مانسہرہ ، بالاکوٹ ، مظفر آباد اوروادی جنت نظیر کشمیر کے بہت سے شہروں اور دیہات پر۸ ، اکتوبر کا سورج اگرچہ طلوع تو ویسے ہی ہوا تھا جیسے روز ہوا کرتا ہے مگر اس دن یہ صنوبر ، چیڑ ، اور دیودار کے درختوں کی اوٹ میں نہیں بلکہ آہوں ، سسکیوں ، آنسوؤں اور دکھ درد کے سائے میں غروب ہوا۔ اس صبح ہنسی خوشی اٹھنے اوراپنے اپنے کام کی تیار ی کرنے والے بھلا کہاں جانتے تھے کہ آج کی شام ، شامِ زندگی اوردکھ درد کی نہ ختم ہونے والی داستان بن کے رہ جائے گی ۔ہائے رے انسان کی بے بسی ، اورلاعلمی!
مائیں اپنے جگر گوشوں کوپورے لاڈ پیار سے تیار کر کے سکولوں کی طرف رخصت کر چکی تھیں ، بیویوں نے بھی حسب معمول دروازوں کی اوٹ سے شوہروں کو الوداع کہہ دیا تھا ۔باپ بھی حسب معمول بیٹوں کو دور تک جاتے دیکھتے رہے تھے ، اوربہنیں بھی بھائیوں کودعاؤ ں کے سپرد کرچکی تھیں۔ کھیت کسانوں سے،کارخانے مزدوروں سے ، درسگاہیں طالب علموں سے ، بازار خریداروں سے اور دفاتر اپنے کارکنوں سے بھر چکے تھے یعنی کہ اس دن کی زندگی اپنی پوری رفتار سے چل پڑی تھی کہ یکایک زمین کو امر الہی ہوا ، اور ایک ہی جنبش میں لاکھوں انسانوں کی زندگی تہہ وبالاہو کر رہ گئی۔لمحوں کی قیامت برسوں پہ حا وی ہو گئی ۔کسی کو کسی کی خبر نہ ہوسکی۔ زندگی کی گہماگہمی سے بھر پور گھر،بازار،اوردفاترقبریں ٹھیرے اور سکولوں،کالجوں یونیورسٹیوں کے کلاس روم پوری ایک نسل کا مدفن بن کے رہ گئے۔ بستے ، جوتیاں، کتابیں اوردوپٹے تونظر آگئے مگر زندگی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ۔پوری وادی میں گری دیواروں، ٹوٹی چھتوں بے گوروکفن لاشوں اورہزاروں کہی اورلاکھوں ان کہی کہانیوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
وہ جہاں خوشیوں کا بسیرا تھا آج وہاں اداسیوں کے ڈیرے ہیں۔ جہا ں قدرت کاحسن وجمال بے نقاب ہونے کے لیے بے تا ب ہوا کرتا تھا آج وہاں قدرت کا جلا ل خیمہ زن ہے ۔ وہ جہاں بل کھاتے دریا، گنگناتی ندیاں اوراچھلتے چشمے رواں دواں تھے آج وہاں لاوے کاقبضہ ہے۔ وہ جہاں ہوائیں محبت کے گیت سنایا کرتی تھیں آج وہاں نوحہ و ماتم کی صدا ہے۔جہاں خوشبوئیں آنے والوں کا استقبال کیا کرتی تھیں آج دھول اور بدبو ان جگہوں کا مقدر ہے ۔رونقیں سناٹوں میں اورچہل پہل خاموشی میں بدل چکی ہے گھروں والے بے گھر ، والدین والے یتیم، اولاد والے محروم ہو چکے ہیں۔کوئی نہیں جانتاکہ امیدوں کے دیپ دوبارہ کب جلیں گے اور کب یہاں کے باسیوں کو پھر سے سکون و اطمینان کی نوید ملے گی۔ حالات توشاید معمول پہ آتے آتے، آ ہی جائیں گے مگر اس دن کی خوفناک یادیں توبچ جانے والوں کو عمر بھر رلائیں گی۔ ماؤں کویوں ہی محسوس ہوا کر ے گاکہ ابھی ان کالعل سکول سے واپس آتاہو گا۔ ہر دستک پر ان کا دل دھڑ ک جایا کرے گا۔اور ہر آواز ان کو اپنے بچے کی آواز محسو س ہواکرے گی ۔انہیں سوتے جاگتے ہر طرف ملبے کے ڈھیر ہی نظر آیا کریں گے اور ان میں سے مدد کے لیے بلاتی جانیں۔
اکتوبر کامہینا ختم ہونے کوہے مگر ملک بھر میں لوگ ابھی اداس ہیں۔ عیدآنے کو ہے مگر عید کی خوشیاں ماند ہیں۔لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ لمحوں میں دنیا یوں بھی اندھیر ہو جایا کرتی ہے ۔یہ سانحہ وطن عزیز کاسب سے بڑاسانحہ بن چکا ہے اوریقینامدتوں بھلایا نہ جا سکے گا۔ایسے میں اشکوں اور دعاؤں کا نذرانہ توہے ہی لیکن ایک اورکر ب بھی ہے جو ہر درد مند دل کی طرح سوئے حرم کوبھی لاحق ہے اوروہ کر ب ان جانوں کاہے جو ملبے تلے دبے اپنوں کی امید لیے کئی کئی دن کے انتظار کے بعد جان ہار گئیں ۔کاش ہم وقت پر پہنچے ہوتے تو ہمیں وہ خط نہ دیکھنا پڑتا جو دنیاسے جاتی ہوئی بچی ہمارے نام لکھ گئی ۔اپنے بستے سمیت یہ بچی نہ جانے کتنے دن ملبے تلے آس لیے جیتی رہی اور آخر خط لکھ کر چھوڑ گئی کہ اب تومیری آنکھیں انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہیں اب تومیں جاتی ہوں ۔نہ جانے کتنے بچوں ، کتنے باپوں ، کتنی ماؤں،کتنے بھائیوں،کتنی بہنوں،کتنے بیٹوں ،کتنی بیٹیوں، نے وقت رخصت یہ کہا ہو گا،
اب کوئی آئے، توکہنا کہ مسافر توگیا ۔اور یہ بھی کہناکہ بھلااب بھی نہ جاتا لوگو!
ان کٹھن لمحوں کے درد کو ہم بھی ویسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے ہر باپ، ہر ماں، ہر بیٹا، ہر بیٹی، ہر بھائی، ہر بہن، اور ہر شہری محسوس کرتا ہے۔ لیکن جس طرح اس درد کادرماں کسی کے پاس بھی نہیں اسی طرح ہمارے پاس بھی نہیں۔سوائے اشکوں اور دعاؤں کے ۔ اوراس وقت بہتے اشکوں میں ہم دعاگو ہیں کہ اللہ کریم جانے والوں کی مغفرت فرمائے اوربچنے والوں کو صبرجمیل عطا فرمائے اورا ن کے لیے زندگی کے اسباب اور خوشیاں پھر سے مہیا فرمائے۔آمین
پاک قوم کو سلام
ایک مدت بعد پاکستانیوں نے لوگوں کے انبوہ اور گروہ سے اوپر اٹھ کر جس طرح ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا اورجس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہر ہ کیا وہ تاریخ کے دامن میں تا دیر یاد رہے گا۔پہلی بار یہ محسوس ہواکہ یہ لوگ چار صوبوں کے لوگ نہیں بلکہ ایک ہی ملک کے باسی اورشہری ہیں۔ ہرآنکھ اپنے بھائیوں کے لیے اشک بار نظر آئی ، ہر ہاتھ دعا کے لیے اٹھانظر آیا اورہر چہر ہ اسی طرح اداس اورمغموم نظر آیا کہ جیسے واقعتا اس کے اپنے گھر میں موت کے سائے در آئے ہوں۔ زلزلے کی خبر کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیلفونوں کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور دور دور سے لوگ خیر خیریت دریافت کرنے لگے حتی کہ بیرون ملک سے بھی کالوں کا تانتابندھ گیا۔اور پھر جوں جوں خبریں آتی گئیں اداسیوں کے سائے گہرے ہوتے گئے۔فوری‘‘ شاک’’ سے باہر آتے ہی پوری قوم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مد د کے لیے دیوانہ وار چل پڑی۔اورجس سے جومیسر آیا وہ اس نے اپنے بھائیوں پروار دیا۔ ایسے بھی تھے جو منہ چھپائے کروڑوں دے گئے اورایسے بھی تھے جو کچھ نہ کرسکے تو سردی اور برف باری کے باوجود اپنی جان لے کر ہی ان کی مددکو پہنچ گئے۔بچوں سے کچھ نہ بن پڑا تو انہوں نے اپنے کھلونے ہی دے ڈالے ۔ ہر کیمپ، ہر مسجد ، اور ہر تنظیم کے پاس سامان کے ڈھیر لگ گئے اور ٹرکوں کی قطاریں کشمیر کی طرف رواں دواں ہوگئیں۔
سوئے حرم کی طرف سے قوم کے اس جذبے کوسلام، اقبال نے سچ کہا تھا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
جوانوں نے کہا کہ ان کی زندگی میں یہ پہلاموقع ہے کہ انہیں پاکستانی قوم کافرد ہونے پر فخر محسوس ہوا۔ وہ قوم جواتنی ہمدرد ، مخلص اورجان نثا ر ہے ۔وقت نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ یہ قوم واقعتا بہت باصلاحیت ، باہمت ، جذبہ قربانی کی حامل اور محبت کرنے والی قوم ہے ۔کاش کہ اس کے لیڈر بھی ایسے ہی ہوتے ۔وزیروں ، مشیروں ، سیاسی لیڈروں اور دینی سیاسی وڈیروں میں قوم کے جذبوں کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آیا ۔ اگر ہماری حکومت اور لیڈروں نے بھی اس درد کو اتنی ہی تیزی اورگہرائی سے محسوس کیاہوتا تویقینا یقینا بے شمار قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔مگر اے کاش!!!!!
میڈیا کا ناقابل فراموش کردار
دکھ درد کے ان لمحوں میں میڈیا نے جس طرح غم کے مارے ،آفت زدہ بھائیوں کے غم اور مصیبت کو نمایاں کیا وہ یقینامیڈیا کی تاریخ کا ناقابل فراموش کردار قرار پائے گا۔یہ میڈیا بطو ر خاص الیکڑانک میڈیا ہی تھا جس نے نہ صرف قوم کی رگ رگ میں اس درد کو بھر دیا بلکہ سوئی ہوئی حکومت کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی بیدار کر دیا۔ اس بہترین کارکردگی پر ہم میڈیا کوتحسین و آفرین کے پھول پیش کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ کاش عام دنوں میں بھی میڈیا اپنی قومی ذمہ داریوں کااحساس کر تے ہوئے قوم کے کردار واخلاق کوسنوارنے کے لیے ایسا ہی مثبت کردار ادا کرتارہے۔