ہر سال دس ذی الحج کوکعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے۔اور یہ حج کی اہم ترین رسم سمجھی جاتی ہے۔ہر سال پرانا غلاف اتار کر اسے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا ہے۔اور یہ ٹکڑے مسلمان ملکوں’ راہنماؤں اور اداروں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک ٹکڑا اقوام متحدہ کو بھی تحفے میں دیا جاتا ہے۔
کعبہ پر غلاف چڑھانے سے قبل اسے آبِ زمزم اور عرقِ گلاب سے غسل بھی دیا جاتا ہے ۔ یہ غسل سال میں دو بار دیا جاتا ہے ۔ایک بار رمضان سے قبل اوردوسر ی بار حج سے قبل۔
غلاف کا حجم ۶۸۰ مربع میٹر ہے ۔اور یہ ۶۷۰ کلو گرام خالص ریشم سے تیار کیا جا تا ہے۔کشید ہ کاری کے لیے تقریبا ۱۵ کلو سونے کے تار استعمال ہوتے ہیں۔یہ غلاف ۴۷ ٹکڑوں پر مشتمل ہو تا ہے اور ہر ٹکٹرا ۱۴ میٹر لمبا اور ۱۰۱ سینٹی میٹر چوڑا ہوتا ہے۔غلاف کو کعبہ کے گردا گر د لپیٹ کر نیچے تانبے کے حلقوں سے باند ھ دیا جاتاہے۔غلاف کا وہ حصہ جو کعبہ کے دروازے کو ڈھانپتا ہے اسے خاص طور پر علیحد ہ تیار کیا جاتا ہے ۔ یہ سطح زمین سے دو اعشاریہ تیرہ میٹر بلند ہوتا ہے۔اس پر قرآنی آیات کی خاص کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ حجر اسود اور دروازے کا تھوڑا ساحصہ کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
شاہ عبدالعزیز نے ۱۹۲۶ء میں مکہ میں غلافِ کعبہ بنانے کیلیے ایک فیکٹر ی قائم کی تھی۔ اس فیکٹری کے قیام میں مولانا داؤد غزنوی اور مولانااسماعیل غزنوی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ابتدا میں تمام کاریگر ہندوستان سے فراہم کیے گئے۔تقریبا سو کاریگر سال بھر کی محنت کے بعد اس کو تیار کرتے تھے اور اسے خوبصورت قرآنی خطاطی سے مزین کیا جاتا تھا۔۱۹۳۷ میں یہ فیکٹری جدید مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند کر دی گئی۔ایک لمبے عرصے کے بعد یہ فیکٹری ایک بار پھر، ۱۹۶۲ میں کام کرنے لگی۔
غلاف بنانا ایک دلچسپ عمل ہے اور اسے مختلف مراحل میں مکمل کیا جاتا ہے۔اس کے لیے بہترین ریشم اٹلی او ر جرمنی سے منگوایا جاتا ہے۔خاص قسم کے کیمیکلز اور زیتون کے صابن وغیر ہ سے اسے دھو کر صاف کیا جاتا ہے۔اس ریشم کو ۹۰ درجہ سنٹی گریڈ پہ رکھ کر اور بار بار دھو کر اس کااصل رنگ حاصل کیا جاتا ہے ۔دس سال قبل یہ سارا عمل ہاتھوں سے انجام دیا جاتا تھاجبکہ اب اس کے لئے جدید مشینری دستیاب ہے ۔اس کے بعد اس تیار شدہ ریشم سے کپڑے کی بنائی عمل میں آتی ہے۔شروع میں اس غلاف پر ایک خاص قسم کی پٹی بھی لگائی جاتی تھی جس کے آٹھ حصے ہوتے تھے بعد میں انہیں بڑھا کر سولہ کر دیا گیا۔۱۹۷۱ میں دو مزید حصے متعارف کروائے گئے جن پر یا حی یاقیوم لکھا جاتا ہے۔قرآنی آیات کی ڈیزائننگ مکمل کمپیو ٹرائز ڈ ہے ۔کشیدہ کاری کے لیے سونے اور چاند ی کے تار استعمال کیے جاتے ہیں۔یہ دھاگے عام طور پر وہی سنار تیا رکرتا ہے جو خانہ کعبہ کا دروازہ تیارکرتا ہے۔ہر مر حلے پرکوالٹی کنٹرول کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے
غلاف بہت سے مراحل میں تیا رہوتا ہے۔پہلے ممتاز آرٹسٹ اس کا ڈیزائن تیا رکرتے ہیں۔پھر اسے رنگ دینے کا عمل ہوتا ہے ۔اس کے خاص اور اہم کاموں میں سجاوٹ کا ڈیزائن’ کشیدہ کاری کا تعین اور تحریر کاتعین ’ کعبے کے دروازے پرآنے والے حصے کی ڈیزائننگ وغیر ہ شامل ہیں۔پھر پرنٹنگ اور ڈائنگ کے مراحل آتے ہیں۔پھر یہ ُبنا جاتاہے پھر اس پر کشید ہ کاری ہوتی ہے۔غلاف پر کی جانے والی منفرد کشید ہ کاری بھی کئی مراحل میں حاصل کی جاتی ہے۔سب سے پہلے آیات اور سجاوٹ کو کپڑے پر پرنٹ کیا جاتا ہے۔پھر سوتی دھاگے سے اسے سیا جاتا ہے۔پھر زرد سوتی دھاگے سے اس پر کڑھائی کی جاتی ہے۔پھر اس پر سونے کے تاروں کی کشیدہ کاری کی جاتی ہے ۔
۲۰۰۲ میں غلاف ِ کعبہ کی لاگت
۲۰۰۲ میں غلاف کعبہ جوکہ خالص سیاہ ریشم سے تیار کیا گیاتھا اس کی لاگت ۱۷ ملین سعودی ریا ل تھی۔غلاف کا وہ حصہ جس کو قرآنی آیات سے مزین کیا جاتا ہے اس کی اونچائی۱۴ میٹر ہے۔مکہ میں موجود کسوہ فیکٹری جسے دارالکسوہ الشریفہ کہا جاتا ہے اس کی تیار ی کی ذمہ دار ہے ۔ اس میں ۲۰۰ سے زائد کاریگر دن رات کی محنت سے اسے تیار کرتے ہیں۔ (ماخوذ از۔عرب نیوز)