نماز اور زکوٰۃ کے بعد تیسرا فرض روزہ ہے ۔یہ روزہ کیا ہے؟ انسان کے نفس پر جب اس کی خواہشیں غلبہ پا لیتی ہیں تو وہ اپنے پروردگار سے غافل اور اس کے حدود سے بے پروا ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسی غفلت اور بے پروائی کی اصلاح کے لئے ہم پر روزہ فرض کیا ہے۔ یہ عبادت سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک کی جاتی ہے ۔رمضان آتاہے تو صبح سے شام تک ہمارے لئے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ خلوت کرنے پر پابندی لگ جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بتا یا ہے کہ اس نے یہ عبادت ہم سے پہلی امتوں پر بھی اسی طرح فرض کی تھی جس طرح ہم پر فرض کی ہے ۔ان امتوں کے لئے البتہ اس کی شرطیں ذرا سخت تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے جس طرح دوسری سب چیزوں کو ہلکا کیا ، اسی طرح اس عبادت کو بھی معتدل بنا دیا ہے ۔ تاہم دوسری عبادتوں کے مقابلے میں یہ اس لئے ذرا بھاری ہے کہ اس کا مقصد ہی نفس کے منہ زور رحجانات کو لگام دے کر ان کا رخ صحیح سمت موڑنا اور اسے حدود کا پابندبنادینا ہے ۔یہ چیز، ظاہر ہے کہ تربیت میں ذرا سختی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔
اس مقصد کے لئے روزہ ان سب چیزوں پر پابندی لگاتا ہے جن سے خواہشیں بڑھتی ہیں اور لذتوں کی طرف میلان میں اضافہ ہوتا ہے ۔بندہ جب یہ پابندی جھیلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زہدو فقیری کی جو حالت اس پر طاری ہوجاتی ہے ،اس سے وہ دنیا سے ٹوٹتا اوراپنے رب سے جڑتا ہے ۔روزے کا یہی پہلو ہے جس کی بنا پر اللہ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا بھی میں اپنے ہاتھ سے دوں گا ، اور فرمایا کہ روزے دار کے منہ کی بو مجھے مشک کی خوشبوسے زیادہ پسند ہے ۔ ہر اچھے کام کا اجر سات سو گنا ہو سکتا ہے ،لیکن روزہ اس سے بھی آگے ہے ۔اس کی جزا کیا ہوگی؟ اس کا صرف اللہ کو علم ہے ۔جب بدلے کا دن آئے گا تو وہ یہ بھید کھولے گا اور خاص اپنے ہاتھ سے ہر روزے دار کو اس کے عمل کا صلہ دے گا ۔پھر کون اندازہ کر سکتا ہے کہ آسمان و زمین کا مالک جب اپنے ہاتھ سے صلہ دے گا تو اس کا بندہ کس طرح نہال ہو جائے گا ۔
رمضان کے مہینے میں روزے دار کو جو خلوت اور خاموشی اور دوسروں سے کسی حد تک الگ تھلگ ہوجانے کا موقع ملتا ہے ،اس میں قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے معنی کو سمجھنے کی طرف بھی طبیعت مائل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ کتاب اسی ماہ رمضان میں اتاری اور اسی نعمت کی شکر گزاری کے لئے اس کو روزوں کا مہینا بنا دیا ہے ۔روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل علیہ السلام بھی اسی مہینے میں قرآن سننے اور سنانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ روزے سے قرآن مجید کی یہی مناسبت ہے جس کی بنا پر امت کے اکابر اس مہینے میں اپنے نبی کی پیروی میں رات کے پچھلے پہر اور عام لوگ انہی کہ اجازت سے عشا کے بعد نفلوں میں اللہ کا کلام سنتے اور سناتے رہے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں نماز کے لئے کھڑا رہا ، اس کا یہ عمل اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جائے گا ۔
آدمی اگر چاہے تو اس مہینے میں بہت آسانی سے اپنے پورے دل اور پوری جان کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے ۔اللہ کے بندے اگر یہ چیز آخری درجے میں حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لئے اسی رمضان میں اعتکاف کا طریقہ بھی مقرر کیا گیا ہے ۔یہ اگرچہ ہر شخص کے لئے ضروری نہیں ہے لیکن دل کو اللہ کی طرف لگانے کے لئے یہ بڑی اہم عبادت ہے ۔اعتکاف کے معنی ہمارے دین میں یہ ہیں کہ آدمی دس دن یا اپنی سہولت کے مطابق اس سے کم کچھ دنوں کے لئے سب سے الگ ہوکر اپنے رب سے لو لگا کر مسجد میں بیٹھ جائے اور اس عرصے میں کسی ناگزیر ضرورت ہی کے لئے وہاں سے نکلے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اکثر اس کا اہتمام فرماتے تھے او ر خاص طور پر اس ماہ کے آخری دنوں میں رات کو خود بھی زیادہ جاگتے ، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور پوری مستعدی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگے رہتے تھے ۔ (مقامات)
اللہ کریم نے ہمیں ایک دفعہ پھر رمضان نصیب فرما دیا ہے ۔ پھر کیوں نہ ہم اس سے پورا فائد ہ اٹھا لیں۔ اور نبی کریمﷺ کے اسوہ پر عمل کر تے ہوئے خودبھی مستعد ہو جائیں اور دوسروں کو بھی اس مستعدی پر تیار کریں۔
٭٭٭