روزے کا مقصد قرآن مجید نے سورۂ بقرہ کی آیتوں میں یہ بیان کیا ہے کہ لوگ خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ اس کے لیے اصل میں ‘لعلکم تتقون’کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔ قرآن کی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے شب وروزکو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات سے ڈرتا رہے کہ اس نے اگر کبھی ان حدود کو توڑا تو اس کی پاداش سے اللہ کے سوا کوئی اس کو بچانے والا نہیں ہو سکتا۔
روزے سے یہ تقویٰ کس طرح پید اہوتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے تین باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں:
پہلی یہ کہ روزہ اس احساس کو آدمی کے ذہن میں پوری قوت کے ساتھ بیدار کردیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ نفس کے چند بنیادی مطالبات پر حرمت کا قفل لگتے ہی یہ احساس بندگی پیدا ہونا شروع ہوتااور پھر بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ روزہ کھولنے کے وقت تک یہ اس کے پورے وجود کا احاطہ کرلیتا ہے۔ فجر سے مغرب تک کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی روزہ دار کے حلق سے نہیں گزرتا اوروہ ان چیزوں کے لیے نفس کے ہرمطالبے کو محض اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں پورا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ روزے کا یہ عمل جب بار بار دہرایا جاتا ہے تو یہ حقیقت روزے دار کے نہاں خانۂ وجود میں اتر جاتی، بلکہ اس کی جبلت میں پیوست ہوجاتی ہے کہ وہ ایک پروردگار کا بندہ ہے اور اس کے لیے زیبا یہی ہے کہ زندگی کے باقی معاملات میں بھی تسلیم واعتراف کے ساتھ وہ اپنے مالک کی فرماں روائی کے سامنے سپر ڈال دے اور خیال وعمل، دونوں میں اپنی آزادی اور خودمختاری کے ادعاسے دستبردار ہوجائے۔ اس سے، ظاہر ہے کہ خدا پرآدمی کا ایمان ہر لحاظ سے زندہ ایمان بن جاتا ہے، جس کے بعد وہ محض ایک خدا کو نہیں، بلکہ ایک ایسی سمیع وبصیر، علیم وحکیم اور قائم بالقسط ہستی کو مانتا ہے جو اس کے تمام کھلے اورچھپے سے واقف ہے اورجس کی اطاعت سے وہ کسی حال میں انحراف نہیں کرسکتا۔ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے سب سے مقدم چیز یہی ہے۔
دوسری یہ کہ روزہ اس احساس کوبھی دل کے اعماق اور روح کی گہرائیوں میں اتار دیتا ہے کہ آدمی کو ایک دن اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہی کے لیے پیش ہونا ہے۔ ماننے کو تو یہ بات ہر مسلمان مانتا ہے، لیکن روزے میں جب پیاس تنگ کرتی، بھوک ستاتی اورجنسی جذبات پوری قوت کے ساتھ اپنی تسکین کا تقاضا کرتے ہیں تو ہرشخص جانتا ہے کہ تنہا یہی احساس جواب دہی ہے جو آدمی کو بطن وفرج کے ان مطالبات کو پورا کرنے سے روک دیتا ہے۔ رمضان کا پور ا مہینا ہر روزگھنٹوں وہ نفس کے ان بنیادی تقاضوں پرمحض اس لیے پہرا لگائے رکھتا ہے کہ اسے ایک دن اپنے مالک کو منہ دکھانا ہے۔ یہاں تک کہ سخت گرمی کی حالت میں حلق پیاس سے چٹختا ہے، برفاب سامنے ہوتا ہے، وہ چاہے تو آسانی سے پی سکتا ہے، مگر نہیں پیتا؛ بھوک کے مارے جان نکل رہی ہوتی ہے، کھانا موجود ہوتا ہے، مگر نہیں کھاتا؛ میاں بیوی جوان ہیں، تنہائی میسر ہے، چاہیں تواپنی خواہش پوری کرسکتے ہیں، مگر نہیں کرتے۔ یہ ریاضت کوئی معمولی ریاضت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جواب دہی کا احساس اس سے دل و دماغ میں پوری طرح راسخ ہوجاتا ہے۔ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ، اگر غور کیجیے تو دوسری موثر ترین چیزیہی ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ کے لیے صبر ضروری ہے، اورروزہ انسان کو صبر کی تربیت دیتا ہے۔ بلکہ صبر کی تربیت کے لیے اس سے زیادہ آسان اور اس زیادہ موثر کوئی دوسرا طریقہ شاید نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں ہم جس امتحان سے دوچار ہیں، اس کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ ایک طرف ہمارے حیوانی وجود کی منہ زور خواہشیں ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس کے حدود میں رہ کر زندگی بسر کریں؟یہ چیز قدم قدم پر صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ سچائی، دیانت، تحمل، بردباری ، عہد کی پابندی، عدل و انصاف، عفوودرگزر ،منکرات سے گریز، فواحش سے اجتناب اورحق پر استقامت کے اوصاف نہ ہوں تو تقویٰ کے کوئی معنی نہیں ہیں، اورصبر کے بغیر یہ اوصاف، ظاہر ہے کہ آدمی میں کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتے۔
روزے کا مقصد یہی تقویٰ ہے اوراس کے لیے اللہ نے رمضان کا مہینا مقرر فرمایا ہے۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا ہے۔ روزے کے مقصد سے اس کا کیا تعلق ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے:
‘‘غور کرنے والے کو اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں پیش آسکتی کہ خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے، اس لیے کہ عقل کو بھی حقیقی راہنمائی قرآن ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوتو عقل سائنس کی ساری دوربینیں اورخوردبینیں لگاکر بھی اندھیرے میں بھٹکتی رہتی ہے۔اس وجہ سے جس مہینے میں دنیا کویہ نعمت ملی، وہ سزا وار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اوراس کی شکر گزاری کا خاص مہینا ٹھہرا دیا جائے تاکہ اس نعمت عظمیٰ کی قدرو عظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکر گزاری اورتکبیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جواس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پرتمام دین وشریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے، اور جس کے حاملین ہی کے لیے درحقیقت قرآن ہدایت بن کرنازل ہوا ہے گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے۔اس وجہ سے رب کریم وحکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کویوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اوررمضان کا مہینا موسم بہاراور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے، وہ تقویٰ کی فصل ہے۔’’(تدبرقرآن۱ /۴۵۱)
یہ مقصد روزے سے لازماً حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ روزہ رکھنے والے ان خرابیوں سے بچیں جواگر روزے کو لاحق ہوجائیں تو اس کی تمام برکتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ خرابیاں اگرچہ بہت سی ہیں،مگر ان میں سے بعض ایسی ہیں کہ ہر روزے دار کو ان کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
ان میں سے ایک خرابی یہ ہے کہ لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینا بنا لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں جو خرچ بھی کیا جائے، اس کا اللہ کے ہاں کوئی حساب نہیں ہے۔ چنانچہ اس طرح کے لوگ اگر کچھ کھاتے پیتے بھی ہوں تو ان کے لیے یہ پھر مزے اڑانے اور بہار لوٹنے کا مہینا ہے۔ وہ اس کو نفس کی تربیت کے بجائے اس کی پرورش کا مہینا بنا لیتے ہیں اورہر روز افطار کی تیاریوں ہی میں صبح کو شام کرتے ہیں۔ وہ جتنا وقت روزے سے ہوتے ہیں ،یہی سوچتے ہیں کہ سارے دن کی بھوک پیاس سے جو خلا ان کے پیٹ میں پیدا ہواہے، اسے وہ اب کن کن نعمتوں سے بھریں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو روزے سے وہ کچھ پاتے ہی نہیں ، اور اگر کچھ پاتے ہیں تو اسے وہیں کھو دیتے ہیں۔
اس خرابی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر کام کی قوت کو باقی رکھنے کے لیے کھائے پیے تو ضرور، لیکن اس کو جینے کا مقصد نہ بنا لے۔ جو کچھ بغیر کسی اہتمام کے مل جائے، اس کو اللہ کا شکر کرتے ہوئے کھا لے۔ گھر والے جو کچھ دستر خوان پررکھ دیں، وہ اگر دل کو نہ بھی بھائے تواس پرخفا نہ ہو۔ اللہ نے اگر مال ودولت سے نوازاہے تو اپنے نفس کوپالنے کے بجائے اسے غریبوں اور فقیروں کی مدد او ران کے کھانے پلانے پرخرچ کرے۔ یہ چیز یقینا اس کے روزے کی برکتوں کو بڑھائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ انفاق کے معاملے میں یہی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ حضور عام حالات میں بھی سب سے زیادہ فیاض تھے، لیکن رمضان میں تو گویا سراپا جودوکرم بن جاتے تھے۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ بھوک اورپیاس کی حالت میں چونکہ طبیعت میں کچھ تیزی پیدا ہوجاتی ہے، اس وجہ سے بعض لوگ روزے کوا س کی اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجائے، اسے بھڑکانے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے نیچے کام کرنے والوں پر ذرا ذرا سی بات پر برس پڑتے ، جو منہ میں آیا، کہہ گزرتے ، بلکہ بات بڑھ جائے تو گالیوں کا جھاڑ باندھ دیتے ہیں، اور بعض حالتوں میں اپنے زیر دستوں کو مارنے پیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتے ہیں کہ روزے میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔
اس کا علاج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ آدمی اس طرح کے موقعوں پر روزے کو اشتعال کا بہانہ بنانے کے بجائے اس کے مقابلے میں ایک ڈھال کی طرح استعمال کرے، اورجہاں اشتعال کا کوئی موقع پیدا ہو،فوراًیا د کرے کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ کا ارشاد ہے: روزے ڈھال ہیں، لہٰذا تم میں سے جس شخص کا روزہ ہو، وہ نہ بے حیائی کی باتیں کرے، اور نہ جہالت دکھائے۔، میرے بھائی میں روزے سے ہوں۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ روزہ رکھنے والا اگر غصے اور اشتعال کے ہر موقع پریاددہانی کا یہ طریقہ اختیار کر ے گا تو آہستہ آہستہ دیکھے گا کہ اس نے اپنے نفس کے شیطان پر اتنا قابو پالیا ہے کہ وہ اب اسے گرا لینے میں کم ہی کامیاب ہوتا ہے۔ شیطان کے مقابلے میں فتح کا یہ احساس اس کے دل میں اطمینان اور برتری کا احساس پیدا کرے گا اور روزے کی یہی یاددہانی اس کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے گی۔ پھر وہ وہیں غصہ کرے گا، جہاں اس کا موقع ہوگا۔ وقت بے وقت اسے مشتعل کر دینا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
تیسری خرابی یہ ہے کہ بہت سے لوگ جب روزے میں کھانے پینے اوراس طرح کی دوسری دل چسپیوں کو چھوڑتے ہیں تو اپنی اس محرومی کا مداوا ان دل چسپیوں میں ڈھونڈنے لگتے ہیں جن سے ان کے خیال میں روزے کو کچھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بہل جاتا ہے ۔ وہ روزہ رکھ کر تاش کھیلیں گے، ناول اور افسانے پڑھیں گے،نغمے اور غزلیں سنیں گے،فلمیں دیکھیں گے، دوستوں میں بیٹھ کر گپ ہانکیں گے اوراگر یہ سب نہ کریں گے تو کسی کی غیبت اور ہجو ہی میں لپٹ جائیں گے۔ روزے میں پیٹ خالی ہو تو آدمیوں کواپنے بھائیوں کا گوشت کھانے میں ویسے بھی بڑی لذت ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات صبح اس مشغلے میں پڑتے ہیں اورپھرمؤذن کی اذان کے ساتھ ہی اس سے ہاتھ کھینچتے ہیں۔
اس خرابی کاایک علاج تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی کو روزے کا ادب سمجھے اور کوشش کرے کہ کم سے کم اناپ شناپ کہے اور جھوٹی سچی اڑانے کے معاملے میں تو اس کی زبان پر تالا لگا رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ کو اس کی کچھ ضرورت نہیں کہ وہ اپناکھانا پینا چھوڑ دے۔
اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ جو وقت ضروری کاموں سے بچے، اس میں آدمی قرآن وحدیث کا مطالعہ کرے اوردین کو سمجھے۔ وہ روزے کی اس فرصت کوغنیمت جان کر اس میں قرآن مجید اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعاؤں کا کچھ حصہ یاد کرلے۔ اس طرح وہ روزے میں ان مشغلوں سے بچے گا اور بعد میں یہی ذخیرہ اللہ کی یاد کو اس کے دل میں قائم رکھنے کے لیے اس کے کام آئے گا۔
چوتھی خرابی یہ ہے کہ آدمی بعض اوقات روزہ اللہ کے لیے نہیں،بلکہ اپنے گھروالوں اورملنے جلنے والوں کی ملامت سے بچنے کے لیے رکھتا ہے اور کبھی لوگوں میں اپنی دین دار ی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے یہ مشقت جھیلتا ہے۔ یہ چیز بھی روزے کو روزہ نہیں رہنے دیتی۔
اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی روزے کی اہمیت ہمیشہ اپنے نفس کے سامنے واضح کرتا رہے اوراسے تلقین کرے کہ جب کھانا پینا اوردوسری لذتیں چھوڑ ہی رہے ہو تو پھر اللہ کے لیے کیوں نہیں چھوڑتے۔ اس کے ساتھ رمضان کے علاوہ کبھی کبھی نفلی روزے بھی رکھے اورانھیں زیادہ سے زیادہ چھپانے کی کوشش کرے۔ اس سے امید ہے کہ اس کے یہ فرض روزے بھی کسی وقت اللہ ہی کے لیے خالص ہوجائیں گے۔