نفسیات
ڈیپریشن اور احساس تنہائی
ڈاکٹر خالد سہیل
بہت سے لوگ آج بھی ڈیپریشن کا علاج نہیں کرواتے کیونکہ وہ خود نہیں جانتے کہ وہ ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے ڈیپریشن ایک معمہ، ایک بجھارت اور ایک پہیلی ہے۔
ایک وہ دور تھا جب ماہرینِ نفسیات مالیخولیا MELANCHOLIA کی تشخیص کرتے تھے لیکن اب مالیخولیا کی بجائے ڈیپریشن کی تشخیص کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ ڈیپریشن کیا ہے؟اس کے عوارض کیا ہیں؟اس کی اقسام اور وجوہات کیا ہیں؟اس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
بہت سے لوگ جب چند منٹوں یا گھنٹوں کے لیے اداس ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں ’مجھے ڈیپریشن ہو گیا ہے؟‘ یہ اس لفظ کا عمومی استعمال ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر یا ماہرینِ نفسیات ڈیپریشن کا نام لیتے ہیں تو ان کے ذہن میں ڈیپریشن کا خاص تصور ابھرتا ہے۔ ڈیپریشن کی کئی قسمیں ہیں۔میں اس مضمون میں چند ایک کا ذکر کروں گا تا کہ آپ کو اس نفسیاتی مسئلے اور ذہنی بیماری کی گھمبیرتا کا اندازہ ہو سکے اور آپ کے ذہن میں اس کے علاج کا واضح تصور ابھر سکے۔
ڈیپریشن کی پہلی قسم GRIEF REACTION کہلاتی ہے جو کسی عزیز کی موت واقع ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ جب کسی شخص کے ماں یا باپ دوست یا قریبی رشتہ دار فوت ہو جاتے ہیں تو وہ اداس ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگ ایسے ڈیپریشن سے عزیزوں کی ہمدردی‘ دوستی اور پیار سے باہر نکل آتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد روزمرہ کی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا اپنے فوت ہونے والے رشتہ دار سے محبت اور نفرت کا جتنا گہرارشتہ ہوتا ہے ان کا ڈیپریشن بھی اتنا ہی گنجلک اور طویل ہو تا ہے اور انہیں کسی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنے نفسیاتی تضاد کا حل تلاش کر سکیں۔ میں ایسے کئی لوگوں سے ملا ہوں جو اپنے عزیز کی موت کے برسوں بعد بھی اس کا سوگ منا رہے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے ان کی زندگی پر ایک گہرا کالا بادل چھایا ہوا ہے ایسے لوگوں کو ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔
ڈیپریشن کی دوسری قسم ڈستھائیمیا DYSTHYMIA کہلاتی ہے۔ ایسی ڈیپریشن کے بہت سے مریض یا تو ایسی ملازمت کر رہے ہوتے ہیں جہاں وہ خوش نہیں ہوتے یا ایسی شادی کا حصہ ہوتے ہیں جہاں وہ ناخوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک تکلیف دہ شادی کے باوجود جذباتی‘ مذہبی یا سماجی وجوہات کی وجہ سے طلاق نہیں لے سکتے۔ جب انسان کسی غیرصحتمند ملازمت یا شادی کا حصہ بنا رہے تو آہستہ آہستہ وہ ڈیپریشن کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایک دن پانی سر سے گزر جاتا ہے اور انسان کسی نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سی خواتین اس لیے ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنا خیال رکھنے کی بجائے دوسروں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔
ڈیپریشن کی تیسری قسم پہلی دو قسموں سے زیادہ سنجیدہ اور سنگین ہوتی ہے۔ ایسا ڈیپریشن ایک ذہنی بیماری کا حصہ ہوتا ہے جسے ہم MANIC DEPRESSIVE ILLNESS OR BIPOLAR DISORDER کہتے ہیں۔ ایسے ڈیپریشن کے دوران مریض کی بھوک مٹ جاتی ہے ،نیند اڑ جاتی ہے ،وزن کم ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ ذہن میں خود کشی کے خیالات آنے لگتے ہیں۔
ڈیپریشن کی بیماری کی وجوہات میں تین قسم کے عوامل اہم ہیں۔
حیاتیاتی وجوہات BIOLOGICAL FACTORS
بعض مریضوں کے لیے ڈیپریشن ایک موروثی مرض ہے کیونکہ ان کے والدین ڈیپریشن کا شکار تھے۔ جب کسی کے رشتہ دار ڈیپریشن کا شکار ہوں تو ایسے شخص کے ڈیپریشن کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ وہ کیمیائی مادے (DOPAMINE, SEROTONIN) پیدا نہیں کرتے جو خوش رہنے کے لیے ضروری ہیں۔
نفسیاتی وجوہات
بعض لوگوں کی شخصیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ مثالیت پسندی IDEALISM کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی ذات اور دوسروں سے توقعات حقیقت پسندانہ نہیں ہوتیں اس لیے وہ اکثر ناامید اور مایوس ہو جاتے ہیں اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سماجی وجوہات
بعض مہاجرین جب ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں ہجرت کرتے ہیں تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اتنا یاد کرتے ہیں کہ ناسٹلجیا کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ڈیپریشن میں حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور سماجی عوامل اہم ہیں اس لیے اس کے علاج میں بھی ان عوامل کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے ڈیپریشن کے علاج میں ادویہ‘ تعلیم اور تھیراپی استعمال ہوتے ہیں۔ تھیراپی میں مریض ایسے نفسیاتی طریقے سیکھتے ہیں جن سے وہ اپنے نفسیاتی مسائل حل کر سکیں اور ایک صحتمند زندگی گزار سکیں۔
بعض خاندانوں اور ممالک میں نفسیاتی بیماریوں اور ڈیپریشن کا علاج معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ قبروں پر دعائیں مانگتے ہیں یا گنڈا تعویز سے علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری نگاہ میں جیسے ہم جسمانی بیماری کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسی طرح ہمیں نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریوں کے لیے ایک ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہیے تا کہ ہم خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔
اگر آپ ڈیپریشن کا شکار ہیں تو آپ کو کسی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ڈیپریشن ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس کا اکیسویں صدی میں تعلیم‘ ادویہ اور سائیکو تھیریپی سے کامیاب علاج ممکن ہے۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ذہنی طور پر صحتمند زندگی گزاریں اور خدمتِ خلق کریں خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔۔ہم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ہم خود خوش نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیسے خوش رکھ سکیں گے۔
احساس تنہائی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ اکیلا رہنے کے باوجود احساسِ تنہائی کا شکار نہیں ہوتے اور بعض لوگ بہت سے لوگوں کے ساتھ رہنے کے باوجود تنہا محسوس کرتے ہیں۔؟ ایک شاعر اور ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں اس سوال پر کافی عرصے سے غور کر رہا ہوں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے بہت کم لوگ اپنی مرضی سے اکیلا رہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کہہ سکتے ہیں اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں۔
احساسِ تنہائی کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آپ کتنے لوگوں کے ساتھ رہتے یا ملتے ہیں بلکہ اس حقیقت سے ہے کہ آپ کتنے لوگوں سے دل کی بات کر سکتے ہیں، غم غلط کر سکتے ہیں، مشکل حالات میں مشورہ کر سکتے ہیں۔ غالب کے کسی مشکل شعر پر تبادلہِ خیال کر سکتے ہیں، کسی نئی کتاب پر تبصرہ کر سکتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر سکتے ہیں۔
میرے مرحوم افسانہ نگار دوست سعید انجم ناروے سے کینیڈا فون کر کے مجھے کہا کرتے تھے کہ تم اتنی دور ہو کر بھی دل کے قریب ہو اور اس شہر میں بہت سے لوگ قریب ہو کر بھی بہت دور ہیں۔ کہتے تھے مجھ سے ہر ہفتے بہت سے لوگ ملنے آتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں ملتا تم ملنے نہیں آتے پھر بھی میں دل ہی دل میں تم سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔
احساسِ تنہائی کا تعلق اپنی ذات کو قبول کرنے اور چند دوستوں کی قربت سے ہے۔ جن لوگوں کے چند مخلص دوست ہوتے ہیں وہ اکیلا رہ کر بھی تنہا محسوس نہیں کرتے اور جن کا کوئی مخلص دوست نہیں ہوتا وہ بہت سے لوگوں کے ساتھ رہ کر بھی احساسِ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔
جو لوگ اپنی تنہائی کو دل سے قبول کر لیتے ہیں وہ زندگی کا یہ راز جان لیتے ہیں کہ تنہائی کا خاموشی سے گہرا رشتہ ہے اور جو لوگ تنہائی اور خاموشی کے عادی ہو جاتے ہیں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے قبول کر لیتے ہیں وہ زندگی کا یہ راز بھی جان لیتے ہیں کہ تنہائی، خاموشی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔
جب ہم ادیبوں اور شاعروں، صوفیوں اور دانشوروں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ جانکاری ہوتی ہے کہ یہ سب لوگ تنہائی، خاموشی اور دانائی سے دوستی کر لیتے ہیں اور جب انہیں یکسوئی میسر آتی ہے تو وہ کبھی لیبارٹری میں برسوں کی ریاضت کے بعد سائنس کے فارمولے دریافت کرتے ہیں یا برسوں کی محنت شاقہ سے ناول تخلیق کرتے ہیں۔ نجانے کتنے ادیبوں اور دانشوروں نے اپنی معرکتہ الارا کتابیں جیل کی کوٹھڑی میں لکھیں جہاں تنہائی، خاموشی اور دانائی نے ان کی بہت مدد کی۔
امریکی ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ ڈیپریشن یا انگزائٹی نہیں بلکہ احساسِ تنہائی ہے۔ جو لوگ اپنے ساتھ تنہا نہیں رہ سکتے وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ بہت زیادہ کام کر کے WORKOHOLIC بن جاتے ہیں، حد سے زیادہ شراب پی کر ALCOHOLIC بن جاتے ہیں اور یا منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال بھی بے حس بننے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے لوگ اپنے ساتھ تنہائی میں وقت نہیں گزار سکتے۔
میں نے اپنے کلینک میں پچھلے تیس برس میں جن نفسیاتی مریضوں اور منشیات کے عادی لوگوں کا علاج کیا ہے اس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اکثریت اپنی ذات کے بارے میں اچھا خیال نہیں رکھتی۔ وہ اپنے آپ کو پسند نہیں کرتے۔ ان کی شخصیت میں LOW SELF ESTEEM ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔
ہم اپنے کلینک میں ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ ایسے کاموں میں شریک ہوں جن سے ان کے احساسِ کمتری میں کمی آئے اور وہ ایسے کام کریں جن پر انہیں فخر ہو۔ ہم بہت سے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ VOLUNTARY WORK کر کے خدمتِ خلق کریں تا کہ ان میں عزتِ نفس پیدا ہو اور وہ اپنی شخصیت اور خدمتِ خلق پر فخر کر سکیں۔ جب لوگوں کا احساسِ کمتری ختم ہو جاتا ہے تو وہ ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ احساسِ کمتری کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے احساسِ تنہائی میں بھی کمی آتی ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھ تنہائی میں وقت گزار کر خوش ہوتے ہیں اور ان کے لیے چند مخلص دوست بنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ مخلص دوستوں کا ایک حلقہ بنائیں جسے ہم FAMILY OF THE HEART کہتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کو بھی دھیرے دھیرے اس نفسیاتی حقیقت کا اندازہ ہو رہا ہے کہ احساسِ تنہائی کی کمی نفسیاتی صحت کے حوالے سے کتنی اہم ہے۔ جوں جوں ہم نفسیاتی صحت کو بہتر سمجھ پا رہے ہیں ہم پر زندگی کا یہ راز منکشف ہو رہا ہے کہ خاموشی، تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔ کالم کے آخر میں میں مجھے اپنے دو اشعار یاد آ رہے ہیں جو میں نے پچیس برس اکیلے اور خوش رہنے کے بعد لکھے تھے۔ وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
وہ دریا بن کے بہتا تھا تو کتنا شور کرتا تھا
سمندر میں وہ جب سے آ ملا خاموش رہتا ہے
عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں