ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی مالیات اور بینکاری کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں اسلامی بینک کاری کے تمام قومی وعالمی منصوبوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ سودی بینک کاری کا نام بدل کر اسلامی بینکاری کے تجربے میں درپیش خطرناک مسائل کی نشان دہی ڈاکٹر صدیقی نے ایک مضمون میں کی لیکن جسٹس تقی عثمانی صاحب اس مضمون کا جواب نہیں دے سکے۔ ڈاکٹر حسن الزماں (جو کہ اسلامی بنکاری سے اصلا تائب ہو چکے ہیں) کے تیار کردہ اسلامی بینکاری کے ماہرین ایک ایک بینک سے پچاس پچاس ہزار پونڈ سالانہ معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی کے مضمون پر ابھی تک اسلامی بینکاری کے ماہرین دم بخود ہیں۔
دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک گزشتہ ۳۰ برسوں میں بھی سودی نظام کے پیدا کردہ ظلم وناانصافی کو ختم یا کم کرنے میں قطعی ناکام رہے ہیں ۔حالانکہ قرآن کریم نے سود کو حرام قرار ہی اس لیے دیا تھا کہ یہ ظلم و ناانصافی کا سبب بنتا ہے۔ (۲۷۹:۲) مسلمان ممالک نے اسلامی بینکاری کے نفاذ اور اس کے فروغ کے ضمن میں جو پالیسیاں وضع کی ہوئی ہیں اور ان ممالک میں کام کرنے والے اسلامی بینکوں نے اسلامی بینکاری کے فلسفہ اور اس کی روح کو بڑی حد تک نظر انداز کرنے خصوصاً سرمائے کی فراہمی (سودی بینکوں کے قرضوں کا نعم البدل) کے لیے سودی نظام سے بظاہر ملتے جلتے طریقہ کار اپنانے اور ان کو دوام بخشنے کی جو روش اختیار کی ہوئی ہے اسے دیکھ کر اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ دنیا بھر بشمول پاکستان میں قائم اسلامی بینک اگلی چند دہائیوں میں بھی سماجی انصاف فراہم کرنے اور ظلم وناانصافی کا خاتمہ کرنے کے مقاصد کے حصول میں نہ صرف معاونت نہیں کرسکیں گے بلکہ خو د بھی استحصال کرنے کے الزامات کی زد میں رہیں گے۔
بلاسودی بینک، سودی بینکوں کے نقش قد م پر
اس تکلیف دہ صورتحال کی ایک انتہائی اہم وجہ یہ ہے کہ ان مسلمان ملکوں میں بھی اسلامی بینک اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ سودی نظام کے تحت چلنے والے بینکوں کے نقش پا پر چلیں۔ ان تمام مسلمان ملکوں نے جنھوں نے اسلامی بینکوں کے قیام کی اجازت دی بنیادی غلطی یہ کی کہ سودی بنیاد پر کام کرنے والے بینکوں کو کھلی چھٹی دی کہ وہ غیر معینہ مدت تک سود پر مبنی بینکاری کرتے رہیں اور اس ناقص حکمت عملی کے تباہ کن اثرات کا ادراک ہی نہیں کیا یا ان کو نظر انداز کیا۔
کیا اسلامی بینک غیر سودی بینک ہیں؟
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی نظام کے تحت کام کرنے والے بینک کے ساتھ کاروبار کریں۔ ہمیں قرآن کا یہ ارشاد ذہن میں رکھنا چاہیے ‘‘اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو۔’’ (۲۰۸:۲) اسلامی ملکوں میں ان دنوں قسم کے بینکوں کو متوازی چلانے اور عملی طور سے سودی نظام کو دوام بخشنے کے منفی اثرات۱۹۸۰ اور۱۹۹۰ کی دہائی میں واضح طور سے سامنے آچکے تھے چنانچہ اب سے کچھ برس قبل کیا گیا حکومت اور اسٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ ناقابل فہم ہے کہ پاکستان میں سودی بینک اور اسلامی بینک ساتھ ساتھ کام کریں گے۔
اسلامی بینک نفع میں کمی سودی طریقے پر کرتے ہیں:
اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ مسلمان ممالک میں بھی سودی بنیاد پر کام کرنے والے بینک عملاً مارکیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں کیوں کہ مسلمان ملکوں میں بینکوں کے مجموعی اثاثوں میں اسلامی بینکوں کا حصہ بہت ہی کم ہے مثلاً ملائشیا میں اسلامی بینکوں کے مجموعی اثاثوں کا حجم ملک کے شعبہ بینکنگ کے مجموعی اثاثوں کا تقریباً۱۰ فیصد ہے جبکہ سودی بنیاد پر کام کرنے والے بینکوں کے اثاثوں کا مجموعی حجم تقریباً۹۰ فی صد ہے۔ پاکستان میں اسلامی بینکوں کے مجموعی اثاثوں کا حجم ملک کے شعبہ بینکنگ کے مجموعی اثاثوں کا صرف دو فی صد ہے چنانچہ جب سودی بینک شرح سود میں کمی کرتے ہیں تو اسلامی بینک بھی ان کی تقلید کرنے ہوئے شرح منافع میں کمی کر دیتے ہیں اور جب سودی نظام کے تحت کام کرنے والے بینک شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں تو اسلامی بینک بھی شرح منافع بڑھا دیتے ہیں۔
اسلامی بینک وسودی بینک کی یکساں شرح منافع
وطن عزیز میں سودی بنیاد پر کام کرنے والے بینکوں نے جنوری سے جو ن۲۰۰۵ کی ششماہی میں اپنے کروڑوں بچت کھاتے داروں کو ایک سے تین فیصد سالانہ شرح سود دیا جبکہ اسلامی بینکوں نے بھی اس مدت میں بچت کھاتے داروں کو تین فیصد سالانہ سے کم منافع دیا۔ اس مدت میں ملک میں افراط زر کی شرح تقریباً ۹فیصد تھی چنانچہ سودی اور اسلامی بینکوں نے۶ سے ۸ فی صد حقیقی منفی شرح سے منافع دیا۔
اسلامی بینک دگنی منفی شرح سے منافع دے رہے ہیں
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ نومبر۱۹۹۳ء میں اسٹیٹ بینک کے اس وقت کے گورنر نے کہا تھا کہ (سودی) بینک افراط زر کی شرح سے کم منافع دے کر کھاتے داروں کا استحصال کر رہے ہیں جبکہ بڑی بڑی رقوم کے قرضے لینے والوں کو(افراط زر کی شرح سے کم شرح پر قرضے دے کر) زر اعانت دی جارہی ہے ۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو چھوٹی چھوٹی بچتیں کرنے والوں کے سرمائے کو امیروں کی طرف بہاؤ کے عمل کو خاموش تماشائی بن کر نہیں دیکھنا چاہیے اور یہ کہ بینکوں کے کھاتے داروں کو افراط زر کی شرح سے کم از کم ایک فی صد زیادہ منافع ملنا چاہیے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ جس حقیقی منفی شرح سود سے منافع دینے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے۱۹۹۳ میں سودی بینکوں کو استحصالی کہا تھا اب اس سے دگنی حقیقی (منفی) شرح سے اسلامی بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کو منافع دینے کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ملک میں ‘‘اسلا می بینکاری’’ کے فروغ کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
اسلامی بینک نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور طے شدہ منافع قرضوں پر وصول کرتے ہیں
اس بات کا ادراک ضرور ہے کہ اسلام سود سے پاک بینکاری کا جو نظام تجویز کرتا ہے وہ نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتا ہے لیکن بعض عملی رکاوٹوں کے سبب صرف ناگزیر صورتوں میں اور وہ بھی صرف عبوری مدت کے لیے سرمائے کی فراہمی کے کچھ متبادل رستے علماء حضرات کی طرف سے تجویز کیے گئے تھے مثلاً مرابحہ اوربیع موجل وغیرہ لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سرمائے کی فراہمی کے ان طریقوں میں بینک سرمایہ لینے والی پارٹی کے نقصان میں شرکت کی ذمہ داری نہ صرف قبول نہیں کرتا بلکہ اسلامی بینک پہلے سے طے شدہ منافع سرمایہ لینے والی پارٹی سے وصول کرنے کا ہر حال میں حقدار ہوتاہے۔ یہ بات واضح ہے کہ عملی طور سے منافع کا یہ حجم سودی بینکوں کی جانب سے قرضوں پر لی جانے والی شرح سود سے ہی مطابقت رکھتا ہے۔ (اس طرح عملاً اسلامی بینک اور سودی بینک کے طریقہ کار میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا) اس حقیقت کاا دراک ازحد ضروری ہے کہ اگر ملک میں اسلامی نظام اور سودی نظام ساتھ ساتھ چلتے رہے تو موجودہ حالات میں اسلامی بینک اگر چاہیں بھی تو وہ اپنے کھاتے داروں کے ساتھ کرنے والی ناانصافی کو ختم نہیں کر سکتے کیوں کہ اس کے لیے انھیں سرمائے کی فراہمی پر لی جانے والی شرح منافع بڑھانا پڑے گی جس کے لیے ظاہر ہے کہ پارٹیاں رضا مند نہیں ہوں گی کیوں کہ کم شرح مارک اپ پر ان سودی بینکوں سے قرضہ بہرحال دستیاب ہے جو اپنے کھاتے داروں کو ان کی رقوم پر انتہائی کم شرح سے منافع دے کر ان کا استحصال کر رہے ہیں۔
سود کا بھوت اسلامی بینکوں کا پیچھا کر رہا ہے اسلامی بینکاری میں غیر مسلموں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے
اس پس منظر میں کچھ ماہرین کی یہ سوچ صحیح نہیں ہے کہ موجودہ نظام کے تحت نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی سے بینکوں کے کھاتے داروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ کرنا ممکن ہو گا کیوں کہ شرعی اصولوں کے مطابق شراکت کے معاہدہ میں نفع کی تقسیم کا تناسب دونوں پارٹیوں کے درمیان باہمی رضامندی سے متعین ہوتا ہے چنانچہ شراکت کی بنیاد پر بینکوں سے سرمایہ لینے والی پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بینکوں کو اپنے منافع سے وہ صرف اتنا حصہ دے جو سودی بینکوں کی جانب سے قرضوں پر لیے جانے والے مارک اپ کے حجم سے مطابقت رکھتا ہو۔ البتہ جب اسلامی بینکوں کے اثاثوں کا حجم سودی بینکوں کے برابر ہو جائے گا یا بڑھ جائے گا تو پھر یہ اسلامی بینک مارکیٹ کے لیڈر بن جائیں گے اور ایک عادلانہ شرح منافع متعین کر سکیں گے۔ اس بات کا ادراک بہرحال ضروری ہے کہ اسلامی نظام بینکاری کو مکمل طور پر اور کامیابی سے چلانے کے لیے معاشرے کی اصلاح، معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اور متعلقہ قوانین کو شریعت کے تابع بنانا بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن ان امور کی طرف توجہ نہیں دیا جا رہی۔ اسلامی بینکاری کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنا، اس کی ساکھ بہتر بنانا، اس کو الزامات کی زد سے محفوظ رکھنا اور تمام معاملات کو شفاف رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلامی بینکاری میں غیر مسلموں کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھ رہا ہے اور اسلامی بینکاری کے نام پر حاصل شدہ رقوم کو یورپ اور امریکا میں استعمال کیا جا رہے ہے۔ گزشتہ ماہ کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں کہا گیا کہ پاکستان میں سودی نظام بینکاری پر اسلامی بینکاری کا لیبل چسپاں کر دیا گیاہے۔ اسلامک ڈیو یلپمنٹ بینک جدہ کے انعام یافتہ مسلم ماہر معیشت ڈاکٹر حسن الزماں کا یہ بیان پہلے ہی ریکارڈ پر موجو دہے کہ سود کا بھوت اسلامی بینکوں کا بدستور پیچھا کر رہا ہے۔
اسلامی بینکوں کے کھاتے داروں کا استحصال
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں ہم فقہاوعلماء حضرات سے درد مندانہ درخواست کریں گے کہ وہ اسلامی بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کے استحصال کو ختم کرانے کے ضمن میں اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کریں۔ اس کے لیے انھیں اسٹیٹ بینک کو بھی ا علانیہ بتلانا ہو گا کہ وہ سودی بینکوں اور اسلامی بینکوں کو غیر معینہ مدت تک ساتھ ساتھ چلنے دینے کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں۔
مرابحہ شرعی مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ ہے
یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ حکومت نے خود جون۲۰۰۱ء میں سپریم کورٹ کے ۲۳؍ دسمبر۱۹۹۹ کے فیصلے پر عملدر آمد کے لیے عدالت عظمی سے پانچ برس کی مہلت مانگی تھی۔ اسلامی بینکوں پر واضح کیا جائے کہ آئندہ ان کو اسلامی بینک صرف اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ مرابحہ اور اسی طرح کے بعض دوسرے طریقوں کا استعمال کم سے کم کریں گے کیوں کہ یہ شرعی مقاصد کی تکمیل میں معاونت نہیں کرتے اور اسلامی بینکوں کو پابند کریں کہ ہر سہ ماہی میں پارٹیوں کو جتنا بھی سرمایہ فراہم کیا جائے اس میں نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی کا حصہ کم از کم۵۰ فی صد ہو اور سوم یہ کہ بینکوں سے تحریری ضمانت لی جائے کہ ۳۱ دسمبر۲۰۰۶ء تک ان کے بینک کی مجموعی فنانسنگ کا۵۰ فی صد نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر شریعہ اسکالرز اسلامی بینکوں کے پیچھے اپنا وزن ڈالنے سے پہلے ان تجاویز کی پابندی کرائیں تو اسلامی بینکاری کے ثمرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔