ننھے ادیب

مصنف : ڈی پی ایس

سلسلہ : گوشہ اطفال

شمارہ : دسمبر 2004

 ان صفحات کامقصد بچوں کی حوصلہ افزائی ہے ۔ان کو اسی نظر سے دیکھیے ۔ ان صفحات کا دامن قوم کو مستقبل کے بہت سے ادیب عطا کر سکتا ہے۔

‘‘بیتے دِن’’

یاد آتے ہیں وہ بیتے دن

وہ جونیئر وِنگ کی کینٹین

وہ ہفتے کے مشکل سے کٹنے والے چھ دن

وہ پنسلیں

وہ ٹیچریں

وہ دوست جو بار بار فیل ہوئے

وہ دن جب ٹیچر سے مار کھا کر روئے

وہ دن جب اسمبلی میں لیٹ ہوئے

وہ دن جب پورا پیریڈ کلاس میں کھڑے ہوئے

پر کیا کریں

اب ہم سینیئر ہیں

پنسلوں کی جگہ پین ہیں

ٹیچروں کی جگہ‘ سر’ ہیں

میڈم کی جگہ ہیڈماسٹر ہیں

چھ کی جگہ پانچ دن ہیں

 عبداللہ حسین ۔ ڈی پی ایس

……………………………………

دوستی

پیارے دوستو:

            دوستی ایک پیارا اور پاکیزہ رشتہ ہے ۔ اس رشتے میں انسان اپنے دوست سے ہر قسم کی بات کر سکتا ہے۔ دوستی اس چیز کا نام نہیں کہ انسان خوشی میں دوست کے گن گائے مگر جیسے ہی حالات برے ہو جائیں تو پہچاننے سے انکار کر دے۔ اسی طرح ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا اسلم جسے بہت کم دوست بنانے کی عادت تھی۔وہ بہت کم گو تھا ۔ محلے میں ان کے گھر کے ساتھ نئے کرائے دار آئے ۔ ان کا ایک بیٹا تھا ۔ جس کا نام شکیل تھا ۔جو کافی سمجھ دار اور ذہین تھا۔ کچھ ہی دنوں میں اسلم اور شکیل کی دوستی ہو گئی ۔ اسلم شکیل پر بہت اعتماد کرتا تھا ۔ اس لیے وہ ہر بات اس سے بلا جھجھک کہہ دیتا تھا ۔ایک دن شکیل کافی پریشان نظرآرہا تھا ۔ اسلم نے پوچھا :کیا بات ہے۔ اس نے پہلے کچھ نہ کہا پھر اصرارکرنے پر بتایا کہ گھر کے حالات بہت خراب ہیں ۔ مالی حالات بہت نازک ہیں ۔اگر آج کچھ پیسوں کا انتظام ہو گیا تو گھر کا چولہا جلتا رہے گا ۔ ابو کو جلد کام مل جائے گا۔ یہ سن کر اسلم کچھ نہ بولا اور گھر چلا گیا اور کچھ دیر بعد تو اس کے ہاتھوں میں بہت سارے پیسے تھے ۔ اس نے یہ سارے پیسے شکیل کو دے دیئے اور کہا کہ یہ میرے پیسے ہیں۔ جو میں کافی عرصے سے جمع کر رہا تھا۔ یہ رکھو اور اپنی ضرورت پوری کرو۔ شکیل نے انکار کیا ۔ لیکن گھر کے حالات دیکھتے ہوئے اس نے یہ پیسے لے لیے۔ اس سے شکیل کی ضرورت پوری ہوگئی ۔ وقت گزرتا گیا۔ شکیل کے گھر والے وہاں سے چلے گئے اور کسی اور جگہ پر رہنے لگے۔ان کا آپس میں رابطہ ختم ہوگیا۔ کئی سال گزر گئے ۔اب شکیل ایک بہت قابل ڈاکٹر بن چکا تھا ۔ اور اپنا کلینک کھول رکھا تھا ۔ اور ساتھ ساتھ ہسپتال میں بھی کام کرتا تھا۔ وہ اپنے دوست کی تلاش میں تھا ۔ایک دن وہ اپنے کلینک سے واپس آرہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک پھول بیچنے والے پر پڑی۔ یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ یہ اس کا دوست اسلم تھا ۔ شکیل اپنی گاڑی سے اترا اور اسلم کے پاس پہنچا ۔ جب اسلم نے شکیل کو دیکھا تو رونا شروع ہو گیا ۔ اسلم نے اپنے تمام حالات کے بارے میں بتایا۔اس نے بتایا کہ اس کے سارے گھر والے بس کے حادثے میں فوت ہو گئے ۔ اب میں اکیلا اس دنیا سے لڑ رہا ہوں ۔ یہ سن کر شکیل کو بہت دکھ ہوا ۔ اس نے اسے دلا سا دیااور اپنے گھر لے گیا ۔ رہنے کے لیے اپنے گھر میں ایک کمرہ دیا اور ہسپتال میں جس میں وہ کام کرتاتھا ۔وہاں اسلم کو دوائیوں کی دکان کھول کر دی۔ اور یوں دوستی کا حق ادا ہو گیا ۔

سچ ہے کہ دوستی ایک عظیم رشتہ ہے۔

محمد بلال

……………………………………

آؤ ہنسیں

سپاہی (کوئلے کے بیوپاری سے): اوئے میں نے سنا ہے کہ تم کوئلہ بلیک کرتے ہو؟

کوئلے کا بیوپاری: اجی ہم کہاں بلیک کرتے ہیں یہ تو قدرتی طور پر بلیک ہوتا ہے۔

 

دو بیوقوفوں نے دو گھوڑے خریدے۔ لیکن ان کو پہچاننے کا مسئلہ ہوگیا۔ ایک بیوقوف نے اپنے گھوڑے کا سامنے والا دانت توڑ دیا ۔اتفاق سے دوسرے کا بھی چند دن بعد حادثاتی طور پرسامنے کا دانت ٹوٹ گیا پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک گھوڑے کا کان کاٹ دیا جائے۔ کچھ دن بعد انہوں نے دیکھا کہ دونوں کا ایک ایک کان کٹا ہوا ہے۔انہوں نے سوچا کہ اسطرح گھوڑوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔ لہٰذا کوئی اور طریقہ ہونا چاہئے۔

ایک بے وقوف بولا: میرا خیال ہے کہ یہ نشانی صحیح ہے کہ تمہارا گھوڑا کالا اور میرا سفید ہے۔

 

ایک مرتبہ ایک شاگرد نے استاد سے پوچھا کہ آسمان پر کتنے ستارے ہوتے ہیں ؟ استاد نے جواب دیا کہ جتنے سر پربال ہوتے ہیں ۔ شاگرد کہنے لگا کہ آپ کے سر پر تو کوئی بال نہیں۔

(شہریار سعید ۔ ڈی۔پی ۔ایس)

 

سپاہی :(قیدی سے جو تجوری توڑنے کا فن میں ماہر ہے) انسپکٹر صاحب بلا رہے ہیں ۔

قیدی: وہ کیوں؟

سپاہی: کیونکہ ان کی تجوری نہیں کھل رہی۔

 

استاد: سمجھ میں نہیں آتا ایک شخص ایک وقت میں اتنی غلطیاں کیسے کر سکتا ہے؟

شاگرد: سر یہ کام میں نے تنہا تو نہیں کیا بلکہ امی، ابو، بھائی اور باجی نے بھی سوالات حل کئے ہیں۔

 

‘تمہاری صحت بہت خراب ہے تمام پسلیاں دکھائی دے رہی ہیں ’ایک آدمی نے دوسرے سے کہا ۔

دوسرا : شکر ہے اللہ کا پہلے تو میں بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔

(مظہر جمیل ۔ ہفتم ۔ ڈی پی ایس)

 

ایک آدمی کے ماتھے پر گولی لگی اور وہ وہیں فوت ہو گیا۔ تعزیت کے لیے لو گ جارہے تھے ۔ایک بوڑھی عورت بھی تعزیت کے لئے گئی ۔عورت نے پوچھا گولی کہاں لگی تو جواب ملا کہ ماتھے پر۔بوڑھی عورت نے کہا ‘‘شکر ہے خدا کا کہ آنکھ بچ گئی’’۔

 

ایک نوجوان کو نجومی نے بتایا کہ آپ چالیس سال غربت میں رہیں گے ۔ آدمی نے پوچھا: اس کے بعد؟ نجومی نے جواب دیا کہ اس کے بعد آپ عادی ہو جائیں گے۔

(شانِ محمد ۔ ڈی پی ایس)

……………………………………

 

ایک عورت تھانے میں ایف ’ آئی ’آر درج کراتے ہوئے : ایک سال ہو گیا ہے میرا بیٹا آلو خریدنے بازار گیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔

تھانیدار: محترمہ آپ آلوؤں کو چھوڑیں کوئی اور سبزی پکالیں۔

 

پروفیسر صاحب کی بیوی نے اپنے شوہر کو کالج میں فون کیا ‘‘غضب ہو گیا ، ننھے نے سوئی نگل لی ہے’ آپ فوراً گھر آیئے۔

پروفیسر: اس وقت میں کلاس لے رہا ہوں چالیس منٹ بعد آؤں گا ۔

بیوی: معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے فوراً چلے آیئے۔

پروفیسر:کیا تمہیں سوئی ابھی چاہیے؟

 

ماں: (بیٹی سے) تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ شریر لڑکیوں کے ساتھ نہ کھیلا کرو۔

بیٹی: امّی اسی لئے تو میں اسکول جانا نہیں چاہتی ۔

 

اقبال: ماسٹر صاحب کیا کسی شخص کو کسی ایسی بات پر سزا مل سکتی ہے جو اس نے نہ کی ہو۔

ماسٹر : ہر گز نہیں!

اقبال: تو میں نے آج حساب کا کام نہیں کیا۔

 

 

صداقت: اپنے بال دیکھو جیسے گھاس اگی ہوئی ہے

خرم: میں بھی سوچ رہا ہوں کہ میرے پاس گدھا کیوں کھڑا ہے؟

 

 

گاہک: (کھجوروں والے سے) یار یہ کمبل تو ہٹانا ، دیکھیں تمہاری کھجوریں کیسی ہیں ؟

دوکاندار: یہ کمبل نہیں بھائی’مکھیاں ہیں ۔

(اویس نظامی ۔ ڈی پی ایس)

……………………………………

 

مسعود : سنا ہے کہ کریم کو اچھی نوکری مل گئی ہے۔

شکیل: ہاں بھئی وہ تو بہت اچھے عہدے پر فائز ہے جس کو چاہے نیچے کر دے جس کو چاہے اوپر کر دے

مسعود: ایسی کونسی نوکری مل گئی ہے؟

شکیل: لفٹ مین کی۔

 

ایک دیہاتی کو پاگل کتے نے کاٹا وہ سرجن کے پاس پہنچا اور اپنا زخم دکھایا سرجن نے کہا زخم کاٹنا پڑے گا اور آپریشن پر چار ہزار روپے لگیں گے۔

دیہاتی نے کہا ‘‘واہ جی واہ! کتے نے مفت میں کاٹا ہے اور تم ہو کہ چارہزار میں کاٹتے ہو۔

عمر حنیف