چاند کی شکل کیوں بدلتی ہے؟
چاند اپنے محور پر زمین کے گرد ۲؍۱-۲۹ دن میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ ہمیں اس کی جو صورت نظر آتی ہے وہ سورج اور زمین کے مقابلے پر اس کی بدلتی ہوئی جگہوں کے سبب نظر آتی ہے۔ وہ نئے اور نظر نہ آنے والے چاند کے طور پر اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے سفر کے پہلے چوتھائی حصے میں داخل ہوتا ہے اور ایک ہلال کے طور پر نمودار ہوتا ہے جس کا دایاں پہلو روشن ہوتاہے اس کے بعد وہ چڑھتا ہوا چاند ہوتا ہے جو بڑھ کر پورے چاند میں بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے کٹنے یا اترنے کا عمل شروع ہو تا ہے۔
چاند پر سائے کیسے ہیں؟
بہت عرصہ قبل پگھلی ہوئی چٹانیں چاند کی سطح کو توڑتی ہوئی باہر نکلیں اور انھوں نے چاند کے نشیبی علاقوں اور گڑھوں کو بھر دیا۔ یہ بڑے رقبے "Maria"یا سمندرکہلائے۔ کیونکہ زمین سے دیکھنے پر یہ بڑے سمندری علاقوں جیسے نظر آتے تھے حالانکہ چاند پر پانی نہیں ہے۔ قدیم لوگوں نے ان تاریک سایوں کی بابت کہانیاں گھڑیں۔ اس کے برعکس چاند پر پڑے ہوئے گڑھوں کی روشن اور ناہموار سطح کے ارد گرد بنی ہوئی لکیروں اور لہردار اشکال کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خلا سے آ کر چاند کی سطح پر گرنے والے شہابی پتھروں کے ٹکراؤ سے بنے ہیں۔
ستارے کیوں ٹمٹماتے ہیں؟
ستارے اربوں برس سے مسلسل جل رہے ہیں مگر زمین پر وہ ہمیں بس ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ روشنی عام طور پر خط مستقیم میں سفر کرتی ہے مگر جب اسے متحرک ہوا کی لہروں میں سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کے راستے میں خم آجاتا ہے اور وہ قدرے مختلف سمتوں کو چل پڑتی ہے۔ یہی کچھ ستاروں کی روشنی کے ساتھ زمین کی فضا میں ہوتا ہے جہاں ہوا کی تہیں درجہ حرارت اور کثافت میں تبدیلی کی وجہ سے مسلسل حرکت میں ہوتی ہیں۔ ستارے وہ واحد اجسام ہیں جو خود اپنی روشنی خارج کرتے ہیں جبکہ سیارے اور چاند محض روشنی منعکس کرتے ہیں لیکن بلیک ہول ایسے ستارے ہیں جو روشنی کو صرف جذب کرتے ہیں۔
ہم دن کے وقت ستارے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟
سورج کی روشنی کے باعث ہمیں دن میں ستارے نظر نہیں آتے۔ لیکن زمین کی فضا سے باہر خلا میں یہ ہمیشہ واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ دن میں ستارے صرف مکمل سورج گرہن کے وقت نظر آتے ہیں جب سورج کی روشنی کا راستہ رک جاتا ہے۔ جدید شہروں میں گھروں اور گلیوں کی تیز روشنی آسمان کو منور کر دیتی ہے اور ہمارے لیے ستار ے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دیہات کے برعکس شہروں میں آلودگی اور دھول کے ذرات ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ ستاروں کی چمک کو مدھم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہایت چمک دار ستاروں کے سوا دوسرے ستاروں کو دیکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟
اس کائنات میں ان گنت ستارے ہیں جنھیں ہم رات کو آسمان پر دیکھتے ہیں تو پہلی نظر میں یہ انتہائی بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں تاہم جب سے انسان نے رات کا بحری سفر ستاروں کی چال کی مدد سے شروع کیا ہے، ماہرین فلکیات ان ستاروں کے مجموعوں کی شناخت کرتے اور ان کے بارے میں مختلف تصورات قائم کرتے رہے ہیں۔ کائنات کی کروڑوں کہکشائیں اربوں ستاروں سے مل کر بنی ہیں، ان میں سے اکثر جھومتے ہوئے لچھوں کی مانند ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دور دراز واقع کہکشاں بھی جھرمٹ کا حصہ ہو سکتی ہے۔ یہ جھرمٹ ستاروں کا وہ عام سا نمونہ ہے جسے انسانی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے اور جس کا کوئی نام بھی رکھا گیا ہے۔
دم دار ستارے کیا ہوتے ہیں؟
سائنس دانوں کے علم کے مطابق تمام دم دار ستارے ہمارے نظامِ شمسی کے ملبے سے بنتے ہیں۔ ان میں سے ہر دم دار ستارا سورج کے گرد ایک بیضوی مدار میں گردش کرتا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ کسی قریبی سیارے کے اثرات اسے اپنی طرف کھینچ لیں اور وہ ہمارے نظامِ شمسی کی کشش سے باہر نکل جائے۔ کثیف برف کا گولا (Dirty Snow Ball) کے نظریہ کے مطابق دم دار ستارے جمے ہوئے پانی، امونیا، میتھین سے وجود میں آتے ہیں اور ان کے مرکز میں موجود پتھریلی چٹانیں انھیں ٹھوس شکل دے دیتی ہیں۔ کوئی بھی دم دار ستارا جب سورج کے قریب پہنچتا ہے تو اس پر جمی ہوئی برف پگھلتی ہے اور گرد اور گیس کے فوارے سے چھوٹتے ہیں جو اس کی دم بن جاتے ہیں۔ یہ دم سورج کی تیز ہواؤں کی وجہ سے عموماً سورج سے دوری پر رہتی ہے۔
ستاروں کے نام کیوں ہوتے ہیں؟
قدیم زمانے میں لوگ رات کے وقت آسمان پر ستاروں کی چال کو دیکھتے اور اپنے سفری راستوں کا تعین کرتے تھے۔ جب وہ ان ستاروں سے مانوس ہو گئے تو مختلف قوموں کے لوگوں نے ان کو مختلف نام دیے۔ آج بھی بہت سے نام قدیم یونانی زبان کے ہیں۔ جنھیں لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ ستاروں کے چھوٹے جھرمٹوں کو Constellationکانام دیا گیا۔ زیادہ روشن اور چمک دار ستاروں کو ان کے مخصوص نام دیے گئے۔ آج ستاروں کے تقریباً سو جھرمٹ ہیں جنھیں بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
ستارے زمین پر کیوں نہیں گرتے؟
ستاروں اور زمین دونوں میں کھینچنے والی ایک قوت ہوتی ہے جسے کشش ثقل کہا جاتا ہے لیکن چونکہ ستارے زمین سے بہت زیادہ دور ہوتے ہیں اس لیے زمین انھیں اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی اور وہ زمین پر نہیں گرتے۔ زمین کی کشش ثقل تمام چیزوں کو اپنے مرکز کی طرف کھینچنے کا کام کرتی ہے۔ یہ کشش انسانوں کو زمین کی سطح پر روکے رکھتی ہے اور ہوا میں اچھالی جانے والی چیزوں مثلاً گیند وغیرہ کو دوبارہ زمین پر کھینچ کر لاتی ہے۔
شہابِ ثاقب کسے کہتے ہیں؟
زمین پر جلتی ہوئی چٹانوں کے گرتے ہوئے ٹکڑوں کو شہابِ ثاقب کہتے ہیں۔ یہ بیرونی خلا میں تیرتے ہوئے مادوں سے بنتے ہیں جو زمین کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ شہابِ ثاقب خلا سے زمین کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ہوا سے گزرتے ہیں تو گرم ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں جلتی ہوئی لکیر ظاہر ہوتی ہے جسے شہابِ ثاقب کہا جاتا ہے۔ بعض چھوٹے شہابِ ثاقب جل کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن بعض بڑے شہاب ثاقب زمین سے ٹکراتے ہیں اور زمین پر بہت گہرے گڑھے اور بکھرے ہوئے جلے ٹکڑے چھوڑ دیتے ہیں۔
سمندر میں نمک کی کتنی مقدار ہے؟
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کروڑوں سال پہلے سمندر وجود میں آئے تب بھی نمکین تھے اور جب سے آج تک نمکین ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نمک کی مقدار میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً جہاں سمندر میں دریاؤں کا پانی ملتا ہے وہاں سمندر کے پانی میں ۵.۳ فی صد نمک ہوتا ہے ۔ اسرائیل کا بحیرہ مردار دراصل ایک جھیل ہے لیکن اس میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ لوگ با آسانی اس کی لہروں پر بہتے رہتے ہیں۔ جب سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے تو نمک باقی رہ جاتا ہے اور لوگ اسے کھانے اور صنعتی استعمال کے لیے حاصل کر سکتے ہیں۔
سمندر نیلا کیوں ہوتا ہے؟
آسمان کی طرح سمندر بھی ہمیں دیکھنے میں نیلا نظر آتا ہے۔ پانی سوائے نیلے کے تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور وہ نیلا رنگ ہماری آنکھوں میں منعکس ہوتا ہے سمندر کا پانی چونکہ روشنی کو بھی جذب کر لیتا ہے لہٰذا سارا سرخ رنگ، بنفشی رنگ کا بیشتر حصہ اور ۸۰ فی صد نیلا رنگ ۱۵۰ فٹ (۴۶ میٹر) گہرائی میں پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ ۳۶۰ فٹ (۱۱۰ میٹر) پر صرف ایک فی صد روشنی باقی رہتی ہے۔ مختلف قسم کے آبی جانور اور سمندری حیات اس روشنی کو اپنی نشوونما کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ بہت گہرائی میں رہنے والے جانور مکمل اندھیرے کے عادی ہوتے ہیں۔
(بحوالہ: بچوں کا انسائیکلو پیڈیا)