نماز کی طرح روزے کی تاریخ بھی نہایت قدیم ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ روزہ مسلمانوں پر اسی طرح فرض کیا گیا، جس طرح وہ پہلی قوموں پرفرض کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تربیت نفس کی ایک اہم عبادت کے طور پر اس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے۔
نینوا اور بابل کی تہذیب نہایت قدیم ہے۔ ایک زمانے میں یہاں آشور ی قوم آباد تھی۔ سیدنا یونس علیہ السلام کی بعثت انھی کی طرف ہوئی۔ ان لوگوں نے پہلے انھیں جھٹلادیا، لیکن بعد میں ایمان لے آئے۔ اس موقع پران کی توبہ اوررجوع کا ذکر بائیبل کے‘‘ صحیفہ ٔ یونس’’ میں اس طرح ہوا ہے:
‘‘تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ واعلیٰ، سب نے ٹاٹ اوڑھا۔ اوریہ خبر نینوا کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا۔ اور بادشاہ اوراس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینوا میں یہ اعلان کیا گیا اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان ،گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اورنہ کھائے پیئے، لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اورخدا کے حضور گریہ و زاری کریں، بلکہ ہر شخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔’’(۳:۵۔۸)
عرب جاہلی میں بھی روزہ کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ ان کی زبان میں لفظ ‘صوم’ کا وجود بجائے خود اس بات کوثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس عبادت سے پور ی طرح واقف تھے ۔ ‘‘المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ’’میں جواد علی لکھتے ہیں:
‘‘روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ اس روزوہ جمع ہوتے، عید مناتے اوربیت اللہ کوغلاف پہناتے تھے۔ اس کی توجیہہ مورخین یہ بیان کرتے ہیں کہ قریش جاہلیت میں کوئی ایسا گناہ کربیٹھے تھے جس کا بوجھ انھوں نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ چنانچہ اس کا کفارہ ادا کرنا چاہا تو یوم عاشور کا روزہ اپنے لیے مقرر کر لیا۔ وہ اس دن یہ روزہ اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرنے کے لیے رکھتے تھے کہ اس نے انھیں اس گناہ کے برے نتائج سے محفوظ رکھا۔ روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھتے تھیـ...اس روزے کی ایک توجیہہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قریش کوایک زمانے میں قحط نے آلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے نجات عطا فرمائی تو انھوں نے اس پر اللہ کا شکر اداکرنے کے لیے یہ روزہ رکھنا شروع کردیا۔’’ (۳۳۹/۶۔۳۴۰)
یہود ونصاریٰ کی شریعت میں بھی روزہ ایک عام عبادت ہے۔ بائیبل میں ان کے روزوں کا ذکر جگہ جگہ ہوا ہے اور اس کے لیے خاص اس لفظ کے علاوہ بعض مقامات پر ‘جان کودکھ دینے ’اور ‘نفس کشی کرنے ’ کی تعبیرات بھی اختیار کی گئی ہیں۔
خروج میں ہے : ‘‘ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تو یہ باتیں لکھ، کیونکہ انھی باتوں کے مفہوم کے مطابق میں تجھ سے اور اسرائیل سے عہد باندھتا ہوں۔ سو وہ چالیس دن اور چالیس رات وہیں خداوند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا اور اس نے ان لوحوں پر اس عہد کی باتوں کو،یعنی دس احکام کو لکھا۔’’ (۳۴:۲۷۔۲۸)
احبار میں ہے: ‘‘ اوریہ تمھارے لیے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اوراس دن کوئی، خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمھارے بیچ بودوباش رکھتا ہو، کسی طرح کا کام نہ کرے ۔ کیونکہ اس روزتمھارے واسطے تم کو پاک کرنے کے لیے کفارہ دیا جائے گا۔ سو تم اپنے سب گناہوں سے خداوند کے حضور پاک ٹھہروگے۔ یہ تمھارے لیے خاص آرام کا سبت ہوگا۔ تم اس دن اپنی اپنی جان کو دکھ دینا۔’’ (۱۶: ۲۹۔۳۱)
قضاۃمیں ہے: ‘‘ تب سب بنی اسرائیل اور سب لوگ اٹھے اور بیت ایل میں آئے اور وہا ں خداوند کے حضور بیٹھے روتے رہے اور اس دن شام تک روزہ رکھا اور سوختنی قربانیاں اورسلامتی کی قربانیاں خداوند کے آگے گزرانیں۔’’ (۲۰: ۲۶)
سموئیل دوم میں ہے: ‘‘ اور وہ ساؤل اور اس کے بیٹے یونتن اور خداوند کے لوگوں اوراسرائیل کے گھرانے کے لیے نوحہ کرنے اور رونے لگے اور شام تک روزہ رکھا، اس لیے کہ وہ تلوار سے مارے گئے تھے۔’’(۱: ۱۲)
‘‘ اس لیے داؤد نے اس لڑکے کی خاطر خدا سے منت کی اور داؤد نے روزہ رکھااور اندر جاکر ساری رات زمین پر پڑا رہا۔’’ (۱۲: ۱۶)
نحمیاہ میں ہے: ‘‘پھر اسی مہینے کی چوبیسیویں تاریخ کو بنی اسرائیل روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور مٹی اپنے سر پر ڈال کر اکٹھے ہوئے۔ اور اسرائیل کی نسل کے لوگ سب پردیسیوں سے الگ ہوگئے اور کھڑے ہو کر اپنے گناہوں اور اپنے باپ دادا کی خطاؤں کا اقرار کیا۔’’(۹:۱۔۲)
زبور میں ہے: ‘‘لیکن میں نے تو ان کی بیماری میں، جب وہ بیمار تھے، ٹاٹ اوڑھا اور روزہ رکھ رکھ کر اپنی جان کو دکھ دیا اور میری دعا میرے ہی سینے میں واپس آئی۔’’(۳۵:۱۳)
یرمیاہ میں ہے: ‘‘ پر تو جا اورخداوند کا وہ کلام جو تونے میرے منہ سے اس طومار میں لکھا ہے، خداوند کے گھر میں روزہ کے دن لوگوں کو پڑھ کر سنا۔’’ (۳۶:۶)
یوایل میں ہے: ‘‘ خداوند کا روز عظیم نہایت خوف ناک ہے۔ کون اس کی برداشت کرسکتا ہے؟ لیکن خداوند فرماتا ہے: اب بھی پورے دل سے اورروزہ رکھ کر اور گریہ و زاری وماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لاؤ۔ اور اپنے کپڑوں کو نہیں، بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ وہ رحیم ومہربان، قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اورعذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔’’(۲: ۱۱۔۱۳)
زکریا میں ہے : ‘‘پھر رب الافواج کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ چوتھے اور پانچویں اور ساتویں اور دسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لیے خوشی اور خرمی کا دن اورشادمانی کی عید ہوگا۔’’(۸:۱۸۔۱۹)
متی میں ہے: ‘‘اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ، کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے،بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں، بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے، تجھے روزہ دار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتاہے، تجھے بدلہ دے گا۔’’ (۶: ۱۶۔۱۸)
اعمال میں ہے: ‘‘جب وہ خداوند کی عبادت کررہے اور روزے رکھ رہے تھے تو روح القدس نے کہا: میرے لیے برنباس اورساؤل کو اس کام کے واسطے مخصوص کردو، جس کے واسطے میں نے ان کو بلایا ہے۔ تب انھوں نے روزہ رکھ کر اور دعا کرکے اوران پر ہاتھ رکھ کر انھیں رخصت کیا۔’’(۱۳: ۲۔ ۳)
یہ روزے کی تاریخ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ نماز کی طرح روزہ بھی قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اس کی مذہبی حیثیت اور اس کے حدودو شرائط سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ قرآن نے جب اس کا حکم دیا تو ان حدودوشرائط میں سے کوئی چیزبھی بیان نہیں کی، بلکہ ہدایت فرمائی کہ خدا کے ایک قدیم حکم اور انبیا علیہم السلام کی ایک قدیم سنت کے طور پر وہ جس طرح اسے جانتے ہیں، اسی طرح ایک لازمی عبادت کے طور پر اس کا اہتمام کریں۔ اس لحاظ سے روزے کا ماخذ بھی اصلاً مسلمانوں کا اجماع اوران کا عملی تواتر ہی ہے۔ قرآن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ اسے فرض قرار دیا، مریضوں اور مسافروں کے لیے اس سے رخصت کا قانون بیان فرمایا اوربعد میں جب بعض سوالات اس سے متعلق پیدا ہوئے تو ان کی وضاحت کردی ہے۔