قسط ۔۱
ہر قوم اور ملک کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں پیش کرکے اس کے افراد کے دل توڑے جا سکتے ہیں، لیکن اسی قوم اور ملک کی تاریخ میں ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں، جنھیں قلمبند کرکے اس کے افراد کے دل جوڑے جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ میں ایسی ہی تفصیلات زیادہ درج کی گئی ہیں، جن کو پڑھ کر یہاں کے باشندوں میں ایک دوسرے سے نفرت اور کدورت پیدا ہوئی۔(جب کہ اس کے بھی برعکس بھی بہت سا مواد موجود ہے ۔ایسے مواد کی اک جھلک پیش خدمت ہے )
۱۹۳۰ء میں مولانا محمد علی نے لندن کی پہلی گول میز کانفرنس میں جو معرکۃ الآرا تقریر کی تھی، اس میں انگریزوں کو مخاطب کرکے کہا تھا:
‘‘آپ کاجس طرح یہ گناہ ہے کہ آپ نے ہندستان کو اس کے مردانہ اوصاف سے محروم کیا، اسی طرح آپ کا یہ بھی گناہ ہے کہ آپ نے ہندستان کی غلط تاریخیں لکھیں، اسکولوں میں پڑھوائیں، جس کی بنا پر اسکول کے بچوں کے ذہن میں ہندستان کی تاریخ کا ایک غلط تصور پیدا ہوا۔ سڑکوں پر چھٹیوں میں جو جھگڑے ہوا کرتے ہیں، یا ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کا جو ذہن بنا ہے وہ زیادہ تر ان تاریخوں کے مطالعہ کا نتیجہ ہے، جو سیاسی اغراض کے تحت لکھی گئی تھیں، اسی کے مطالعہ کی وجہ سے سیاست میں انتقامی جذبہ پیدا ہوا۔’’
۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات کے زمانہ میں گاندھی جی نے اپنے پرارتھنا سبھا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تک ہمارے ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں تاریخ کی کتابوں کے ذریعہ ہماری تاریخ غلط انداز میں پڑھائی جاتی رہے گی، اس ملک میں مستقل طور پر فرقہ وارانہ رواداری پیدا نہیں ہو سکے گی۔
پنڈت جواہر لال نے اپنی تصنیف ‘‘ہندستان کی دریافت’’ میں لکھا ہے کہ انگریزوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں ان کے دور کی تو مدح سرائی ہوتی ہے، لیکن ان سے پہلے کے ہزاروں برس کے دوران میں جو کچھ ہوا، اس کا ذکر بہت مختصر اور حقارت آمیز لہجہ میں ہوتا ہے’’۔
راقم کو ہندستان کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر کئی کتابیں مرتب کرنے کا اتفاق ہوا ہے، انھیں لکھتے وقت یہ خیال غالب رہا کہ قلم سے کوئی فقرہ یا ایسی بات نکلنے نہ پائے، جس سے یہاں کے باشندوں کی جذباتی ہم آہنگی کے نشوونما میں خلل پیدا ہو، لیکن اس جذباتی ہم آہنگی کا تخیل میرا اپنا ہے، جو ممکن ہے سیاستدانوں سے کچھ مختلف ہو۔
یہ مقالہ لکھتے وقت دل کی اندرونی آواز کی پکار ہوئی کہ کچھ ایسے واقعات جمع کر دیے جائیں جو اس ملک میں موانست، یگانگت اور یکجہتی کی فضا قائم کرنے میں معاون ہوں۔ اس مقالے میں جو روایتیں یا حکایتیں قلم بند کی جا رہی ہیں، وہ دادِ تحقیق حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ ان کے حوالے میری مختلف تصانیف میں آئے ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ بعض ناظرین کو یہ پہلے سے معلوم ہوں اور ان کے لیے یہ نئی نہ ہوں، لیکن ان منتشر واقعات کو یکجا کرنے کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو جائے، تو یہی اس مقالے کے لکھنے کا اصلی صلہ ہے۔ ضرورت ہے کہ چھان بین کرکے اس قسم کے واقعات کو زیادہ سے زیادہ جمع کرکے ہندستان کی مختلف زبانوں میں پھیلایا جائے۔
سدیدالدین محمد عوفی، سلطان شمس الدین ایلتمش (ف ۱۲۳۶ء) کے عہد کا ایک مشہور مصنف گزرا ہے۔ اس نے پہلے ‘‘لباب الالباب’’ لکھی جو فارسی شعرا کے تذکروں میں قدیم ترین تذکرہ سمجھا جاتا ہے، پھر ‘‘جوامع الحکایات ولوامع الروایات’’ لکھی ، جو تاریخی حکایتوں کی رنگا رنگی، بوقلمونی، دلنشینی اور سچائی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئی۔ اس میں بعض حکایتیں ایسی بھی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ سدید الدین محمد عوفی گجرات کے بعض ہندو راجاؤں اور وہاں کے ہندو باشندوں کے اخلاق اور مذہبی سیرت و کردار سے بہت متاثر تھا۔
عوفی کا بیان ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی باضابطہ حکومت قائم ہونے سے پہلے نہروالہ (گجرات) کا حکمران رائے جے سنگھ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں اس کے حدودِ مملکت میں کھمبایت میں ایک جامع مسجد تھی، جس کے مینار پر چڑھ کر موذن اذان دیا کرتا تھا۔ ایک دن ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، اور اسی (۸۰) مسلمان تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے، مسجد جلا دی گئی، مینار مسمار کر دیا گیا۔ مسلمانوں کا خطیب علی نامی بھاگ کر نہر والہ آیا۔ اس نے راجا تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن درباریوں نے اس کی رسائی نہ ہونے دی۔ ایک دن راجا شکار کو جا رہا تھا، خطیب جھپٹ کر سامنے آیا۔ اس نے راجا کے ہاتھی کو روکا اور کھمبایت کے دردناک حادثے کی پوری تفصیل دو ہندی شعروں میں راجا کے گوش گزار کی۔ یہ سرگزشت سن کر راجا نے خطیب کو اپنے ایک مصاحب کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ اس کی خاطر مدارات کی جائے، اور دوسرا حکم ملنے پر اسے پیش کیا جائے۔ شکار سے واپسی پر راجا نے اپنے ایک وزیر کو بلا کر کہا کہ میں تین دن تک نہ تو محل سے نکلوں گا نہ کسی کو باریابی کی اجازت دوں گا، تم ان دنوں امورِ مملکت کی اچھی طرح نگرانی رکھنا اور میرے آرام میں مخل نہ ہونا۔ اسی رات راجا جے سنگھ ایک سانڈنی پر سوار ہو کر تنہا کھمبایت کی طرف چل دیا۔ نہر والہ کھمبایت سے چالیس فرسنگ دور ہے۔ رانا نے یہ مسافت ایک رات اور ایک دن میں طے کی۔ جب کھمبایت پہنچا تو پایکوں کا بھیس بدل کر تلوار کمر سے لٹکا لی اور رات کے اندھیرے میں شہر کے اندر داخل ہو گیا۔ اس نے شہر کے بارونق حصوں اور بازاروں میں ہر موڑ اور ہر ناکے پر ٹھہر ٹھہر کر سن گن لی، اور پوچھ گچھ کی۔ ہر ایک کی زبانی یہی سننے میں آیا کہ مسلمانوں پر بڑا ظلم ہوا ہے اور بے چارے بے گناہ، بے قصور مارے گئے ہیں۔ مسلمانوں کی مظلومی کا یقین ہو جانے پر راجا شہر سے باہر نکلا۔ دریا کے پانی سے اپنی چھاگل بھری اور نہر والہ کی طرف واپس چل پڑا، تیسرے دن رات کے وقت اپنی راجدھانی میں پہنچا۔ صبح کو دربار ہوا۔ مصاحبوں اور درباریوں کو ملا، راجا نے خطیب کو بلا کرحکم دیا کہ وہ اپنا معاملہ پیش کرے۔ خطیب نے استغاثہ پیش کیا تودرباریوں نے اسے جھٹلانے کی کوشش کی۔ راجا نے اپنے آبدار کو حکم دیا کہ رات کو پانی کی جو چھاگل تمھیں دی تھی، وہ لاؤ اور درباریوں کو اس کا پانی چکھاؤ۔ درباریوں نے پانی چکھا، تو اس کے کھاری ہونے کی وجہ سے سمجھ گئے کہ سمندر کا پانی ہے۔ اب راجا نے بتایا کہ مذہبی اختلافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھے تم میں سے کسی پر اعتماد نہیں تھا، اس لیے میں خود کھمبایت گیا تھا اور وہاں سے مسلمانوں کی مظلومی اور دوسرے فریق کی ستم گاری کا حال معلوم کرکے آیا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے۔میں یہ برداشت نہیں کر سکتا، کہ جو لوگ میری پناہ میں آگئے ہیں، ان پر ظلم کیا جائے۔ یہ کہہ کر اس نے حکم دیا کہ کھمبایت کے برہمنوں، پایکوں اور آتش پرستوں کے سرداروں کو سزا دی جائے۔ اس نے اپنی طرف سے ایک لاکھ بالوترے (اس زمانے کا سکہ) عنایت کیے کہ مسجد اور مینار ازسرِ نو تیار کیے جائیں۔ خطیب کو بھی چارچھتر بخشے جو بڑے قیمتی رنگین اور ریشمی کپڑے سے تیار کیے گئے تھے۔
عوفی نے گجرات کے ایک ہندو راجا کی ایک بہت ہی پر کیف داستان لکھی ہے۔ لکھتا ہے کہ نہر والہ کا ایک راجا گورپال تھا۔ وہ بہت ہی نیک، انصاف پسند، اور عقل مند تھا۔ راج پاٹ پانے سے پہلے وہ برسوں سادھوؤں کی زندگی بسر کرکے دنیا کے برے بھلے سے واقف اور دکھ درد سے آشنا ہو چکا تھا، زمانے کی سردی اور گرمی کا مزہ چکھے ہوئے تھا۔ اسی لیے جب وہ گدی پر بیٹھا، تو اس نے راج کی قدر جانی اور پرجا کی عزت پہچانی۔ عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا اور بخشش و کرم سے کام لیا۔ ایک دن وہ ہاتھی پر سوار ہو کر نہر والہ کے دروازے سے باہر جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک خوب صورت دھوبن پر پڑی، جو سرخ رنگ کے کپڑے پہنے، گھاٹ کی طرف کپڑے دھونے کو جا رہی تھی۔ راجا نے اس کا حسین چہرہ دیکھا تو جی جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ بے اختیار حکم دیا کہ ہاتھی اس کی طرف بڑھا یا جائے۔ ہاتھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ راجا کو ہوش آیا۔ دل ہی دل میں سوچا کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں، پرائی عورت سے ملنے کا خیال بڑا پاپ ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے ہاتھی لوٹایا۔ محل میں پہنچ کر برہمنوں کو بلایا اور کہا کہ لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ جلاؤ، میں جلنا چاہتا ہوں۔ برہمنوں نے حیران ہو کر پوچھا آپ نے ایسا کون سا پاپ کیا؟ راجا نے قصہ سنایا، تو برہمنوں نے یک زبان ہو کر کہا: ‘‘بے شک اگرراجا پرجا کی بہو بیٹیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو ان خاندانوں کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ خود جل کر اپنے پاپ کو جلا ڈالیں۔’’ چنانچہ لکڑیوں کا ڈھیر لگا کر گھی چھڑک کر آگ جلائی گئی۔ جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو راجا آگ میں کودنے کے خیال سے آگے بڑھا۔ آگ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے برہمنوں نے آ کر دامن پکڑ لیا اور کہا : بس کیجیے مہاراج! آپ کا پاپ مٹ چکا۔ آپ نے اس کا بدلہ چکا دیا، کیونکہ پاپ جو کچھ تھا، آپ کے من کا تھا، جسم کا نہیں تھا۔ آپ کا جسم اگر پاپ کرتا تو ہم اسے جلا دیتے۔ چونکہ من نے پاپ کیا تھا اور وہ اب تک برائی کے احساس کی آگ میں جلتا رہا۔ اس لیے اس کی سزا ختم ہو گئی۔ اس پر برہمن راجا کو آگ کے پاس سے ہٹا لے گئے۔ راجا نے ایک لاکھ بالوترے دان (صدقہ، خیرات) کیے۔
گجرات کے سوداگروں کی دیانت داری سے متعلق بھی عوفی نے ایک حکایت لکھی ہے۔ نہر والہ میں کسی سوداگر نے ایک دلال کے پاس نولاکھ بالوترے امانت رکھوائے۔ کچھ عرصے کے بعد سوداگر کا انتقال ہو گیا، تو دلال نے اس کے بیٹے کو بلا کر کہا کہ بہت عرصہ ہو ا، جب تمھارے باپ نے نو لاکھ بالوترے میرے پاس امانت رکھوائے تھے، وہ لے لو۔ لڑکے نے جواب دیا، مجھے اس سے متعلق کچھ علم نہیں، شاید بہی میں کچھ لکھا ہو، منگوا کر دیکھتا ہوں۔ اس پر بہی کھاتے منگوا کر دیکھے گئے، تو کسی میں بھی اس رقم کا اندراج نہ ملا۔ لڑکے نے کہا کہ اگر میرے باپ نے تمھارے پاس یہ رقم رکھی ہوتی تو ضرور کہیں درج ہوتی۔ چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے میں تم سے یہ رقم نہیں لے سکتا۔ دلال اصرار کرتا رہا کہ یہ تمھاری رقم ہے تمھیں لینی ہو گی۔لڑکا انکار کرتا رہا کہ میں ہرگز نہیں لے سکتا کیونکہ یہ میرے کھاتے میں کہیں درج نہیں ہے۔ ہوتے ہوتے یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ دونوں کو راجا جے سنگھ کے دربار میں جانا پڑا۔ راجا نے دونوں کا بیان سن کر کہا کہ اگر تم دونوں میں سے کوئی بھی یہ رقم رکھنے کو تیار نہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کو کسی ایسے مصرف میں لاؤ جس سے خدا کی مخلوق کو فائدہ اور مرنے والے سوداگر کی روح کو ثواب پہنچتا رہے۔ چنانچہ اس رقم سے نہر والہ میں نولکھا تال بنایا گیا، جو بہت مشہور ہوا۔
عوفی ہی کی روایت ہے کہ سلطان شہاب الدین محمد غوری نہر والہ میں راجپوتوں سے لڑا، لیکن لڑائی میں ناکام رہا۔ اس ناکامی کے بعد اسے غزنین لوٹے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے اور وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے جنگی تیاریوں میں مصروف تھا کہ کسی نے اسے لکھ بھیجا کہ نہر والہ میں ایک مشہور ہندو سوداگر ہے، جس کا نام دسالہ ابہر ہے، وہ ہمیشہ لاکھوں کا مال تجارت کی غرض سے ان علاقوں میں بھجوایا کرتا ہے، چنانچہ اس وقت بھی اس کاتقریباً دس لاکھ کا مال غزنین میں پڑا ہے۔ اگر بادشاہ سلامت چاہیں تو اس مال کو ضبط کر لیا جائے، اس سے نہ صرف خزانہ معمور ہو گا، بلکہ شاہی شان و شوکت میں بھی اضافہ ہو گا۔ سلطان نے جواب میں کہلا بھیجا کہ دسالہ بہرا کا یہ مال اگر نہر والہ میں ہوتا اور وہاں اس پر قبضہ کیا جاتا، تو ہمارے لیے حلال تھا، لیکن غزنین میں اس مال پر قبضہ کرنا ہمارے لیے حرام ہے۔
لال قلعے کے عجائب گھر میں ایک کتبہ ہے، جو کبھی پالم کے ایک کنویں میں نصب تھا۔ پالم موجودہ دلی سے بارہ میل باہر اسی نام کے ہوائی اڈے کے قریب واقع تھا۔ کتبے کی زبان سنسکرت ہے۔ البتہ اس کا آخری حصہ مقامی زبان میں ہے جو ہریانہ میں بولی جاتی ہے۔ اس پر سمبت ۱۳۳۷ بکرمی (مطابق ۱۲۸۰۔۱۲۸۱ء) درج ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب دلی میں سلطان غیاث الدین بلبن (ف ۱۲۷۸ء) حکمران تھا۔ اس کتبے کی حقیقی اہمیت ان خیالات میں ہے جن کا اظہار پنڈت یوگیشوار اور ان کے زیر اثر لوگوں نے ملک کے مسلمان حکمرانوں کے متعلق کیا۔ کتبے میں مسلمان حکمرانوں کو شاکاراجا کہا گیا ہے اور ان کے عہد حکومت کا تذکرہ شہاب الدین محمد غوری (ف ۱۲۰۶ء) سے ابتدا کرکے قطب الدین ایبک (ف ۱۲۱۰ء) شمس الدین ایلتتمش (ف۱۲۳۵ء) اور رضیہ بیگم (ف۱۲۴۰ء) کے عہد سلطنت کو شامل کرتے ہوئے وقت کے حکمران غیاث الدین بلبن پر ختم کیا ہے۔ بلبن برسر حکومت آنے سے پہلے اپنے پیشرو سلطان ناصر الدین محمود (ف ۱۲۶۵ء) کا وزیر تھا۔ اس لیے دونوں عہد سلطنت کی بہت تعریف کی ہے۔ بلبن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بادشاہ کی شاندار اور قابل تعریف حکومت میں تمام ملک مطمئن اور قانع ہے، بنگال کے شہر گوڑ سے افغانستان کے شہر غزنہ تک اور دکن میں دراوڑ علاقہ اور رامیشور تک ہر جگہ ملک اس قدر منور ہو رہا ہے، جیسے درختوں کی خوب صورتی سے موسم بہار میں زمین مزین ہو جاتی ہے، اور اس بادشاہ کی خدمت میں جو متعدد راجے آتے ہیں، ان کے مگٹوں سے گرے ہوئے جواہرات کی چمک دمک سے سارا ملک جگمگا رہا ہے، اس کی فوجیں بہر تا بر گنگا کے دہانے سے سندھ کے دہانے تک تمام ملک پر حاوی ہیں۔ ان کی بدولت ہر شخص امن و سلامتی سے دن بسر کر رہا ہے۔ جب سے اس سلطان ذیشان نے دنیا کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیا ہے، دنیا کو سہارا دینے والے شیش ناگ دھرتی کے بوجھ سے سبکدوش ہو بیٹھے ہیں، اور وشنو بھگوان جہان کی نگہبانی سے بے فکر ہو کر اطمینان سے دودھ کے سمندر پر محو استراحت ہیں۔ اس سلطان کے عہد معدلت میں جو سینکڑوں عالی شان شہروں کا والی ہے، دلی کا دلفریب شہر خوشحال اور فارغ البال ہے۔ یہ شہر دھرتی ماتا کی طرح بے شمار جواہرات کا خزانہ ہے۔ سورگ دھام عیش و مسرت کا ٹھکانہ ہے۔ پاتال کی مانند شہزور، دیوتاؤں کا مسکن اور مایا کی طرح دلکش اور دلفریب ہے۔
سلطان جلال الدین خلجی (ف ۱۲۹۶ء) دلی کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے کیتھل کا اقطاع دار (حاکم ) تھا۔ ایک ہندو منڈاہر نے اس پر اس زمانے میں قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی جس میں اس نے بڑی بہادری دکھائی۔ جلال الدین خلجی اس کی بہادری سے بہت متاثر ہوا اور اسے معاف کر دیا۔ بعد کو جب وہ تخت پر بیٹھا تو اس نے اس منڈاہر کو دربار میں طلب کیا اور اس کی بہادری کی بنا پر اسے خلعت اور گھوڑے سے نوازا اور دربار کے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے بڑی بڑی لڑائیاں لڑی ہیں اور خوب شمشیر زنی کی ہے، لیکن اس منڈاہر کا سا کوئی بہادر نہیں دیکھا۔ ضیاء الدین برنی کا بیان ہے کہ سلطان جلال الدین خلجی نے اس کا ایک لاکھ جیتل وظیفہ مقرر کیا اور اسے کوئی عہدہ بھی عطا کیا۔
سلطان علاء الدین خلجی (ف ۱۳۱۶ء) کے دربار میں موسیقی کے بڑے بڑے ماہرین جمع تھے۔ جنوبی ہند سے بہت سے ہندو ماہرین موسیقی آتے اور اس کے اور اس کے امرا کی زرپاشی سے سیراب ہوتے۔ ان ہی میں نائک گوپال بھی تھا۔ اس کے دوہزار شاگرد تھے، جو اس کے سنگھاسن کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا کرتے تھے اور کبھی اسے زمین پر پاؤں نہیں رکھنے دیتے تھے۔ سلطان علاء الدین کے دربار میں امیر خسرو (ف ۱۳۲۴ء) بھی تھے جنھیں موسیقی میں بھی مہارت حاصل تھی۔ گوپال سلطان کے دربار میں اپنا فن دکھاتا، تو امیر خسرو تخت کی آڑ میں چھپ کر سنا کرتے تھے۔گوپال جب کوئی راگ شروع کرتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس راگ میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں۔ امیر خسرو نے گوپال کے طرز کو اچھی طرح سمجھ لیا تو دربار میں آکر ایرانی راگ ‘‘قول’’ کو اپنے جنوبی ہند کے حریف کے طرز میں ایسا گایا کہ گوپال سن کر مبہوت ہو گیا اور یہ کہہ کر امیر خسرو کی برتری تسلیم کر لی کہ میں جانتا ہوں کہ یہ چوری ہے، لیکن یہ چوری اس طرح کی گئی ہے کہ میرا بھی اس پر اختیار نہیں۔
امیر خسرو سلاطین کے دربار سے وابستہ رہنے کے باوجود حضرت خواجہ نظام الدین اولیا (ف ۱۳۲۴ء) سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ انھیں اپنا روحانی مرشد بنا لیا تھا اور ان کی خدمت میں رہنے کو سعادتِ عظمیٰ سمجھتے تھے۔ کبھی خلوت میں ان کے ادنیٰ خادم بن کر رہتے، کبھی جلوت میں خوش الحان قوال بن کر اپنی غزلیں سناتے۔ ایک روز شیخ نظام الدین اولیا اپنی خانقاہ سے امیر خسرو کے ساتھ نکلے، جمنا کے کنارے ہندو مرد عورت غسل کر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر حضرت خواجہ نظام الدین نے فرمایا:
ہر قوم راست راہے، دینے و قبلہ گاہے
اس وقت شیخ نظام الدین اولیاء کے سر پر جو ٹوپی تھی، وہ ذرا ٹیڑھی رکھی ہوئی تھی، مذکورہ بالا مصرع سن کر امیر خسرو نے فوراً کہا:
من قبلہ راست کردم بر طرفِ کجکلا ہے
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا (ف ۱۳۲۴ء) کے ایک بھانجے مولانا تقی الدین نوح تھے۔ حضرت خواجہ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا عین شباب میں انتقال ہو گیا۔ قدرتاً خواجہ کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا۔ چھ مہینے تک ان پر حالت سکوت طاری رہی، اس سے امیر خسرو بھی مغموم تھے، اور برابر اس فکر میں رہتے کہ کس طرح مرشد کا غم غلط ہو۔ اتنے میں بسنت کا میلہ آیا۔ حسب دستور دلی کے ہندو کالکا جی کے مندر پر سرسوں کے پھول چڑھارہے تھے اور مست ہو کر ترانے الاپ رہے تھے۔ امیر خسرو بھی اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اسی حالت میں فارسی اور ہندی کے چند شعر موزوں کیے۔ سرسوں کے پھول توڑے اور پگڑی کو کج کرکے مستانہ شان میں جھومتے جھامتے شعر پڑھتے، حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو اس وقت اپنے بھانجے کے مزار پر تھے۔ انھوں نے امیر خسرو کی مستانہ ادا دیکھ کر اور ان کے اشعار سن کر تبسم فرمایا۔ گویا امیر خسرو کا مقصود حاصل ہو گیا۔ اس روز سے جب بھی دلی کے ہندو کالکا جی کے مندر پر جاتے ہیں تو سرسوں کے پھول ہاتھ میں لیے قوالوں سے اشعار پڑھواتے ہوئے مولانا تقی الدین کے مزار پر بھی جاتے ہیں اور پھر وہاں سے حضرت خواجہ کے مزار پر آتے ہیں۔
قوال ہندی کی ٹھمریوں کو پڑھ پڑھ کر اس مصرع کو بار بار دہراتے ہیں۔
عرب یار توری بسنت منائی
یہ پڑھا جاتا تو بڑا اثر پیدا ہوتا۔ رفتہ رفتہ دلی کی درگاہوں میں پندرہ دن بسنت کا میلہ رہنے لگا پھر دوسری جگہوں میں بھی مسلمان بسنت منانے لگے۔
بسنت کے موقع پر امیر خسرو کا ایک گیت ان کی طرف سے منسوب ہے:
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال
بائیس کھاجہ مل بن بن آیوتا میں
حضرت رسول صاحب جمال
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال
عرب یار تیرو بسنت منائیو
سدا رکھیے لال گلال
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال
امیر خسرو کی روایت ہے کہ ایک مسلمان حج کو جا رہا تھا کہ اسے راستے میں ایک برہمن ملا جو سومناتھ مندر کی زیارت کو جا رہا تھا۔ یہ برہمن اپنے عقیدے کی شدت میں زمین کو لیٹ کر ناپتا جاتا۔ جس سے اس کا سینہ راستہ کے پتھر اینٹ سے چھلنی ہو گیا تھا۔ حاجی نے برہمن سے پوچھا: ‘‘دوست ، تم کہاں جا رہے ہو؟’’ برہمن نے کہا : ‘‘میں تو کئی سال سے اسی طرح سفر کر رہا ہوں۔’’ حاجی نے کہا: خدا نے تم کو دو پاؤں دیے ہیں، تو چلنے کے بجائے اپنے سینے کے بل کیوں رینگ رہے ہو؟’’ برہمن نے جواب دیا کہ جب سے میں نے اپنی جان مورتی کے حوالے کر دی ہے میں اسی طرح سینہ کے بل رینگ رہا ہوں، یہ لکھ کر امیر خسرو کہتے ہیں کہ ہندو بت پرستوں پر طنز کیا جاتا ہے لیکن ان کے عقیدے میں جو اخلاص ہے اس سے سبق لیا جا سکتا ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے ایک چہیتے خلیفہ امیر حسن سنجری (ف ۱۳۳۵ء) بھی تھے۔ وہ ان کے ملفوظات لکھا کرتے تھے جو ‘‘فوائد الفوائد’’ کے نام سے اب تک مشہور اور مقبول ہیں۔ وہ بھی امیر خسرو کی طرح شاہی دربار سے وابستہ رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے شاہی دربار سے کچھ دنوں تک تنخواہ نہ ملی، جس سے میں پریشان تھا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کو میری پریشانی کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے مجھے یہ حکایت سنائی کہ کسی شہر میں ایک برہمن رہتا تھا اس کے پاس بڑی دولت تھی، لیکن اس شہر کے حاکم نے اس پر جرمانہ کرکے اس کا سارا مال و اسباب ضبط کر لیا، اور اسے تباہ و برباد کر دیا۔ وہ برہمن بہت ہی مفلس اور بدحال ہو گیا۔ ایک روز وہ کہیں جا رہا تھا کہ اس کا دوست راستے میں ملا۔ اس نے برہمن سے پوچھا: ‘‘تمھارا کیا حال ہے؟’’ برہمن نے جواب دیا۔‘‘اچھا ہے اور خوش ہوں۔’’ دوست نے کہا کہ دھن دولت تو ساری تم سے لے لی گئی، اب تم خوش کیسے رہ سکتے ہو؟ برہمن نے جواب دیا۔ ‘‘میرا جینو تو میرے پاس ہے۔’’ (زنار من بامن است)۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے یہ حکایت سنا کر امیر حسن سنجری سے پوچھا ‘‘تم نے سنا؟’’ امیر حسن نے جواب دیا کہ جی ہاں! اس حکایت سے مجھے بڑی باطنی تسکین اور تسلی ہوئی۔
ابن بطوطہ (ف ۱۳۷۸ء) نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ ایک ہندو امیر نے سلطان محمد تغلق (ف ۱۳۵۱ء) پر دعویٰ کیا کہ سلطان نے اس کے بھائی کو بے وجہ مار ڈالا ہے۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا۔ سلطان کسی ہتھیار کے بغیر قاضی کی عدالت میں حاضر ہوا اور وہاں جا کر سلام اور تعظیم کی۔ سلطان نے قاضی کو پہلے سے کہلا بھیجا تھا کہ جب وہ عدالت میں آئے تو اس کی تعظیم نہ کی جائے۔ وہ قاضی کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑا ہوا تو قاضی نے حکم دیا کہ سلطان مدعی کو راضی کرے، ورنہ قصاص کا حکم ہو گا۔ غرض سلطان نے مدعی کو راضی کیا، تو اس کی گلوخلاصی ہوئی۔
سلطان سکندر لودھی (ف ۱۵۱۷ء) تخت پر بیٹھنے سے پہلے کرکشیترکے علاقے کا حاکم تھا۔ کرکشیتر میں ایک کنڈ تھا جہاں ہندو آکر اشنان کیا کرتے تھے اور یہ اشنان ایک مذہبی میلہ بن گیا تھا۔ سکندر لودھی نے اس میلے کو روک دینے کی کوشش کی۔ اس کے لیے اس نے علماء سے ایک محضر طلب کیا، جس میں ملک العلماء میاں عبداللہ جودھنی بھی شریک ہوئے۔ تمام علماء نے ان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان ہی کی رائے حرفِ آخر ہے۔ اس پر سکندر لودھی، مولانا عبداللہ کی طرف مخاطب ہوا ۔ تو انھوں نے پوچھا: کرکشیتر کیا چیز ہے؟ جواب ملا کہ یہ ایک حوض ہے جہاں ہندو ہر شہر سے آ کر غسل کرتے ہیں۔ مولانا نے پوچھا کب سے یہ رسم جاری ہے؟ جواب ملا، قدیم رسم ہے۔ مولانا عبداللہ نے فتویٰ دیا کہ جس طرح قدیم بت خانے کا تباہ کرنا جائز نہیں، اسی طرح قدیم رسم کو مٹانا بھی جائز نہیں۔ یہ فتویٰ سکندر لودھی کے منشا کے خلاف تھا۔ اس نے خیال کیا کہ مولانا اس کے حکم کی خلاف ورزی کی خاطر ایسا فتویٰ دے رہے ہیں۔ اس لیے خنجر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا کہ یہ طرف داری کا فتویٰ ہے، میں پہلے تجھ کو ماروں گا پھر کرکشیتر کو تباہ کروں گا۔ مولانا نے بڑی دلیری سے جواب دیا، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نہیں مرتا، میں اپنی موت کے لیے تیار ہوں۔ ہر چہ بادا باد۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا، میں نے شرعی مسئلہ بیان کر دیا۔ اگر آپ کو شریعت کی پروا نہیں ہے، تو پھر پوچھنے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ سن کر سکندر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ جب مجلس برخاست ہو گئی ، تو سکندر نے مولانا سے کہا: ‘‘میاں عبداللہ! آپ گاہے بگاہے مجھ سے ملاقات کرتے رہیں۔’’
شیخ العالم حضرت احمد عبدالحق رودولوی (ف۱۴۳۳ء) چشتیہ صابریہ سلسلے کے مشہور بزرگ ہوئے ہیں۔ رودولی ضلع بارہ بنکی میں ان کی خانقاہ اب تک موجود ہے، اور ان کے عرس کے موقع پر ہندو مسلمان بکثرت جمع ہوتے ہیں۔ رودولی میں مستقل قیام اختیار کرنے سے پہلے انھوں نے مختلف مقامات میں جا کر بزرگانِ دین سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ ایک بار وہ پنڈوہ (ضلع مالدہ) گئے، جہاں ایک کوتوال کے گھر میں قیام کیا، جس کی ماں ان کی بڑی معتقد ہو گئی تھی۔ ان کے ساتھ ایک دیوانہ بھی رہتا تھا۔ ایک روز شہر کاحاکم بھیس بدل کر شہر میں نکلا۔ ایک جگہ قلندروں کی ایک جماعت اتری ہوئی تھی۔ حاکم ان کے پاس گیا۔ قلندروں نے کھانا پکایا تھا، کھاتے وقت حاکم سے بولے:‘‘ دور ہو، تو ہمارے کھانے میں نظر لگا رہا ہے۔’’ حاکم فقیروں اور غریبوں کی طرح شکستہ حالی اور غربت کا اظہار کرتا رہا، کہ میں غریب ہوں، تمھارا کیا بگاڑتا ہوں، تم اپنا کھاؤ، مگر ان لوگوں نے ایک نہ سنی اور جب تک حاکم کو ہٹا نہ لیا، اس وقت تک خاموش نہ ہوئے۔ حاکم یہاں سے جوگیوں کی فرودگاہ کی طرف چلا۔ اتفاق سے ان لوگوں کے کھانے کا وقت بھی یہی تھا۔ حاکم نے کہا میں ایک بیگانہ آدمی ہوں، میرے لیے برابر کا حصہ کیوں لگاتے ہو۔ جوگی بولے، بابا ہمارا طریقہ یہی ہے، اگر کتا بھی موجود ہو ، تو اسے بھی برابر کا حصہ دیں گے۔تم تو آدمی ہو تمھیں کیسے نہ دیں! اس کے بعد حاکم لوٹ آیا۔ صبح کو فرمان جاری کیا کہ جوگی تو شہر میں رہیں، لیکن کوئی قلندر اور درویش شہر میں نہ رہنے پائے۔سرکاری خدام قلندروں کو پکڑ پکڑ کر کشتی کے ذریعے پار اتارنے لگے۔ شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا کہ حاکم قلندروں اور درویشوں کو شہر بدرکر رہا ہے۔ حضرت شیخ العالم احمد عبدالحق رودولوی نے سنا، تو اپنے ہمراہی دیوانہ سے کہا، چلو ہم بھی بادشاہ کی ڈیوڑھی پر چلیں،دیکھیں وہ قلندروں اور درویشوں کو کیوں شہر بدر کر رہا ہے۔ کوتوال اور اس کی ماں نے بہت روکا کہ مخدوم آپ نہ جائیے، درویش ڈھونڈ ڈھونڈ کر پکڑے اور نکالے جا رہے ہیں، لیکن آپ نہ مانے اور دیوانہ کو ساتھ لے کر چل دیے، اور جا کر حاکم کی ڈیوڑھی پر خاک ڈال کر بیٹھ گئے۔ بہت دیر تک انتظار کرتے رہے، لیکن کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ تم کون ہو، اور کس لیے آئے ہو۔ بالآخر شیخ العالم احمد عبدالحق نے فرمایا: دیوانہ تیرا حاکم درویشوں کو نہیں بلکہ بے خبروں کو شہر بدر کرا رہا ہے، یہ کہہ کر قیام گاہ کو لوٹ آئے۔
بہمنی سلطنت کا بانی علاء الدین حسن گانگوبہمنی (ف۱۳۵۷ء) ہوا ہے۔ اس کی ابتدائی زندگی بہت ہی غربت اور عسرت میں گزری۔ وہ دلی میں غیاث الدین تغلق کے بیٹے شہزادہ محمد تغلق کے ایک منجم گنگو برہمن کا ملازم تھا۔ وہ اپنی تنگ دستی سے پریشان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے آقا سے اپنی غربت کا ذکر کیا، تو گنگو نے ہمدردی میں نواح دلی میں اسے بنجر زمین کا ایک ٹکڑا دے دیا، ایک جوڑی بیل اور دو مزدوروں کا بھی سامان کر دیا، تاکہ وہ اس کھیتی باڑی سے اپنا پیٹ پال سکے۔ ایک دن اس کے مزدور ہل چلا رہے تھے کہ زمین کے اندر سے ایک برتن نکلا، جس میں سلطان علاء الدین خلجی کے عہد کے سونے کے سکے اور اشرفیاں بھری تھیں۔ حسن کی ایمان داری نے یہ گوارا نہ کیا کہ آقا کی دی ہوئی زمین کے مال میں خیانت کرے۔ اس نے یہ ساری دولت جا کر گنگو برہمن کے سامنے رکھ دی۔ گنگو نے حسن کی ایمان داری کا ذکر شہزادہ محمد تغلق سے کیا۔ وہ بہت متعجب ہوا اور اپنے باپ سلطان غیاث الدین تغلق کو خبر دی۔ سلطان غیاث الدین تغلق نے حسن کو اپنے حضور میں طلب کیا اور شاہی نوازشوں سے سرفراز کرکے اپنے امیروں کے زمرے میں شامل کر لیا۔
ایک دن گنگو نے حسن سے کہا کہ مجھے تمھارے زائچے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم بڑے اقبال مند ہو گے، اور خدا کی مدد اور مہربانی سے کسی بلند رتبے پر پہنچ جاؤ گے۔ اس بات کا عہد کرو کہ اگر خدا تم کو کسی بلند مرتبے پر پہنچائے، تو میرا نام بھی اپنے نام کا جزو بناؤگے تاکہ تمھارے اقبال کی بدولت میں بھی دنیا میں زندہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنے خزانے میں میرے اور میری اولاد کے سوا کسی اور کو نہ رکھنا۔ حسن نے اپنے محسن کی باتیں منظور کر لیں اور کوئی بڑا عہدہ پانے سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ گنگو لکھنے لگا۔ وہ دکن میں بہمنی سلطنت قائم کرنے کے بعد بڑا کامیاب حکمران اور فاتح ثابت ہوا۔ ایک مرتبہ کسی نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اتنی بڑی سلطنت کیسے حاصل کرلی اور تھوڑی مدت میں اپنی حکومت کو اتنی وسعت کیسے دی اور دوسرے حکمرانوں اور رعایا کو اپنا فرمانبردار اور مطیع کیسے بنا لیا؟ اس نے جواب دیا کہ پہلے تو میں نے مروت کو اپنا اصول بنایا اور خواص و عوام سے ہمیشہ مروت سے پیش آیا۔ دوسرے یہ کہ کبھی بخل سے کام نہیں لیا، سخاوت میں دوست اور دشمن کی تفریق نہیں کی، ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے سب میرے مخلص ہمدرد اور مطیع بنتے گئے۔
کبیر داس (ف ۱۵۱۸ء) اپنی ابتدائی زندگی میں ایک روز گنگا کے کنارے کچھ برہمنوں کے ساتھ تھے۔ برہمن کہنے لگے کہ گنگا کے پانی سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ وہ یہ تعریف کر رہے تھے کہ ایک برہمن نے پینے کو پانی مانگا۔ کبیر داس اٹھے اور اپنے لکڑی کے پیالے میں پانی بھر کر اسے دیا۔ اس نے ان کے ہاتھ کا پانی پینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جولاہے تھے، اور برہمن ان کے ہاتھ کا چھوا کھاتے پیتے نہیں ۔ برہمن کے انکار پر کبیر داس نے کہا کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ گنگا کا پانی بدن اور روح کی گناہ کی تمام آلائشوں کو دھو کر زائل کر دیتا ہے۔ اگر یہ پانی میرے لکڑی کے پیالے کو بھی پاک نہیں کر سکتا تو یہ اس تعریف کا مستحق کیونکر ہو سکتا ہے۔
ایک اور موقع کا ذکر ہے کہ کبیر داس کی لڑکی کمالی ایک دن کنوئیں پر پانی بھر رہی تھی۔ ایک پیاسے برہمن نے اس سے پانی مانگا۔ پانی پینے کے بعد جب اس برہمن کو معلوم ہوا کہ کمالی جولاہے کی لڑکی ہے تو وہ بہت خفا ہوا اور کہنے لگا کہ تو نے مجھے بے دھرم کر دیا ہے۔ دونوں کبیر داس کے پاس آئے، انھوں نے برہمن سے کہا سینکڑوں لاشیں پانی میں سڑا کرتی ہیں۔ کروڑوں آدمی زمین میں دفن ہیں۔ اسی کی مٹی سے وہ برتن بنائے جاتے ہیں، جن میں تم پانی پیتے اور کھانا کھاتے ہو۔ کھانا کھاتے وقت کپڑے ضرور اتار ڈالتے ہو، لیکن دھوتی باندھتے رہتے ہو، جو جولاہے کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔ مکھیاں غلیظ اور مردار پر بیٹھتی ہیں۔ کیا تم ان کو روک سکتے ہو؟
ایک بار کبیر داس کے یہاں کچھ درویش آئے۔ کبیر داس نے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ انھیں اپنے یہاں مہمان رکھا لیکن ان کی خاطر تواضع کے لیے گھر میں کچھ نہیں تھا اور دوڑ دھوپ کرنے کے بعد بھی کہیں سے کچھ نہ ملا۔ آخر بیوی سے کہا کہ تم ہی کسی سے کچھ قرض لے آؤ کہ ان درویشوں کی خاطر کی جائے۔ بیوی نے کہا گھر کی گلی کے پاس ایک بنیا رہتا ہے، وہ مجھ پر بری نظر ڈالا کرتا ہے۔ اگر اس فاجر سے کوئی چیز مانگوں، تو شاید دے دے۔ کبیرداس نے کہا اس کے پاس جلدی چلی جاؤ جو کچھ کہے قبول کر لو، اور ان درویشوں کے لیے کچھ لے آؤ۔ بیوی نے بنیے سے جا کر ادھار چیزیں مانگیں، تو اس نے کہا کہ اگر تم رات میرے گھر آنے کا وعدہ کرو ، تو جو چیز مانگو، دے دوں گا۔ بیوی نے قسم کھا کر اس کی بات مان لی۔ بنیے نے چاول اور گھی دے دیا۔ اس طرح کبیر داس نے مہمانوں کو کھانا کھلا کر انھیں آرام پہنچایا۔ جب درویش کھانا کھا چکے تو بہت سخت بارش ہونے لگی۔ کبیر داس کی بیوی نے بنیے سے جو وعدہ کیا تھا وہ میاں کو یاد دلایا۔ دونوں وعدہ خلافی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ادھر راستے میں پانی کی وجہ سے کیچڑ بہت ہو گئی تھی۔ اس لیے بیوی کے لیے راستہ طے کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ کبیر داس نے بیوی کو کاندھے پر اٹھایا اور اس بنیے کے گھر پہنچا دیا اور خود ایک گوشے میں چھپ گئے۔ بنیے نے کبیرداس کی بیوی کو دیکھا تو تعجب کیا کہ اس کے پاؤں کیچڑ سے لت پت نہیں۔ اس نے پوچھا کہ تم کس طرح آئیں، کہ پاؤں میں کیچڑ نہیں ہے۔ بیوی نے حقیقت بتائی تو یہ سن کر بنیے نے ایک چیخ ماری اور بے ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کبیر داس کے پاس آ کر ان کے پاؤں میں گر پڑا اور اپنی دکان لٹا کر بیراگی بن گیا۔
شیر شاہ (ف ۱۵۴۵ء) نے اپنی حکومت کے زمانے میں شاہراہ پر ہر ایک کوس پر ایک سرائے بنوائی تھی۔ سرائے میں ایک مسجد، ایک کنواں اور ایک گھر ہوتا، جس کی دیکھ بھال ایک شقدارکرتا۔ سرائے کے ایک دروازے پر پانی سے بھرے ہوئے مٹکے کے علاوہ پکا ہوا کھانا مسلمانوں کے لیے موجود رہتا، دوسرے پر غلہ اور پانی کے مٹکے ہندوؤں کے لیے ہوتے۔ سرائے کے لیے بھٹیارے مقرر تھے۔ مسافروں سے کھانے پینے کی کوئی قیمت یا خدمت نہیں لی جاتی تھی۔ شیر شاہ کی نظر میں ہندومسلمان دونوں برابر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس نے ان میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ ایک مرتبہ وہ کشتی پر سوار آگرے سے کالنجر جا رہا تھا۔ راستے میں کالپی سے جو گزرے تو یہاں موضع ہمیر پورکا ایک برہمن دریا میں نہا رہا تھا۔ ملاح کشتی کو تیزی سے آگے بڑھا رہے تھے۔ شیر شاہ نے انھیں اس جگہ کشتی روکنے کو کہا۔ جہاں برہمن نہا رہا تھا، اور اس سے اس علاقے کے جاگیردار کی امارت و عدالت کے رنگ ڈھنگ کے بارے میں پوچھا۔ برہمن کو معلوم نہ تھا کہ وہ بادشاہ سے باتیں کر رہا ہے۔ اس لیے اس پر گنہ سے متعلق جو باتیں تھیں، انھیں سچ سچ مختصر طریقے پر گوش گزار کرکے اپنے گھر کی راہ لی۔ وہ جا چکا تو شیر شاہ نے اپنے مقربوں سے کہا کہ برہمن کو اس وقت تو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ بادشاہ وقت سے ہم کلام ہو رہا ہے، لیکن ظن غالب ہے کہ اسے بعد کو یہ بات معلوم ہو جائے گی اس وقت اسے افسوس ہو گا کہ اس کی ہم کلامی سے دوسروں کے مقابلہ میں اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس پر شیر شاہ نے برہمن کو واپس بلایا ، اور جس گاؤں میں وہ رہتا تھا وہ اسے انعام میں بخش دیا، نیز پانچ سو روپے نقد کا عطیہ دے کر اسے رخصت کیا۔
شیر شاہ عدل و انصاف میں بھی کسی طرح کا کوئی امتیاز اور تفریق نہیں کرتا تھا۔ ایک روز اس کا اپنا لڑکا عادل خان ہاتھی پر سوار آگرے کی ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک بنیے کی بیوی پر پڑی جواپنے مکان کے صحن میں نہا رہی تھی۔ مکان کی دیوار نیچی تھی۔ شہزادے نے ہاتھی پر سے اس عورت پر پان کا بیڑا پھینکا۔ عورت حیا دار تھی۔ فرط ندامت میں اس نے خودکشی کر لینے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اس کے شوہر نے اسے خود کشی سے باز رکھا، اور خود وہی پان کا بیڑہ لے کر شیر شاہ کے پاس پہنچااور فریاد کی۔ شیر شاہ کو اپنے بیٹے کی حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے حکم دیا کہ فریادی کو ہاتھی پر سوارکرکے عادل خان کے مکان کے پاس پہنچایا جائے اور شہزادے کی بیوی مکان کے اندر کھڑی ہو اور فریادی یہی پان کا بیڑہ ہاتھی پر سے اس کی بیوی پر پھینکتا ہوا آگے بڑھے۔ یہ حکم سن کر درباری امرا نے شہزادے کی حمایت کرنا چاہی، لیکن شیر شاہ نے کہا کہ میری عدالت میں میری محبوب ترین اولاد اور رعایا دونوں برابر ہیں۔ فریادی اس فیصلے سے متاثر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میرا انصاف ہو گیا۔ شہزادے نے میرا قصور کیا ہے۔ مجھے قصور معاف کرنے کا بھی حق ہے، اس لیے میں نے شہزادے کو معاف کیا۔ یہ سن کر شیر شاہ کا جلال کم ہوا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ عدل ہر دین میں بہتر ہے عدل کے برابر کوئی طاعت اور عبادت نہیں۔ اگر بادشاہ کے عدل کا سایہ لوگوں کے سر پر سے اٹھ جائے، تو آبادی کا شیرازہ بکھر جائے۔(جاری ہے)
(بشکریہ: سہ ماہی ‘‘پیغام آشنا’’، اسلام آباد)