ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں دو لڑکے رہتے تھے ۔ ودنوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے ۔ ان کے نئے ہمسائے انکل زبیر بہت پرہیزگار تھے ۔ جب سے وہ آئے تھے دن کی پانچوں نمازیں تکبیر اولی کے ساتھ پڑھتے تھے ۔ زبیر انکل کو جب بھی یہ دونوں دوست عقیل اور آصف نظر آتے تووہ انہیں نمازکی دعوت ضرور دیتے عقیل اور آصف ان کے پیچھے ہو لیتے لیکن جیسے ہی زبیر صاحب تھوڑی دور جاتے عقیل اور آصف ادھر ادھر ہو جاتے ۔ دونوں دوست بہت شرارتی تھے ، سکول میں بھی پڑھنے کی بجائے شرارتیں کرتے رہتے۔ ان کے اساتذہ بھی ان کی شرارتوں سے بہت تنگ تھے ۔ کئی دفعہ ان کے والدین کو بھی ان کے اساتذہ نے بتایا اور والدین بھی انہیں سمجھاتے لیکن وہ ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے۔ انہوں نے اپنی شرارتوں سے پورا محلہ سر پر اٹھا رکھا تھا ، کسی کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتے توکسی کے ہاں پتھر مار کر چھپ جاتے ۔
ایک دفعہ زبیر صاحب اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے جار ہے تھے ۔ ان کی گاڑی بالکل تیار تھی ، ابھی وہ جانے ہی والے تھے کہ عقیل نے گاڑی کا ٹائر پنکچر کر دیا اور دونوں بھاگ گئے ۔ کچھ دنوں بعد شب برات تھی ، اس بار انہوں نے لوگوں کو تنگ کرنے کا‘‘ خصوصی ’’پروگرام بنایا۔ انہوں نے پٹاخوں کی ڈبیاں خریدیں ۔ کبھی وہ کسی کے پاؤں میں پھینکتے اور کبھی کسی کے گھر کے اندر ، جس سے گاؤں کے لوگ سخت تکلیف میں مبتلا تھے شب برات کو وہ جب اپنی کارروائی مکمل کر کے گھر لوٹے تو اپنے اپنے گھر کا منظر دیکھ کر ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ۔ ان دونوں کے گھروں کو آگ نے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا ۔ ہوا یوں کہ انہی کا پھینکاہوا پٹاخہ اٹھا کر کسی نے ان کے گھر پھینکاجو مٹی کے تیل کے ڈرم کے اندر جاگرا ،جس سے وہ بھڑک اٹھا ، ساتھ ہی چولہا اور گیس کا سلنڈر تھا ، آگ کی لپٹ جوں ہی ان تک پہنچی وہ بھی آگ بھڑکانے کے عمل میں پوری طرح شریک ہو گئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے دونوں گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر راکھ کر دیا اگرچہ اس کے بعد ان دونوں نے شرارتوں سے واقعتا توبہ کر لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیر بہت ہوگئی تھی۔