۱۹۸۲ء کی بات ہے۔ ستمبر کا مہینہ تھا۔ میں اپنے مطب میں بیٹھا ہوا تھا کہ فریڈرک شمشاد آگئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا اخبار تھا۔ کہنے لگے ‘‘یہ ۱۴؍ اگست کا پاکستان ٹائمز ہے جس میں چھپا ہوا ایک خط آپ کے مطلب کا ہے’’ میں نے خط پڑھا تو اس کا مفہوم یہ تھا:
ہماری نوجوان بچی کو خون کا سرطان ہو گیا۔ ملک کے مختلف بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کروایا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ حتیٰ کہ میو ہسپتال لاہور والوں نے کہا کہ اب بچی کا بچنا مشکل ہے لہٰذا اسے اپنے گھر لے جائیں۔ ہم ہسپتال والوں کی ہدایت کے مطابق اسے منڈی بہاؤ الدین لے آئے اور وہاں کے ہسپتال میں داخل کروا دیا کہ جب تک سانس باقی ہے، بچی طبی سہولتوں سے فیضیاب ہوتی رہے۔
علاج جاری تھا لیکن بچنے کی امید نہیں تھی۔ ہم خود بھی مایوس تھے۔ ایک دن ہسپتال میں ہمارے جاننے والے صاحب ملنے آئے جو جاتے ہوئے کہہ گئے کہ اس علاقہ میں ‘‘سچی بوٹی’’ ہے۔ اگر آپ صبح شام تھوڑی سی بوٹی لے کر اسے پانی میں گھوٹ کر پلائیں تو امید ہے اللہ پاک فضل کرے گا۔ ہم روزانہ وہ بوٹی توڑتے، چار پانچ پتے پانی میں گھوٹتے اور مریضہ کو پلا دیتے۔ یوں پندرہ دن گزر گئے۔
ایک دن میں مریضہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتفاقاً تین چار ڈاکٹر وہاں آگئے اور میری موجودگی میں گفتگو کرنے لگے۔ موضوع بحث ہماری مریضہ تھی اور گفتگو کی زبان انگریزی تھی۔ میری وضع قطع سے یہ سمجھ کر کہ میں انگریزی نہیں جانتا، وہ اس زبان کو سہارا بنائے باتیں کرنے لگے اور میں غور سے ان کی باتیں سننے لگا۔ ایک ڈاکٹر کہنے لگا: ‘‘مریضہ کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ خون کے سرخ ذرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میرا خیال ہے یہ فلاں دوا کا اثر ہے۔’’
دوسرا ڈاکٹر بولا: ‘‘یہ دوا تو ہم نے فلاں فلاں مریض کو بھی دی ہے لیکن اسے ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ یہ فلاں دوا سے بہتر ہوئی ہے۔’’
اب مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔ ‘‘ڈاکٹر صاحبان! آپ کی بتلائی ہوئی ادویات ہم نے یہاں بھی اور دوسرے ہسپتال میں بھی استعمال کیں مگر فائدہ نہیں ہوا۔ اب ہم مریضہ کو سچی بوٹی استعمال کروا رہے ہیں اور یہ اسی کا اثر ہے۔’’
پہلے تو ڈاکٹروں نے انکار کیا مگر اصرار پر انھوں نے اجازت دے دی کہ سچی بوٹی مریضہ کو استعمال کرواتا رہوں۔ کئی دن تک یہ دوا استعمال کرائی گئی اور وہ مریضہ جس کی زندگی سے ہم مایوس ہو چکے تھے، صحت یاب ہو کر گھر آگئی۔
خط لکھنے والے صاحب نے ڈاکٹروں اور اطباء سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس گراں قدر بوٹی پر تحقیق کریں اور اگر مفید ثابت ہو تو اسے دنیا میں متعارف کرائیں۔
میں نے فریڈرک شمشاد کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے میرے لیے تحقیق کا ایک نیا دریچہ کھولا۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی استاد ہیں۔ عرصہ دراز سے مریض کی حیثیت سے میرے پاس آتے ہیں۔ پرانا مریض چونکہ آدھا طبیب ہو جاتا ہے، اس لیے حکمت سے بھی شغف رکھتے ہیں اور سچی بوٹی کے بارے میں خط پڑھ کر میرے پاس آگئے۔
لیکن میں سچی بوٹی کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ کئی مقامی اطباء سے پوچھا، وہ بھی اس نام سے واقف نہیں تھے۔ مفردات کی جو جو کتاب مجھے دستیاب ہو سکی، کھنگال ڈالی لیکن کسی کتاب میں سچی بوٹی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ ملا۔ ذہن میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے یہ کوئی مقامی نام ہو لہٰذا اس بوٹی کا پتا کرنے کے لیے منڈی بہا ؤ الدین سے رابطہ قائم کیا جائے۔ وہاں یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کے ایک میرے ساتھی محمد یونس رہتے تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا اور وہاں جا پہنچا۔
وہ خود تو اس بوٹی سے بلکہ طب سے بھی واقف نہیں تھے لیکن وہاں کے ایک معروف طبیب حکیم افتخار فخر صاحب کے پاس مجھے لے گئے۔ میں نے حکیم صاحب سے اس خط کا ذکر کیا اور ان سے بوٹی کے معاملے میں مدد چاہی۔ فرمانے لگے ‘‘اس بوٹی سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ ہمارے علاقے میں دھمانسہ کو سچی بوٹی کہا جاتا ہے۔’’
دھمانسہ پنجاب کے میدانی علاقوں، خصوصاً دریاؤں کے کنارے ریتلی زمین میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ زمین پر بچھی ہوئی کانٹے دار بوٹی ہے۔ اس کا پتا بہت چھوٹا ہوتا ہے اور کانٹوں کے سرے پر پھول لگتے ہیں۔ پنجابی میں اسے دھماں بوٹی کہتے ہیں۔ اس کی مقدار خوراک ۲ سے ۵ گرام ہے۔ مفردات پر شائع ہونے والی کتب میں اسے مقوی معدہ و جگر، دافع بخار اور مصفی خون لکھا ہے۔ اس کے پتے لیموں کے عرق میں ملا کر لگانے سے بال سیاہ ہو جاتے ہیں۔
میں نے اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہونے والی کتب میں اس کے خواص پر نظر ڈالی، سب نے اسے مصفی خون تو لکھا ہے لیکن خون کے سرطان کے لیے مفید ہونے کا کہیں ذکر نہیں۔ ہو سکتا ہے پہلے کسی نے اسے اس مرض میں استعمال ہی نہ کیا ہو یا صاحب تصنیف لوگوں کے تجربے میں نہ آئی ہو اور عام آدمی اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ پاکستان ٹائمز کے خط میں اس بات کا ذکر کہ ایک عام آدمی نے انھیں خون کا سرطان دور کرنے کے لیے اس کے استعمال کا مشورہ دیا، ظاہر کرتا ہے کہ صاحب نسخہ نے پہلے بھی اسے استعمال کیا ہو گا۔
۱۹۸۴ء میں مجھے یہ نسخہ آزمانے کا موقعہ ملا۔ فیصل آباد سے ڈاکٹر سبطین کاظمی کا خط آیا کہ ایک مریضہ کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے وہ حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ مقررہ تاریخ کو وہ تشریف لائے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انھوں نے ذکر کیا ‘‘میرے پاس حیدرآباد سے ایک خط آیا ہے۔ چونکہ خط سندھی زبان میں ہے اس لیے اس کا ترجمہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔’’
خط میں لکھا تھا کہ ایک مریضہ جس کی عمر چھبیس ستائیس سال ہے، خون کے سرطان میں مبتلا جامشورو ہسپتال میں داخل ہے۔ اس کے خون کے سرخ ذرات کم سے کم ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ انھیں لاہور لے جائیں۔ کیا آپ کو کسی ایسے ڈاکٹر کا علم ہے جو بلڈ کینسر کا علاج کر سکے؟
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پاکستان ٹائمز والے خط کا ذکر کیا۔ انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا ‘‘مجھے آپ دوا دے دیں۔ میں انھیں بھجوا دیتا ہوں۔’’
میں نے انھیں پندرہ دن کی دوا دی اور کہا کہ آپ مجھے وقت گزرنے پر فوراً اطلاع کریں۔ جب مقررہ روز گزر گئے تو ڈاکٹر صاحب کا جواب آیا۔ ‘‘مرض میں کوئی فرق نہیں پڑا لیکن گھر والوں کی خواہش ہے کہ پندرہ دن کی دوا مزید بھجوا دیں۔’’
بذریعہ ڈاک دوا ارسال کر دی گئی۔ ایک ماہ گزرنے پر ڈاکٹر سبطین کاظمی پھر تشریف لائے۔ ان کے پاس سندھی زبان میں لکھا ایک لمبا چوڑا خط تھا جس میں تحریر تھا کہ اگرچہ فاقہ نہیں ہوا لیکن خون کے سفید ذرات کم بننے لگے ہیں۔ سرخ ذرات میں جو کمی ہو رہی تھی، وہ بھی نہیں ہو رہی لہٰذا آپ ایک مہینہ کی دوا اور بھجوا دیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دوا دے دی۔
ایک ماہ گزرنے پر ڈاکٹر صاحب پھر لاہور آئے۔ مریضہ کی شفایابی کی خوش خبری سنائی اور کہا کہ ہسپتال سے اسے گھر لے آئے ہیں لیکن اہل خانہ کی خواہش ہے کہ ایک ماہ کی دوا احتیاطاًمزید دے دی جائے۔
ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: ‘‘جب مریضہ ہسپتال چھوڑ رہی تھی تو ڈاکٹروں نے کہا مریضہ کو ہسپتال ہی میں رکھیں۔ اب وہ علاج کریں گے لیکن مریضہ کے والدین نے کہا، بابا ! جن کے علاج سے فائدہ ہوا ہے ہم تو انھی کا علاج جاری رکھیں گے۔’’
ایک ماہ گزرنے پر ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے: ‘‘حکیم صاحب! مریضہ تو الحمدللہ ٹھیک ہو گئی ہے لیکن ہم ایک بات پر بہت حیران ہیں۔ بیماری سے پہلے مریضہ بانجھ تھی۔ اس کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی لیکن اب اللہ کے فضل سے مریضہ امید سے ہے۔’’
میں ہنس پڑا اور کہا ‘‘ڈاکٹر صاحب! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے مریضہ کو کیا دوا دی تھی؟’’
کہنے لگے: ‘‘چھوٹی چھوٹی گولیاں صبح شام لینی تھیں۔’’
میں نے انھیں بتایا کہ یہ گولیاں حب اٹھہرا کہلاتی ہیں اور بنیادی طور پر بانجھ پن کے لیے مفید ہیں لیکن اس میں اجزائے دوائیہ اتنے کم ہیں کہ بمشکل ایک چاول کی مقدار میں گولی بنتی ہے۔ اس کا وزن بڑھانے کے لیے اس میں ایک حصہ دوائی اجزاء اور آٹھ حصہ دھمانسہ ڈالا جاتا ہے جس سے چنے کے برابر گولی بن جاتی ہے۔ میرے پاس چونکہ دھمانسہ کی بنی ہوئی یہی دوا موجود تھی لہٰذا یہی دیتا رہا اور اس نے دونوں کام کر دیئے۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش تھے۔ ظاہر ہے ان سے زیادہ لڑکی اور اس کے والدین خوش ہوں گے جو اپنی بیٹی کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے مگر ایک کرشماتی جڑی بوٹی نے اسے حیات نو عطا کی۔