روزہ اور اس کے اسرار و حکم اور وجوہ و مصالح کے سمجھنے کے لیے بجائے قرآن کے غیر قرآنی راہوں سے مدد لینے کی قطعاً حاجت نہیں۔
عادت کے خلاف کسی قسم کی مشکلات سے دوچار ہونے کا واقعہ سامنے آ جائے تو روزے کی مشق ان مشکلات کو قدرتاً روزہ رکھنے والوں کے لیے آسان بنا دیتی ہے۔
آئیے، روزے کے قرآنی مطالب کو قرآن ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
تقویٰ اور روزہ:
الصیام (یعنی روزوں ) کا مطالبہ سورہ البقرہ کی آیات (۱۸۳تا ۱۸۵) میں کیا گیا ہے۔
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ روزہ آدمی میں ‘‘تقویٰ’’ کے جذبہ کو ابھارتا اور بیدار کرتا ہے۔ اس کے بعد اطلاع دی گئی ہے کہ رمضان ہی کے مہینے میں چونکہ قرآن کے نزول کی ابتدا ہوئی، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس مہینے کو روزے کے ساتھ گزاریں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ‘‘تقویٰ’’ کا مطلب کیا ہے، روزے سے اس کا کیا تعلق ہے اور تقویٰ کے جس جذبہ کو روزہ ابھارتا اور جگاتا ہے، انسانی فطرت کے اس جذبہ سے قرآن کا کیا تعلق ہے؟
ایک مثال اپنے سامنے رکھ لیجیے۔ روشنی سے وہی مستفید ہو سکتا ہے جس کی بینائی کی قوت آلائشوں سے پاک و صاف ہو۔ اس مثال کے پیش نظر غور کیجیے، قرآن کیا ہے؟ آدمی کی آئینی زندگی کے قدرتی دستور العمل ہی کا نام قرآن ہے۔ اسی طرح تقویٰ، جس کا ترجمہ عموماً پرہیز یا ڈر وغیرہ الفاظ سے کر دیا جاتا ہے، فطرت انسانی کے اس خاص رجحان کی تعبیر ہے جس نے آدمی کو آئین پسند بنا دیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب تک جنوں سے کسی کا دماغ ماؤف ہی نہ ہو، ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اعمال و افعال میں ہم مطلق العنان بن کر نہیں پیدا کیے گئے ہیں۔ یعنی ، جو جی میں آئے اسے کہہ گزریں، جسے چاہیں مار بیٹھیں، قتل کر دیں، جن کا مال چاہیں اڑا لیں، سڑکوں پر ننگے ہو کر ناچیں، تھرکیں۔ یہ یا اسی قسم کے بہت سے کام کرنے پر ہم آمادہ ہو جائیں تو انھیں کر تو سکتے ہیں، لیکن اندر کی آوازہمیں ٹوکتی ہے اور حدود میں رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جو کیے جائیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ کیے جائیں۔ یہ تقسیم ہمارے اعمال و افعال کی، سچ سے پوچھئے ، تو تقویٰ ہی کے فطری جذبہ کی پیداوار ہے۔
کون کون سے کام کرنے کے ہیں، اور کون سے نہ کرنے کے ، تفصیلات میں تو اختلاف ممکن ہے، لیکن ان دو حصوں میں اعمال کی تقسیم، انسان کا فطری احساس ہے۔ کسی شخص کے متعلق جونہی پتا چلتا ہے کہ اعمال و افعال کی حد بندی کے تقاضوں سے آزاد ہو گیا ہے، اس کے پاگل ہو جانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اگر تقویٰ کی واقعی حقیقت یہی ہے جو عرض کی گئی ، تو پھر کتنی آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کو ، یعنی آئینی زندگی کے قدرتی دستور العمل کو ، سپرد کرتے ہوئے، تقویٰ کے احساس کو چونکا نے والے اور جگانے والے عمل، یعنی روزے کی پابندی کا بھی ٹھیک اسی مہینے میں کیوں مکلف بنایا گیا ، جس میں قرآن کے نزول کی ابتدا ہوئی۔ آئین و دستور کی پابندی کا مطالبہ باہر سے جن پر پیش ہو رہا تھا، ضرورت تھی کہ ان کے اندر بھی اس احساس اور جذبے کے اجاگر کرنے کا نظم کیا جائے جس پر آدمی کی آئینی زندگی کا دارومدار ہے۔
یہ ہے ‘‘تقویٰ’’ اور ‘‘قرآن’’ میں تعلق۔ گویا آئین کے ساتھ آئین پسندی کے جذبے کو بھی بیدار رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آدمی میں آئین پسندی یعنی تقویٰ کا جو جذبہ فطرتاً پایا جاتا ہے، اس کے ابھارنے اور اس کو تروتازہ رکھنے میں روزہ سے کیوں مدد ملتی ہے؟
اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں بار بار جس چیز کی ضرورت آدمی کو ہوتی ہو، روزمرہ کی اسی ضرورت سے اچانک دستبردار ہو جانے پر آمادہ ہونے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ آئینی حدود کے اندر اپنے آپ کو روکے رکھنے کی پوری قوت اس کے اندر پائی جاتی ہے۔ سال کے گیارہ مہینوں میں جو کھا رہا تھا، پی رہا تھا، جنسی تقاضوں کی تکمیل پر کسی قسم کی روک ٹوک نہ تھی، وہی بارہویں مہینے میں اس امتحان میں کامیاب ہو کر نکلتا ہے کہ ساری چیزیں، جن کا گیارہ مہینوں میں عادی تھا، ان کو چھوڑ بیٹھا۔ آئینی جذبے کی مشق کی اس سے زیادہ بہتر صورت اور کیا ہو سکتی تھی۔
اب پڑھئے روزہ والی آیتوں کو۔ انصاف سے بتایا جائے کہ خود قرآن نے روزہ کے قانون کو نافذ کرتے ہوئے جو کچھ اس کے متعلق بیان کیا ہے، دل آویزی اور دل نشینی کی جتنی غیر معمولی خنکی اس میں پائی جاتی ہے، کیا عقل کے ناخن تراشوں کی تاویلوں میں اس کے بعد کچھ بھی جان رہ جاتی ہے اور یہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ روزہ اور اس کے اسرار و حکم اور وجوہ و مصالح کے سمجھنے کے لیے بجائے قرآن کے غیر قرآنی راہوں سے مدد لینے کی قطعاً حاجت نہیں۔
دوسرے مذاہب سے تعلق:
روزے کے مطالبے کو مسلمانوں پر عائد کرتے ہوئے گزشتہ ادیان و مذاہب کو ماننے والی امتوں کے ساتھ اپنے تاریخی رشتہ کا اعادہ کما کتب علی الذین من قبلکم کے الفاظ میں فرمایا گیا ہے۔
اس سے مسلمانوں میں یہ نفسیاتی اثر پیدا ہوتا ہے کہ اس حکم الٰہی کا بار اٹھانے میں وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ جو انسانی نسلیں ان سے پہلے گزری ہیں، وہ بھی اس میں ان کی شریک ہیں۔ اسی سے خود بخود یہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ روزے کا مطالبہ کوئی ایسا مطالبہ ہے بھی نہیں جسے بار سمجھا جائے۔ آخر جس کام کو تاریخ کے نامعلوم زمانے سے انسانیت برداشت کرتی چلی آ رہی ہے، اس کو بار اور بوجھ قرار دینے کے معنی ہی کیا ہوسکتے ہیں۔ گویا برداشت کے لحاظ سے یہ تجربہ کیا ہوا، جانچا اور پرکھا ہوا عمل ہے، سمجھا جائے تو یہ اشارہ بھی قرآن کے الفاظ سے ہمیں مل سکتا ہے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حیوانی ضرورتوں کے لیے حرارت، روشنی، ہوا، پانی وغیرہ جیسی قدرتی امدادوں کا آدمی ہر زمانے میں ہر جگہ محتاج رہا ہے، یہی نوعیت قدرت کے ان قوانین کی بھی ہے جن کی پابندی کے بغیر انسان، انسان نہیں رہ سکتا۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ‘‘اگلوں پر بھی روزہ واجب کیا گیا تھا’’ تو اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ روزہ بھی قدرت کے ان ہی قوانین میں شریک ہے جن سے نہ اگلے بے نیاز ہو کر رہ سکتے تھے اور نہ پچھلے اس سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔
یورپ و امریکہ کے علمی حلقوں میں آج کل مذاہب و ادیان کی تنقید وتحقیق کے سلسلے میں تقابلی مطالعے کو سب سے زیادہ عالمانہ طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ پہلے تو مذہبی پیشہ وروں، یعنی پادریوں نے اس کام کو شروع کیا تھا۔ بعد کو ان ہی پادریوں کی اولاد دوسرے علمی القاب اور خطاب کے ساتھ اسی کام کو ریسرچ اور تحقیق کے نام سے انجام دینے لگی۔ باور یہی کرایا جاتا ہے کہ تنقید و تحقیق کی ان راہوں میں کسی خاص مذہب یا دین کی پاسداری’ خیانت اور علمی بد دیانتی سمجھی جائے گی۔ لیکن سارے پاپڑ دراصل کسی خاص مذہب کی تائید و حمایت ہی کے لیے بیلے جاتے ہیں۔
اس تقابلی مطالعہ میں مختلف ادیان و مذاہب اور ان کے پیش کرنے والے بزرگوں کی تحقیر و تنقیص سے دامن ضرور آلودہ ہوتا ہے۔ تحقیر و تنقیص کے ان قصوں سے دلوں کو جو دکھ پہنچ جاتا ہے، یا پہنچایا جاتا ہے، دل آزاری کی جو آندھیاں چل پڑتی ہیں، ان کا رکنا یا روکنا ناممکن ہوتاہے۔
اس بات میں غیروں سے نہ مجھے شکایت ہے، اور نہ شکایت کا حق حاصل ہے۔ مگر مسلمانوں میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعوت و تبلیغ کے قرآنی منہج خاص سے لا پروا ہو کر، کچھ لوگ دنوں سے ان ہی باتوں کی حوصلہ افزائیوں میں مشغول ہیں جن سے تقابلی مطالعے اور اس طریقے کے سارے مفاسد اور زہریلے فتنوں کی نشوونما میں مدد مل رہی ہے۔ دیکھتا ہوں اور دل ہی دل میں گھٹتا ہوں، کڑھتا ہوں۔ قرآن سکھاتا ہے کہ بنی آدم کی جن جن نسلوں کو ، مسلمانوں سے پہلے، اپنے اپنے وقت میں انسانی زندگی کے قدرتی دستور العمل کا مخاطب و مکلف خالق کائنات نے بنایا تھا، ان سب سے مسلمانوں کا تاریخی رشتہ تکذیب و تغلیط اور تحقیر و توہین کا نہیں، قطعاً نہیں، بلکہ تصدیق و توثیق کا ہے۔ ایک ہی دیوان عشق کے ہم سبق ’ ہم سب کے سب ہیں، ایک ہی لا ہوتی کالج سب کی تعلیم گاہ ہے، حقیقی معلم اور واقعی استاد بھی سب کا ایک ہی ہے،اوربجز معمولی ردوبدل کے اصولاً تعلیمی نصاب بھی اگلوں اور پچھلوں کا اول سے آخر تک ایک ہی رہا ہے۔
قرآن نے اپنے ماننے والوں کی ذہنی تربیت ہی کچھ ایسے ڈھنگ سے کی ہے کہ ہمارے پیشوا تمھارے پیشوا، ہمارے دینی بزرگ تمھارے دینی بزرگ …… یہ ہم تم کا سوال ہی، مذہب اور دین کے دائرے میں، ان کی نگاہوں کے سامنے سے ہٹ گیا ہے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا کے مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کا جب ذکر کرتے ہیں تو سننے والا یہ تمیز نہیں کر سکتا کہ خود اپنے گھر کے بزرگوں کا ذکر کر رہے ہیں یا ان لوگوں کا جن کو یہودی اپنا پیغمبر یا عیسائی اپنے دین کی سب سے بڑی ہستی تسلیم کرتے ہیں۔ دراصل گھر اور باہر کے اس فرق کو مسلمانوں کا دینی احساس پہچانتا ہی نہیں ہے۔
مسلمانوں پر روزے کو عائد کرتے ہوئے، بجائے یہ فرمانے کے کہ مسلمانوں کے دین کا یہ کوئی امتیازی سرمایہ ہے، قرآن نے صاف لفظوں میں یہ اطلاع دی ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پہلے بھی لوگ اسی کی پابندی کرتے چلے آئے ہیں۔
قرآن اگر یہ کہتا ہے کہ بچھڑے ہوؤں کو ملانا، اور اپنے بزرگوں کی راہ سے جو ہٹ گئے ہیں اسی راہ پر ان کو واپس لانا، یہ بھی اس کا اساسی نصب العین ہے، تو روزہ کے بارے میں اس بیان کی تعبیر اور کیا کی جائے ۔ میں تو یہی سمجھتاہوں کہ دین کی دعوت میں لوگ دل آزاری کی راہوں کو چھوڑ کر قرآنی راستے پر اگر چلتے، تو جن قوموں کی اسلام سے محرومی کی مدت، دراز سے دراز تر ہوتی چلی جا رہی ہے، بہت مختصر ہو جاتی ۔
ضرورت ہے کہ تصدیق و توثیق کے رشتے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ گذشتہ ادیان و مذاہب کے جن پہلوؤں کی تصحیح یا تکمیل کا کام قرآن نے انجام دیا ہے، اس کاصحیح مطلب کیا ہے۔ اسی موقع پر دیکھئے۔ رمضان ہی کے مہینے کو روزے کے لیے متعین کرتے ہوئے، نزول قرآن کے ذکر میں، یہ فرما کر کہ نسل انسانی کی ہدایت کا سرچشمہ یہ کتاب ہے، آگے اسی کی خصوصیت کا اظہاران الفاظ میں فرمایا گیا ہے: بینات من الھدی والفرقان، ہدایت کی کھلی کھلی باتوں پر (قرآن مشتمل ہے)، اور الفرقان بھی ہے۔ مطلب یہی ہے کہ مذاہب و ادیان کے بینات، یعنی واضح اور کھلے کھلے حقائق جنھیں عام طور پر لوگ جانتے ہیں، ان کے سوا قرآن الفرقان بھی ہے۔ یعنی بیرونی آمیزشوں اور خارجی آلائشوں کو تمام مذاہب و ادیان سے جدا کرنا، سب کو پاک و صاف کرنا، یہ بھی قرآن ہی کا ایک پہلو ہے۔ اس لیے رمضان یا نزول قرآن کا مہینہ ان لوگوں کا بھی دینی مہینہ ہے جن کے پاس پہلے سے ہدایت کے بینات نہ تھے، اور جن کے پاس کسی نہ کسی شکل میں ہدایت کے یہ بینات باقی رہ گئے تھے، ان کے لیے یہی رمضان اس لیے دینی مہینہ بن گیا کہ قرآن کے فرقانی پہلو سے استفادے کا موقعہ ان کو بھی ملا۔ یوں رمضان ساری انسانی نسلوں، خاندانوں اور قبیلوں کا دینی مہینا بن جاتا ہے۔
بہرحال مجھے کہنا یہی ہے کہ قرآن جیسی خود مکتفی کتاب کی اشاعت و تبلیغ کے لیے، یا اس کی تعلیمات کی توجیہ و تاویل کے لیے ، غیر قرآنی ذرائع کی دست نگری کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن آگے تو کیا بڑھتا، خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں (لا فعلہ اللہ) اس کا دائرہ گھٹ نہ جائے۔ اگرچہ یہ خطرہ بھی صرف دلوں کے ایک وسواسی خطرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
روزہ میں یسر:
روزے کے متعلق یہ طریقہ تعبیر اختیار کیا گیا ہے کہ پہلے تو ایام معدودات ، یعنی چند گنے چنے دن، روزہ فرض ہوا، اور بعد کو پھر رمضان کا مہینہ مقرر کر دیا گیا۔ یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے جدا سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن مجھے ایسامحسوس ہوتا کہ یہ دونوں دو مستقل مطالبے نہیں ہیں۔ رمضان ہی کے مہینے کو روزے کے حکم کی تعمیل کا مہینہ مقرر کرنا مقصود تھا، لیکن اسی مقصد کو پہلے عام الفاظ میں ادا کیا گیا…… یعنی بڑی مدت روزے کے لیے نہیں بلکہ چند گنے چنے دن کی حد تک اس عمل میں مسلمانوں کو مشغول ہونا پڑے گا …… پھر ان ہی گنے چنے دنوں کی تفصیل یہ کی گئی کہ وہ رمضان کا مہینہ ہے۔ یہ یسر کی وضاحت ہے۔
روزہ کی یہ حقیقت قابل غور ہے کہ سب سے زیادہ آدمی جن چیزوں کا عادی ہوتا ہے، روزے کی وجہ سے اپنی اسی دوامی عادت سے دست برداری کی مشق پیدا ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دین ہو یا دنیا، زندگی کے تمام شعبوں میں اس مشق سے یہ مدد ملتی ہے کہ عادت کے خلاف کسی قسم کی مشکلات سے دوچار ہونے کا واقعہ سامنے آ جائے تو روزے کی مشق ان مشکلات کو قدرتاً روزہ رکھنے والوں کے لیے آسان بنا دیتی ہے۔ اسی لیے یہ فرماتے ہوئے کہ جن رعایتوں اورجن شروط کے ساتھ روزہ کا مطالبہ واجب کیا گیا ہے، ان ہی کو دیکھ کر تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ مشقت اور دشواری میں مبتلا کرنے کا ارادہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کے مقابلے میں ، روزے کی مشق سے زندگی کے عام عادی مشکلات میں مدد ملتی ہے۔ خصوصاً قمری مہینے کی وجہ سے ، ہر موسم اور ہر سال کے ہر حال میں روزہ رکھنے کی عادت سہولت کے دائرے میں جس وسعت کو پیداکرتی ہے، اور مشقت کی برداشت کی قوت کوبڑھاتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ روزے سے آسانی پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
شکر اور آفاقی تعلق:
انسانیت، ہدایت کے جس نظام کی پابندی کرکے اپنے صحیح انجام تک پہنچ سکتی ہے، یقینا اس کا علم ساری انسانی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ روزہ اس غیر معمولی ، انمول نعمت سے سرفراز فرمانے والے کی بڑائی کے اقرار کی بہترین عملی شکل ہے، کہ آدمی سب سے زیادہ جن چیزوں کا رسیا اور عادی ہے، ہر ایک کو ٹھکرا کر اس بڑے کے حکم کی تعمیل کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔ ‘‘تاکہ بڑائی کرو، اللہ کی اس نعمت کے مقابلہ میں کہ تمھاری راہنمائی اس نے کی۔’’
سچ تو یہ ہے کہ زندگی بھر جو ہمیں کھلاتا پلاتا رہتا ہے اور طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے، آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ کوئی شک نہیں کہ شکر اور گن گانے کی صورتیں یہ بھی ہیں کہ زبان سے شکر کے الفاظ ادا ہوتے ہوں، یا دل میں تشکر و امتنان کے جذبات پیدا ہوں۔ لیکن کھلانے پلانے والے کے شکر کی یہ شکل …… جتنی دیر کے لیے کھانا چھوڑ دینے کا حکم کھلانے والے پلانے والے نے دیا، اتنی دیر کے لیے ہم اس کو چھوڑ بیٹھیں …… حق تو یہ ہے کہ زبان اور دل والے شکریوں سے شکرکا یہ عملی قالب، خود شکر کرنے والوں ہی کے لیے زیادہ اطمینان بخش ہے۔ اس کی طرف آخر میں ‘‘تاکہ تم شکر ادا کرو’’ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا گیا تھا۔
‘‘جب تجھ سے پوچھیں میرے بندے میرے متعلق، تو میں قریب ہوں، جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا۔’’ اس آیت سے پہلے بھی روزے کا ذکر ہے ۔ اور اس کے بعد بھی۔ بیچ میں اس آیت کا ہونا یقینا بلا وجہ نہیں ہو سکتا۔
بظاہر یہی خیال گزرتا ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم کے مطابق جب بندہ پسندیدہ عادتوں سے دستبردار ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کی خوشی اور اسی کی مرضی کے مطابق اپنی خوشی اور اپنی مرضی کو بنا دیتا ہے تو روزہ کے زمانہ میں روزہ دار کا خالق کائنات کے ساتھ اس آفاقی تعلق کو، قرآن بتانا چاہتا ہے، معمولی حال نہ سمجھنا۔ منطقی طور پر یوں ترتیب قائم کی جائے کہ ساری کائنات حق تعالیٰ کی مرضی مبارک کے مطابق چل رہی ہے۔ انسان جب اسی عالمگیر مرضی کے مطابق اپنے آپ کو کر لیتا ہے تو اس خاص حال میں عالم کا ہر قانون انسان کی مرضی کی مطابقت کے لیے تیار ہو جاتا ہے، یعنی اس کی ہر دعا کو حق تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے اس کے سوا دوسری توقع ہی کیا کی جا سکتی ہے؟