1971ء کی بات ہے۔ جب میں تین ماہ تک ٹائیفائیڈ کے مرض میں مبتلا رہا۔ بہت علاج معالجہ کرایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے ماموں جو کہ ایک مستند حکیم تھے جھنگ سے ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہم اس زمانے میں چیچہ وطنی شہر کے ایک نواحی گاؤں میں رہتے تھے۔ میں کمبل اوڑھے کمرے میں بے سدھ پڑا ہوا تھاکہ ماموں میرے پاس آئے اور میرا بازو پکڑ کر میری نبض دیکھنے لگے۔ معاینہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنے بیگ سے دو گولیاں پانی کے ساتھ کھانے کو دیں۔ وہ گولیاں میں نے پانی کے ساتھ کھا لیں اور پھر لیٹ گیا۔ تقریباً دو ہی گھنٹے بعد مجھے حاجت محسوس ہوئی اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے مجھے تین چار بار بیت الخلا جانا پڑا۔ پیٹ صاف ہوتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہوش و حواس درست ہو گئے ہوں اور میں بغیر سہارے چلنے کے قابل ہو گیا۔
میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا قریبی کھیتوں کی طرف نکل گیا۔ جب میں اپنے ایک دوست کے پاس پہنچا تو وہاں گنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے دو تین گنے ّچوس لیے۔
تھوڑی دیر کے بعد میں خود کو نارمل محسوس کر رہا تھا۔ میری ساری نقاہت دور ہو چکی تھی اور میں واپسی پر یوں محسوس کر رہا تھا جیسے ڈاکٹر نے مجھے گلوکوز کی دو تین بوتلیں چڑھا دی ہوں یا فو ری طاقت کے دوچار انجکشن لگا دیے ہوں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سارا گنے کا کمال تھا۔
گنا مشہورِ عام بانس کی قسم کا پودا ہے۔ مشہور نام گنا ہے۔ اردو میں گناّ۔ پنجابی میں گناّ۔ عربی میں قصب السکر۔ فارسی میں نیشکر۔ سندھی میں کمند۔ لاطینی میں Saccharum Album سیکرم ایلبم اور انگریزی میں اسے Sugar Caneشوگر کین کہتے ہیں اور اس کی فصل کو پنجابی میں کماد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس کا رنگ سرخ و سفید اور بعض کا سبزی مائل ہوتا ہے۔ ذائقہ شیریں اور مزاج یونانی طب کے مطابق گرم درجہ اول اور تر درجہ دوم ہے۔ آیورویدک میں گنے کی تیرہ (13)قسمیں بتائی گئی ہیں۔
گنے کے افعال و استعمال:
مفرح قلب، ملین طبع اور مدر بول ہے۔ اس کا چھلکا چھیل کر چھوٹی چھوٹی گنڈیریاں بنا کر چوسنا دانتوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ صالح خون پیدا کرتا ہے۔ سدہ کھولتا ہے۔ مدر بول و براز ہے۔ سینہ پھیپھڑااور کھانسی کو مفید ہے۔ کھانا ہضم کرتا ہے اور مصلح جگر ہے۔ اس میں کیلشیم، فولاد، میکنیز جیسے معدنی نمکیات کے علاوہ وٹامنز بی اور سی بھی پائے جاتے ہیں۔ گنے کا خاص استعمال گڑ، شکر، چینی اور مصری بنانے میں کیا جاتا ہے اور اس کا رس پیا جاتا ہے۔
گنے کے رس کو استعمال کرنے کا بہتر طریقہ:
250گرام گنے کا رس، 6گرام ادرک کا رس،6گرام لیموں کا رس، کالا نمک اور بھنا ہوا کالا زیرہ مناسب مقدار میں لے کر ملا لیں اور پی لیں۔ اس سے منہ کا ذائقہ اچھا رہے گا۔ بھوک زیادہ لگے گی۔ دل خوش رہے گا۔مشینوں کے ذریعے سے نکلاہوا گنے کا رس دیر سے ہضم ہونے کے علاوہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں صفائی نہیں ہوتی۔
یرقان، جگر کی کمزوری، ہچکی اور پیاس کے مریضوں کو گنا چوس کر ہی استعمال کرنا چاہیے۔ پیشاب کی بندش و جلن میں بھی مفید ہے۔ اس کے باقاعدہ استعمال سے جسم کا دبلا پن دور ہو جاتا ہے۔تیز مرچ’ مسالہ دار اور تلی ہوئی اشیا کے استعمال سے جو نقائص پیدا ہوتے ہیں اس کے استعمال سے وہ بھی دور ہوجاتے ہیں۔
گنے کا رس دہی کی تازہ لسی میں ملا کر یا کنوں کے رس میں ملا کر پینے سے جسمانی نشوونما بڑھتی ہے اور رنگ نکھر آتا ہے۔ انار کے رس کے ساتھ گنے کا رس ملا کر پینے سے خونی دست دور ہو جاتے ہیں۔گنے کے رس میں کھیر بھی پکائی جاتی ہے۔
گڑ:
گڑ محنت کرنے والوں کے لیے اچھی خوراک ہے۔ اس میں کیلشیم (چونا) کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ محنتی لوگوں کو دیگر چیزیں کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ساتھ ہی فاسفورس کی مقدار بھی اس میں کم نہیں۔ آنکھ کی حفاظت کرنے والا وٹامن اے بھی اس میں بہت پایا جاتا ہے۔
گڑ کا استعمال:
آیورویدک و طب یونانی میں گڑ کی بہت اہمیت ہے۔ طب یونانی میں گڑ گرم ہونے کی وجہ سے گرم مزاج لوگوں کے لیے نقصان دہ بتایا گیا ہے۔ یہ پیٹ کو صاف کرنے والا’آنتوں اور رحم کی کمزوری کو دور کرنے والا’ بلغم صاف کرنے والا، کھانسی دمہ کو فائدہ پہنچانے والااور چھاتی کے درد میں مفید ہے۔
ریاحی امراض میں گڑ سونف کے ساتھ کھانا چاہیے۔ جو بچے ہڈیوں کی کمزوری’ دانتوں کے نقائص یا کیلشیم کی کمی میں مبتلا ہوں۔ ان کو ہمیشہ چینی کے بجائے مناسب مقدار میں گڑ دینا چاہیے۔ بچوں کے لیے یہ ایک بہت اچھی خوراک ہے چونکہ کیلشیم سے بھر پور ہے۔ گڑ گلوکوز کے برابر ہی مفید ہے۔ صرف گڑ کے استعمال سے ہی کئی امراض دور کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن مارچ اپریل کے مہینے میں گڑ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔گڑ کے مندرجہ ذیل مجربات بہت ہی مفید ہیں:
پیٹ کے کیڑے’ کھانسی اور گیس کے لیے
گڑ میں پلاس پاپڑہ (ڈھاک کے بیج) مناسب مقدار میں ملا کر کھانے سے بچوں کے پیٹ کے کیڑے دور ہو جاتے ہیں۔ادرک کے رس کے ساتھ گڑ کھانے سے کھانسی دور ہو جاتی ہے۔سونٹھ کے ساتھ گڑ کھانے سے پیٹ کی گیس کا عارضہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
ممنوع:
گنے کا رس و گڑ، چینی، شکر اور مصری وغیرہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے سختی سے منع ہے۔
گنا میٹھا ہونے کی وجہ سے اس پر کیڑا حملہ کرتا ہے اور کیڑا اس کی پوریوں کے اندر رہ جاتا ہے۔ مشین سے نکالنے کی صورت میں کیڑا بھی ساتھ پلِ جاتاہے اس لیے مشین کا رس نہیں پینا چاہیے۔ اس سے کئی قسم کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔