ہار جیت کا اصل دن

مصنف : ندیم اعظم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2005

            انسان کو اس دنیا میں عقل و فہم اور ارادہ و اختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ‘‘جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔’’ (الملک ۶۷:۲)

            انسان کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور دوسرا نافرمانی کا ۔

            اس امتحان میں صراطِ مستقیم کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔

جن میں سے تین اہم ہیں:

٭        ہر انسان کو عقل و شعور سے نوازا اور قرآن حکیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا پیدا کرنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لیے انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے سے بڑا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب صرف ایک ہی ذات ہے باقی کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اس کے ارد گرد بے شمار ایسی نشانیاں پھیلا دی گئی ہیں جن پر معمولی سا غور و فکر کرکے بھی وہ اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آ سکتا۔

٭        دوسری حیرت انگیز چیز ہر انسان کے قلب میں موجود ہے۔ جب بھی انسان غلط کام کرتا ہے تو اس کے قلب کے اندر سے ایک آواز اسے ٹوکتی ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا اور انسان کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اسے ہم ‘ضمیر’ کہتے ہیں اور قرآن اسے ‘نفس لوامہ’ کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اس لیے انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق محسوس کر سکے۔

٭        انبیا اور ان کے ذریعے کتب بھیجیں۔ ان میں سے آخری کتاب قرآن حکیم زندہ معجزہ اپنی اصل شکل میں قیامت تک راہنمائی کے لیے موجود ہے۔

            اس دنیا میں صحت بیماری ، خوشحالی غربت تمام چیزیں صرف اور صرف امتحان کے لیے ہیں۔ ہر انسان کو مختلف حالات میں ڈال کر اسے آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب اس امتحان کا وقت ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہر انسان کا حساب کتاب ہو گا۔ اگر وہ دنیا میں شکر گزار بندہ بن کر رہا ہو گا تو اسے جنت کی صورت میں ابدی انعامات ملیں گے اور اگر اس نے بغاوت کی زندگی بسر کی ہو گی تو اسے سزا دی جائے گی اور جہنم کی شکل میں برا انجام اس کا منتظر ہو گا۔

            موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیزیں سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کر رہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہو گا جو کسی بنک کے اس اکاؤنٹنٹ کا ہوتا ہے جو بنک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنے ذاتی نوٹ سمجھ لے۔

قیامِ قیامت کی تفہیم کے لیے چند مثالیں

٭        ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی ہو اور اچانک سلسلہ منقطع کرکے یہ کہہ دیا جائے کہ فلم ختم ہو گئی تو دیکھنے والوں میں سے کوئی شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ کہانی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے فلم کیوں کر ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ مصنف سے یہ سب توقع رکھتے ہیں کہ وہ کہانی کو اختتام تک پہنچائے اور کہانی کے کرداروں کا حساب بے باق کر دے۔ تو کیا کوئی ذی عقل یہ باور کر سکتا ہے کہ زندگی کی داستان جس کا خالق اللہ ہے موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے جبکہ ابھی کہانی مکمل نہیں ہوئی اور کسی کا حساب نہیں چکایا گیا؟

٭        کسی دفتر میں ایک محنتی اور ایک نکمے کارکن کو یکساں ترقی دی جائے تو ہم اس بے انصافی پر چیخ اٹھتے ہیں۔ تو کیا جس نے انصاف کی یہ خواہش ہمارے اندر رکھی ہے وہ خود ہی انصاف نہ کرے گا؟ یہ ناممکن ہے۔اور پورے پورے انصاف کے لیے قیامت کا قائم ہونا ضروری ہے۔

قیامت کے انکار کی وجہ، اللہ کی قدرت کا صحیح احساس نہ ہونا

            قیامت کے انکار کی بڑی وجہ اللہ کی قدرتوں کے بارے میں بدگمانی ہے کہ یہ اتنا عظیم الشان واقعہ کیسے ہو سکتا ہے۔ قرآن میں عموماً قیامت کے ذکر کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ انسان کو اس دنیا کی چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے ارد گرد دیکھے کہ کیسے مردہ زمین بے رنگ پانی کے آسمان سے برسنے پر لہلہاتے ہوئے کھیتوں، خوشبودار پھولوں، لذیذ پھلوں اور آسمان سے باتیں کرتے درختوں سے بھر جاتی ہے۔ کیسے اللہ نے مویشیوں کے پیٹ میں سے گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ اس کے لیے تخلیق کیا ہے۔ کیسے طرح طرح کے ذائقوں کے ساتھ کیسی کیسی نفیس پیکنگ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پھل، سبزیاں، اناج تخلیق کیے ہیں۔ پھر کیسے خود اس کی ذات ایک عظیم معجزہ ہے۔پانی کے گندے قطرے سے کیسے نو ماہ کے عرصے میں ماں کے رحم میں اس کا بننا، گونا گوں صلاحیتوں کے ساتھ اس دنیا میں آنا پھر مرد و عورت کی شکل میں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی کا وجود میں آنا ہر ایک عظیم نشانی ہے۔

            کسی جادوگرکی چھڑی سے ایک پتھر کوئی آواز نکالے تو اس کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جائیں گے مگر خدا بے شمار انسانوں کو پانی کے ایک قطرے سے بنا کر کیسی حسین شکل میں کھڑا کر دیتا ہے اور وہ نہایت با معنی الفاظ میں بولتابھی ہے مگر پھر بھی اس کو دیکھ کر کسی پر کوئی حیرت طاری نہیں ہوتی۔ خدا کی ہر تخلیق نہایت عجیب ہے مگر چونکہ انسان ان کو برابر دیکھتا رہتا ہے لہٰذا ان کا عجوبہ پن اس کی نظر میں ختم ہو جاتا ہے۔ ان چیزوں میں سے کسی کو بھی اچانک ایک روز آپ پوری توجہ سے دیکھیں تو آپ ایسی حیرت میں ڈوبیں گے کہ خود ہی چلا اٹھیں گے بے شک دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب سے ضروری چیز سبق لینے کا مزاج ہے جس شخص کے اندر یہ مزاج پیدا ہو جائے اس کے لیے دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گی جس پر غور و فکر روزانہ اس کے ایمان میں اضافہ، خالق سے قریب کرنے اور یقین کی بڑھوتری کا باعث بنے گا۔

            قیامت کے منکر کسی دلیل سے انکار نہیں کر سکتے وہ صرف اس لیے نہیں ماننا چاہتے کہ اس طرح انھیں اپنی زندگی پر کچھ پابندیاں لگانا پڑتی ہیں جو انھیں گوارا نہیں چاہے انہیں ابدی جہنم میں جلنے کا خطرہ ہی کیوں نہ مول لینا پڑے۔

            بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اگر اسے کہا جائے کہ تیری اس تنگ اور محدود دنیا سے باہر ایک بڑی ہی وسیع اور خوب صورت دنیا آباد ہے تو وہ کہے گا یہ ناممکن ہے۔ یقینا آپ اس کے اس جواب پر ہنس کر کہیں گے کہ یہ ابھی کم عقل ہے، اس لیے اس کی محدود عقل لا محدود کائنات کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ اس دنیا میں آنے پر اسے خود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اس سے پہلے قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا جس کا اس دنیا سے کوئی مقابلہ ہی نہیں لیکن جب اسے بتلایا جاتا ہے کہ ایک دن یہ جسم بھی فنا ہو کر مٹی میں مل جائے گا اس کے بعد اخروی زندگی پیش آئے گی۔ اس دنیا کی نعمتوں کے مقابلہ میں یہ دنیا بالکل تنگ و تاریک اور قید و بند سے بھر پور ہے۔ تو وہ پھر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ باتیں ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

ہار جیت کا اصل دن

            لوگ دنیا کو ہار جیت کی جگہ سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا کی ہار جیت بالکل بے معنی ہے، ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ‘‘جس دن تم سب کو ایک جگہ جمع ہونے کے دن جمع کرے گا یہی دن ہے ہار جیت کا۔’’

(التغابن۶۴:۹)

قیامت کی ہولناکی قرآن میں

٭        ‘‘جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے اور جب جانیں جسموں سے جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔’’

(التکویر۸۱۔۱۔۱۴)

٭        ‘‘اور جب صور پھونکا جائے گا تو تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اڑ جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے پھر دوسری دفعہ (صور) پھونکا جائے گا تو فوراً سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور (سب کا) اعمال نامہ (ہر ایک کے سامنے) رکھ دیا جائے گا۔ اور پیغمبر اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور سب میں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ذرا ظلم نہ ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے۔’’ (الزمر۳۹:۶۸۔۷۰)

٭        ‘‘مجرم تمنا کرے گا کہ کاش اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو ، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو اور اپنے کنبے کو (جو وقت پڑنے پر) اس کو پناہ دیا کرتا تھا اور تمام (آدمی) جو زمین میں ہیں (سب کو) فدیے میں دے دے پھر، (یہ فدیہ) اسے (عذاب سے) نجات دلا دے۔’’ (المعارج۷۰:۱۱۔۱۴)

٭        ‘‘اس دن ظالم انسان (مارے افسوس کے) اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور ) کہے گا : ‘کاش میں(بھی) رسول ﷺ کے ساتھ (دین کی ) راہ پکڑ لیتا۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں (شخص) کو دوست نہ بنایا ہوتا! اس (کم بخت) نے میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے مجھے بہکا دیا۔’ اور شیطان (کا تو وعدہ ہے کہ وقت پڑے تو )انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔ اور(اس وقت) رسول کہے گا: ‘‘اے میرے رب میری (اس) قوم نے قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔’ (الفرقان۲۵:۲۷۔۳۰)

٭        ‘‘(لوگو) ہم نے تمھیں قیامت (کے عذاب سے) خبردار کر دیا ہے جو قریب ہے۔ اس دن آدمی اس(کمائی) کو دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے (زادِ آخرت بنا کر) آگے بھیجی ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا۔’’ (النباء ۷۸:۴۰)

قیامت کی ہولناکی احادیث میں

٭        ‘‘اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے لے کر موت کے دن تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے سجدہ میں پڑا رہے تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا۔’’ (مسند احمد) یعنی قیامت کی ہولناکی دیکھنے پر نیک ترین انسان بھی سمجھے گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

٭        ‘‘اگر تم وہ باتیں جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ اور اللہ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔’’ (مسند احمد)

٭        ‘‘قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک (اپنی جگہ سے) ہٹ نہ سکیں گے۔ جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے۔ (۱) عمر کن کاموں میں گزاری؟ (۲) جوانی کی توانائیاں کن کاموں میں لگائیں؟ (۳) مال کہاں سے کمایا؟ (۴) حاصل شدہ مال کہاں اور کیسے خرچ کیا؟ (۵) جو علم اسے حاصل ہوا اس پر اس نے کس حد تک عمل کیا؟’’ (ترمذی)

٭        ‘‘جس آدمی نے مال جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی۔ اس کا جمع شدہ مال روزِ قیامت ایک ایسے سانپ کی شکل میں سامنے آئے گا جس کے سر کے بال کثرتِ زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے ہوں گے وہ منہ کھولے گا مالک کے پیچھے بھاگتا ہوا پہنچے گا۔ مال والا اسے دیکھتے ہی بھا گ کھڑا ہو گا۔ سانپ پکار کر کہے گا اپنا چھپایا ہوا خزانہ لے لو، مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ جب مال والے کو یقین ہو جائے گا کہ اب جان نہیں چھوٹتی تو اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا۔ چنانچہ سانپ بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح اس کے ہاتھ کو چبائے گا۔’’ (مسلم)

٭        ‘‘میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کو قتل کیا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو گا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔’’ (مسلم)

قیامت کے دن کے گواہ

(۱)       زمین کی گواہی: ‘‘(زمین) ہر بندہ اور بندی کے متعلق شہادت دے گی کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا۔’’ (مسند احمد)

(۲)       جسمانی اعضاء کی گواہی: ‘‘آج ہم ان کے منہ پر مہر لگائے دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے پاؤں بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ (دنیا میں) کیا کچھ کرتے رہے۔’’

 (یٰس ۳۶:۶۵)

(۳)      فرشتوں کی گواہی: ‘‘دو ضبط کرنے والے (فرشتے اس کے )دائیں اور بائیں بیٹھے (اس کی باتیں) ضبط (تحریر) کرتے رہتے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران (فرشتہ لکھنے کو تیار رہتا) ہے۔’’

(ق۵۰:۱۷۔۱۸)

(۴)      اعمال نامہ کی گواہی: ‘‘اور آدمی اپنے اعمال نامہ کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر کہے گا: ‘‘یہ کیسی کتاب ہے میرا چھوٹا بڑا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو اس نے محفوظ نہ کر لیا ہو۔’’ (الکہف ۱۸:۹۸)

آخری انجام

            ‘‘پھر جب (قیامت کا) ہنگامہ عظیم برپا ہو گا اور جو کچھ آدمی نے (دنیا میں) کیا تھا اس دن وہ اس کو یاد کرے گا اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی۔ تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دی تھی اس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ (ہی ہو گی)۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیشی سے ڈرا تھا اور (اپنے) نفس کو (بری ) خواہشات سے روکتا رہا تھا تو بلاشبہ جنت اس کا ٹھکانہ(ہو گی)۔’’(النازعات۷۹:۳۴۔۴۱)

عقیدہ شفاعت

            احادیث کے مطابق قیامت کے دن انبیاء، صالحین بلکہ بعض اعمال صالحہ بھی شفاعت کریں گے مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ قیامت میں یہ شفاعت کس اصول پر ہو گی اور کن کے لیے ہو گی۔ شفاعت کے بارے میں یہ بات اصولی طور پر جان لینی چاہیے کہ اس کی حیثیت دعا، التجا اور درخواست کی ہے۔ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

            ‘‘کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔’’ (البقرۃ۲:۲۵۵)

            ‘‘اور وہ نہیں سفارش کرسکیں گے مگر صرف اس کے لیے، جس کے لیے اس کی رضا ہو۔’’ (الانبیاء ۲۱:۲۸)

            ‘‘(اس روز) ظالموں کا کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔’’ (المومن ۴۰:۱۸)

             شفاعت قرآن کے بیان کردہ قانون کے مطابق اللہ کی مرضی اور رضامندی سے ہو گی۔ یہ حق کو باطل اور باطل کو حق نہیں بنا سکے گی۔ یہ دراصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار اور ان کے اعزاز کے لیے ہو گی۔اور یہ ان لوگوں کے بارے میں ہو گی جنھوں نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو مقصد بنا کر تمام عمر گزاری ہو گی۔ لیکن پھر بھی بعض کمزوریوں اور گناہوں کے باعث وہ جنت کے مطلوب معیار سے کچھ کم رہ گئے ہوں گے۔ انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہدا اور صالحین کی شفاعت سے امید ہے کہ یہ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔ واللہ اعلم!

            شفاعت سے محروم لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عمدگی سے احادیث میں بیان فرمایا ہے:

            ‘‘کچھ لوگ (روز قیامت) میرے پاس آئیں گے میں انھیں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے لیکن انھیں میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ میرے امتی ہیں (انھیں مجھ تک آنے دو) تو جواب میں مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین میں کتنی بدعتیں داخل کر دی تھیں تو میں کہوں گا دوری ہو، دوری ہو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے میرے بعد دین کے نقشے کو بدل ڈالا۔’’ (متفق علیہ)

            مالِ غنیمت کی چوری کے مسئلہ کے سلسلہ میں آپؐ نے فرمایا:

            ‘‘میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ ہو جو زور سے بلبلا رہا ہو (یہ اس نے دنیا میں چوری کیا تھا) اور یہ شخص کہہ رہا ہو کہ ‘‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے (یعنی اس گناہ کے وبال سے بچائیے) تو میں کہوں گا میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا میں نے تو تجھے دنیا میں یہ بات پہنچا دی تھی۔’’ (مسلم)

            حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور حضرت آسیہ کا شوہر،ان مثالوں پر غو ر فرمائیے۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے رشتے سب سے زیادہ محبوب رشتے ہیں اور پیغمبروں سے زیادہ خدا کا مقرب کوئی نہیں ہو سکتا لیکن جن کے پاس ایمان و نیکی کا توشہ موجود نہیں تھا وہ ان رشتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے تو دوسروں کا کیا ذکر!۔

اخروی زندگی کا دوام

            آخرت کے سلسلہ میں خاص طور پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو زندگی آخرت میں ملے گی وہ پھر کبھی ختم نہ ہو گی۔ بار بار یاد کرنا چاہیے کہ آخرت کی زندگی انجام سے نا آشنا ہو گی۔ وہاں موت کا کوئی وجود نہیں ہو گا ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے اس دنیا میں اگر مسرت کا کوئی لمحہ آ بھی جاتا ہے تو بسا اوقات دل میں یہ کانٹا کھٹک رہا ہوتا ہے کہ کل کیا ہو گا لیکن وہاں اگر کامیاب ہو گئے تو نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے اور نہ مستقبل کے اندیشے۔ اور وہاں کا عذاب، خدا محفوظ رکھے، ناقابل برداشت ہو گا۔ اس حقیقت کو بار بار، بار بار ، بار بار دل و دماغ میں ذہن نشین کرنے کی کوشش جاری رہے تاکہ دنیا کی حقیر نفسانی خواہشات کی بے ثباتی کا احساس اتنا گہرا ہو جائے کہ پھر انسان اللہ کی نافرمانی سے دور تر ہوتا چلا جائے۔ جس کے شب و روز جنت کے تصور، خواہش اور دعا میں کٹتے ہوں اور جو دن میں کئی بار جہنم سے پناہ مانگتا ہو وہ اس گھٹیا چند روزہ عیش کی حرص میں گرفتار ہو کر اپنی آخرت خراب نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ‘‘جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر ایک ہی فکر لگائی یعنی آخرت کی فکر اللہ تعالیٰ دنیوی فکروں کے معاملے میں اس کے لیے کافی ہو جائے گا اور جسے طرح طرح کی دنیوی فکروں نے پریشان کئے رکھا اور وہ آخرت کی فکر کو بھولا رہا تو اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرے گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔’’ (ابن ماجہ)

مراقبہ موت

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ‘‘موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے۔’’(ترمذی)

            کبھی کبھی رات کو عشاء کی نماز کے بعد ،یا خدا توفیق دے تو تہجد میں اپنی موت کا تصور کیجیے۔ تصور میں لائیے کہ کہیں جاتے ہوئے اچانک حادثے میں آپ شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ آپ کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جان بچانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ عزیز و اقارب پریشان کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر بالآخر موت سے ہار جاتے ہیں۔ خود کو مرا ہوا دیکھیں پھر آپ کی لاش گھر لائی جا رہی ہے۔ نہلانا، کفن دینا، رشتہ داروں اور دوستوں کا روناتصور میں لائیں، پھر جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پھر نماز جنازہ پڑھ کر مٹی کے گڑھے میں دفنا کر پتھر کی سلیں رکھی جا رہی ہیں۔ پھر سب مٹی ڈال کر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ گھپ اندھیرا، تنہائی، کیڑوں کی آوازیں۔ اگر کوئی اور سزا نہ ہو تو کیا یوں لیٹے رہنا ہی کچھ کم سزا ہے۔ اب سوچئے کہ میں کیا اعمال لے کر آیا ہوں۔ کسی کا کوئی حق تو میرے ذمے نہیں تھا۔ فلاں کا قرض دینا تھا۔ دے سکتا تھا لیکن غفلت کے باعث آگے ڈالتا گیا۔ فلاں سے زیادتی کی تھی۔ احساس بھی ہوا مگر جھوٹی اکڑ کے باعث معافی نہ مانگی۔ اب کیا ہو گا تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ فلاں دن یہ موقع پیدا ہوا تھا کہ غریب ہمسائے کی مالی امداد کریں مگر جو رقم اس پر خرچ ہو سکتی تھی وہ ایک قیمتی لباس پر خرچ کر دی۔ آج وہ لباس اس دنیا ہی میں چھوڑ آئے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ رقم ایک محتاج کی مدد پر خرچ ہوتی تو یہاں قبر میں ہمارے ساتھ آتی اور اب تو اسے لانے کی کوئی صورت نہیں۔ خوب اپنی کمزوریاں تلاش کیجیے۔ خوب ندامت کے آنسو بہائیے۔ پھر خدا کا شکر ادا کرکے فوراً وہ سب کام کر ڈالیے جن کا نہ کرنا حقیقی موت کی صورت میں جہنم میں لے جانے کا باعث ہوتا ہے۔

راہِ عمل

            اگر دلوں میں یہ خیال جاگزیں رہے کہ یہ زندگی جو آج ہم گزا ر رہے ہیں صرف راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور منزل مقصود وہی ہے جو موت کے بعد ملے گی تو پھر اس راہ پر غم کے کانٹے اگے ہوں یا خوشیوں کے پھول کھلے ہوں، عقلمند مسافر، راہ کو راہ ہی سمجھے گا اور منزل مقصود نہیں بنائے گا۔ اگر راستے میں کانٹے اگے ہوں گے تو وہ صبر و استقامت سے ان کی اذیتیں سہتا سفر جاری رکھے گا اور اگر پھول کھلے ہوں گے تو اس کے لیے اتنی خوشیاں ہی کافی ہوں گی کہ راستہ چلتے ہوئے کانٹوں کی اذیت نہیں سہنی پڑ رہی اور خوشبو سفر کو خوشگوار بنا رہی ہے لیکن ان پھولوں سے لطف اٹھانے کے لیے وہ بہرحال راہ کو منزل بنا کر وہیں بیٹھ نہ جائے گا بلکہ اصل منزل کی طرف گامزن رہے گا۔

            انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اگر راہیں نامعلوم اور دشوار ہوں تو سفر دن کی روشنی میں کسی قابل اعتماد راہنما کے ساتھ طے کیا جائے۔ یہ سفر بھی تبھی منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہے اگر اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنا مولیٰ و مددگار بنا لیا جائے۔کیونکہ وہی ذات ہے جسے اس راہ کے تمام پیچ و خم کی پہلے سے خبر ہے اور وہ ہی ہماری کمزوریوں اور صلاحیتوں کو بھی جانتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ ایمان و دعا کا رشتہ استوار کرکے یہ سفر کیا جائے۔ اسی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجی گئی کتاب میں یہ خبر دی ہے:

            ‘‘پھر اگر تمھیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر (آخرت میں) نہ تو(کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے (اور) وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔’’ (البقرہ۲:۳۸۔۳۹)

             پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دورانِ سفر منزل کا ہر لمحے دھیان رہے۔ قرآن کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو آخرت کے ذکر سے خالی ہو لہٰذا روزانہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن مجیدکو سمجھ کر پڑھنا آخرت کی یاد دل میں تازہ رکھنے اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ احادیث کا کوئی اچھا مجموعہ بھی روزانہ کچھ وقت مطالعہ اور غور و فکر کا موضوع ہونا چاہیے۔ اس سے آپ اس روشنی میں سفر کریں گے جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ اپنی رحمت میں سے تم کو دوہرا حصہ دے۔ اور تم کو (ایسا) نور عنایت کرے جس (کی روشنی) میں تم چلو اور تمھاری مغفرت فرمائے اور اللہ غفور رحیم ہے۔’’ (الحدید۵۷:۲۸)

آخری بات

            جس امتحان کو انسان زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی اتنی ہی زیادہ تیاری بھی کرتا ہے۔ ایک ہونہار طالب علم کے لیے امتحان کی تیاری کے دنوں کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ ان دونوں میں تمام غیر ضروری کام چھوڑ دیے جاتے ہیں بسا اوقات غذا اور راتوں کی نیند بھی کم کر دی جاتی ہے۔

            یہ تو ان امتحانوں کا حال ہے جن پر بہرحال زندگی اور موت منحصر نہیں ہوتی اور جن میں ایک بارفیل ہو جانے کے بعد دوبارہ بیٹھنے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے تو پھر کیا صورت ہو گی اس امتحان کی جس پر ابدی نجات منحصر ہے جس میں فیل ہو جانے کے بعد کوئی دوسرا موقع امتحان دینے کا حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی تھوڑا سا وقت تیاری کے لیے ملا ہے جسے ہم دنیاوی زندگی کہتے ہیں یہ مختصر سا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا ایک سیکنڈ بھی دوبارہ نہیں مل سکے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ‘‘وہ دوزخ میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال(اب) ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان اعمال کے جو ہم (پہلے) کرتے رہے تھے۔ (ارشاد ہو گا:)‘‘کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کسی کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سوچ سمجھ لیتا۔’’ (فاطر۳۵:۳۷)

            اس آیت پر جتنا غور کیجیے کم ہے۔ اب جبکہ ہم زندہ ہیں اور موت سامنے نظر بھی نہیں آ رہی یہی وقت ہے نصیحت پکڑنے کا۔ ورنہ کچھ خبر نہیں کہ کب وہ وقت سر پر آجائے کہ ہم تڑپ تڑپ کر درخواست کریں کہ ہمیں دوبارہ عمل کا موقع دیا جائے مگر ہمیں وہی جواب دیا جائے جو نافرمانوں کو دیا جاتا ہے کہ ‘‘کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی۔’’

            اللہ تعالیٰ ہمیں درست راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)

٭……٭……٭