میں آپ کے ساتھ چلوں

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جنوری2015

 

میں آپ کے ساتھ چلوں؟
پچھلے دنوں سڈنی (آسٹریلیا) میں ایک ایرانی نژاد شخص نے چند لوگوں کو ایک ریستوران میں یرغمال بنا لیا اور بالآخر یہ ڈرامہ تین لوگوں کی موت پر منتج ہوا۔ چونکہ اس شخص کی شناخت ایک مسلمان کی حیثیت سے کی گئی تھی اس لیے میڈیا نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک عمومی فضا پیداکر دی جس سے آسٹریلین معاشر ے کی معصوم اقلیت یعنی مسلمان سہم کر رہ گئے ۔اسی دوران میں ایک با پردہ نقاب پوش مسلمان خاتون ٹرین میں سفر کر رہی تھی کہ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شر پسند لوگ اُسے تنگ کریں۔ اس لیے اس نے ٹرین سے اترتے ہوئے اپنا نقاب اتار کر جیب میں ڈال لیا۔اس کے سامنے بیٹھی ہوئی غیر مسلم خاتون(ریچل جیکبز) یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔ ریچل کا کہنا ہے کہ میں سٹیشن پر اتر کر اس کے پیچھے بھاگی اور اُسے کہا کہ اسے دوبارہ پہنو،اگر تمہیں ڈر لگتا ہے تو میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ریچل کہتی ہے کہ اس پر اس مسلمان خاتون نے رونا شروع کر دیا اور اس نے ایک منٹ تک مجھے گلے لگائے رکھااور پھر اکیلے ہی چلی گئی۔ریچل نے اس بات کو فیس بک پر پوسٹ کیا ۔اس بات کو ٹوئٹر کی ایک صارف خاتون ’ٹیسا کم ‘نے پڑھا ۔ یہ خاتون کہتی ہے کہ یہ پڑھ کر میرا دل ٹوٹ گیا اورمیں نے خیال کیا کہ کسی کوکیا حق ہے کہ کسی کے مذہبی لباس کی وجہ سے اسے تعصب اور نفرت کا نشانہ بنائے چنانچہ اس نے I shall ride with you کا ہیش ٹیگ شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے صرف چند گھنٹوں میں دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں نے اس پر ٹویٹس کیں او ر آسٹریلیا کے مسلمانوں کی حمایت میں پیغامات لکھنے شروع کیے جنہیں اسلام سے نفر ت کرنے والوں کی طرف سے ردعمل کا خدشہ تھا۔
اس بات کو کتنے ہی روز گزر گئے ہیں لیکن میں ابھی تک سوچ رہاہوں کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کا مصداق صرف مسلمان معاشرے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے بھی ہیں۔لیکن افسوس کہ جس زرخیزمٹی کو ہم مسلمانوں نے’’ نم‘‘ کر نا تھا اس کو ہم نے رد عمل کی نفسیات اور جہاد کی غلط تعبیرات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس کو’’ نم‘‘ کرنے کے بجائے مسلسل سخت اور خشک کیے جا رہے ہیں۔دنیا کے تمام غیر مسلم معاشرے اسی ’’نم ‘‘ کی تلاش میں ہیں، مگر ہم ہیں کہ انہیں یہ نم فراہم کرنے سے مسلسل انکار ی ہیں۔یہ سب غیر مسلم، غیر نہیں بلکہ ہمارے ہی باپ آدم کی اولاد ہیں مگر ہم انہیں دشمن تصور کیے دور کھڑے ہیں۔یہ حقیقت تسلیم کہ ان میں دشمن بھی ہیں مگر بہر حال قلیل تعداد میں، ان کی اکثریت آج بھی ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ انہیں ساتھ لیے چلنے پہ آمادہ ہی نہیں ہوپاتے۔کسی کو ساتھ لے کے چلنا ہو تو پیار سے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھناپڑتاہے ،دوڑ کے اس کے پیچھے جانا پڑتا ہے اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ اپنا ’’نقاب‘‘ مت اتارو، ہم تمہارے ساتھ چلیں گے لیکن بندوق کے زور پہ کون ساتھ چلا کرتاہے اور اگر چل بھی پڑے تو کتنی دیر؟۔
اربوں انسانوں کی اس دنیا میں اربوں نہیں تو کروڑوں یقیناًایسے ہیں کہ جنہیں یہ علم ہی نہیں کہ اسلام کو امن سے کتنا پیا رہے او رمحمد ﷺ ان کے کتنے بڑے خیر خو اہ ہیں ۔ یا تو ان کے پاس یہ معلومات ہی نہیں او ریا پھر ان بیچاروں کے پاس جھوٹی اور غلط معلومات ہیں۔ ان کی درستی اور تصحیح کو ن کرے گا؟لیکن بات پھر وہی ہے کہ اس کے لیے اُن کے ساتھ چلنا پڑے گا او رخوش قسمتی سے اگرایسا موقع آ جائے کہ وہ خود بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن ہم پھربھی پیچھے کھڑے رہ جائیں تو قصور وار کون؟ یہ سوچنا ہر اس شخص کے ذمے ہے جو خود کو محمد ﷺ کا امتی کہلاتا ہے۔
سانحہ پشاور
مذہبی اور مسلکی شدت پسند ی اور نفرت کے جو بیج ہم نے عرصہ پہلے اپنی درس گاہوں میں بونے شروع کیے تھے اب وہ دہشت گردی کی صورت میں نہ صرف تناور درخت بن چکے ہیں بلکہ ان درختوں پر ایسے خوفناک پھل بھی لگنے شروع ہو گئے ہیں کہ جو دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے ۔ایسا ہی ایک ہولناک ’’پھل ‘‘پشاور کے سکول پہ جا گرا ہے اور اس نے وہ تباہی اور ہولناکی پھیلائی ہے کہ الفاظ اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔معصوم بچوں کی قبروں پہ چڑھ کے جنت میں جانے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں اور احادیث نبویہ ﷺ کی ایسی تشریح کی جارہی ہے کہ جو کسی بھی صورت نہ سیرت رسولﷺ سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی قرآن و سنت سے۔جہاد جیسے مقدس فریضے کی غلط تعبیر نے اسے اقوم عالم کے ہاں ایک گالی بنا دیا ہے اور مٹھی بھر لوگوں کے غلط طرزعمل نے اسلامی شکل وصورت اور شعائر کو ایک طعنہ بنادیا ہے ۔اس تناظر میں جہاں دہشت گردی کے اس خوفناک درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے طاقت او رسختی کی ضرور ت ہے وہیں اس کو نظریاتی طور پر ختم کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبے کی بھی ضرورت ہے ۔ جس طرح احادیث نبویہ کی غلط سلط تشریحات کر کے لوگوں کو پرائی جنگ میں جھونکا گیا تھا اسی طرح اب دین کی صحیح تعبیر کو عام کر کے ذہنوں کو واپس لانے کی بھی ضرورت ہے۔ 
اگرچہ سیانے لوگوں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ اگر جہاد کرنا ہے تو افغانوں کی جلا وطن حکومت اسلام آباد میں قائم کرنی چاہیے اور اس کے تحت جہا دکرنا چاہییے، اس طرح روس کی شکست کے ساتھ ہی بنی بنائی حکومت قائم ہو جائے گی اور گروہی فساد کی نوبت نہیں آئے گی لیکن یہ صائب تجویز مفادات کی نذرہو کر رہ گئی ۔ اسی طرح روس کی شکست کے بعد بھی سنبھلنے کا ایک موقع آیا تھااور سیانے لوگوں نے پھر کہا تھاکہ اب ان جہادی گروہوں کو فوج میں ضم کر لیا جائے اور یاپیراملٹری فورس بنادی جائے لیکن یہ مناسب تجویزبھی اپناجائز مقام حاصل نہ کر پائی۔ آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ہم نے جس طرح وقتی مصلحتوں پر اپنا طویل مستقبل قربان کیا تھاآج اسی طرح طویل المدت امن حاصل کرنے کے لیے وقتی مصلحتوں کوقر بان کرنا پڑے گا ۔اگر ہم نے وقتی تقاضوں اور مصلحتوں کو قربان نہ کیا تو وقتی فائد ہ تو شایدہو جائے لیکن ہمیشہ کے امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو نے پائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیم اور نظریے کی اہمیت کا ادراک کر لیں او رخود ہی ایک طویل المدت تعلیمی اور نظریاتی منصوبہ بندی کر کے دہشت گردی کے اس عفریت کو ہمیشہ کے لیے بوتل میں بند کرد یں ۔ بوتل میں تو شاید یہ آج بھی بظاہر بند ہوجائے لیکن ایسا نہ ہو کہ اس کی ذریت اتنی زیادہ ہو جائے کہ بعد میں ہمارے پاس بوتلیں کم پڑ جائیں۔