کے اعتبار سے ہم انسان بہتر سے بہتر شکل و صورت اور صلاحیتیں حاصل کرلینگے۔ خاص طور پر جسمانی طاقت۔ مثلاً آج ایک ساٹھ سال کا شخص اگر سو قدم دوڑے تو اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے لیکن ایک عام ٹرانس ہیومین ایک سو پچاس (150)سال کی عمر میں اتنا طاقتور ہوگا کہ اولمپک ریس کے مقابلے میں حصہ لے، اور جیت سکے۔سب سے الگ اور سب سے منفرد فائدہ جو سائنسدانوں کو نظر آرہا ہے وہ ہے ’’پوسٹ جینڈرزم‘‘۔ پوسٹ جینڈرزم بنیادی طور پر فیمنسٹوں نے متعارف کروایا ہے۔ خاص طور پر فیمنسٹس کا یہ خیال کہ ہمیشہ عورتیں ہی کیوں پریگنینٹ ہوتی ہیں۔ مرد کیوں پریگنینٹ نہیں ہوتے؟ فیمنسٹ تحریکوں کی طرف سے ایسے عجیب و غریب بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں کہ سائنس کو مردوں میں اووریز کا اضافہ کرنے کی طرف عملی طور پر غور کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں عورت اس عذاب کی اکیلی شکار نہ ہو بلکہ اگر بچہ مرد کے پیٹ سے پیدا کرنا طے پائے تو پھر مرد بھی بچہ پیدا کرسکے۔ اسی نظریہ کو لے کر بعض ٹرانس ہیومینسٹس یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بہترین عورت اور بہترین مرد کے ملاپ سے ایسا بہترین ٹرانس ہیومین پیدا کیا جاسکتاہے جس میں مردوزن کی عدم مساوات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دونوں کی مشترکہ صلاحیتیوں سے انسانیت کے لیے مشترکہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسا ٹرانس ہیومین دونوں ہوگا یعنی عورت بھی اور مرد بھی۔ دوسرے ٹرانس ہیومینز انسان کے پیٹ سے بچے کے پیدا ہونے کے سرے سے مخالف ہیں۔ وہ مردوزن کو نوماہ بچے کا بوجھ اُٹھانے سے بھی آزاد کرنے کے حق میں ہیں۔ ایک، دو، تین یا زیادہ انسانوں کے مشترکہ ڈی این اے سے بھی ایک بچہ پیدا کیا جاسکتاہے۔ جس میں سب کے ڈی این اے کی خصوصیات ڈالی جاسکتی ہیں۔ ٹرانس ہیومنسٹس کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں دو لوگوں کی بجائے چار لوگوں یا بیس لوگوں کے درمیان شادی کے معاہدے طے پائے جانے کے امکانات بھی واضح ہیں جو کسی ایک بچے میں اپنی مختلف خصوصیات منتقل کرنے پر رضامند ہونگے اور وہ سب اس بچے کے والدین شمار کیے جائینگے۔ اس طرح کے ڈیزائن کا پہلا کامیاب تجربہ اِسی سال برطانیہ میں انجام دیا جاچکاہے۔ جس میں ایک بچے کے تین والدین ہیں اور تینوں نے اس بچے میں اپنے حصے کا ڈی این اے شیئر کیا ہے۔ 
ٹرانس ہیومنسٹس کا کہنا ہے کہ عورت کے پیٹ کی بجائے بچے کو مصنوعی انڈے یا مصنوعی اووری میں نشوونما دی جاسکے گی اور عورتوں کو بچہ پیدا کرنے کے لیے نو ماہ تک اس کا بوجھ نہیں اُٹھانا پڑیگا۔ یہاں ایک سائیکالوجسٹ سوال کرسکتاہے کہ ایک بچہ جو نوماہ ماں کے پیٹ میں رہتاہے وہ ماں کے ساتھ ایک خاص رشتے میں جڑا ہوتاہے۔ ایک بچہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا وہ اپنی ماں کی آواز کو پہچان سکتاہے۔ لیکن اس سوال کا جواب ’’پوسٹ جینڈرسٹس‘‘ یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں رہنے سے بچہ جن جن قدرتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے وہ صلاحیتیں مصنوعی انڈے میں پیدا ہونے والے بچے کے اندر بھی ہوبہُو موجود ہونگی۔بچے کی پیدائش کے فیصلے کے ساتھ ہی اس کے والدین کے جینز کے وہی اجزا لیے جائینگے جو والدین چاہیں گے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچہ فطری طور پراپنی ماں کو پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہو تو مصنوعی انڈے میں پرورش پانے والا بچہ بھی اپنی ہی ماں کی آواز کو پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بچے کی پیدائش کے لیے نو ماہ کا عرصہ بھی ضروری نہ ہوگا۔ بچہ اس سے کہیں کم عرصہ میں مکمل ہوجائیگا اور جونہی ماں باپ اسے لینے ہسپتال جائینگے اور مصنوعی انڈے کا سوئچ آف کیا جائیگا تو بچہ پیدا ہوجائیگا اور وہ بالکل ویسے ہی پیدا ہوگا جیسے اپنی ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
ٹرانس ہیومن ازم۔۔۔۔۔۔ کلوننگ سے کہیں آگے کی بات ہے۔ یہ صرف کلوننگ کے ذریعے بچے پیدا کرنے کا پروگرام نہیں ہے۔ کلوننگ اس کے مقابلے میں کلاسیکی عہد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ ٹرانس ہیومن ازم انسان اور جانوروں کے ملاپ سے نئے انسان کی پیدائش کی بات کرتاہے۔
ایک اور بڑا فائدہ جو ٹرانس ہیومنسٹس سوچ رہے ہیں وہ مجھے اپنی ماہیت میں سب سے زیادہ اہم محسوس ہوا۔ یہ لگ بھگ سپر نیچرل صلاحیتوں کے حصول کی بات جابنتی ہے۔ اس بات کا ذکر میں اسی مضمون میں پہلے بھی کرچکا ہوں۔ اس نظریہ کا بانی ڈاکٹر نک باسٹرام ہے۔ اس کا تھیسز ’’ٹرانس ہیومنز ویلیوز‘‘ کے موضوع پر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر باسٹرام نے اپنا یہ تھیسز اپنی ویب سائیٹ پر رکھ چھوڑا ہے۔ڈاکٹر باسٹرام اس وقت دنیا کے ہر بڑے ملک کی یونیورسٹیز میں اسی موضوع پر لیکچرز دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل کی زبان قطعاً مذہبی نہیں رکھی لیکن انہوں نے ایک چارٹ کے ذریعے قوت متصورہ یعنی پرسیپشنزکی تمام اشکال کی وضاحت کردی ہے۔ جن میں انسان، پوسٹ ہیومینز، ٹرانس ہیومینز اور حیوانات سب کے لیے الگ الگ ڈومینز مقرر کرکے نہایت منطقی قضیات قائم کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انسان اور فوق البشر کا امکان جینٹک انجنئرنگ کے ذریعے بہت قوی ہے۔
اس نے ڈالفن، کتوں اور چمگادڑوں کے ڈی این اے کے انسانوں کے ساتھ ملاپ کی صورت میں حیران کن نتائج کا اعلان کیا ہے۔ہاتھیوں کے جینزکے ذریعے انسانوں میں ارتعاش کو پہچاننے کی صلاحیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جانوروں کو زلزلوں سے پہلے معلوم ہوجاتاہے کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ جانور کیسے جان جاتے ہیں کہ کوئی قدرتی آفت آنے والی ہے۔ انسان کا حق ہے کہ اس کے پاس بھی یہ جینز ہوں اور وہ بھی وقت سے پہلے زلزلوں اور طوفانوں سے باخبر ہوسکے۔ بعض جانور اپنی ہی بیماریوں سے پیش از وقت آگاہ ہوجاتے ہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ وہ ایک نہایت ہی دلچسپ اضافہ کرتاہے۔ ڈاکٹر باسٹرام کہتاہے کہ جانور روشنی کے سپیکٹرم کی دیگر شعاعوں کی مدد سے مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً چیتا رات کی تاریکی میں دیکھ سکتاہے۔ یہی نہیں بعض اوقات جانور کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ باسٹرام کوئی مذہبی قضیہ قائم کیے بغیر کہتاہے کہ ممکن ہے وہ اس وقت لائیٹ کے سپیکٹرم یا الیکٹرو میگانیٹک ویوز کے سپیکٹرم کی کسی اور شعاع کی مدد سے کسی شئے کو دیکھ رہے ہوں جو ہمیں دکھائی نہ دیتی ہو۔ باسٹرام کا خیال ہے کہ ہم ٹرانس ہیومینز بن کر ایسی پراسرار دنیا کو خود دیکھنے کے اہل ہوجائیں گے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض جانور سپر نیچرل چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ جن میں اُلّو اور بلّی کا خاص طور پر نام لیا جاتاہے۔ اگر ایسے جانوروں کے جینز انسان کے جینز کے ساتھ ملا کر ٹرانس ہیومنز پیدا کیے جائیں تو وہ شاید فرشتوں، جنات، بھوت پریت یا خدا کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت کے قدرتی طور پر مالک ہوں گے۔
انٹرنیٹ پر مطالعہ کرنے والے قارئین کی دلچسپی کے لیے John Templeton Foundation کی ویب سائیٹ پرموجود ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کے سابقہ کئی سالوں کے لیکچرز کا سلسلہ بہت مفید ہوسکتاہے۔ خاص طور پر ایک لیکچر ’’ٹرانس ہیومنزم اینڈ دا فیوچر آف ڈیماکریسی‘‘ دیکھنے کے قابل ہے۔ اس لیکچر میں بھی وہی سوال جو ڈاکٹر باسٹرام نے ہر جگہ اُٹھایا نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کے طلبہ بھی یہی پوچھ رہے ہیں کہ ٹرانس ہیومینز کی پیدائش کے بعد اب ہماری انسانیت کہاں سے شروع ہوگی؟ اور کہاں ختم ہوگی؟ اور یہ سوال بھی کہ جب ہم موجودہ انسان کو ڈائریکٹڈ ارتقا کے ذریعے ’’ہیومن ورژن 2.0‘‘ میں تبدیل کردینگے تو کیا ہماری رُوح بھی تبدیل ہوجائے گی؟ یہی سلسلہ سوالات جاری تھا کہ ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی نے ایک بالکل نیا پراجیکٹ شروع کردیا۔ اگر آپ ابھی ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر جائیں تو آپ خود اس پراجیکٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کا نام ہے ’’صوفیہ پراجیکٹ‘‘ Sophia Project۔ صوفیہ بھی ایھتنا کی طرح دانائی کی دیوی ہے۔ صوفیہ پراجیکٹ کے بارے میں نہایت تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ یہ کیا ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصد ہے ایسے ٹرانس ہیومینز پیدا کرنا جو سپر نیچرل ہستیوں کے ساتھ بات کرسکیں۔ انہوں نے اپنے پراجیکٹ کے مقاصد میں باقاعدہ درج کیا ہے۔
۱۔ بھوت پریت سے بات کرنا
۲۔ ایلیئنز کے ساتھ بات کرنا
۳۔ فرشتوں کے ساتھ بات کرنا
۴۔ جنات اور روحوں کے ساتھ بات کرنا
۵۔ کائناتی شعور کے ساتھ بات کرنا یعنی خدا کے ساتھ
انہوں نے اپنے پراجیکٹ کا اصل مقصد ہی یہی بیان کیا ہے اور یہ پراجیکٹ امریکہ جیسے ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اس وقت جاری ہے۔
***