آج کل مذہبی حلقوں میں عورت کی امامت کا مسئلہ زیر بحث ہے اور اس میں اصل نکتہ یہ ہے کہ آیا عورت ،مرد اور عورتوں کی مخلوط نماز کی امامت کروا سکتی ہے۔ اور اس کے پس منظر میں نیویارک میں ہونے والا وہ واقعہ ہے (جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غالبا اسلامی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے) جس میں ڈاکٹر امینہ ودودنے ( جو ورجینیا یوینورسٹی میں اسلامیات کی پروفیسر ہیں) عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماع میں نماز جمعہ کی امامت کروائی اور یہ سارا پروگرام ایک چرچ میں ہوا کیونکہ امینہ اور اس کے حامیوں کو کسی بھی مسجد میں ایسا کرنے کی اجازت نہ مل سکی تھی۔اس کے جواب میں پوری اسلامی دنیا میں دو رد عمل سامنے آئے۔ ایک تو اس موضوع پر علمی بحث شروع ہوئی کہ آیا عورتیں مخلوط اجتماع کی امام بن سکتی ہیں اور دوسرے یہ کہ عامۃ المسلمین کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ہمارے نزدیک علمی بحث ایک مستحسن امر ہے کیونکہ اس سے مسائل پوری تنقیح سے سامنے آ جاتے ہیں اور تشکیک و اوہام کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ بشرطیکہ بحث معروف علمی اصولوں اور احسن طریق سے انجام پائے اور الزام تراشی اور بازاری زبان سے گریزکیا جائے۔یہ معاملہ علما سے متعلق ہے او ر وہ اس سلسلے میں اپناکردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض حسب معمول ٹھوس علمی دلائل کے بجائے الزامی نوعیت کے کلام سے بات بنانے کے لیے کوشاں ہے۔لیکن پھر بھی ایسے جید علما بہر حال ہیں جو اس سارے معاملے کو غیر جذباتی انداز میں خالص علمی انداز میں حل کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل پیغمبروں کی قائم کردہ روایت کے بر خلاف ہے۔نماز ایک عبادت ہے اورعباد ت کی روح اپنے پروردگار کی طرف کامل متوجہ ہونا ہے اس لیے ہر وہ عمل جو توجہ کے ارتکاز میں حائل ہواور انتشارِ توجہ کا باعث بنے اس سے پرہیز لازم ہے۔ عورت اور مرد کے مابین چونکہ ایک صنفی کشش موجود ہے اور مخلوط اجتماع کی صورت میں یہ کشش یقینا اپنا کام کر ے گی اورعباد ت کی روح بری طرح مجروح ہوگی ۔ اس لیے مخلوط اجتماع کی امامت عورت کے لیے بہر حال جائز نہیں البتہ عورت عورتوں کی امامت کرائے اس کا جواز بھی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔
علما کے دلائل اور ان کی بحث سے قطع نظر ہم تو یہاں یہ عرض کر نا چاہتے ہیں کہ اس قسم کے معاملات میں ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔عامۃ المسلمین کا تو کیا کہنا اس طرح کے ہر معاملے میں ہمارے علما تک یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ یہود ونصاری کی سازش ہے اور وہ لعین و مردود ہیں اور ایساکرتے ہی رہتے ہیں۔ بس اسی طر ح کی دو چارمسجع و مقفی گالیاں دے کرگویا وہ اپنی ذمہ داری پوری کر دیتے ہیں۔ اور اگر زیادہ‘ حمیت دینی’ غالب آئے تو کفر کافتوی بھی دے دیں گے اور ساتھ ہی فسخِ نکاح بتانا کبھی نہ بھولیں گے ۔ اس معاملے میں بھی جب الیکڑانک میڈیا پر ایک معروف عالم دین کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے متعلقہ معاملے کی علمی وضاحت سے زیاد ہ اس بات پر زور دیا کہ جن لوگوں نے اس نماز میں حصہ لیا ان کے نکاح فسخ ہو گئے اور انہیں تجدید ایمان کے بعد تجدید نکاح بھی کرنا ہو گی۔
ہمارے خیال میں امت کا مسئلہ جذباتیت ہے اور ایسے معاملات میں وہ بالخصوص جذبات کا شکار ہو کر راہیں کھوٹی کر لیتی ہے اور مخصوص عناصر اپنے اپنے مفادات کے لیے ان کے جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ عناصر تو اپنا کام نکال کر فارغ ہو جاتے ہیں اور امت اس جذباتیت کا نقصان تا دیر بھگتتی رہتی ہے۔ ہمار ے نزدیک اس طرح کے معاملات میں بہترین پالیسی اعراض اور خاموشی کی پالیسی ہے۔ بعض اوقات ایک خاموشی سو مسائل کا حل ہوتی ہے۔ شرارتی عناصر کو نظر اند از کرنے سے وہ اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ پو ری امت کے سمندر میں ان برساتی نالوں کی آخر اہمیت بھی کیا ہے ؟ یہ ہمار ا رویہ ہے جو انہیں اہم بنا دیتا ہے اور یہ ہمار ا رد عمل ہے جو انہیں پبلسٹی کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔کسی چیز کا جتنا تذکر ہ کیا جائے گا اتنی ہی وہ معروف ہو گی ورنہ ایسی باتوں کی زندگی دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور انہیں بہر حال مرنا ہی ہوتا ہے ۔ بقا ہمیشہ دین کے ابد ی اصولوں اور اقدارکو حاصل ہوتی ہے۔
امت کا اجتماعی شعور دین کے معاملے میں ہمیشہ سے اس عمل کو قبول کرتا رہا ہے اور رہے گا جس کی پشت پر سنت رسول ﷺ کی مہر ثبت ہو یا پھر اسے وحی کی تائید حاصل ہو۔اس کے علاوہ امت داعی کے کردار و سیرت کے بارے میں بھی حساس رہی ہے اور ہے۔ یہ خالص علم اور کردار وسیرت ہی ہیں جو کسی شخصیت کے نظریے یاعمل میں جان پیداکرتے ہیں جس نظریے کو داعی کے کردار کی تائید حاصل نہ ہو وہ تاریخ کے کوڑا دان کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ عمل بھی اپنی مدت پوری کر کے اسی ‘دان’کاحصہ ہو گا۔ چارپانچ دہائیاں قبل شہر لاہور میں ایک معروف دانشور نے پنجابی میں نماز پڑھانا چاہی لیکن امت کی اجتماعیت نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ عمل بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ لہذا ہم خلوص نیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس طرح کے اعمال کے مقابلے میں وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے دین کی مثبت اشاعت و دعوت میں ان توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے ۔فتوے ، گالم گلوچ اور الزامی زبان نہ صرف ان معاملات کو ا جاگر کرتی ہے بلکہ ان کی زندگی کو دو دن سے بڑھا کر چار دن کردیتی ہے۔ اگر ہم شور نہ مچاتے تو دنیا کے لاکھوں لوگوں کو کبھی یہ علم بھی نہ ہو پاتا کہ کہیں اس طرح کا واقعہ بھی ہوا ہے۔
ایسے تمام معاملات میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم بجائے یہود و نصاری کے خود اپنی صفوں میں جھانکنے کی کوشش کیا کریں کہ یہاں کیاغلطی ہے ۔ اگر بالفرض یہودونصاری سازشیں کرتے بھی ہیں تو ان کے لیے بھی تو آخر ہمارے لوگ ہی استعمال ہوتے ہیں اس لیے ان کو متہم کرنے کے بجائے ہمیں اپنے آپ کو الزام دینا چاہیے کہ جو ان کے آلہ کار بنتے ہیں اور یہ آلہ کار بھی شاید اس لیے بنتے ہیں کہ ہمارے ہاں تربیت اور کردار سازی کا وہ نظام ہی موجود نہیں رہا جو کسی قوم کے افرادکی سیرت کو فولاد سے مضبوط اور ہر قیمت سے بالاتر بنا دیتا ہے۔اور وہ لوگ جو آلہ کار بنتے ہیں ان کے ساتھ بھی سختی کارویہ ان کی انا کو مہمیز دے گا اور وہ اپنے عمل میں مزید پختہ ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لیے ان کو بھی نظر انداز کر دینا ہی صحیح راستہ اور درست سمت ہے۔ البتہ مثبت ذرائع اور احسن طریقوں سے اپنا پیغام پہنچانے کی سعی کرتے رہنا بہر حال ہمارے ذمہ ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ ہماری ذمہ داری ہے اور نہ ہم سے اللہ کے ہاں پوچھ ہو گی۔دانش اور عقلمند ی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس کی فکر میں زندگی بسر کریں جس کی ہم سے پوچھ ہونی ہے نہ کہ اس کی فکر میں جس کے بارے میں ہم سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔