میرے مطب میں کراچی سے چترال تک سبھی علاقوں کے مریض آتے ہیں۔مریضوں کے علاوہ بے شمار اطباء بھی جو خود ادویات تیار نہیں کر سکتے، ادویہ لینے تشریف لاتے رہتے ہیں۔ میں جہاں مریضوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں وہیں ان نو آموز طبیبوں سے بھی بہت کچھ حاصل کرتا ہوں۔ ڈاکٹر، ہومیو پیتھ، وید، حکیم اور وکیل خواہ کتنے ہی لائق ہوں، ان کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ پریکٹس (کام) کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ ان کی مشق مکمل ہو گئی اور وہ اپنے فن میں یکتا ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات مریضوں سے بھی کچھ ایسے نکات حاصل ہو جاتے ہیں یا ایک آدھ نسخہ مل جاتا ہے جو طبیب کے مطب کی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
میرے بزرگ دوست رانا اللہ داد خاں صاحب ایک کامیاب انجینئر ہونے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘‘میں نے ہمیشہ ایک مزدور اور ایک مستری سے بھی سیکھا ہے۔ ان کے پاس سے بعض اوقات ایسی چیزیں مل جاتی ہیں جو تربیت یافتہ انجینئر کو بھی معلوم نہیں ہوتیں۔’’
لاہور کے قریب گاؤں سے ایک نوجوان اور ناتجربہ کار معالج دوسرے تیسرے ماہ میرے پاس آیا کرتے تھے۔ وہ اکثر ادویہ، موقع بے موقع مریض کو استعمال کروا دیتے اور زیادہ تر سستی دوائیں مریضوں کو فروخت کرتے تھے۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھ سے وہ ایک مہنگی دوا ‘‘کشتہ طلا ہیرے والا’’ لے گئے ۔ یہ دوا ہم نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے تیار کی تھی۔ مہنگی دوا ہونے کے باوجود اس نے مرض پر خاطر خواہ اثر نہ کیا، اس لیے میں اسے بہت کم استعمال کرواتا تھا۔ اعصابی اور دماغی کمزوری وغیرہ کے لیے بھی بہت سی دوائیں ہیں، اس لیے شاذ ہی کشتہ طلا ہیرے والا کے استعمال کی نوبت آتی۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ نوجوان طبیب دوسرے تیسرے دن اس کی ایک دو شیشیاں لے جاتے۔ ایک دفعہ میں تنہا بیٹھا تھا کہ وہی حکیم صاحب کشتہ لینے آگئے۔ میں نے انھیں بٹھا لیا۔ چائے وائے پلائی اور ان سے پوچھا کہ آپ تو ایک چھوٹے سے گاؤں میں مطب کرتے ہیں، کیا وہاں یہ مہنگی دوائی بک جاتی ہے؟ نیز یہ بھی پوچھا کہ وہ کس مرض کے لیے اسے استعمال کراتے ہیں؟حکیم صاحب کہنے لگے ‘‘جن مریضوں کے مادہ منویہ میں جراثیم نہیں ہوتے، انھیں استعمال کرواتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے تین ہفتوں میں صفر سے ستر فیصد تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں اولاد سے نواز دیتا ہے۔’’میں نے ان سے پوچھا کہ اس فائدے کا علم انھیں کیسے ہوا؟ یہ نسخہ کنز المجربات میں درج ہے لیکن وہاں ذیابیطس اور اعصابی کمزوری دور کرنے کے لیے ہے مگر آپ جو فائدہ بتا رہے ہیں، وہ نہ تو کنز المجربات میں ہے اور نہ ہی اس کے اجزاء میں سے کسی کا یہ فائدہ میں نے کہیں اور پڑھا ہے۔
انھوں نے جو کچھ بتایا اس کی داستان انہی کی زبانی سنیے:
آج سے چند ماہ پہلے میں کشتہ طلا ہیرے والا آپ سے لے کر گیا تھا۔ مہنگی دوائی ہے لہٰذا اس کے استعمال کا کبھی موقع ہی نہ آیا۔ ایک دن پچپن چھپن سال کے ایک امیر کبیر بزرگ میرے پاس تشریف لائے۔ علاقہ کے بڑے زمیندار ہیں۔ مجھے کہنے لگے کہ ذیابیطس کا مریض ہوں، کوئی ایسی دوا دیں جس سے چند خوراک ہی میں یہ مرض دور ہو جائے۔ دوا کے مہنگا یا سستا ہونے سے غرض نہیں۔میں نے اپنی دوائیوں پر نظر ڈالی تو کشتہ طلا ہیرے والا ہی مجھے زیادہ مناسب معلوم ہوا۔ انھیں کہا کہ ہفتے میں ایک روز ،ایک کیپسول رات کو سوتے وقت دودھ سے لے لیں۔ بعد کو دو تین بار وہ پھر آئے کیونکہ انھیں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ لیکن پھر کافی عرصہ گزر گیا، وہ دوبارہ تشریف نہ لائے۔ میں بھی یہ واقعہ بھول گیا۔
ایک دن اچانک میرے پاس آئے۔ مٹھائی کا ڈبہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ کہنے لگے ‘‘مبارک ہو۔ یہ مٹھائی میں آپ کے لیے لایا ہوں۔’’میں نے حیران ہو کر پوچھا ‘‘کیا ذیابیطس ٹھیک ہو گئی ہے؟’’ کہنے لگے ‘‘نہیں وہ تو اسی طرح ہے۔’’میں نے پوچھا ‘‘پھر یہ مٹھائی کس خوشی میں؟’’کہا ‘‘وہی تو میں آپ کو بتانے لگا ہوں۔ میری شادی کو تیس سال ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے کسی بچے بچی سے نہیں نوازا۔ طبی معاینہ کروایا تو پتا چلا کہ سرے سے جراثیم ہی نہیں ہیں۔ میں اور میری بیوی صبر شکر کرکے بیٹھ گئے اور اس بات سے مایوس ہو گئے کہ ہماری جائیداد سنبھالنے والا کوئی وارث بھی ہو گا۔ پاکستان کے ہر بڑے طبیب، ڈاکٹر ، سادھو، سنیاسی اور عامل کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔’’‘‘ میں آپ کے پاس ذیابیطس کی دوا لینے آیا تھا لیکن اللہ نے کرم کیا اور میری بیوی حاملہ ہو گئی۔ میں نے اپنا طبی معاینہ کروایا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی، ستر فیصد تک متحرک جراثیم موجود تھے۔’’کچھ عرصہ بعد وہ پھر تشریف لائے۔ بہت سے تحائف ان کے ساتھ تھے۔ اس دفعہ وہ بیٹے کی خوش خبری لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت سے مریض میرے پاس بھیجے اور اللہ نے سب کو بار آور کیا۔میں نے انھیں زور دے کر پوچھا ‘‘کیا واقعی جراثیم صفر تھے یا کچھ زیادہ؟’’انھوں نے کہا ‘‘میں نے طبی معاینے کی رپورٹیں دیکھی تھیں، پہلی تمام صفر تھیں لیکن آخری رپورٹ میں ستر فیصد جراثیم موجود تھے۔’’
میرے مطب میں بھی مردانہ بانجھ پن کے مریض آتے تھے لیکن دس پندرہ فیصد سے کم جراثیم والوں کو میں واپس کر دیتا اور کہتا کہ میں اس کا علاج نہیں کر سکتا لیکن زیادہ تعداد میں جراثیم والے اللہ کے فضل سے صاحب اولاد ہو جاتے تھے۔ اب مجھے یہ نیا نسخہ ملا، تو اگلے روز ہی پتوکی سے ایک مریض آگیا جس کے جراثیم صفر تھے۔ پس خلیے بھی ۵ تا ۶ فیصد تھے۔ میں نے اللہ سے دعا کی اور لبوبِ سلیمانی صبح نہار منہ ۶ ماشہ، صبح شام بعد از غذا حب رحمت ایک کیپسول دودھ کے ہمراہ کھانے کے لیے دیا۔اس کے دوبارہ میرے پاس آنے سے پہلے اسی نوعیت کے دو اور مریض بھی آئے۔ سب کو میں نے یہی دوا دی۔ تیسویں روز پتوکی والے مریض آئے، تو الحمدللہ ستر فیصد جراثیم موجود تھے۔ بعد میں دوسرے دونوں مریضوں میں بھی یہی کیفیت رہی۔ ان ہی دنوں ایک مریض ایسے بھی میرے پاس آئے جنھوں نے بتایا کہ ان کے مادہ منویہ میں پیدائشی طور پر جراثیم نہیں، کیا ان کا علاج بھی ممکن ہے؟ میں نے انھیں ایک ماہ یہی دوا کھلائی۔وہ نئی رپورٹ لائے تو پانچ فیصد جراثیم موجود تھے۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ میں نے اس دوا کے ساتھ کشتہ زمرد اور کشتہ یاقوت ایک ایک رتی نہار منہ اضافہ کرکے پھر دوا دی۔ اگلے ماہ الحمدللہ پینتالیس فیصد جراثیم موجود پائے گئے۔ یہی دوا تیسرے ماہ دی گئی۔ مہینہ گزرنے پر کہنے لگے کہ خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رپورٹ لائے ہیں؟ کہنے لگے لایا تو ہوں لیکن دیکھی نہیں۔ان سے رپورٹ لے کر دیکھی تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی، پچانوے فیصد جراثیم موجود تھے۔ اس کے بعد انھیں مقوی اور محرک دوائیں دیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب وہ خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
آج تیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ تقریباً روزانہ بے اولادی کے مریض آتے اور شفا پاتے ہیں۔ یہ نسخہ جات جن کا میں نے ذکر کیا ہے، والد گرامی حکیم عبداللہ کی کتاب کنز المجربات میں موجود ہیں۔ کشتہ طلا ہیرے والا جھنگ کے مشہور سنیاسی اور مہوسی سائیں دڑکی شاہ کا نسخہ ہے۔ لبوب سلیمانی والد صاحب کا اپنا تجویز کردہ نسخہ ہے۔ کشتہ زمرد اور یاقوت بھی کنز المجربات ہی میں درج ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں اتنا عرض کردوں کہ طب کے موضوع پر اردو زبان میں یہ سب سے مستند سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں اس کے ۶۷ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ حالیہ ایڈیشن میں حب رحمت کا نسخہ غلطی سے چھپنے سے رہ گیا۔ اس میں کشتہ چاندی اور ریٹھہ ہم وزن شامل کرکے چنے کے برابر گولیاں بناتے ہیں۔ ریٹھہ صرف پس خلیے بڑھانے کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ یہ مادہ تولید بھی بڑھاتا اور ان میں متحرک جراثیم پیدا کرتا ہے۔
آج سے پانچ چھ سال قبل سرگودھا کے نواحی گاؤں سے ایک صاحب میرے پاس مطب میں تشریف لائے۔ بے شمار عسر العلاج امراض کے نسخے پوچھے جو کچھ میرے علم میں تھا انھیں سب بتا دیئے۔ فرمانے لگے ‘‘بخل شکن باپ کا بیٹا بھی ویسا ہی نکلا۔ اب میں ایک نسخہ آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں جو میری عمر بھر کی کمائی کا نچوڑ ہے۔’’ انھوں نے پھر جو نسخہ بتایا وہ یہ تھا:ریٹھے کا چھلکا لے کر دو حصے کر لیں۔ دو ماہ تک روزانہ ایک حصہ میاں اور ایک حصہ بیوی صبح ناشتہ کے ایک گھنٹہ بعد تازہ پانی سے کھائے۔ ان شاء اللہ جراثیم خواہ بالکل ہی نہ ہوں، وہ قابل اولاد ہو جائیں گے۔
انھوں نے پھر مجھے ایک رسید دکھائی اور بتایا:‘‘میں نے گجرات کے ایک زمیندارکا علاج ابھی حال ہی میں کیا ہے اور اس ۶۴ سالہ بابے کو اللہ نے نرینہ اولاد سے نوازا۔ مجھے وہ گجرات لے کر گئے، تحفتاً ایک بھینس میری نذر کی اور اسے ٹرک میں لدوا کر گجرات سے سرگودھا بھجوایا۔ یہ اسی کی رسید ہے۔’’میں نے ان سے کہا کہ آپ کے احسان کے بدلے، میں بھی ایک نسخہ آپ کی نذرکرتا ہوں جو ریٹھے ہی سے متعلق ہے۔ ریٹھے کی گٹھلی کا مغز نکال کر روزانہ رات کو سالم گری دودھ سے لیں، تو چند دن کے استعمال سے اللہ تعالیٰ ذیابیطس کے چنگل سے نجات دے دیتا ہے۔ وہ صاحب بہت خوش ہوئے اوردعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔