جواب: ایک مسلمان درج ذیل صورتوں میں اپنا مسلم ملک چھوڑکر غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔
(۱) مسلمان طالب علموں کو شرعاً مکمل آزادی ہے کہ وہ بیرونِ ملک جا کر علم حاصل کریں۔ علم کے حصول کے لیے غیر مسلم ممالک میں جا کر غیر مسلموں سے استفادہ کرنا شرعاجائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہو جاتا ہے مثلاً اپنے اسلامی ملک کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقسام کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے مسلمان طلبہ کا دوسرے ممالک میں جانا ، کیونکہ دنیا میں ایسے دور میں داخل ہو گئی ہے کہ کسی قوم کا خصوصی ٹیکنالوجی کے بغیر آزاد اور زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ حضور سرورِ کائنات نے بعض صحابہ کرام کو غیر مسلم ممالک میں ان کی زبانیں سیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ اورحدیث صحیح ہے کہ الحکمۃ ضالۃ المؤمنین کہ دانائی اور علم مومن کی گم شدہ متاع ہے جسے وہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ احادیث نبویہ میں علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز ممالک میں جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(۲) اگر ایک مسلمان ایسے ملک میں رہتا ہو جس میں ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہو اور اسے بغیر کسی جرم کے اذیت پہنچائی جا رہی ہو یا قید و بند میں بلا وجہ رکھا جا رہا ہو یا اس کی جائیداد ناحق ضبط کی جا رہی ہو، ایسا شخص اگر کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرے، جہاں اس کو امن و سکون حاصل ہو تو ان مظالم سے بچنے کے لیے وہ غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرنے کا مجاز ہے، بشرطیکہ اس کا دین و ایمان وہاں محفوظ ہو اور منکر اور فواحش اختیار نہ کرے جو اکثر غیر مسلم ممالک میں رائج ہوتے ہیں۔ اور یہ اطمینان کر لے کہ وہاں جا کر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کاربند رہے گا اور اپنی عصمت اور پاکدامنی محفوظ رکھ سکے گا۔
(۳) اگر ایک مسلمان معاشی مشکلات کا شکار ہے اور اپنے ملک میں تلاش بسیار کے باوجود وہ نان جویں کا بھی محتاج رہے، ان حالات میں اگر اس کو کسی غیر مسلم ممالک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے جس کی خاطر وہ وہاں رہائش اختیار کرے تو یہ اس کے لیے جائز ہے بشرطیکہ دین کے بارے میں وہاں اسے اطمینان ہو کہ محفوظ رہے گا، منکرات و فواحش سے بچ سکے گا اور ملازمت بھی جائز ہو کہ کسی حرام کام میں ملوث نہ ہو۔ اس لیے کہ حلال روزی کمانا ایک فریضہ عبادت ہے جس کے لیے شریعت نے کسی مکان اور علاقے یا شہر یا ملک کی قید نہیں لگائی، بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو اللہ کی زمین کی وسعتوں میں رزق حلال تلاش کرو۔ چنانچہ سورہ ملک کی آیت ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور‘‘وہ ایسی ذات ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو مسخر کر دیا اب تم اس کے راستوں میں چلو اور خدا کی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔’’ یہ آیت رزق حلال کی تلاش تمام روئے زمین میں جائز گردانتی ہے۔
(۴) چوتھی صورت یہ ہے کہ ایک مسلمان دعوت و تبلیغ کی نیت سے غیر مسلم ملک میں چلا جائے اور وہاں معاشی گزارہ کے لیے کوئی ملازمت یا کاروبار اختیار کرکے رہائش شروع کر دے اور دعوت دین کو ہدف اور مقصد اولین سمجھ کر کاروبار کو ثانوی حیثیت دے، اس صورت میں غیر مسلم ممالک میں ایک مسلمان کا رہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ موجب اجر و ثواب ہے۔ چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور تابعین رحم اللہ نے اسی نیک مقصد کے ارادے سے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کی جو بعد میں ان کے فضائل و مناقب میں شمار ہونے لگی۔ اور ان کی ان کاوشوں سے دنیا میں اسلام پھیل گیا۔
لیکن اگر کسی شخص کو اپنے ملک میں اور اپنے ہی شہر میں اس قدر معاشی وسائل و ذرائع حاصل ہوں جن سے وہ اپنے ماحول کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہواور آسودہ حال ہو تو صرف معیار زندگی کو عام ماحول سے بلند کرنے بلکہ عیاشی کی حد تک پہنچانے کی غرض سے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک میں جا بسنا اور محض اس خاطر مسلم معاشرہ چھوڑ کر کافروں کے درمیان مستقل رہائش اختیار کرنا کراہت سے خالی نہیں بلکہ نا پسندیدہ ہے۔ اس لیے کہ اس ذہنیت کو اپنانے والا اکثر فواحش و منکرات میں ملوث ہو جاتا ہے۔ صرف اپنی دنیاوی خواہشات کی خاطر بلا ضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کو خطرے میں ڈالنا درست نہیں، اس لیے کہ تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ جو لوگ صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے ایسے ممالک میں رہائش اختیارکرتے ہیں ان میں دینی حمیت کمزور پڑ جاتی ہے اور کافرانہ محرکات کے سامنے بڑی تیزی سے پگھل جاتے ہیں اور کوئی مزاحمت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حدیث شریف میں شدید ضرورت کے بغیر مشرکین کے درمیان رہنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابو داؤد نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: من جامع المشرکین وسکن معہ فانہ مثلہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اس مشرک کی مانند ہے۔
اور حضرت جریر بن عبداللہؓسے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا ‘‘میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: یا رسول اللہ اس کی وجہ کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: اسلام کی آگ اور کفر کی آگ ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرک کی آگ ہے۔’’ امام خطابی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘مختلف اہل علم نے اس قول کی تشریح مختلف طریقوں سے کی ہے۔ چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اور مشرک حکم کے اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے، دونوں کے مختلف احکام ہیں۔ اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام اور دارالکفر کو الگ الگ کر دیا ہے لہٰذا کسی مسلمان کے لیے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے اور یہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت پذیر ہو، تو دیکھنے سے یہی خیال کریں گے کہ یہ بھی انھیں میں سے ہے۔ علماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی درالکفر جائے تو اس کے لیے بھی وہاں ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے۔
میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو مسلمان کافروں کے درمیان رہتا ہو، اس کی اولاد یہودو نصاریٰ اور مشرکین کی اولاد کے ساتھ میل جول رکھنے سے بچ نہیں سکتی اور بچے کی فطرت نسبتاً زیادہ اثر پذیر ہوتی ہے اس لیے مسلمان بچے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے بچوں کے عادات و اطوار اپنائیں گے۔ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ جو مسلمان بچے امریکا اور یورپ میں تربیت پاتے ہیں، اخلاقی لحاظ سے یہود و نصاریٰ کے بچوں کے عین مانند ہوتے ہیں اور یہ مستقبل میں والدین کے لیے دردسر بن جاتے ہیں کیونکہ یورپی معاشرہ میں بزرگوں کی خدمت کرنے کا تصور سرے سے مفقود ہو گیا ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت جو ان کی اولاد کرتی ہے۔ یہ ہے کہ ان کو بوڑھوں کے ہاسٹل میں داخل کرا کر ماہ بماہ فیس ادا کرنے کے لیے حاضر ہواور بس۔ اس کے برعکس مسلمان معاشرہ میں ابھی تک بزرگوں کا ایک اہم مقام موجود ہے ۔ ان کی اولاد بڑھاپے کا سہارا بن جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنا اپنا فرض بلکہ باعث فخر سمجھتی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والے تو ان کے سامنے اف تک بھی نہیں کرتے بلکہ ان کے حق میں اللہ سے رحم اور مغفرت کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں مستقل رہائش رکھ کر ایک خاندان معاشی طور پر خوشحال تو ہو سکتا ہے مگر انسانی اور اخلاقی اقدار سے وہ اور اس کی اولاد محروم ہوئی تو زندگی وبال جان بن جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب!
(مولانا فضل ربی)
جواب: کسی مسلمان یا اہل کتاب کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے اس وقت حلال ہو گا جب وہ درج ذیل شرائط پوری کرے۔
(۱) ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر وغیرہ پڑھنا یعنی جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ضروری ہے۔ اگر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا اللہ کے علاوہ کوئی اور نام لیا گیا تو وہ مردار ہو جائے گا اور اس جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہو گا۔
(۲) یہ بھی ضروری ہے کہ ٹھیک شرعی طریقہ پر گلے کی رگوں کو کاٹا جائے اور جانور کا دم مسفوح نکل کر بہہ جائے جو مردار ہے۔ اگر جانور کے گلے پر صرف کٹ لگایا گیا اور گلے میں دو بڑی خون کی نالیوں کی رگوں کو نہ کاٹا گیا اور ان رگوں سے خون باہر نکل کر بہہ نہیں گیا تو بھی اس جانور کا گوشت کھانا حلال نہیں ہو گا۔
مسلمان تو الحمدللہ ان شرائط کی پابندی کرتا ہے، اس لیے اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے اور اگر خدانخواستہ وہ بھی ان شرائط کی پابندی نہ کرے تو اس کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہو گا۔
یہود و نصاریٰ جن کو قرآن میں اہل کتاب کہا گیا ہے، نزولِ قرآن کے وقت جانور ذبح کرتے وقت ان شرائط کی پابندی کرتے تھے مگر اب مشاہدہ میں یہ آیا ہے کہ ان میں سے اکثر ان شرائط کی پابندی نہیں کرتے اس لیے ان کا ذبیحہ اس وقت تک حلال نہ سمجھا جائے جب تک یہ تسلی اور اطمینان نہ کر لیا جائے کہ ان شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔
(مولانا فضل ربی)