(نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے مشہور افسانوں سے ایک انتخاب)
البرٹ کامیو ، ترجمہ: خاقان ساجد
انتخاب: الطاف محمود
وطن کی محبت ، مروت، وفاداری، اعلی انسانی اقدار اور نازک انسانی جذبوں کے نشیب و فراز کی اچھوتی داستان
مصنف کا تعارف:۔ البرٹ کامیو کا شمار دنیائے ادب کے ان عظیم مصنفین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے افکار کی بدولت ایک عالم کو متاثر کیا۔ فرانس کا یہ شہرہ آفاق فلسفی، مضمون نگار، ڈراما نویس، ناول نگار اور افسانہ گو ۱۹۱۳ء میں ایک غریب کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوا۔ کامیو کا بچپن ایک ایسے ماحول میں گذرا جو غربت و عسرت کے عفریت سے سہما ہوا تھا، تاہم ان مصائب کے باوجود جو بچوں کے ہاتھ سے کتاب چھین کر انہیں کشکول تھما دیتے ہیں، کامیو نے ایک ذہین اور خوددار بچے کی حیثیت سے اپنی تعلیم جاری رکھی اور اپنی محنت و ذہانت کے بل بوتے پر ہر درجے میں تعلیمی وظیفہ حاصل کیا۔ جب وہ الجیریا یونیورسٹی میں داخل ہوا تو وہاں اسے بڑے بڑے صاحبانِ علم اساتذہ اور دوسرے ذہین طلباء کی صحبت میسر آئی، جن کی مجالس نے اس کے ذہن کو جلا بخشی۔ یونیورسٹی میں اس نے فلسفہ کے مضمون کو اختیار کرنا پسند کیا اور تحصیل علم کے دوران دوسرے فلسفیوں اور مفکروں کے ساتھ مل کر فلسفہ میں ایک نئے مکتب فکر وجودیت (Existentialists) کی بنیادڈالی۔ کامیو کے افکارنے فلسفہ کے جدید رحجانات پر جس طرح اپنے اثرات مرتب کیے، اس میدان کے طالب علم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ فلسفہ کے علاوہ اس نے نثری ادب کو بھی لائق توجہ سمجھا اور مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی، بالخصوص ناول نویسی کے میدان میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ بڑے بڑے ادبا انگشت بدنداں رہ گئے، اس کے ناولوں خصوصاً اجنبی، طاعون اور سلطنت نے عالم گیر شہرت حاصل کی اور بیرونی دنیامیں نقاد و قارئین ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ۱۹۵۷ء میں جب اس کی عمر محض چوالیس برس تھی، اسے ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اتنی کم عمری میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا وہ اولین ناول نگار تھا۔ البرٹ کامیونے شاہکار ناول ہی تصنیف نہیں کیے، نقش گر کہانیاں اور افسانے بھی تخلیق کیے۔ اس کی اکثر کہانیاں فرانس کی نو آبادی الجیریا کے حالات و ماحول کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں ، جہاں اس نے اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا اور جس سرزمین سے اسے دلی لگاؤ تھا۔ زیر نظر کہانی کا خمیر بھی الجیریا کی مٹی ہی سے اٹھا ہے۔ کہانی کے بارے میں ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کہ اس کہانی کے لیے یہی کہناکافی ہے کہ ‘‘اسے البرٹ کامیونے لکھا ہے۔’’ کامیو ۱۹۶۱ء میں ایک حادثے میں وفات پا گیا اور اپنی دل پسند سرزمین کو آزادی سے ہمکنار ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکا۔
اسکول ماسٹر دونوں آدمیوں کو چڑھائی چڑھ کر اپنی طرف آتے دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے ایک گھوڑے پر سوار تھا جبکہ دوسرا پیدل چل رہا تھا ۔ وہ برف میں راستہ بناتے، پتھروں کے درمیان سے گزرتے، اس غیر آباد سطح مرتفع پر آہستہ آہستہ بڑھے چلے آ رہے تھے۔ گھوڑا ہانپ رہا تھا۔ ماسٹر کو اگر چہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، پھر بھی وہ گھوڑے کے نتھنوں سے تیزی سے نکلنے والا سانس دیکھ سکتا تھا۔ دونوں آدمیوں میں سے کم از کم ایک اس علاقے سے واقف تھا، کیونکہ اس حقیقت کے باوجود کہ پگڈنڈی کئی دنوں سے گدلی برف کے نیچے چھپی ہوئی تھی، وہ دونوں صحیح راستے پر قدم رکھ رہے تھے۔ اسکول ماسٹر نے اندازہ لگایا کہ انہیں پہاڑی پر پہنچنے میں آدھ گھنٹہ لگے گا۔ موسم بہت سرد ہو گیا تھا۔ وہ واپس اسکول کی طرف پلٹ گیا، تاکہ سویٹر پہن لے۔اس نے خالی اور یخ بستہ کمرہ جماعت کو عبور کیا۔ تختہ سیاہ پر فرانس کے چار دریا جو مختلف رنگ کے چاکوں کی مد د سے تین روز سے بنے ہوئے تھے، اسے اپنے دہانوں کی طرف بہتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وسط اکتوبر میں آٹھ ماہ کی خشک سالی اور اس دوران میں کسی قسم کی بارشوں کے بغیر اچانک برف باری ہوئی تھی اور اس کے لگ بھگ بیس شاگردوں نے، جو اس سطح مرتفع پر دور بکھرے ہوئے دیہات سے پڑھنے آتے تھے، اسکول آنا چھوڑ دیا تھا۔ موسم بہتر ہونے سے پہلے ان کی آمد خارج از امکان تھی۔ دارو نے اپنے کمرے میں جاکر جو کمرہ جماعت سے ملحق اور مشرق کی سمت تھا، آتش دان میں آگ جلائی۔ آتش دان کے سامنے بیٹھ کر جب دارو نے خود کو کافی گرما لیا تو وہ اٹھا اور باہر دوبارہ ان آدمیوں کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ دونوں اسے دکھائی نہیں دیے۔ یقینا وہ اونچائی سے نبرد آزما ہو چکے ہوں گے۔
مسلسل تین روز شدید برف باری ہوتی رہی تھی اور سخت سرد ہوائیں کمرہ جماعت کے دہرے دروازوں پر دستک دیتی رہیں تھیں۔ اس وقت دارو کو پہروں اپنے کمرے میں مقید رہنا پڑا تھا ۔ خوش قسمتی سے شمالی گاؤں جدید سے آنے والے سپلائی ٹرک نے برفانی جھکڑ سے دو روز پہلے اسے راشن پہنچا دیا تھا، ورنہ بہت مسئلہ ہوتا۔ اب اس ٹرک کو اڑتالیس گھنٹے کے بعد دوبارہ آنا تھا۔اسے کچھ نہ بھی پہنچایا جا سکتا تو وہ برفباری میں محصور رہ کر بھی چند دن گزار سکتا تھا کیونکہ اس کا چھوٹا سا کمرہ گندم کے ان تھیلوں سے بھرا ہوا تھا، جنہیں انتظامیہ نے اس غرض سے وہاں بھجوایا تھا کہ انہیں ان طالب علموں میں تقسیم کر دیا جائے جن کے کنبے خشک سالی سے متا ثر ہوئے تھے۔ در حقیقت سبھی متاثر ہوئے تھے، کیونکہ وہ سب کے سب غریب تھے۔ ہر روز دارو، ان بچوں میں راشن تقسیم کرتا تھا، مگر ان چند دنوں میں غیر حاضر ہونے کی وجہ سے ، انہوں نے راشن حاصل نہیں کیا تھا۔ اس بات کا امکان موجود تھا کہ ان کے بڑے بھائیوں یا باپوں میں سے کوئی آج سہ پہر آ جائے اور وہ انہیں راشن دے دے۔ اس کسمپرسی اور مصیبت کو بھلانا آسان نہ تھا، جو کئی مہینے سورج کی تپش سے جھلسی ہوئی اس سطح مرتفع پر وارد ہوئی تھی اور جس میں ہزاروں مویشی بھیڑ ، بکریاں، حتیٰ کہ کئی آدمی ہلاک ہو گئے تھے۔
اگرچہ یہاں موسم شدید سرد تھا اور اس جگہ رہنا خود پر ظلم کرنے کے مترادف تھا ، خصوصاً تنہائی کی وجہ سے ، کیونکہ یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اوروہاں کے جو لوگ تھے وہ کسی معاملے میں تعاون کرنے والے نہیں تھے، مگر دارو پھر بھی یہاں مقیم تھا، کیونکہ اس کی پیدائش اسی علاقے میں ہو ئی تھی اور کسی دوسری جگہ وہ خود کو محبوس تصور کرنے لگتا تھا۔وہ برآمدے سے چلا آیا۔ اب دونوں مسافر نظر آ رہے تھے کیونکہ وہ چڑھائی پار کر چکے تھے۔
گھڑ سوار کو اس نے پہچان لیا۔ وہ بوڑھا فوجی اس کا پرانا استاد بالدوشے تھا۔ گھوڑے کے نتھنوں سے جھاگ نکل رہا تھا۔ بوڑھے سپاہی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی رسی سے بندھا ہوا ایک عرب گردن جھکائے، گھوڑے کے پیچھے پیدل چل رہا تھا۔ اس نے جسم پر مٹیالا سا چغہ پہن رکھا تھا، پاؤں میں عربی چپل تھی، جس میں سے کچی اور اون کی جرابیں نظر آ رہی تھیں، سر پر ایک چھوٹا سا رومال لپیٹا ہوا تھا۔ جونہی دونوں مسافر برآمدے کے قریب آئے، فوجی سپاہی بول اٹھا:‘‘اُف ! یہاں تک کے تین کلومیٹر کے سفر میں ہی ایک گھنٹہ لگ گیا۔’’ ‘‘اندر آ جاؤ، ذرا آگ تاپ لو۔’’ دارو نے ہمدردی سے کہا۔اپنی کھڑی ہوئی مونچھوں کے ساتھ بوڑھا سپاہی مسکرایا اور ہاتھ کی رسی کو بدستور تھامے ہوئے وہ کود کر گھوڑے سے اُترا۔ اسکول ماسٹر نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اسکول کے پچھواڑے لے جا کر اسے باڑے میں باندھ دیا۔ واپس آ کر وہ دونوں کو اپنے کمرے میں لے گیا اور فرانسیسی میں بولا:‘‘آپ دونوں کچھ دیر یہاں آرام کریں۔ میں دوسرے کمرے میں جا کر آتش دان میں آگ جلاتا ہوں۔’’ وہ واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بوڑھا سپاہی بالدوشے اس کی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا اور بندھے ہوئے عرب کی رسی، اس نے چھوڑ دی تھی۔ عرب آتش دان کے قریب بیٹھا کھڑکی سے باہر نظریں جمائے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ بھد ے تھے، نا ک ستواں اور آنکھیں سیاہ ، تاہم ان میں دہکتے ہوئے انگاروں کی سی تپش تھی۔
‘‘آپ دوسرے کمرے میں تشریف لے آئیں، میں چائے بنا کر لاتا ہوں۔’’ دارو نے اپنے استاد کو فرانسیسی میں مخاطب کیا۔‘‘شکریہ !’’ اس نے جواباً کہا اور پھر انگڑائی لے کر تھکی تھکی آواز میں بولا ‘‘یہ بھی کیا زندگی ہے۔ میرا تو اب ریٹائرڈ ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔’’ پھر اس نے عرب کی طرف دیکھتے ہوئے عربی زبان میں کہا: ‘‘اے چلو۔’’ عرب اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کو آگے کر کے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ دارو جب چائے لے کر آیا تو عرب کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ کر اس نے پوچھا : ‘‘کیا میں اس کے ہاتھ کھول دوں؟’’ ‘‘ضرور! یہ احتیاط تو محض سفر کے لیے تھی۔‘‘بوڑھے سپاہی نے جواب دیا۔سپاہی کا اشارہ پا کر عرب خود اٹھنا چاہ رہا تھا کہ ماسٹر نے اپنا چائے کا گلاس فرش پر رکھا اور خود گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی رسی کھول دی۔ اس دوران عرب اپنی جلتی ہوئی آنکھوں سے خاموشی کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جب اس کے ہاتھ آزاد ہوگئے تو وہ رسی سے جکڑی ہوئی کلائیوں کی سوجی ہوئی جگہ کو ایک دوسرے سے رگڑنے لگا۔ ماسٹر نے چائے کا گلاس اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ ایک بار پھر عرب نے ماسٹر کی طرف دیکھا اور پھر چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر کر اس نے گلاس خالی کر دیا۔ماسٹر نے فوجی سپاہی کی طرف دیکھ کر فرانسیسی میں کہا: ‘‘کیا آپ رات یہیں بسر کریں گے؟’’ ‘‘نہیں۔ میں چھاؤنی واپس جا رہا ہوں۔ تم اس شخص کو تیانجن چھوڑ آنا۔وہاں پولیس ہیڈ کوارٹر میں اس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ’’ اس نے مسکراتے ہوئے دوستانہ انداز میں ماسٹر کی طرف دیکھا۔‘‘آپ مذاق کر رہے ہیں؟’’ دارو نے بے یقینی سے کہا۔‘‘نہیں بیٹے، یہی حکم ہے۔’’ ‘‘حکم ؟ میں کسی کا....... ’’ کچھ کہتے کہتے ماسٹر جھجک گیا۔ وہ اپنے پرانے استاد اور بوڑھے فوجی سپاہی کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور تحمل سے کہا: ‘‘میرامطلب تھا یہ میرا کام تو نہیں ہے۔’’ ‘‘کیا مطلب ؟ لڑائی میں ہر آدمی کو ہر کام کرنا پڑتا ہے۔’’ سپاہی نے زور دے کر کہا۔‘‘تب میں لڑائی چھڑنے کا انتظار کروں گا۔’’ دارو نے رکھائی سے کہا۔بوڑھے سپاہی نے سر ہلایا۔‘‘ٹھیک ہے۔ لیکن حکم موجود ہے اور وہ تمہارے لیے ہے۔ ہنگامی صورت حال کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر طرف متوقع بغاوت کی خبر گرم ہے۔ ہم ایک طرح سے چوکسی کی حالت میں آ چکے ہیں۔’’ اسکول ماسٹر کی آنکھوں میں بدستور سرد مہری جھلک رہی تھی۔‘‘سنو بیٹے۔’’ بوڑھے سپاہی نے کہا۔ ‘‘میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور تمہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سارے صوبے کی نگرانی کے لیے الیمور چھاؤنی میں ہم صرف ایک درجن آدمی ہیں۔ مجھے فوراً لوٹنا ہے۔ اس عرب کی وجہ سے سارے گاؤں میں اشتعال پھیلا ہوا ہے۔ اسے وہاں نہیں رکھا جا سکتا تھا، کیونکہ اسے واپس حاصل کرنے کے لیے پورا گاؤں بغاوت پر آمادہ تھا۔ اسے تمہارے سپرد کر کے مجھے فوراً واپس پہنچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کل شام سے پہلے تم اسے تیانجن ضرور پہنچا دینا۔ تمہارے جیسے جوان آدمی کے لئے سترہ اٹھارہ کلومیٹر کا سفر کوئی بڑی بات نہیں ، ہاں ! لوٹ کر تم پھر وہی استاد ہو گے، وہی تمہارے شاگرد ہوں گے اور وہی تمہارا اسکول۔’’
دیوار کے عقب سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آ رہی تھی۔ دارو کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ موسم بہتر ہو رہا تھا اور آثار بتا رہے تھے کہ دوبارہ گرمی کی لہر آئے گی۔‘‘اس نے آخر کیا کیاہے؟’’دارو نے بالدوشے کی طرف پلٹتے ہوئے پوچھا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا اس نے اگلا سوال کر ڈالا: ‘‘کیا اسے فرانسیسی آتی ہے؟’’ ‘‘نہیں ایک لفظ بھی نہیں۔ ہم ایک ماہ سے اس کی تلاش میں تھے، لیکن گاؤں والوں نے اسے چھپا رکھا تھا۔ یہ قاتل ہے! اس نے اپنے خالہ زاد کا قتل کیا ہے۔’’ ‘‘کیا یہ ہمارا مخالف ہے؟’’
‘‘شاید ! ان کا بھروسا ہی کیا ہے۔’’ ‘‘اس نے قتل کیوں کیا تھا؟’’ ‘‘اصل بات کیا ہے، اس کا تو مجھے علم نہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ کسی خاندانی تنازع کی وجہ سے اس نے مقتول کو کلہاڑی سے ذبح کر ڈالا، بالکل بھیڑ کی طرح!’’ سپاہی نے ایک جھٹکے سے گردن کاٹنے کا اشارہ کیا۔ ماسٹر کے دل میں اس عرب کے لیے یکدم نفرت جاگی۔ اسے ان تمام لوگوں سے نفرت تھی جو شقی القلب، سفاک اور خونی ہوں۔کیتلی چولہے پر پھر کھولنے لگی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بار پھر چائے بنانے لگا۔ اس بار عرب کو چائے دیتے ہوئے اسے قدرے جھجک سی ہوئی، مگر عرب اسی طرح ساری چائے پی گیا۔ بوڑھے سپاہی نے اسکول ماسٹر کا شکریہ ادا کیا اور کہا:‘‘اچھا اب میں چلتا ہوں۔’’ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور جیب سے رسی کا ایک ٹکڑا نکال کر عرب کی طرف بڑھا۔‘‘کیا کر رہے ہو؟’’ ماسٹر نے استفسار کیا۔جواب میں سپاہی نے اسے صرف رسی دکھا دی۔‘‘کوئی فکر نہ کرو۔’’ بوڑھاسپاہی ہچکچایا۔ ‘‘تمہاری مرضی....کوئی ہتھیار تو ہے نا تمہارے پاس؟’ ‘‘میرے پاس گن ہے۔’’ ‘‘کہاں؟’’ ‘‘اندر صندوق میں ہے۔’’
‘‘نہیں، تمہیں اپنا ہتھیار اپنے بستر کے پاس رکھنا چاہیے۔’’ ‘‘کیوں؟ مجھے کسی کا ڈر نہیں۔ میں اپنی حفاظت کر سکتا ہوں اور متوقع حملہ آور بھی پہچان سکتا ہوں۔’’ ‘‘پہچان سکتے ہو؟ اچھا! شاید تمہارے دماغ کا کوئی پرزہ ڈھیلا ہے! میرا لڑکا بھی تمہارے جیسا ہی تھا۔ اسی وجہ سے میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔’’ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک بھرا ہوا پستول نکالا اور اسے میز پر رکھتے ہوئے بولا:‘‘میں یہ پستول تمہیں دے رہا ہوں۔ مجھے الیمور تک دو کی ضرورت بھی تو نہیں۔’’
پستول میز پر رکھ کر وہ جونہی جانے لگا، ماسٹر نے اسے ایک دم ٹوکتے ہوئے کہا: ‘‘دیکھو استاد! مجھے یہ سب بالکل پسند نہیں۔ حملہ آور سے تو میں لڑ سکتا ہوں، مگر اس غریب اور نہتے عرب کو میں کسی کے حوالے نہیں کروں گا، چاہے یہ حکم ہی کیوں نہ ہو۔ تم ان کو بتا دینا۔’’ ‘‘بیٹے یہ ایک حکم ہے اور میں اسے دوبارہ دہراتا ہوں۔ ’’بالدوشے نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
‘‘ٹھیک ہے مگر میں اسے کسی کے حوالے نہیں کروں گا، انہیں بتا دینا۔’’ دارو نے کہا۔ ایک لمحے کے لئے سپاہی نے عربی کی طرف دیکھا، پھر فیصلہ کن لہجے میں بولا:‘‘نہیں، میں ان سے کچھ نہیں کہوں گا، جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ مجھے اس قیدی کو تم تک پہچانے کا حکم ملا تھا، جس کی میں نے تعمیل کر دی۔ آگے تم جانو اور تمہارا کام۔ اچھا اس کاغذ پر دستخط کر دو۔’’ ‘‘اس کی ضرورت نہیں۔ میں کبھی اس بات سے انکار نہیں کروں گا کہ تم نے اسے میرے حوالے کیا تھا۔’’ ‘‘میرے ساتھ ایسی فضول بات نہ کرو۔ مجھے معلوم ہے تم ہمیشہ سچ بولتے ہو، مگر تمہیں دستخط کرنا ہی ہوں گے، کیونکہ اصول کا تقاضا یہی ہے۔’’ ماسٹر نے دراز سے پین نکال کر دستخط کر دیے۔ بوڑھا سپاہی اپنا گھوڑا لینے عقبی حصے کی طرف چلاتو ماسٹر نے کہا: ‘‘آئیے میں آپ کو خدا حافظ کہہ دوں۔’’ ‘‘نہیں۔’’ بالدوشے نے اسے روک دیا۔ ‘‘اخلاق دکھانے کی ضرورت نہیں، تم نے میری اچھی خاصی بے عزتی کی ہے۔’’ یہ کہہ کر اس نے عرب پر آخری نگاہ ڈالی اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد، وہ چٹان سے نیچے اتر رہا تھا۔
ماسٹر دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ جب وہ اترائی میں غائب ہوا تو اس نے ایک گہری سانس لی اور عرب قیدی کی طرف دیکھا۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ ‘‘تم یہیں ٹھہرو۔’’ اس نے قیدی سے عربی میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا مگر پھر واپس پلٹ آیا۔ میز سے پستول اٹھا کر اس نے قریب ہی پڑے صندوق میں رکھا اور پھر کچھ کہے بغیر اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ قیدی کمرہ جماعت ہی میں رہ گیا۔ اس کے ہاتھ اب رسی کے بندھن سے آزا د تھے۔بہت دیر بعد ماسٹر نے چارپائی پر لیٹے لیٹے آنکھیں کھو لیں۔ ملحقہ کمرے سے کوئی آہٹ سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسے خیال آیا کہ اب وہ اکیلا ہے، کیونکہ اس اثنا میں پورا امکا ن تھا کہ قیدی بھاگ گیا ہوگا۔ اپنے اس خیال سے اسے مسرت ہوئی، مگر اس کا اندازہ غلط نکلا۔ قیدی اب بھی وہیں تھا اور فرش پر لیٹے لیٹے، اپنے بھدے ہونٹ لٹکائے ، دہکتی ہوئی نظروں سے ، وہ چھت کی کڑیاں گن رہا تھا۔ ماسٹر کے کہنے پر وہ اس کمرے میں چلا آیا اور اشارہ پا کر بیٹھ گیا۔‘‘بھوگ لگی ہے؟’’دارو نے پوچھا۔ ‘‘ہاں۔’’قیدی نے اثبات میں سر ہلایا۔دارو نے اٹھ کر اسٹوو جلایا اور پکنے کے لیے کچھ اناج چڑھا دیا۔ اس دوران میں اس نے کھانے کی میز پر اپنی اکلوتی پلیٹ رکھ کر میز اپنے اور قیدی کے درمیان رکھی اور پانی کا ایک جگ بھی بھر کر رکھ دیا۔ قیدی خاموشی سے اسے یہ سب کچھ کرتے دیکھتا رہا۔ اب شام ہو چکی تھی۔ ماسٹر نے لیمپ جلایا اور اسے بھی میز پر ایک طرف رکھ دیا۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو اس نے گرما گرم کھانا پلیٹ میں ڈال کر قیدی کو دعوت دی۔ ‘‘لو کھاؤ۔’’ قیدی ایک نوالا اٹھا کر منہ تک لایا مگر اس کا ہاتھ وہیں رک گیا، اس نے کہا: ‘‘اور آپ؟’’ ‘‘میں بھی کھاؤں گا ، مگر تمہارے بعد، پہلے تم کھا لو۔’’ قیدی کے ہونٹ پھڑکے ، وہ کچھ جھجکا، مگرپھر چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔جب وہ کھانا کھا چکا تو ماسٹر نے اسی پلیٹ میں اپنے لیے کھانا ڈالا۔ قیدی نے دیکھا، فرانسیسی ماسٹر وہی کھانا کھا رہا تھا، جو اس نے اسے دیا تھا۔قیدی نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا: ‘‘کیا آپ مقدمے کے منصف ہیں؟’’ ‘‘نہیں.... میرا کام تو صرف کل تک تمہیں اپنے ساتھ رکھنا ہے۔’’تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا: ‘‘آپ نے میرے ساتھ ہی کھانا کھایا؟’’ ‘‘مجھے بھی بھوک لگی ہے۔’’ دارو نے مختصراً کہا۔عرب پھر خاموش ہو گیا۔
کھانا ختم کر کے ماسٹر باہر سے ایک فولڈنگ چارپائی اٹھا لیا اور اسے اپنی چارپائی کے قریب ہی بچھا دیا۔ دیوار کے ساتھ کھڑی ایک الماری سے اس نے دو بھاری کمبل نکالے اور ان کی مدد سے قیدی کے لئے ایک آرام دہ بستر بنا دیا۔
رات کا پہلا پہر بیت رہا تھا۔ کمرے کی ہلکی روشنی میں ماسٹر نے نیم وا آنکھوں سے قیدی کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے پر اسے وہی حبشیوں جیسے بھدے ہونٹ اور جلتی ہوئی دھرتی کی تپش کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہاں، اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، جن میں، کسی خاموش جانور کی طرح، گہرے جذبات پنہاں تھے۔ ‘‘تم نے خون کیوں کیا تھا؟’’ ماسٹر نے اچانک سوال کر ڈالا۔ اپنی آواز کی کرختگی پر خود اسے بھی تعجب ہوا تھا۔قیدی نے اپنی نظریں گھما کر جیسے دور کہیں دیکھا اور کہا: ‘‘وہ بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا تھا۔’’ اس نے اپنی وحشت انگیز نظریں دارو پر مرکوز کیں۔ ان میں ایک تکلیف دہ سوالیہ نشان تھا: ‘‘اب وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟’’ ‘‘کیا تم خوفزدہ ہو؟’’ اس کے جسم میں تناؤ پیدا ہوا۔ اس نے اپنی نگاہیں پھیر لیں۔‘‘کیا تمہیں اپنے کیے پر ندامت اور افسوس ہے؟’’عرب قیدی نے ماسٹر کی طرف اچنبھے سے دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہو اتھا۔شاید وہ ماسٹر کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا۔ دارو نے اپنے اندر تلملاہٹ ابھرتی محسوس کی۔ ساتھ ہی اپنی بدلتی کیفیت اور الجھن کا بوجھ اپنے ضمیر پر محسوس ہوا۔ اس نے دوسرے بستر کی طرف اشارہ کر کے اس سے کہا:‘‘یہ بستر میں نے تمہارے لیے تیار کیاہے، اس پر سو جاؤ۔’’قیدی نے للچائی ہوئی نظر بستر پر ڈالی، مگر اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی، پھر دارو سے کہا: ‘‘ایک بات تو بتائیے؟’’اسکول ماسٹر نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔‘‘کیا وہ فوجدار کل پھر آئے گا؟’’ ‘‘مجھے نہیں معلوم۔’’ ‘‘کیا آپ ہمارے ساتھ آ رہے ہیں؟’’ ‘‘مجھے نہیں معلوم۔ کیوں؟’’قیدی خاموشی سے اٹھا اور بستر پر پاؤں پسار کر لیٹ گیا۔ روشنی اس کی آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بستر کے قریب کھڑے ہوکرماسٹرنے پھرپوچھا: ‘‘کیوں؟’’عرب قیدی نے تیز روشنی میں اپنی آنکھیں پوری طرح کھولیں اور انہیں بغیر جھپکائے دارو کی طرف دیکھا۔ ‘‘آپ ہمارے ساتھ آ جائیں۔’’ اس نے کہا اور آنکھیں موند لیں۔
ماسٹر نے کچھ سوچا اور پھر بستر میں لیٹ گیا ، مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آدھی رات بیت گئی، مگر وہ سویا نہیں۔ جب دارو نے لیمپ کی روشنی گل کی تو یوں لگا جیسے اندھیرے نے ہر شے کو کسی اژدہے کی طرح یکایک نگل لیا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ ، کھڑکی کے راستے آسمان پر ٹمٹماتے چند ستاروں کی روشنی اندر آنے لگی۔ اسکول ماسٹر کو اب دوبارہ دوسری چارپائی پر لیٹے قیدی کا جسم دکھائی دینے لگا۔ ایک لمحے کے لئے اس نے سوچا کیا وہ اٹھ کر پستول سرہانے کے نیچے رکھ لے؟ مگر پھر اس نے یہ خیال جھٹک دیا۔ اس نے یونہی سونے کی کوشش کی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔وہ سوچنے لگا۔ یونہی آوارہ سوچیں۔ اس کمرے میں وہ گزشتہ کئی برس سے اکیلا رہ رہا تھا اور آج پہلی بار کوئی اور بھی اس کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ اسے یہ اتفاق عجیب سا لگ رہا تھا، قیدی ہی کیوں نہ ہو جب ایک ہی چھت تلے رہنے پر مجبور ہوں تو ان کے درمیان بھی یگانگت کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے کیونکہ وردی یا قید کا لباس اتار دینے کے بعد دونوں ایک جیسے انسان ہی ہوتے ہیں اور دونوں ہی اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے گرد گھومتے، خواب دیکھتے ہیں۔
کچھ دیر بعد قیدی ہڑ بڑایا ۔ ماسٹر نے کن انکھیوں سے دیکھا۔ قیدی کہنیوں کے سہارے آہستہ سے اٹھا اور بستر پر سیدھا بیٹھ گیا، بے حس و حرکت اوربے آواز ۔ اس نے ماسٹر کی طرف دیکھا، جیسے اندازہ لگانا چاہتا ہو کہ وہ سو گیا یا نہیں؟ مگر ماسٹر نے کوئی حرکت نہیں کی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ قیدی بھاگنا چاہتا ہے تو اچھا ہے، جلدی سے بھاگ جائے۔ چپ چاپ لیٹا وہ قیدی کی حرکتوں کا جائزہ لیتا رہا۔ قیدی نے چور کی طرح دونوں پاؤں بستر سے نیچے اتارے۔ پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر آہٹ لی اور آہستہ آہستہ فرش پر کھڑا ہو گیا۔ ماسٹر اسے پکارنا ہی چاہتا تھا کہ قیدی چل پڑا۔ بہت دھیرے دھیرے مگر عام رفتار سے وہ دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آہستہ سے اس نے دروازے کی زنجیر ہٹائی اور باہر نکل کر بغیر کوئی آواز پیدا کیے اس نے کواڑ بند کر دیے۔ ماسٹر اپنی جگہ لیٹا رہا۔ اس نے سوچا.... وہ بھاگ رہا ہے، چلو چھٹی ہوئی تاہم بڑے غور سے وہ آہٹ سن رہا تھا۔ باہر سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یقینا وہ بلندی سے نیچے اتر رہا ہو گا۔چند لمحے یونہی گزر گئے۔پھر ماسٹر کو پانی گرنے کی مدھم سی آواز آئی، جس کا کوئی مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ قیدی ایک بار پھر اسے دروازے میں کھڑا نظر آیا۔ وہ آہستہ سے اندر داخل ہوا، نہایت محتاط انداز میں آواز پیدا کیے بغیر دروازہ بند کیا، زنجیر چڑھائی اور پھر بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ ماسٹر کو قیدی کے سونے کا زیادہ انتظار نہیں کرناپڑا، وہ بہت جلد سو گیا۔
جب اس کی آنکھ کھلی ، اس وقت خاصا دن نکل آیا تھا۔ عرب قیدی ابھی تک، کمبل میں لپٹا سو رہا تھا۔ ماسٹر کو اس کے چہرے پر پچھلی رات دکھائی دینے والا تفکر اور وحشت کہیں نظر نہیں آئی۔ اس کے چہرے پر ایک طرح کا سکون تھا۔ماسٹر نے اسے سونے دیا اور اس دوران میں کافی تیار کی ۔ کافی بن گئی تو اس نے قیدی کو جگایا۔ وہ اس کے جگانے سے ڈر گیا اور پھر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔جب قیدی کافی ختم کر چکا تو ماسٹر نے اسے غسل خانے کی راہ دکھائی اور خود اندر آ کر اس نے بستر اٹھائے، پھر کمرہ صاف کیا۔ اس وقت تک سورج سر پر چڑھ آیا تھا اور برف پگھلنا شروع ہو گئی تھی۔ ماسٹر نے برآمدے کے سامنے وادی کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اسے بوڑھے فوجی استاد کی یاد آئی.... کل وہ بے عزت ہو کر لوٹا ہے۔ اسے دکھ پہنچانے کا اس کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ خود کو کھویا کھویا اور پریشان محسوس کرنے لگا۔
یہ قیدی خونی ہے، قاتل ہے۔ قتل سے بڑھ کر قابل نفرت جرم اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن اسے یک طرفہ طور پر قانون کے حوالے کر دینا بھی کہاں کا انصاف ہے؟ اسے اس خیال ہی سے ندامت محسوس ہونے لگی۔ وہ اپنے آدمیوں کو کوسنے لگا، جنہوں نے اسے اس آزمائش سے دوچار کر دیا تھا۔ اسے قیدی پر بھی غصہ آنے لگا، جس نے ایسا بھیانک جرم کرنے کی جرات کی اور پھر اپنی جان بچا کر بھاگ تک نہ سکا۔
کچھ دیر تک وہ اسی پریشانی کے عالم میں ٹہلتا رہا۔ پھر وہ دوسرے کمرے میں چلا آیا اور قیدی کو بھی وہیں بلا لیا۔اندر آکر قیدی نے دیکھا کہ ماسٹر نے کپڑے پہن لیے ہیں۔ اب وہ جوتا پہن رہا تھا۔ اسے دیکھ کر قیدی نے بھی چپ چاپ تیاری شروع کر دی۔ چغہ تو اس کے جسم پر تھا ہی۔ اسے بس چپل پہننے کی ضرورت تھی۔ سر پر اس نے اپنا رومال دوبارہ لپیٹ لیا اور ماسٹر کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ماسٹر نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘تم جاؤ۔’’ جب قیدی نے جنبش تک نہ کی تو وہ گہری سانس لے کر بولا: ‘‘میں بھی چل رہا ہوں۔’’ یہ کہہ کر ماسٹر باہر نکلا۔ اس کے پیچھے پیچھے عرب بھی دروازے سے باہر آ گیا۔ ماسٹر نے دوبارہ کمرے کی راہ لی اور ایک کاغذ میں کچھ کھجوریں، مٹھائی اور بسکٹ لپیٹے۔ باہر نکلنے سے پہلے وہ دروازے پر رکا، کچھ سوچا اور پھر دل کڑا کر کے باہر آ ہی گیا۔اس راستے پر آ کر ، جسے ان دونوں نے اختیار کرنا تھا، ماسٹر آگے آگے چلنے لگا۔ اس کے پیچھے قیدی تھا، جو اس وقت پوری طرح آزاد تھا۔دونوں خاموشی سے آگے بڑھتے رہے۔
تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک ہموار چٹان پر پہنچ گئے۔ یہاں سے لمبی ڈھلان شروع ہوتی تھی۔ مشرق کی طرف ، نشیب میں واقع میدان میں ، کھیتوں کے درمیان آبادی کے دھندلے دھندلے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ماسٹر نے پہلے مشرق کی طرف دیکھا اور پھر جنوب کی سمت۔ دور اُفق کے سوا کچھ نظر نہ آرہا تھا۔ آدمی تو کجا، کسی پرندے کی جھلک بھی دکھائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے عرب کی طرف دیکھا جو اسے ویران نظروں سے تکے جا رہا تھا۔ ماسٹر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بنڈل اس کی طرف بڑھایا اور کہا: ‘‘لو، اس میں کچھ بسکٹ ، کھجوریں اور مٹھائی ہے۔ تمہارے لیے یہ چیزیں دو روز کے لئے کافی ہوں گی۔ ’’ پھر اس نے مشرق کی سمت جانے والے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘یہ راستہ تیان جن کی طرف جاتا ہے ، جو یہاں سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ تیان جن میں حکومتی دفاتر ہیں اور پولیس کا ہیڈ کوارٹر ،جہاں تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔’’
قیدی نے مشرق کی سمت ویران نظریں دوڑائیں۔مگر ماسٹر نے اسے ٹہوکا دیا اور اسے جنوب کی سمت دیکھنے پر مجبور کیا۔ایک پگڈنڈی جنوبی چٹانوں میں کچھ دور جا کر غائب ہو رہی تھی۔ ماسٹر نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘یہ پگڈنڈی تمہیں ان ٹیلوں کے اس پار لے جائے گی، جہاں تمام دن کے سفر کے بعد تمہیں ایک چراگاہ دکھائی دے گی۔ اس جگہ صحرائی قبائل کی بستی ہے۔ وہ لوگ تمہارا استقبال کریں گے اور شاید تمہیں پناہ بھی دے دیں۔’’
عرب کے دونوں ہاتھ، جن میں کھجوروں، بسکٹوں اور مٹھائی کا پیکٹ تھا، بدستور اس کے سینے کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ اس نے ماسٹر کی طرف دیکھ کر کہا: ‘‘مگر؟’’ ‘‘نہیں...تمہیں کچھ بولنے کی ضرورت نہیں... میں اب واپس چلتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر وہ واپس چل پڑا ۔ اسکول کی سمت اس نے چند لمبے لمبے ڈگ بھرے اور پھر قدرے جھجک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ عرب اسی جگہ ساکت و جامد کھڑا تھا۔ ماسٹر پھر چل پڑا۔ سخت اور سرد زمین پر اس کے قدم کھٹ کھٹ بج رہے تھے۔ کچھ فاصلے تک اس نے دوبارہ پیچھے نہیں دیکھا، مگر پھر کسی شے نے اسے پلٹ کر پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔عرب ہنوز بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑا تھا۔ اس کی نظریں واپس جاتے اسکول ماسٹر پر جمی ہوئی تھیں۔ نہ معلوم ان نظروں میں ماسٹر کے لیے کیا تھا کہ اسے اپنے حلق میں کوئی شے اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ کچھ بول نہ سکا، پھر بمشکل اس نے اپنے عزم کو ترجیح دی اور دور ہی سے قیدی کو جنوب کی سمت چلے جانے کا اشارہ کیا اور تیزی سے گھوم کر اسکول کی سمت قدم بڑھا دیے۔ کچھ دور پہنچ کر اس نے ایک مرتبہ پھر مڑ کر دیکھا۔ عرب کی جگہ خالی تھی۔ ماسٹر جھجکا ۔ قریب ہی ایک چٹان سر اٹھائے کھڑی تھی، جہاں سے شاید وہ دور دور تک دیکھ سکتا تھا۔ وہ تیزی سے قدم جماتا اس چٹان پر چڑھا اور اپنے پسینے میں تر چہرے کو پونچھتے ہوئے ، اپنی ہانپتی سانسیں ہموار کرتے ہوئے جنوب کی سمت نظریں دوڑائیں۔ اس طرف کے راستے میں کھڑی اونچی نیچی چٹانوں کے اوپر نیلا آسمان تھا۔ ‘‘تو کیا وہ ابھی تک وہاں نہیں پہنچ سکا یا چٹانوں کے عقب میں ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہا؟ اسے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔’’ اس نے جیسے خود کلامی کی پھر یہ سوچ کر کندھے اُچکادیے: ‘‘اونہہ! مجھے کیا۔ میں نے تو اپنا فرض پورا کر دیا۔’’
خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر کے وہ چٹان سے نیچے اترنے کے لیے مڑا۔ مشرق کی جانب میدان پر ، سورج کی گرمی کی وجہ سے، بھاپ کی ایک چادر سی پھیل گئی تھی۔ اس چادر کے باوجود ماسٹر نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس سمت عرب کی جھلک دیکھ لی۔ عرب قیدی سر جھکائے تیان جن کی راہ پر گویا اپنی قبر کی طرف سر جھکاکے چلا جا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ماسٹر، اپنے اسکول کے برآمدے کی ریلنگ کے سہارے کھڑا، چٹانوں پر پھیلی ہوئی صاف شفاف دھوپ کوخالی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اندر کمرہ جماعت میں تختہ سیاہ پر بنے ہوئے نقشے پر فرانس کے چاروں دریا بدستور اپنے دہانوں کی طرف بہہ رہے تھے۔ ان کے نیچے چاک سے لکھی ہوئی ایک تازہ تحریر تھی، جسے اس نے ابھی ابھی پڑھا تھا:
‘‘تم نے ہمارے عرب بھائی کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ تمہیں اب اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔’’
دارو نے آسمان کی طرف دیکھا، دور تک پھیلی ہوئی اونچی نیچی زمین کی طرف اور اس سے کہیں دور سمندر تک پھیلی ہوئی غیر مرئی سر زمین کی طرف۔ اس وسیع خطہ زمین میں جس سے اسے بے پناہ محبت تھی، اس نے خود کو تنہا محسوس کیا ... بالکل تنہا!