شعر و ادب
گوتم
گوتم کا آخری خطاب
ڈاکٹر اسلم انصاری
مجھے محبت سے سننے والو!
مجھے عقیدت سے تکنے والو!
میرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنیا سجانے والو!
میرے الم آفریں تکلم سے اپنے من کی دنیا بسانے والو!
بدن کو تحلیل کرنے والی ریاضتوں پر عبور پائے ہوئے،
سکوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو!
حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھنے والو!
عزیز بچو!
میں بُجھ رہا ہوں
میں جل چکا ہوں، میرے شعورِ حیات کا شعلہ جہاں تاب بجھنے والا ہے
میرے کرموں کی آخری موج میری سانسوں میں گھل چکی ہے
میں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آ گیا ہوں
تو سُن رہے ہو میرے عزیزو! میں جا رہا ہوں
میں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے، نہ اب کسی چیز پر نظر ہے
میں اب تو صرف اتنا جانتا ہوں، کہ ہستی کے، سکوتِ کامل کے
جُہلِ مطلق کے، (کہ علم مطلق ہے)
بحرِ بے موج سے ملوں گا، تو انت ہو گا
اس التباسِ حیات کا، جو تمام دکھ ہے
میں دکھ اٹھا کر، میرے عزیزو! میں دکھ اٹھا کر
حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھ چکا ہوں
تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے، وجود کی یہ نمود دکھ ہے
حیات دکھ ہے، ممات دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
جدائی تو خیر آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
کہ ملنے والے جدائی کی رات میں ملے ہیں ، یہ رات دکھ ہے
یہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، یہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے کہ اس کے کربِ عظیم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے کہ کون دنیا میں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے
یہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
میرے عزیزو! تمام دکھ ہے
***