علم و حکمت کے پرانے چراغ

مصنف : شاہد عمادی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری 2006

             عہد قدیم کے چند نامور سائنس دانوں کا تذکرہ یہاں مقصود ہے جو علم و حکمت کے پرانے چراغ تھے۔

تالیس:

            یونانی دور کے علماء و حکماء میں سب سے قدیم سائنس دان ایشیائے کوچک کا باشندہ تالیس (Thales)غالباً ۶۲۹ ق ۔ م، میں پیدا ہوا اور تقریباً ایک سو برس عمر پائی، مصر کے اساتذہ سے فلسفہ، ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل کی، علم فلکیات میں اس کے مشاہدات و تجربات نے علم و حکمت کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ سورج گرہن اور چاند گرہن پر اس کے بیانات کا لوگوں نے مذاق اڑایا، لیکن جب فلکی حسابات کی بنیاد پر اس کی مکمل سورج گرہن کی پیشگوئی صحیح وقت پرصحیح ثابت ہوئی تواس کی عظمت مسلم ہو گئی۔ علم ہندسہ میں اہل مصر مہارت رکھتے تھے، جس میں تالیس نے کمال حاصل کیا اور اپنی تحقیقات و مشاہدات کی بنیاد پر اصول بنائے، سائے کی مدد سے اہرامِ مصر کی بلندی ناپی۔تالیس کا خیال تھا کہ چاند ، سورج اور ستارے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں وہ پانی کو تمام کائنات کا منبع قرار دیتا تھا، بعد کے سائنس دانوں نے ان خیالات کی تردید کی۔

فیثا غورث:

            یونان کا چھوٹا سا جزیرہ ساموس(Samos) فیثاغورث (Phythagorus)کی جائے پیدائش ہے۔ (۵۸۲ ق م)۔اس دور میں دریائے فرات کے کنارے واقع شہر بابل جو بغداد سے ۶۰ میل کے فاصلے پر تھا، تہذیب و تمدن کا مرکز اورمنبع علم و دانش تھا جبکہ یونانیوں کی حالت نیم وحشیوں کی سی تھی۔ فیثا غورث نے بابل سے ریاضی اور فلسفہ میں کمال حاصل کیا اور تلاشِ علم میں سیاحت پر نکل پڑا، مشرق میں وہ بہار(ہندوستان ) تک آیا، جہاں گوتم بدھ سے ملاقات کی جو اپنے عہد کی شخصیت ِ علم و عرفان تھی۔ ۳۳ سال کی طویل سیاحت کے بعد یونان واپس لوٹا۔اٹلی میں بودوباش اختیار کی اور ایک درس گاہ قائم کی جس میں رائج علوم کے علاوہ اپنے مخصوص عقائد کی تعلیم بھی دیتا تھا۔ اس درس گاہ میں نظم و ضبط کی پابندی لازمی تھی۔وہ اعلیٰ اخلاقی قدروں پر عمل پیرااور موسیقی کا شائق تھا۔ علم ہندسہ میں اس کے کلیے مشہور ہیں۔ فیثاغورث نے انکشاف کیا کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں بلکہ وہ سورج سے حاصل روشنی کو منعکس کرتا ہے اس کی موت گمنامی میں ہوئی۔

دمقراط:

            یونان کے ایک چھوٹے ساحلی شہرآب درہ میں (۴۶۰ ق ۔ م) دمقراط (Democrates) پیدا ہوا۔ مروجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد تلاش علم میں طویل سفر کیا اور جب واپس اپنے آبائی وطن لوٹا تو وہ ایک بوڑھا فلسفی تھا جو اپنے ہم وطنوں کی دنیا پرستی اور ہوس پرستی کو حقارت سے دیکھتا۔لوگوں نے اس کو دیوانہ مشہور کر رکھا تھا۔ نامور حکیم بقراط اس کا ہم عصر تھا اور علم طب میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ اس نے دمقراط کو ایک عظیم فلسفی اور صاحب علم و حکمت قرار دیا۔

            دمقراط وہ اولین سائنسداں تھا، جس نے دنیا کو پہلی بار ایٹم (Atom)سے روشناس کرایا۔ نیند اور موت کے متعلق دمقراط کا نظریہ تھا کہ جب انسانی جسم سے روح کے بعض مخصوص ایٹم نکل جاتے ہیں تو نیند غالب آجاتی ہے، اور جب روح کے تمام ایٹم انسانی جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ دولت مند باپ کا بیٹا، دمقراط جس کو عہد طفلی میں دنیا کی کسی شے کی کمی نہ تھی۔ جب بانوے سال کی عمر میں فوت ہوا تو عسرت و تنگدستی کے سوا اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

بقراط:

            ایشیائے کوچک کے ساحل کے قریب واقع جزیرہ کوس (Cos)میں بقراط کی ولادت( ۴۶۰ ق۔ م) ہوئی۔ اس نے علم ِطب میں علم العلاج کی طرح ڈالی ۔اس عہد میں مروجہ ٹونے ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ امراض کے علاج پر بقراط کو بالکل اعتقاد نہ تھا، اور نہ وہ مذہبی رسوم کے ذریعے علاج کا قائل تھا، دواؤں کے ذریعہ علاج رائج کرنے میں وہ اولین اطباء کی فہرست میں ممتاز ہے۔

            بقراط کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں موجود کوئی مرض ایسا نہیں ہے جس کی دوا اللہ نے نہ پیدا کی ہو، اس کا قول تھا کہ خون، بلغم، صفر اور سودا یہ چاروں چیزیں جب تک جسم میں اپنے صحیح تناسب میں رہتی ہیں آدمی تندرست رہتا ہے، ان میں سے کسی کی کمی یا زیادتی بیماری کا سبب بنتی ہے، وہ کم و بیش ۳۰۰ مفرد دواؤں کا علم رکھتا تھا۔ وہ ستاروں کی گردش کا اثر انسانی زندگی پر درست مانتا تھا۔

ارسطو:

            یونان کا مشہور فلسفی ۳۸۴ ق۔ م، میں پیدا ہوا۔ دارالسلطنت ایتھنزآکر عظیم دانشور افلاطون (Plato) کے حلقہ درس میں شریک ہوا اور بہت جلد اپنی ذہانت سے علم و فن میں کمال حاصل کر لیا۔ حکیم افلاطون ایک قابل طبیب، علم ہندسہ اور علم اعداد وغیرہ میں مہارت رکھتا تھا۔ وہ فن تدبیر میں سقراط کا پیرو تھا۔ ارسطو نے علم و حکمت کے ہر موضوع پر قلم اٹھایا۔ اس کی تحریریں صدیوں بعد تک علم و فن کے ہر میدان میں حرفِ آخر رہیں۔ ارسطو امام الفلسفہ کا مقام رکھتا تھا۔ مسلمان حکماء اوردانشوروں نے ارسطو کے ان علمی ذخائر کے ترجمے کیے اور تشریحات لکھیں جس سے اہل یورپ کو ارسطو کی عظیم علمی خدمات کا علم ہوا۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں: اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں نے نہایت جدوجہد سے ارسطو کی ایک ایک تصنیف بہم پہنچائی۔

ارشمیدس:

            جنوبی اٹلی میں جزیرہ سسلی کے مشرقی ساحل پر واقع قدیم بندرگاہ سیراکوس(Syracuse)میں اپنے عہد کا عظیم سائنسدان ارشمیدس (Archimedes)

(۲۸۷ ق ۔ م) پیدا ہوا، جس کی قابلیت کا لوہا پوری دنیا آج بھی مانتی ہے۔ اس کے مسئلے اور کلیے طبیعات (Physics) ریاضی(Maths)اور علم ہندسہ (Geometry)میں آج بھی رائج ہیں۔ اس نے علم طبیعات کے قوانین مرتب کیے اور ماسکوئیات (Hydraulics)کے موضوع پر کتاب لکھی۔

جالینوس:

            ایشیائے کوچک کے ساحل کے قریب واقع عہد قدیم کا مشہور قصبہ برغامہ (Pergamus) میں ۱۳۰ء میں یونانی دور کا عظیم طبیب جالینوس (Galen) پیدا ہوا۔ جس نے علم طب میں انقلاب پیدا کر دیا۔ تحصیل علم کے لیے سمرنا اور اسکندریہ کا سفر کیا اور علم طب میں کامل مہارت حاصل کرکے اپنے وطن واپس لوٹا۔ ان گنت طبی تجربات و تحقیقات اور بے شمار مریضوں کا کامیاب علاج کرکے ناموری پیدا کی اور علم طب کو نئی راہیں دیں۔ چونکہ انسانی لاشوں کو چیرنا ان دنوں ایک سنگین اخلاقی اور قانونی جرم تھا اس لیے اس نے بندروں کی لاشوں کو چیر کر جسم کے اندرونی اعضاء کا مشاہدہ کیا اور ‘‘تشریح الابدان’’ (Anatomy)اور ‘‘منافع الاعضاء’’ (Physiology)جیسے اہم علوم کی بنیاد ڈالی، دورانِ خون، وریدوں اور شریانوں، ہڈیوں اور مختلف اعضائے جسمانی کی تشریح اور فعل پر کتابیں تصنیف کیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ الحق-اکتوبر۲۰۰۵ء)