سلیمیٰ لیگراف ؍ ترجمہ: خاقان ساجد
نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے افسانوں سے ایک انتخاب
مصنفہ کا تعارف :۔
سلیمیٰ لیگراف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی خاتون تھی جنہیں ادب کا نوبل انعام 1909 ء میں دیا گیا ۔ وہ 24 نومبر 1858 ء کو وارم لینڈ میں پیدا ہوئی۔ سویڈش شہری تھی۔ مذہباً آزاد خیال۔ اس نے رائل ویمنز سپیرئر ٹریننگ کالج سویڈن سے 1885 ء میں گریجواشن کی ۔1885 ء سے 1895 ء تک سلیمیٰ لیگراف نے گرلز ہائی سکول لینڈ مکرانا سویڈن میں درس دیا۔ ایک استاد کی حیثیت سے بھی اسے خاصی شہرت ملی۔ اس کی اعلیٰ ترین ادبی خدمات پر اسے سویڈش اکیڈمی نے 1904 ء میں گولڈ میڈل بھی دیا تھا۔ وہ ماہر تعلیم ، ناول نگار، کہانی کار، شاعر ، سوانح نگار ، خود نوشت اور ڈرامہ نگار تھی۔ سویڈش ادب کے احیاء کے ساتھ ساتھ سلیمیٰ لیگراف نے اس کے روایتی دھارے کو تبدیل کیا۔ اس کے ہم عصر سویڈش ادب پر رومانویت کی گہری چھاپ لگی ہوئی تھی۔ سلیمیٰ لیگراف نے سویڈش اور عالمی ادب کو بلند و ارفع آئیڈیل ازم ، روشن قوت متخیلہ اور روحانی تصورات سے مالا مال کیا۔نوبل انعام حاصل کرنے والی اس پہلی مصنفہ کا انتقال 16 مارچ 1940 ء کو ہوا۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی۔
ایک چھٹانک کا عمل سو من کی باتوں پر بھاری ہوتا ہے ۔ اور یہ کہ ملک کی اصل قوت زرو مال نہیں افراد ہوتے ہیں ۔ اور افراد میں قوت صالح تربیت سے پیدا ہوتی ہے ۔ اسی حوالے سے تربیت کی دلچسپ داستان اورعملِ قناعت کی روشن مثال۔
شاہ گستاف سوئم ڈیل کارلیا کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ اسے جلدی تھی اور وہ بجلی کی سرعت سے فاصلے طے کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ بگھی کی رفتار اتنی زیادہ تھی کہ گھوڑے ربڑ کی طرح کھنچے ہوئے لگ رہے تھے اور موڑ کاٹتے ہوئے بگھی کے ایک جانب کے پہیے ہوا میں اُٹھ جاتے تھے، مگر بادشاہ پھر بھی مطمئن نہیں تھا۔ وہ بار بار کھڑکی سے منہ نکالتا اور کوچوان کی سرزنش کرتا۔ ‘‘تم آگے کیوں نہیں بڑھتے’’؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم یہ بگھی انڈوں پر چلا رہے ہو؟’’
وہ بگھی دیہات کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر وحشیانہ رفتار سے چلا رہاتھا۔ اس کے باوجود اگر کو چ اور گھوڑے ایک دوسرے سے ہنوز منسلک تھے تو اسے معجزہ ہی کہا جا سکتا تھا! اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک پہاڑی ڈھلان پر کوچ کا بانس ٹوٹ گیا.اور بادشاہ سلامت وہیں بیٹھے رہ گئے۔ بادشاہ کے مصاحب اچک کر نیچے اترے اور کوچوان کو خوب ڈانٹ پلائی، لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔ کوچ کی مرمت کئے بغیر سفر جاری رکھنا نا ممکن امر تھا۔
جب مصاحبوں نے اِدھر ُادھر اس نیت سے نگاہ دوڑائی کہ بادشاہ کی دلچسپی کی کوئی چیز ڈھونڈی جائے تو انہیں کچھ فاصلے پر درختوں کے درمیان ایک گرجا نظر آیا۔ انہوں نے بادشاہ کو اس طرف متوجہ کیا اور اس سے استدعا کی کہ وہ محافظوں کی بگھی میں بیٹھ کر گرجا گھر کی زیارت کر لے، اس دوران اس کی بگھی مرمت ہو جائے گی۔ اس روز اتوار تھا۔ بادشاہ وقت گزاری کے لیے عبادت میں بھی شامل ہو سکتا تھا۔
بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی اور وہ گرجا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ کئی گھنٹے سے اندھیرے جنگلوں میں سفر کر رہا تھا مگر یہ جگہ بہت خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ یہاں بڑی بڑی چراگاہیں تھیں، بڑا سا گاؤں تھا اور قریب ہی دریائے ڈل ،لو کی جھاڑیوں کے درمیان پر سکون انداز سے بہہ رہا تھا۔ لیکن بادشاہ کی قسمت خراب تھی۔ جب وہ گرجا کے سامنے بگھی سے اتر رہا تھا ، تو اسی لمحے عبادت ختم ہونے کا گھنٹہ بج اُٹھا اور لوگ گرجا گھر سے باہر نکلنے لگے۔ جب وہ اس کے پاس سے گزر رہے تھے تو بادشاہ کا ایک پاؤں کوچ کے اندر دوسرے پائیدان ہی پر جم گیا تھا اور وہ اپنی رعایا کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے آج تک اپنی رعایا میں اِتنے اچھے لوگ نہیں دیکھے تھے۔ تمام لوگوں کے قد، عام قدوں سے اونچے تھے۔ ان کے چہروں سے ذہانت اور شرافت ٹپکتی تھی۔ عورتیں مہذب اور صاف ستھری تھیں۔ ان کے چہروں سے تقدس دکھائی دیتا تھا۔
طلوع آفتاب سے لے کر اب تک بادشاہ وسیع بے آباد زمینوں کے بارے میں باتیں کرتا رہا تھا۔ اس نے اپنے مصاحبوں سے اس رائے کا اظہار کیا تھاپھر کہ وہ اپنی سلطنت کے شائد سب سے پسماندہ علاقے سے گزر رہا ہے! لیکن اب جب اس نے لوگوں کو خوبصورت اور دلکش علاقائی لباس میں ملبوس دیکھا تو وہ ان کی غربت کے متعلق سوچنا بھول گیا۔ اس کے دل میں گرم جوشی پیدا ہوگئی اور اس نے خود کلامی کی: ‘‘شاید سویڈن اتنا بھی گیا گزرا نہیں جیسا کہ اس کے دشمن خیال کرتے ہیں۔ جب تک میری رعایا اس حال میں نظر آتی ہے، میں یقینا اپنے ایمان اور اپنے ملک کا دفاع کر سکوں گا۔’’اس نے اپنے مصاحبوں کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو مطلع کریں کہ ان کے درمیان موجود اجنبی کوئی اور نہیں بادشاہ ہے اور یہ کہ انہیں بادشاہ کے گرد جمع ہونا چاہیے تاکہ وہ ان سے خطاب کر سکے۔
اور پھر بادشاہ نے لوگوں کے سامنے ایک تقریر کی۔ وہ گرجا گھر کے حجرے کی سیڑھیوں پر کھڑا ہو گیا۔ جس تنگ سیڑھی پر وہ کھڑا ہوا تھا وہ آج بھی وہاں موجود ہے۔بادشاہ نے اس تشویشناک صورتحال کا ذکر کیا جس سے مملکت سویڈن اس وقت دوچار تھی۔ اس نے بتایا کہ روسی اور اہلِ ڈنمارک دونوں نے اہلِ سویڈن کو جنگ کی دھمکی دی تھی۔ عام حالات ہوتے تو یہ کوئی پریشان کن بات نہ ہوتی، مگر اب فوج غداروں سے بھر چکی تھی اور وہ اس پر انحصار نہیں کر سکتا تھا۔ اب اس کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ خود بنفس نفیس ملک کے طول و عرض کا دورہ کرے اور اپنی رعایا سے پوچھے کہ کیا وہ اپنے بادشاہ سے وفاداری نبھائیں گے۔ اور اس کی ، آدمیوں اور رقم سے مدد کریں گے تاکہ وہ مادر ِوطن کو دشمنوں سے بچا سکے۔
دیہاتیوں نے بادشاہ کاخطاب خاموشی سے سنا اور جب وہ چپ ہوا تو اُنہوں نے انکار یا رضا مندی کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ آخر اُن کے ہجوم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور بادشاہ سے کہا:‘‘بادشاہ سلامت، آپ کو علم ہو گا کہ ہمیں آپ کی یہاں آمد کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فوری طور پر کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ گرجا کے حجرے میں تشریف لے جائیں اور ہمیں باہم مشورے کا موقع دیں تاکہ ہم اس صورتحال کے بارے میں کسی فیصلے پر پہنچ سکیں جس کا آپ نے ہمارے سامنے اظہار کیا ہے۔’’
بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ اُسے فوری طور پر زیادہ تسلی بخش جواب نہیں ملے گا ، اس لیے اس نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ کسان کی اِستدعا پر عمل کرے۔
جب وہ حجرے میں داخل ہوا تو اسے وہاں سوائے ایک ایسے آدمی کے کوئی نظر نہ آیا جو دیکھنے میں کسان لگتا تھا۔ وہ مضبوط اورقد آور شخص تھا اور اس کے بڑے بڑے ہاتھوں پر محنت مُشقت سے گٹے پڑے ہوئے تھے۔ وہ دوسرے دیہاتیوں ہی کی طرح ایک لمبے سفید چوغے اور چمڑے کی واسکٹ میں ملبوس تھا اور اس کے جسم پر پادریوں کا سیاہ کوٹ یا کالر بھی نہیں تھا۔
جب بادشاہ اندر داخل ہوا تو وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور بادشاہ کو تعظیم دی۔ ‘‘میرا خیال تھا کہ اندر پادری موجود ہو گا’’ بادشاہ نے اس سے کہا۔اس شخص کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ اس نے سوچا کہ جب بادشاہ نے اُسے غلطی سے کسان سمجھ لیا ہے تو اسے یہ بتا کر کہ وہی اِس دیہاتی علاقے کا پادری ہے ، ناراض نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ہاں’’۔ اس نے کہا۔ ‘‘پادری اکثر یہاں موجود رہتا ہے۔’’ بادشاہ حجرے میں بچھی ہوئی ایک بڑی آرام دہ کرسی میں دھنس گیا،جو آج بھی اسی حالت میں اس مقام پر موجود ہے۔ اِتنا فرق ضرور ہے کہ گرجا گھر کے منتظمین نے اس کی پشت پر سنہری تاج کی شبیہ کندہ کر دی ہے۔‘‘کیا تمہارے علاقے کا پادری اچھا ہے؟’’ بادشاہ نے پوچھا ۔ دراصل وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ رعایا کی فلاح و بہبود سے دلچسپی رکھتا ہے۔جب بادشاہ نے یہ سوال پوچھا تو پادری نے محسوس کیا کہ وہ شاید بادشاہ کو نہیں بتا سکے گا کہ وہ کون ہے بہتر یہی ہے کہ اسے اسی غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا جائے کہ وہ محض ایک کسان ہے’’۔ اس نے سوچا اور جواب دیا کہ پادری ٹھیک ہے۔ وہ انجیل کی آیتیں واضح انداز میں پڑھتا ہے او رجس چیز کی تبلیغ کرتا ہے، خود بھی اس پر عمل کرتا ہے۔بادشاہ نے اسے شافی تحسین خیال کیا مگر چونکہ وہ اچھی سماعت کا مالک تھا اس لیے اس نے اس کے بیان میں پوشیدہ شک کا عنصر بھاپ لیا۔ ‘‘تمہارا لہجہ بتاتا ہے کہ تم پادری سے زیادہ مطمئن نہیں ہو۔ ’’ اس نے کہا،
‘‘بس وہ تھوڑا اپنی مرضی پر چلنے والا ہے۔’’ اس شخص نے جواب دیا ۔ اس نے سوچا کہ بعد میں اگر بادشاہ کو اس کی اصلیت معلوم ہو گئی تو یہ نہ خیال کرے کہ وہ خود اپنی تعریف کرتا رہتا ہے۔ اس لیے وہ کوئی خامی بھی بیان کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پادری چاہتا ہے کہ یہاں گاؤں میں صرف اُسی کا حکم چلے اور ہر کوئی اس کی مرضی پر عمل کرے۔’’اس نے بات آگے بڑھائی۔‘‘پھر تو وہ اچھا مُنتظم ہے۔’’ بادشاہ نے جواباً کہا۔ اسے یہ بات پسند نہیں تھی کہ کسان اپنے اوپر متعین شخص کے بارے میں شکایت کر رہا تھا۔ ‘‘مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اچھی عادات اور پرانے لوگوں کی سی سادگی یہاں کا عام اصول ہے۔’’‘‘یہ لوگ اچھے ہیں۔’’ آدمی نے سر ہلایا۔ ‘‘مگر یہ غربت اور پسماندگی کی زندگی گُزار رہے ہیں کیونکہ یہ دور افتادہ اور الگ تھلگ علاقہ ہے۔ اگر دنیا کی حرص اور دولت ان کے قریب بھی آگئی تو یہ بالکل دوسرے لوگوں جیسے ہو جائیں گے۔’’‘‘ایسے کسی حادثے کا کوئی خطرہ نہیں۔’’ بادشاہ نے کندھے اچکا کر کہا۔اس نے مزید کچھ نہیں کہا، بلکہ اپنی انگلیوں سے سامنے رکھا ہوا میز بجانے لگا۔ اس نے اپنی دانست میں کسان کے ساتھ اپنے سنہری الفاظ کا کافی تعداد میں تبادلہ کر لیا تھا اور اب منتظر تھا کہ دوسرے لوگ کب اُسے اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہیں۔
یہ دیہاتی اپنے بادشاہ کی مدد کرنے پر کچھ زیادہ مائل نظر نہیں آتے، اس نے سوچا۔ اگر میری بگھی ٹھیک ہو جائے تو میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر ان لوگوں اور ان کی بے نتیجہ بحث سے دور نکل جاؤں گا۔’’
پادری اپنی جگہ پریشان بیٹھا تھا اور اس ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ وہ اس اہم معاملے کا کیا فیصلہ کرے جو اُسے نبٹاناتھا۔ وہ اس بات پر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس نے بادشاہ کو یہ نہیں بتایا تھاکہ وہ کون ہے؟ اب وہ محسوس کر رہا تھا وہ بادشاہ سے ان معاملات پر بھی گفتگو کر سکتا تھا جو بصورت دیگر وہ کبھی اس کے سامنے نہ رکھ سکتا۔کچھ دیر بعد پادری نے سکوت توڑا اور بادشاہ سے پوچھا کہ کیا یہ بات واقعی ایک حقیقت ہے کہ ان کا ملک خطرے میں گھر چکا ہے۔ بادشاہ نے سوچا، اِس آدمی میں اِتنی عقل ہونی چاہیے کہ وہ اسے مزید پریشان نہ کرے۔ اُس نے دیہاتی کی طرف گہری نظر سے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہیں کہا۔‘‘میں نے اس لیے پوچھا ہے کیونکہ میں اندر کمرے میں تھا اور آپ کی بات ٹھیک طرح سن نہیں سکا’’ پادری نے کہا۔ ‘‘لیکن اگر واقعی ایسی صورتحال ہے تو میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس گرجے کی اِنتظامیہ بادشاہ کے لئے اتنی رقم اکٹھی کر سکتی ہے جتنی اُسے درکار ہے۔’’‘‘مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ دیر پہلے تم نے یہ کہا تھا کہ یہاں ہرکوئی غریب ہے۔’’ بادشاہ نے تُنک کر پادری سے کہا جیسے اسے باور کرانا چاہتا ہو کہ وہ بِلا سوچے بات کر رہا ہے۔‘‘ہاں یہ حقیقت ہے ’’ پادری نے کہا۔ یہاں پادری سمیت سبھی غریب ہیں لیکن اگر بادشاہ کچھ دیر میری بات سننے کا احسان کرے تو میں وضاحت سے بیان کروں گا کہ یہ گاؤں کِس طرح بادشاہ کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
‘‘تمہیں بات کرنے کی اجازت ہے۔’’ بادشاہ نے کہا ‘‘معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں اپنے منہ میں ڈالنے کے لیے الفاظ تمہارے ان ساتھیوں کی نسبت جلدی مل جاتے ہیں جو باہر مصروف گفتگو ہیں اور کبھی اس جواب تک نہ پہنچ پائیں گے جو انہوں نے مجھے دینا ہے۔’’‘‘بادشاہ کی بات کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہوتا ! مجھے خدشہ ہے کہ آخر کار اس ذمہ داری کا بار بھی پادری ہی کو اٹھانا پڑے گا کہ وہ سب کی طرف سے بادشاہ کو جواب دے۔’’بادشاہ نے اپنی ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھیں، بازوؤں کو سینے پر باندھا اور اپنا سر سینے پر جھکا لیا۔ ‘‘تم اب اپنی بات شروع کر سکتے ہو۔’’ اس نے ایسی آواز میں کہا جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اسے پہلے ہی نیند آ رہی ہے۔
‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس گاؤں کے پانچ آدمی شکار کرنے نکلے ’’ پادری نے کہنا شروع کیا۔ ‘‘ان میں سے ایک وہ پادری تھا جس کی ہم بات کر رہے تھے جبکہ ان میں سے دو فوجی سپاہی تھے جن کے نام اولاف اور ایرک تھے۔ چوتھا شخص اس علاقے کی سرائے کا مالک تھا اور پانچواں آدمی ایک کسان تھا جس کا نام اسرائیل پیرسن تھا۔’’‘‘تم اِتنے زیادہ نام بتانے کی تکلیف نہ کرو’’ بادشاہ اپنا سر ایک جانب ڈھلکا کر بڑبڑایا ۔‘‘وہ سب اچھے شکاری تھے’’پادری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ‘‘اور قسمت اکثر ان کا ساتھ دیتی تھی۔ مگر اس روز انہوں نے بہت تگ و دو کی مگر انہیں کوئی شکار نہیں ملا۔ آخر کار انہوں نے شکار کرنے کا اِرادہ ترک کر دیا اور ایک جگہ زمین پر باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جنگل میں ایک جگہ بھی ایسی نہیں جو کاشت کاری کے قابل ہو۔ وہاں پہاڑ تھے یا دلدلی زمین۔ ‘‘خدا نے ایسی زمین عطا کر کے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔’’اُن میں سے ایک نے کہا۔ ‘‘دوسرے علاقوں میں لوگ بکثرت مال کمار ہے ہیں مگر یہاں تمام تر مشقت کے باجوود ہمیں بمشکل اِتنی فصل حاصل ہوتی ہے جس سے روزانہ کی روٹی ہی پوری ہو سکتی ہے۔’’پادری نے ایک لمحے کا توقف کیا۔ اسے شبہ ہو گیا تھا کہ بادشاہ سو تو نہیں گیا، مگر بادشاہ نے اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی اٹھا کر اسے باور کرایا کہ وہ جاگ رہا ہے اور اس کی بات سن رہا ہے۔
‘‘عین اس وقت جب کسان اس معاملے پر گفتگو کر رہے تھے، پادری نے پہاڑ کے دامن میں جہاں سے اس نے مخملیں کائی کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑایا تھا ایک ایسی چیز دیکھی جو چمک رہی تھی۔‘‘یہ عجیب پر اسرار پہاڑ ہے’’ اس نے سوچا اورکائی کے ایک اور جھنڈ کو ٹھوکر ماری۔ ٹھوکر مارنے سے اس چمک دار چیز کا ایک ٹکڑا بھی ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا۔ پادری نے اسے اٹھا لیا۔ ‘‘نہیں یہ سیسہ تو نہیں ہو سکتا، نا ممکن سی بات ہے’’ اس نے کہا۔‘‘اس پر باقی لوگ بھی اپنی جگہ سے اُٹھے اور اپنی رائفلوں کے بٹ مار کر وہاں سے کائی اڑا دی۔ تب اُنہوں نے دیکھا کہ اس چمکدار دھات کی ایک چوڑی رگ پہاڑ کے اندر جاری تھی۔ ‘‘تم لوگوں کی رائے میں یہ کیا چیز ہے؟’’ پادری نے پوچھا ۔کِسانوں نے اس شے کے ٹکڑے ہاتھوں میں پکڑ کر غور سے دیکھے اور کہنے لگے ‘‘یہ ضرور سیسہ یا کم ازکم جست ہے۔’’‘اور پورا پہاڑ اس سے بھرا ہواہے۔’’سرائے کے مالک نے کہا۔
جب پادری یہاں تک پہنچا تو بادشاہ کا سر اسے اوپر اٹھتا ہوا محسوس ہوا اور اس نے ایک آنکھ کھول کر اُس کی طرف دیکھا‘‘کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ ان آدمیوں میں سے کوئی ایک بھی معدنیات کا علم رکھتا تھا؟’’‘‘نہیں ان میں سے کِسی کے پاس ایسا علم نہیں تھا’’۔ پادری نے جواب دیا۔یہ سن کر بادشاہ کا سر پھر سینے پر جھک گیا اور اس نے دونوں آنکھیں بند کر لیں۔
‘‘پادری اور اس کے ساتھی بے حد خوش تھے’’ اس نے بادشاہ کی عدم دلچسپی کی پروا نہ کرتے ہوئے سلسلہ کلام دوبارہ شروع کیا۔ ‘‘انہیں اس خیال نے نہال کر دیاتھا کہ جو کچھ انہوں نے دریافت کیا تھا وہ انہیں اتنا دولت مند کر دے گا کہ وہ اور ان کی آئندہ نسلیں عیش و آرام کی زندگی گزاریں گی۔’’‘‘مجھے اب کوئی کام نہ کرنا پڑے گا’’ ان میں سے ایک نے کہا۔ ‘‘اب میں پورا ہفتہ آرام کر سکوں گا اور اتوار کے روز اپنی سونے کی بگھی میں گرجا جایا کروں گا۔’’‘‘اگرچہ وہ سب ہوش مند تھے مگر یہ عظیم دریافت ان کے سروں کو چڑھ گئی تھی اور وہ بچوں کی سی باتیں کر رہے تھے۔ لیکن ان میں اِتنی ہوش ضرور تھی کہ وہ اس جگہ کو دوبارہ کائی سے ڈھانپ دیں۔ اس کے بعد انہوں نے بڑی احتیاط سے اس جگہ کی نشانی ذہن نشین کی اور اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ جدا ہونے سے پہلے انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پادری فیلن جائے اور وہاں کے ماہر معدنیات کو دھات کا ٹکڑا دکھا کر پوچھے کہ یہ کیاہے؟ انہوں نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ جلدی واپس آئے گا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے قسم لی کہ اس کی واپسی سے پہلے وہ کسی ایک شخص کو بھی نہیں بتائیں گے کہ انہوں نے چمکدار دھات کہاں پائی تھی۔’’
بادشاہ کا سراب تھوڑا سا اٹھا مگر اس نے مخاطب کی قطع کلامی نہیں کی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اس بات کا یقین ہونا شروع ہو گیا کہ اس شخص کے پاس اس کے لیے واقعی کوئی اہم بات تھی ، تبھی تو اس کی عدم دلچسپی کے باوجود وہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھا۔‘‘تب پادری جیب میں اس دھات کے چند ٹکڑے ڈال کر روانہ ہو گیا۔ وہ بھی امیر بننے کے خیال پر دوسروں کی طرح بے حد خوش تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی رہائش گاہ کی از سر نو تعمیر کرے گا۔ جو اس وقت کسان کی جھونپڑی سے کسی طرح بہتر شکل میں نہیں تھی اور شہر کے کلیسا کے بڑے پادری کی خوبصورت لڑکی سے شادی کرے گا جسے وہ پسند کرتا تھا۔ اس سے پہلے اس نے اپنی اس خواہش کو یہ سوچ کر ، تھپک کر ، سلا دیا تھا کہ وہ غریب آدمی ہے اور اس سے شادی کرنے کے لیے اسے برسوں انتظار کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ کسی بہتر پوسٹ پر پہنچ جائے اور اس قابل ہو کہ اس کے باپ سے اس کا رشتہ مانگ سکے۔ مگر اب قسمت نے چشم زدن میں اسے ایسے مقام پر پہنچا دیا تھا، جہاں سے وہ بس ہاتھ بڑھا کر اپنی مطلوبہ لڑکی کا ہاتھ پکڑ سکتا تھا!
‘‘پادری دو دن کے سفر کے بعد فیلن پہنچا اور وہاں اسے مزید ایک روز انتظار کرنا پڑا کیونکہ ماہر معدنیا ت کہیں گیا ہوا تھا۔ آخر اس سے ملاقات ہوئی اور پادری نے اس کے سامنے دھات کے ٹُکڑے رکھے۔ ماہر معدنیات نے انہیں ہاتھ میں پکڑا، ان کا بغور جائزہ لیا اور پھر پادری کی طرف دیکھا۔ پادری نے اسے بتایا کہ اسے کیسے دھات کے یہ ٹکڑے ایک پہاڑ کے دامن میں ملے تھے اور اس نے یہ سمجھا تھا کہ یہ دھات سیسہ ہے۔‘‘نہیں یہ سیسہ نہیں ہے’’ماہر معدنیات نے کہا۔‘‘پھریہ جست کے ٹکڑے ہوں گے؟ پادری نے کہا‘‘نہیں یہ جست بھی نہیں ہے۔’’پادری کو یوں لگا جیسے اس کی امیدوں کے سارے شیش محل ایک چھنا کے سے چکنا چور ہو گئے ہوں۔ وہ زندگی میں ایسی مایوسی سے پہلے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔‘‘کیا تمہارے علاقے میں ایسے بہت سے پتھر ہیں؟’’ ماہر معدنیات نے پوچھا۔‘‘ہمارے پاس ایک پورا پہاڑ ہے۔’’ پادری نے جواب دیا۔اس پر ماہر معدنیا ت اس کے قریب ہوا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ‘‘تب پھر میں یہ چاہوں گا کہ تم اسے اچھے انداز میں استعمال میں لاؤ کہ یہ تمہارے لیے اور اس ملک کے لیے نعمت ثابت ہو کیونکہ یہ چاندی ہے! ’’‘‘واقعی! ’’ پادری کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ ‘‘کیاواقعی یہ چاندی ہے؟’’
ماہر معدنیات نے اسے بتانا شروع کیا کہ اسے اس قیمتی ذخیرے کے قانونی حقوق حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اس نے اسے اور بھی کئی مفید مشورے دیے مگر پادری نے انہیں غور سے نہیں سنا کیونکہ وہ کہیں کھویا ہوا تھا۔ اسے اس احساس مسرت نے کہ اس گاؤں میں چاندی کا ایک پہاڑ اس کا منتظر تھا، خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔
بادشاہ نے یکایک اس طرح سر اٹھایا کہ پادری نے اپنا بیان روک دیا۔ ‘‘بلاشبہ جب وہ گھر پہنچا ہو گا اور کان کی کھدائی شروع ہو گی تو اس پر یہ عقدہ کھلا ہو گا کہ ماہر معدنیات نے اسے بے وقوف بنایا تھا’’ بادشاہ نے کہا۔‘‘نہیں، بالکل نہیں۔ ماہر معدنیات نے اسے بے وقوف نہیں بنایا تھا۔’’ پادری نے جواب دیا۔ ‘‘چلو آگے بولو، بادشاہ نے کرسی میں مزید آرام سے دراز ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ اب وہ اس کی بات میں دلچسپی لے رہا تھا۔
ہفتہ بھر بعد جب پادری گاؤں واپس پہنچا تو سب سے پہلے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنے ساتھیوں کو یہ خوش خبری سنائے کہ ان کی دریافت کس قدر قیمتی شے ہے! جب وہ اپنی بگھی پر سوار سرائے کے قریب پہنچا تواس نے دیکھا کہ سیڑھی پر گھاس اگ آئی تھی۔‘‘یہاں کون فوت ہو گیا؟’’پادری نے ایک لڑکے سے جو باڑ پر جھکا ہو اتھا ، استفسار کیا۔‘‘خود سرائے کا مالک فوت ہو گیاہے ’’ لڑکے نے جواب دیا۔ پھر اس نے پادری کو بتایا کہ پورا ہفتہ اس نے خوب شراب پی تھی۔‘‘اوہ ، یہاں اتنی برانڈی پی گئی ہے، اتنی برانڈی پی گئی ہے کہ بس! ’’‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟’’ پادری نے حیرانی سے کہا۔ ‘‘وہ تو بہت کم شراب پیتا تھا۔’’‘‘اوہ ’’۔ لڑکے نے آنکھیں مٹکائیں۔ ‘‘وہ اس لئے اتنی پی رہا تھا کہ اس کے بقول اس نے ایک کان دریافت کر لی تھی۔ وہ بہت امیر ہو گیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اب وہ کوئی کام نہیں کرے گا، بس آرام سے بیٹھ کر شراب سے لطف اندوز ہو گا۔ کل رات اس نے خوب شراب چڑھائی اور بگھی بھگاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ بگھی الٹ گئی اور اس حادثے میں اس کی موت واقع ہوگئی۔’’
جب پادری نے یہ سنا تو وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہ بہت دِل گرفتہ تھا ۔ وہ اتنا خوش واپس آیا تھا اور اپنے ساتھی کو خوش خبری سنانا چاہتا تھا مگر آگے ایسی اندوہناک خبر اس کی منتظر تھی۔ جب پادری کچھ دور پہنچا تو اسے اسرائیل پیرسن سڑک کے کنارے چلتا ہو ا دکھائی دیا۔ اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی تھی۔ پادری نے سوچا ، شکر ہے کہ خوش بختی اس کے دماغ کو نہیں چڑھی۔ میں اسے اچانک یہ خبر سنا کر خوش کردوں گا کہ وہ راتوں رات ایک امیر شخص بن گیا ہے۔‘‘آہا خوش آمدید! ’’ پیرسن نے کہا۔ ‘‘کیا تم ابھی فیلن سے آرہے ہو؟’’‘‘ہاں’’۔ پادری نے جواب دیا۔ ‘‘اور میں تمہیں اب یہ خوش خبری سناناچاہتا ہوں کہ وہ چمکدار ٹکڑے اس سے بھی کہیں بہتر چیز ثابت ہوئے ہیں جو ہم سوچ رہے تھے۔ ماہر معدنیات نے مجھے بتایا کہ یہ چاندی ہے۔’’ اس لمحے پیرسن کا چہرہ ایکدم ایسے ہو گیا جیسے کسی نے زمین کی بساط اس کے قدموں کے نیچے سے کھینچ لی ہو۔‘‘یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا وہ چاندی تھی؟’’ ‘‘ہاں! ’’ پادری نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ‘‘اب ہم سب امیر کبیر بن جائیں گے اور شرفا کی طرح رہیں گے۔! ’’‘‘اوہ، یہ تو چاندی نکل آئی! ’’ پیرسن نے یوں بلک کر کہا جیسے سینے پر دو ہتڑ مار کر کسی عزیز کی موت کا ماتم کرنے لگا ہو۔ ‘‘کیا واقعی وہ چاندی ہے؟’’ ‘‘ہاں ! کیوں کیا ہوا؟ ’’ پادری نے اس کی طرف دیکھا ۔ ‘‘تمہیں بالکل یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں تمہیں دھوکا دوں گا۔ تمہیں خوشی کے اظہار سے ڈر کیوں لگ رہا ہے ؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔’’‘‘خوش! ’’ پیرسن بولا۔ ‘‘مجھے خوش ہونا چاہیے؟ میں سمجھا تھا کہ یونہی یہ ابرق سے مشابہہ کوئی چمک دار ریتلا پتھر ہے۔ میں نے سوچا جو ملتا ہے لے لو میں نے اپنا حصہ ایک سو ڈالر میں اولاف وارڈر کے ہاتھ بیچ دیا’’
وہ بے حد مایوس تھا اور جب پادری نے بگھی بڑھائی تو وہ وہیں سڑک کنارے کھڑے ہو کر رونے لگا۔ جب پادری گھر پہنچا تو اس نے اپنے نوکر کو اولاف سوارڈ اور اس کے بھائی کے پاس بھیجا اور انہیں پیغام دیا کہ وہ دھات چاندی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس نے گاؤں میں بگھی چلا کر اور خوشخبری سنا کر خاصا نتیجہ دیکھ لیا تھا۔
پادری ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ بادشاہ کے مصاحبوں نے حجرے کا دروازے کھولا اور بادشاہ کو مطلع کیا کہ شاہی بگھی کی مرمت کر دی گئی ہے۔
پہلے بادشاہ نے اٹھنے کی تیار ی کی ، لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے ارادہ بدل لیا۔ ‘‘تم اپنی کہانی مکمل کرو’’ اس نے پادری سے کہا۔ ‘‘لیکن ذرا جلدی اور اختصار سے پادری بولا ‘‘اسے یہ خبر ملی کہ اسرائیل پیرسن نے خودکشی کر لی ہے۔ وہ چاندی کی کان میں اپنا حصہ کوڑیوں کے مول بیچ دینے کا صدمہ برداشت نہیں کر پایا تھا۔ اس نے یقینا یہی سوچا ہو گا کہ وہ روزانہ یہ منظر برداشت نہ کر سکے گا کہ کوئی اور اس دولت پر عیاشی کرے جو اس کی بھی ہو سکتی تھی۔’’بادشاہ اپنی کرسی میں کچھ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ ‘‘خدا کی قسم’’ اس نے کہا ‘‘اگر میں اس پادری کی جگہ ہوتا تو میں اس کان سے کہتا ، مجھے بخشو ! ’’‘‘بادشاہ سلامت’ آپ دولت مند آدمی ہیں’’ پادری نے کہا۔ ‘‘آپ کے پاس اظہار بیزار ی کے بہت مواقع ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک غریب پادری کے ساتھ یہ صورتحال نہیں ہو سکتی۔ صدمے سے دو چار اس غریب نے اس کے بجائے یہ سوچا کہ کہ اس منصوبے کے ساتھ خدا کی رحمت شامل نہیں تھی۔ میں اپنی منفعت اور شان و شوکت کے بارے میں مزید کوئی خواب نہیں دیکھوں گا، اس نے دل میں عہد کیا۔ لیکن وہ چاندی کی اس کثیر دولت کو زمین میں دفن بھی نہیں رہنے دینا چاہتا تھا! اس نے سوچا۔ مجھے اسے ضرور زمین سے نکالنا چاہئے اور غریبوں، ناداروں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ میں کان کی کھدائی ضرور کراؤں گا اور پورے گاؤں کے لوگوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کروں گا! ایک دن وہ اولاف سوارڈ سے ملنے گیا تاکہ اس سے اور اس کے بھائی سے اس امر پر گفتگو کر سکے کہ چاندی کے پہاڑ کے متعلق فوری طور پر کیا کیا جائے۔ جب وہ اس کے گھر کے قریب پہنچا تو وہاں سے اس نے ایک سرکاری گھوڑا گاڑی روانہ ہوتی دیکھی جسے محافظوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس کے اندر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھاجس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور اس کے ٹخنوں میں بھی ایک رسی بندھی نظر آ رہی تھی۔جب وہ گھوڑا گاڑی کے پاس سے گزرا تو گھوڑا گاڑی کسی وجہ سے ٹھہر گئی اور اسے قیدی کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اگر چہ اس کے سر پر کپڑا بندھا ہوا تھا مگر پادری نے اسے پھر بھی پہچان لیا۔ وہ اولاف سوارڈ تھا۔ پادری نے قیدی کو محافظوں سے منت کرتے سنا کہ وہ اسے پادری سے بات کرنے کا موقع دیں۔
پادری گھوڑا گاڑی کے قریب ہوا تو قیدی آگے کی طرف جھکا اور کہا ‘‘جلدہی صرف تم ہی وہ واحد شخص ہو گے جسے چاندی کی کان کے بارے میں علم ہو گا کہ وہ کہاں ہے ’’ اولاف نے کہا۔‘‘یہ تم کیا کہہ رہے ہو اولاف ؟’’ پادری نے کہا۔‘‘سچ یہ ہے صاحب تقدیس کہ جب سے ہمیں اس بات کا پتہ چلا تھا کہ وہ چاندی کی کان تھی ، میں اور میرا بھائی پہلے کی طرح ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ نہیں رہے تھے۔ ہم مسلسل لڑ رہے تھے۔ کل رات ہم دونوں میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ ہم پانچوں میں سے کس نے پہلے اس کان کو دریافت کیا تھا۔ اس بحث میں ہم جھگڑ پڑے اور ہم میں ہاتھا پائی ہو گئی۔ میں نے اسے قتل کر دیا اور اس نے میرے ماتھے پر ایسا زخم لگایا جس کا نشان اس کی یاد دلاتا رہے گا۔ مجھے یقینی پھانسی ہو جائے گی۔ اور اس کے بعد تم ہی وہ اکیلے شخص رہ جاؤ گے جسے کان کے بارے میں علم ہو گا۔ اس لیے میں تم سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔’’‘‘کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟’’ پادری نے کہا ‘‘ میں جو کچھ تمہاری خاطر کر سکا، ضرور کروں گا۔’’‘‘تم جانتے ہو کہ میں اپنے پیچھے چھ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر جا رہا ہوں........ ’’ اس نے کہنا شروع کیا مگر پادری نے اس بات کی کاٹی۔’’ تم ان کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ کان میں جو تمہارا حصہ بنتا ہے وہ انہیں اسی طرح ملے گا جیسے تمہیں ملتا، اگر تم زندہ رہتے۔’’‘‘نہیں’’۔ اولاف سوارڈ نے کہا۔ ‘‘میں تم سے کچھ اور کہنا چاہتا تھا۔ انہیں اس کان میں سے کوئی حصہ نہ دینا! ’’پادری ٹھٹک کر ایک قدم پیچھے ہو گیا۔ وہ حیرت سے مہر بلب اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘اگر تم نے مجھ سے یہ وعدہ نہ کیا تو میں سکون کی موت نہیں مر سکوں گا۔ ‘‘قیدی نے کہا۔‘‘ہاں’’۔ پادری نے آہستگی سے کربناک آواز میں کہا۔ ‘‘ میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ میں تمہاری خواہش کے مطابق عمل کروں گا۔ ’’ اس کے بعد قاتل کی گھوڑا گاڑی آگے بڑھ گئی اور پادری وہیں سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر پریشانی سے سوچنے لگا کہ وہ اپنا وعدہ کیسے نبھائے ۔ گھر واپس جاتے ہوئے وہ اس دولت کے بارے میں غور کرتا رہا جس کے حصول پر اسے خوشی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس گاؤں کے لوگوں کے پاس دولت آئی تو ان کا انجام کیا ہوگا؟ پہلے ہی چار آدمی اس کی بھینٹ چڑھ چکے تھے حالانکہ اس سے پہلے وہ مہذب اور اچھے انسان سمجھے جاتے تھے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تمام لوگوں کی شکلیں ابھریں اور اس نے تصور کی آنکھ سے ان سب کو باری باری تباہی سے دوچار ہوتے دیکھا۔ کیا یہ مناسب تھا کہ وہ، جسے ان مسکینوں کی روحانی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا، انہیں اس آگ میں دھکیل دے جو انہیں راکھ کر دیتی؟’’
اچانک بادشاہ کرسی میں بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ‘‘میں شرطیہ کہتا ہوں کہ تم اب مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کروگے کہ اس دور افتادہ علاقے کا پادری ایک عظیم انسان ہے۔’’
‘‘یہیں بس نہیں ہوئی۔’’ پادری نے اس کی رائے زنی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ‘‘جونہی یہ بھنک کسانوں تک پہنچی کہ گاؤں میں چاندی کی کان دریافت ہوگئی ہے، انہوں نے کام بند کر دیا اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اس لمحے کا انتظار کرنا شروع کر دیا جب اُن پر دولت کی بارش شروع ہونی تھی۔ اِرد گردکے علاقوں سے لوگ آچکے تھے ، گاؤں میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور ہر طرف جھگڑوں ، شراب نوشی اور دنگے فساد کی خبریں آنے لگیں۔ بہت سے لوگ کان کی تلاش میں سارا سارا دن جنگل میں مارے مارے پھرتے رہتے اور پادری نے یہ بات محسوس کی کہ وہ جب بھی گھر سے نکلتا، لوگ چھپ کر اس کا پیچھا کرتے کہیں وہ چاندی کے پہاڑ کی طرف تو نہیں جا رہا، تاکہ وہ بھی کان تک پہنچ جائیں۔آخر پادری نے ایک روز کسانوں کو اکٹھا کیا اور ان سے بات کی۔ اس نے انہیں وہ تمام سانحے یاد دلائے جو چاندی کے پہاڑ کی دریافت کے بعد گاؤں میں پیش آئے تھے اور ان سے پوچھا کہ وہ اسی طرح خود کو تباہی سے دوچار کرتے رہیں گے یا خود کو ان سانحوں سے بچائیں گے۔ پھر اس نے انہیں بتایا کہ انہیں اس سے ، جو ان کا روحانی پیشوا تھا، اس بات کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ انہیں تباہی کی طرف بڑھنے میں مدد دے گا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی کو کان کی نشاندہی کرے گا نہ خود اس سے کوئی منفعت حاصل کرے گا۔ اس کے بعد اس نے کسانوں سے دریافت کیا کہ اب وہ کس طرز عمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اس نے کہا کہ اگر وہ کان کی تلاش جاری رکھنا چاہتے ہیں اور دولت آنے کے منتظر ہیں تو پھر وہ ان سے اس قدر دور جانے کا فیصلہ کر چکا ہے جہاں اسے کسی سانحے کی خبر نہ پہنچے۔ لیکن اگر انہوں نے چاندی کی کان کا خیال ذہن سے نکال دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی طرح رہنے کو تیار ہیں جس طرح وہ پہلے رہتے تھے تو وہ بھی ان کے درمیان رہنے کو تیار ہے۔ ‘‘تمہیں دونوں میں سے جو بات پسند ہے اسے منتخب کر لو۔’’ پادری نے ان سے کہا ‘‘مگر یاد رکھو مجھ سے کبھی کسی کو کان کی جگہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکے گا۔’’ ‘‘تو پھر انہوں نے کیا فیصلہ کیا؟بادشاہ نے پوچھا۔ ‘‘انہوں نے وہی کیا جو ان کا پادری چاہتا تھا’’ پادری نے جواب دیا۔ ‘‘انہیں یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ جب وہ خود بھی ان ہی کی طرح غریب رہنے کو تیار تھا تو وہ ان کی خیر خواہی چاہتا تھا۔ انہوں نے اس سے التجا کی کہ وہ جنگل میں جا کر اس مقام کو پتھروں اور سدا بہار گھاس سے اچھی طرح چھپا دے تاکہ وہ بلکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی کان کی جگہ تلاش نہ کر سکیں۔’’‘‘تو کیا اس وقت سے پادری باقی لوگوں کی طرح غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے؟’’ بادشاہ نے پوچھا۔‘‘ہاں۔’’ پادری نے سر ہلایا۔ ‘‘وہ اپنے لوگوں کی طرح عسرت کی زندگی بسر کرتا ہے۔’’‘‘کم از کم اس نے شادی تو کی ہو گی، اور نیا گھر ضرور بنایا ہو گا؟’’‘‘نہیں، اس میں شادی کی استطاعت نہیں تھی اور وہ ابھی تک پرانے کیبن میں رہتا ہے’’
‘‘تم نے مجھے اچھی کہانی سنائی ہے۔’’ بادشاہ نے کہا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔‘‘کیا تمہارے ذہن میں یہی چاندی کی کان تھی، جب تم یہ کہہ رہے تھے کہ گرجا گھر کی انتظامیہ اتنی رقم کا انتظام کر سکتی ہے، جتنی مجھے درکار ہے؟’’ُُ‘‘ہاں’’ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔‘‘لیکن میں اسے تشدد کے ذریعے نہیں منوا سکتا۔’’ بادشاہ نے کہا۔ ‘‘تم مجھ ایسے شخص کو کان کی نشاندہی پر مجبور کرنے کے لیے کیا حربہ آزمانے کا مشورہ دے سکتے ہو جس نے زندگی کی ہر عیش و عشرت حتیٰ کہ اپنی پسندیدہ عورت تک کو ٹھکرا دیا ہو؟ ’’
‘‘اوہ، وہ الگ معاملہ ہے’’ پادری نے کہا۔ ‘‘لیکن اگر یہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے تو شاید وہ اس کی نشاندہی پر آمادہ ہو جائے۔’’‘‘کیاتم اس کی ضمانت دیتے ہو؟’’‘‘ہاں میں ضمانت دینے کو تیار ہوں۔’’‘‘کیا اسے پھر اس بات کی پروا نہیں کہ اس کے گاؤں والوں کا کیا ہو گا؟’’‘‘ان کا خدا وارث ہے’’
بادشاہ اپنی کرسی سے اٹھا اور کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس نے باہر کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا۔ جوں جوں وہ انہیں دیکھتا گیا، اس کی آنکھوں میں چمک بڑھتی گئی اور اس کا سر بلند ہوتا گیا۔ ‘‘تم لوگ پادری کو اسی مذہبی اجتماع پر مبارکباد دینا اور کہنا کہ سویڈن کے بادشاہ کی نظروں میں اس علاقے کے لوگوں کو دیکھنے سے زیادہ اچھا اور خوبصورت منظر کوئی نہیں! ’’
پھر بادشاہ کھڑکی سے ہٹا ، پادری کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔ ‘‘کیا یہ سچ ہے کہ اس گاؤں کا پادری اس قدر غریب ہے کہ وہ اپنا سیاہ لباس اجتماع ختم ہوتے ہی اتار دیتا ہے، عام دیہاتی کا سا لباس پہن لیتا ہے؟’’ اس نے پوچھا۔‘‘ہاں ، وہ واقعی اتنا غریب ہے’’ پادری نے کہا اور اس کے سادہ سے چہرے پر سرخی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
بادشاہ واپس کھڑکی کی طرف مڑا وہ بہت اچھے موڈ میں نظر آ رہا تھا۔ اس کی تمام تر بڑائی اور شرافت اس کے چہرے پر آ گئی تھی۔
‘‘تم اس کان کو اسی طرح مخفی رہنے دو’’ اس نے کہا ‘‘تم نے تمام عمر ان لوگوں کو جس طرح اپنے تصور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مشقت کی اور بھوک برداشت کی، اس کے بعد اسے ظاہر نہ کرو۔’’
‘‘لیکن اگر مملکت خطرے سے دوچار ہو تو؟’’ پادری نے کہا۔
‘‘ملک پیسے سے نہیں ایسے لوگوں سے قائم رہتے ہیں’’ بادشاہ نے جواب دیا جب وہ یہ کہہ چکا تو اس نے پادری کو خدا حافظ کہا اور حجرے سے باہر نکل آیا۔
باہر لوگوں کا ہجوم اسی طرح خاموش کھڑا تھا، جس طرح بادشاہ انہیں چھوڑ کر اندر گیا تھا۔ جب بادشاہ سیڑھی سے نیچے اترا تو ایک کسان آگے بڑھا۔
‘‘کیا آپ نے ہمارے پادری سے بات کی؟’’ اس نے بادشاہ سے سوال کیا۔‘‘ہاں’’ بادشاہ نے سر ہلایا۔ ‘‘میں نے اس سے بات کی ہے۔’’‘‘پھر یقینا آپ کو ہمارے جواب کا علم ہو گیا ہو گا؟’’ کسان نے کہا۔ ‘‘ہم نے آپ کو اپنے پادری کے پاس اِسی لیے بھیجا تھا کہ وہ ہماری طرف سے آپ کو جواب دے گا’’
‘‘مجھے جواب مل گیا ہے’’ بادشاہ نے کہا۔
٭..........٭..........٭