حب رسولﷺ
وہ خوبی جواس امت کے دور زوال میں یعنی آج بھی پوری طرح موجو د ہے ، وہ ہے محبت رسول ﷺ۔ یہ محبت اس امت کا سرمایہ حیات ہے اور شاید امت میں زندگی کی جو رمق باقی ہے وہ بھی اسی کے دم سے ہے ۔صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک اس امت کے ہر چھوٹے بڑے نے اگر کبھی کسی چیز پر مصالحت نہیں کی تو وہ صرف اور صرف محبت رسول ہے اور اس کی وجہ محض نسلی یا تاریخی تسلسل نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی مضبوط پشت پناہی ہے ۔ مسلمانوں کے لیے سارے انبیا کی محبت محض عقیدت نہیں بلکہ ایمان کامسئلہ ہے اور یہی محبت ایمان کی سچائی کیلئے دلیل ہے ۔مسلمان اس بات سے پوری طرح آگا ہ ہیں کہ رسول اکرم کی محبت ہی ان کے لیے آخرت کا زاد راہ ہے ۔اسی کی بدولت وہ نعمتوں والی جنت میں پہنچیں گے اور یہی وہ چیز ہے جو ان کو حضور کی صحبت اور پڑوس نصیب کر ے گی اس لیے وہ اس سے کیسے دستبردار ہو سکتے ہیں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے پیغمبر ! قیامت کی گھڑی کب آئیگی ؟ تو آنحضرت نے فرمایا کہ تم نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ : تیار ی تو کوئی خا ص نہیں بس اللہ کی اور اس کے رسولؐ کی محبت ہے ، تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ تم قیامت میں انھیں کے ساتھ ہوگے جن سے تمہیں محبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ہم صحابہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنا کہ نبی ﷺ کی اس بات پر خوش ہوئے ۔حضرت انسؓ نے فرمایا کہ : میں تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ، اور ابوبکر اور عمر سے ، اور مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ملوں گا اگرچہ ان کی طرح عمل میں نے نھیں کیے۔( مسلم )
محبت رسول ؐ اس امت کے لیے ایسے ہی ہے جیسے بدن کے لیے روح۔ جس طرح بغیر روح کے بدن بے جان لاشہ ہے اس طرح بغیر محبت رسولؐکے یہ امت بھی بے جان لاشہ بن جائے گی ۔ یہ بات کوئی راز نہیں، مغرب اس سے پوری طرح آگا ہ ہے اسی لیے صدیوں سے وہ اس بات کے لیے کوشا ں ہے کہ ’’روح محمد ‘‘ کو اس فاقہ کش کے بدن سے نکال دیا جائے ۔اس کوشش میں مغرب کو اگرچہ بعض ’’دانشوروں‘‘ کی صورت میں بعض انفرادی کامیا بیاں تو ملی ہیں مگر تاریخ کے کسی بھی دور میں اسے کوئی اجتماعی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔اب پچھلے کچھ عرصہ سے طاقت کے نشے میں مخمور مغرب کے بعض شر پسند عناصر توہین وتذلیل کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے تو اہل ہے نہیں اس لیے دیوار سے سر ٹکراکر خود ہی زخمی ہو کے بیٹھ رہیں گے ۔اس لیے ان سطور کے قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ اپنے دوست احباب ، اہل و عیال اور ملنے جلنے والوں تک اس پیغام کو پہنچائیں کہ مغرب کے خلاف احتجاج کی بہترین صورت محبت رسولﷺ سے عملی وابستگی ہے تا کہ مغرب کے یہ بدباطن اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پرامن احتجاج کے ذریعے مغرب کے متوازن ذہن اور زندہ ضمیر پہ متواتر دستک دیتے رہنا چاہیے کہ آزادی اظہا ر کے نام پر گالی دینا اور کسی کے ماں باپ کو برا بھلا کہنا انصاف کے کسی بھی پیمانے کی روسے جائز نہیں۔یا د رکھیے کہ انسانی قدروں کے نام پر مغرب میں بات آج بھی سنی جاتی ہے اس لیے ہمیں ان کو ان کی اپنی اصلطلاحات یعنی امن ، انصاف اور انسانیت کے نام پر پیغام پہچانا چاہیے۔ مقدس ہستیوں کی تذلیل توان کی اپنی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے تو فلمیں اور کارٹون ان کے لیے کون سی نئی بات ہے ۔حفظ مراتب تو ہماری تہذیب کا خاصہ ہے ۔حفظ مراتب بکھرنے سے پوری طرح اسلامی تہذیب بکھر کے رہ جاتی ہے اس لیے ہمیں بہر حال اس کا دفاع کرنا ہے مگر حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ ۔بہترین جرنیل وہی ہوتا ہے جو کم سے کم نقصان سے زیادہ سے زیادہ فتح حاصل کرے نہ کہ وہ جو ساری فوج گنوابیٹھے اور تھوڑی فتح پہ اتراتا پھرے ۔
جب کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو اس کی چار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ گالی دینے والا ناراض ہے اور اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتا ہے یا ذہنی معذور اور نفسیاتی مریض ہے یاگالی دینا اس کی عادت او ر کلچر کا حصہ ہے اور یا یہ کہ وہ مخاطَب کی عظمت او ر خیر خواہی سے آگاہ نہیں ہے او راس کو غلطی سے اپنا دشمن سمجھ بیٹھا ہے ۔ فرانسیسی خاکوں کے پس منظر میں دیکھا جائے توبیک وقت یہ چاروں وجوہات کسی نہ کسی رنگ میں موجود نظر آتی ہیں لیکن ہمارے خیا ل میں سب سے بڑی وجہ وہ ہے جو ہم نے چوتھے نمبر پر بیان کی ہے۔یہ لوگ اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ محمدﷺ ان کے کتنے بڑے محسن اور خیر خواہ ہیں ۔اگر وہ اس با ت آگاہ ہوتے تو یقیناًیہ حرکت کبھی نہ کرتے ۔ اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر حضور ﷺ کے تعارف کی بھر پور مہم پوری علمی قوت سے چلائیں تا کہ سنجیدہ ذہن متوجہ ہو اور لا علمی سے پیدا ہونے والا بغض اور کینہ دور ہو۔البتہ خبثِ باطن ، کلچرل رذالت اور ذہنی شرارت کے حامل حضرات طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے اس وقت کا انتظار کرنا ہی حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ جب ہم اتنی طاقت حاصل کرلیں جو ان کو ہلا کر رکھ دے ورنہ ہم پتھر مار کر گولیا ں کھاتے رہیں گے اور پٹاخے چلا کر بموں کا ’’تحفہ‘‘ حاصل کر تے رہیں گے۔ لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس خبث باطن ، کلچرل رذالت اور ذہنی شرارت کے حامل مغرب میں آج بھی تھوڑے ہیں اکثریت عقل اور دلیل کی زبان سمجھتی اور مانتی ہے بشرطیکہ کوئی ان کو ان کی سطح پر جا کر سمجھاسکے اور منو اسکے کہ محمد ان کے کتنے بڑے خیر خواہ ہیں۔