‘‘بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل’’
ستمبر ۲۰۰۴ میں جب ہم سوئے حرم کا آغاز کر رہے تھے توہمار ا خیال یہ تھا کہ اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہو گی کہ سوئے حرم کیا ہے ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس کارخ کس طر ف ہو گا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ اقبال کایہ مصرع ہماری ہزار تشریحات اور وضاحتوں پر بھاری ہے۔کیونکہ یہ ہی ہمار ا مقصد ’ ہماری منزل اور دعوت ہے۔لیکن اب ‘‘بھری محفل ’’ میں ہمیں یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کوئی عا ر محسوس نہیں ہورہی کہ ہمارا خیال درست نہ تھااس لیے ہم اپنی اس غلطی کی معافی مانگتے ہوئے اب یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ سوئے حرم کیا ہے؟
پچھلے چارما ہ میں ہمارے کرم فرماؤں نے ہمیں یہ سمجھانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی کہ سوئے حرم ایک خالص مذہبی نام ہے اور اس نام کے ساتھ صرف قرآن و حدیث ہی میل کھاتے ہیں۔ یہ جو تم نے اس میں شعر وا دب’ ناول’ کہانی ’ افسانہ ’ نظم ’ غزل ’ انٹر نیٹ کا تذکرہ اورتجارت وغیرہ کا ذکرچھیڑ رکھاہے اس کا سوئے حرم سے کیاتعلق؟
ہمارے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہمارے معاشرے میں ہر داڑھی والے کے ساتھ ہو رہاہے داڑھی والا اگر کرکٹ کھیل رہا ہو تو لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب آپ کرکٹ کھیل رہے ہیں؟ مولوی کسی تفریحی مقام کی سیر کر رہا ہو تو لوگ کہیں گے مولوی صاحب آپ یہاں! حتی کہ مولوی اگر پیپسی پی رہا ہو تو لوگ کہتے ہیں آپ پیپسی پیتے ہیں!دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ کا مقام مسجد کی چار دیواری ہے باہر آپ کا کوئی کام نہیں۔(اور اند ر ہمار اکوئی کام نہیں؟)
یہ تصورات اصل میں اس اجتماعی نفسیات اور سوچ کا نتیجہ ہیں جو دین کے عامیانہ’ سطحی ’غیر علمی اور غلط تصورکے نتیجے میں وجو د میں آگئی ہے ۔مذہب کے بارے میں اسی عامیانہ اور غلط سوچ کو بدلنے کی سعی خود اقبا ل کی زند گی کا محور بنی رہی او راسی کے وہ داعی رہے کہ اس زمانے میں یہ امت جو کہ شہر کی خوگر ہو گئی ہے وہ اپنے اسلاف کی طرح صحرا کی وسعتوں سے ہمکنا رہو جائے۔ اقبال کے حاشیہ
خیال میں بھی نہ ہو گا کہ ایک زمانے میں میرے اس خوبصورت شعر اور پیغام کو روایتی مذہبیت سے جوڑ دیاجائے گا ۔اور سوئے حر م جیسی خوبصورت ادبی اصطلاح کو ملائیت اور مولویت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ سوئے حر م تو اقبال کا ایک پیغام ہے امت کو اسی ایک مرکز کی سمت متوجہ کر نے کا کہ جس کے ساتھ ان کی ساری عزتیں اور حرمتیں وابستہ ہیں’سوئے حرم تو ایک دعوت ہے امت کے لیے اس مرکز سے وفا کر نے کی کہ جس سے منہ موڑنے کی سزا پھر نسلوں کو بھگتنا ہوتی ہے ’ سوئے حرم توایک جہد مسلسل ہے امت کو علاقائی ’ قومی’ لسانی ’ نسلی تعصبا ت کے کنوؤں سے آزاد کرانے اور اسے آفاق کی وسعتوں سے ہمکنا ر کرنے کی’ سوئے حرم توایک کاوش ہے امت کا رشتہ پھر اس اصل سے جوڑنے کی کہ جہاں دین اور دنیا الگ الگ نہ ہوتے تھے اورسوئے حرم تو ایک محنت ہے امت کو جدید علوم و فنون کی راہ دکھانے کی تا کہ تسخیر کائنات کا خواب جب شرمند ہ تعبیر ہو تو یہ امت کنارے کی تماشائی نہ ہو بلکہ اس عمل میں برابر کی شریک ہو۔
آج امت کے لیے یہ پیغام ’ یہ دعوت ’ یہ جہد’ یہ کاوش اور یہ محنت ایک اجنبی چیز بن کر رہ گئی ہے ۔ ہم اسی اجنبیت کو مٹانا چاہتے ہیں اور راستے میں حائل تمام پر دوں کوہٹا کر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ علوم وفنون کے ساتھ رشتہ ہی اصل میں وہ زینہ تھا کہ جس نے امت کو اوجِ ثریا نصیب کیا تھااور آج بھی اسی زینے کا حصول ہی وہ مرحلہ ہے کہ اگر یہ مرحلہ اس امت نے صبر واستقلا ل کے ساتھ طے کر لیا تو وہ دن دور نہیں کہ اس کا نشیمن پھر پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو گا اور صحرا کی وسعتیں پھر اس کے قدموں تلے ہوں گی ’ ستاروں پر اس کے کمند ہوں گے اور عقابوں کے نشیمن یقینا زاغوں کے تصرف سے آزاد ہو ں گے۔
سوئے حرم امت کو پھر بھولا ہوا سبق یا د کروانا چاہتا ہے ۔سوئے حرم چاہتا ہے کہ امت کواحساس زیاں بھی ہو جائے اور وہ یہ بھی جان جائے کہ وہ ‘‘کیا گردوں تھا تو ہے جس کا ٹوٹا ہوا تارا’’۔
یہ ساری کہانی تو اور لوگ بھی سناتے ہیں سوئے حرم اس میں کوئی منفرد نہیں مگر سفر کے زاد راہ اور راستے کے تعین میں سوئے حرم ان سے مختلف ہے ۔ لوگ جذبات کا زادِ راہ دیتے ہیں جب کہ سوئے حرم عقل و فکر کا اور علوم و فنون کا زاد راہ مہیا کر نے کاداعی ہے۔ دین کے غلط تصور نے اس امت کو جو زخم لگائے ہیں سوئے حرم انہیں مندمل کرنے کی تگ ودو کا نام ہے۔سوئے حرم جذبات اور رد عمل کی نفسیا ت سے نکل کر حقائق کا سامنا کرنے کا پیغام ہے ۔ان تمام حوالوں سے سوئے حرم نے ہر اس علم، ہر اس فن اور ہر اس شعبے کی نمائندگی کرنے کا عزم کر رکھا ہے جو امت کے احیا کے سفر میں کسی بھی درجے میں معاون ہو سکے ۔سوئے حرم کا دعوی ہے اور یہ عقید ت نہیں حقیقت پر مبنی ہے کہ فنون لطیفہ سے لے کر قرآن وسنت تک سب علوم و فنون کی راہیں ہمارے ہی اسلاف کے خونِ جگر سے روشن ہوئی تھیں۔تو پھر ہم انہیں کیوں بھلا دیں ؟اور ان کا راستہ اور تذکرہ کیوں چھوڑ دیں؟سوئے حرم کی آرزو ہے کہ جہاں ہم بخاری ’ مسلم ’ ابو حنیفہ ’ شافعی و مالک ’ غزالی و شاہ ولی اللہ کے صحیح اخلاف ثابت ہوں وہیں ہم جابر’ رازی’البیرونی’ابن الہیثم’فارابی’کندی’سینا’ابن رشد’ عمر خیام’ خوارزمی’ادریسی اور مسعودی کی روایات کے امیں بھی ثابت ہوں۔ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں کی کہانی ہے ۔ لیکن اس کہانی کاآغاز تو ہو ۔ اس کی آواز تو لگے ۔ کوئی تو ہو جواذانِ فجرکہے ! سوئے حرم بس یہی آواز لگانے اور اذان کہنے کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ کہ شاید کچھ سننے والے کان’ دیکھنے والی آنکھیں’ سوچ و فکر کے حامل دل و دماغ مل جائیں جو اس پیغام کو مزید قوت و استعداد کے ساتھ امت کا مسئلہ بنا سکیں۔
مذہبی دنیا میں فرقہ واریت’ تعصب و تنگ نظری ’ جہالت اور عدم برداشت نے ہمیں اقوامِ عالم کی صف میں بہت پیچھے کر دیا ہے ۔ترقی کا سفر شروع کر نے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان امراض سے جتنی جلد ممکن ہو جان چھڑ ا لیں۔ اس کے لئے تمام شعبہائے زندگی میں انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے ۔سوئے حرم اس جانب بھی ایک کاوش ہے۔ جس کا بنیاد ی مقصد قوم میں ان امراض کی سنگینی کا احساس پیدا کرنا اور اسے مناسب اور صحیح علاج کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس کے لیے سوئے حرم امت کے تما م علمی دھاروں کو بغیر کسی تعصب کے آپ تک منتقل کر نے کے لیے کوشاں ہے اور اس بات کا آرزو مند ہے کہ آپ میں جستجو اور تحقیق کا مادہ پرورش پا سکے اور اپنی عقل وفکر کو استعمال کرتے ہوئے حق کو پانے کی فکر نصیب ہو سکے۔
سوئے حرم وحدت ِ امت کا داعی ہونے کے ساتھ ساتھ امن ومحبت کا نقیب بھی ہے ’ رواداری کا پیامبر بھی ہے اور امت کے تمام علمی ’ ادبی ’ فنی ’ تعلیمی ’ اصلاحی اوردعوتی روایات کا امین بھی ہے۔
ہم کسی مسلک اور گر وہ کی نمائند گی نہیں کرتے بلکہ پوری امت کے نمائندہ ہیں جو لوگ ہمیں کسی خاص عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں انہیں بھی مایوسی ہو گی۔اور انہیں بھی جو اسے روایتی مذہبی پرچے کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم مذہبی ضرور ہیں لیکن روایتی نہیں ہم جدید اور روشن خیال ضرور ہیں مگر ایسے بھی نہیں کہ اپنی مذہبی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیں۔ہم مذہب کا دامن تھام کر جدیدیت کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں اور جہاں مذہب اور جدیدیت میں مقابلہ ہو گا توہم بلا شبہ مذہب کی طرف کھڑ ے ہوں گے ہمارے صفحات ہر اس جدید علم اور فن کے لئے حاضر ہوں گے جن سے کسی اخلاقی بگاڑ کا اندیشہ نہ ہو اور ہما راد روازہ ہر اس خالص مذہبی علم اور مذہبیت کے لیے کھلا رہے گا جس سے کسی فرقہ واریت ’ تشدد اور امت کی صفوں میں تفریق و انتشار کا اندیشہ نہ ہو۔وما علینا الا البلاغ المبین۔
ان تمام معروضات کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ :
سوئے حرم ایک تعلیمی مشن اور امت کے اخلاق و کردار کوصحیح نہج پر لانے کی اصلاحی کاوش ہے ۔سوئے حرم اس بات کا خواہاں ہے کہ امت تمام شعبہائے زندگی میں مہینوں کاسفر دنوں میں طے کرے اور سوئے حرم اس سفر میں امت کا علمی اور قلمی معاون بنے۔
اس کے صفحات میں آپ کو ملے گا:
محبت ’ امن ’ ہمدردی ’ برداشت اور رواداری کا پیغام
سوئے حرم کی اہم تحریریں
قرآن مجید ۔ سات تراجم و اہم مکاتب فکر کی سات نمائندہ تفاسیر’ حدیثِ نبویﷺ’ سیرت رسولﷺ اور صحابہؓ
تعلیم و تعلم’ اصلاح و دعوت
اس کے علاوہ
معاشرے کے سلگتے مسائل ’ آپ کے دکھ درد ’ مشور ہ اور راہنمائی ’ جسے اللہ رکھے ۔سچی کہانیوں کا سلسلہ ’ آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں’ مکافات عمل ۔قدرت کی پکڑ اسی دنیا میں’ چھوٹے نام بڑے لوگ۔گمنا م لوگوں کے عظیم کاموں کاتعارف۔
جہد مسلسل’ محنتی اورفرض شناس لوگوں کاتعارف ’ محنتی ذہین طلبااور اساتذہ کاتعارف ’ سائنس و ٹیکنالوجی۔معلومات۔
علمی ودینی مضامین ’ دیار ِ غیر میں بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل ’ بچوں کی اچھوتی کہانیاں ’ خواتین کے من پسند موضوعات ’ ادبیات۔ افسانہ اور غزلیں ’ تبصرہ کتب’ آپ کے خطوط۔
مزید برآں سوئے حرم
ملکی معیشت کے فروغ میں نمایاں حصہ لینے والے طبقات کی بھر پور نمائندگی بھی کرتا ہے۔