جناب معز امجد کے سفرِ ہندستان کی روداد سوئے حرم کے اگست ۲۰۰۵ کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس پر ہمارے بزرگ دوست اور کرم فرما جناب عطا محمد جنجوعہ کا محاکمہ من و عن شائع کیا جارہاہے ۔یہ تنقید اس سے قبل ہفت روزہ الاعتصام میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔اگرچہ سوئے حرم کو اس کے بیشتر مندرجات سے اتفاق نہیں لیکن اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف کو مستحسن جاننے کی روایت کے پیش نظر اس کا شائع کرنا ضروری سمجھا گیا۔البتہ قارئین اس کے مطالعے سے قبل اگر ایک نظر اگست کے شمارے پر بھی ڈال لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔یہ محاکمہ کس قد ر صحیح ہے اس کا فیصلہ تو بہر حال قارئین ہی کو کرنا ہے لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جناب معز امجد نہ تووحدت ادیان پریقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اکھنڈ بھارت پر ۔اسی طرح وہ مذہب یامذہبی اعما ل پر بھی کسی قسم کے compromise کے قائل نہیں۔زاویہ نظر کا فرق منظر کو کس طرح تبدیل کر دیتاہے، یہ محاکمہ اس کی خوبصورت مثال ہے۔جناب معز امجد نے صورت حالات کو انسان اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے دیکھا ہے جبکہ جنجوعہ صاحب نے مخصوص مذہبی فکر کے حوالے سے ۔ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالی جنجوعہ صاحب کوکسی عرب ملک میں دو چار سال گزار نے کا موقع فراہم کرے تا کہ وہ نزدیک سے یہ دیکھ آئیں کہ وہاں تہذیبی اور قومی حوالوں سے محبت کے دریا کس رخ بہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کو اس سوال پر غورکرنے کی ازحد ضرورت ہے کہ کیا ہر جذبے ، ہر عمل ، ہر بات اور ہر چیز کو، ہر وقت مذہب کے حوالے سے ہی دیکھنا ضروری ہوتاہے؟ (ڈاکٹر خالدعاربی ، مدیر)
بر صغیر کے مسلمان اور ہندو تقریباً ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مقامی زبانوں میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے ۔ ان کے لباس، رہن سہن کے انداز میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ جبکہ سعودی عرب میں نمایاں فرق ہے۔ لیکن اس کو بنیاد بنا کر معروف سکالر‘‘معز امجد’’ کا ہندستان سے واپسی پر مدیر سوئے حرم سے گفتگو کے دوران یہ کہنا کہ سعودی عرب میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور ہندستان میں اپنائیت ،حقیقت کے منافی ہے۔ کیونکہ ملت اسلامیہ کی وحدت و یگانگت اور اپنائیت کی بنیاد کلمہ کا اقرار ہے۔ قریش مکہ جو غیر عرب لوگوں کو عجمی کہہ کر پکارتے اور ان سے اظہارِ نفرت کرتے تھے۔ لیکن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بلال حبشیؓ،سلمان فارسیؓ اور صہیب رومیؓ کو سینے سے لگایا۔ وہ ایک برتن میں کھا پی لیتے تھے۔ آپس میں رشتے ناطے قائم کیے۔ آج بھی عرب اور غیر عرب مسلمانوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ روئے کائنات کے تمام مسلمان عربی زبان میں ہی ربّ کبریا کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ان کی آپس میں رشتہ داریاں قائم ہیں۔ اس کے برعکس کوئی ہندو کسی مسلمان مرد کو اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اقوام عالم میں عوامی مذہب کے پرچار کی مہم عروج پر ہے۔ جس کے اثرات ہندوؤں اور مسلمانوں میں سرایت کر گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ثقافتی گروہ کے علمبردار بعض ہندو اور مسلمان مل جل کر کھا پی لیتے ہوں۔ لیکن ۹۵فیصد ہندو اب بھی ایسے متعصب ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی ہندو کے شیشے کے برتن میں کھا پی لے تو وہ اس کو توڑ دیتے ہیں۔ دھاتی برتن ہو تو وہ اسے آگ میں ڈال کر پاک کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہندو جس جگہ کھانا پکاتے ہیں کوئی اس جگہ پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ کیا یہ اپنائیت ہے؟
بابری مسجد کومنہدم کرنے والے ،گجرات میں قتل و غارت کرنے والے اور کشمیری بیٹیوں کی عصمتوں کو داغدار کرنے والے بھارتی ہندو ہیں ۔ جن کو ہمارے جدت پسند سکالر اپنا کہتے ہیں۔ پاکستان کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہونے والے عربوں کو اجنبی کہتے ہیں۔ کیسی عجیب منطق ہے؟
حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب سے عقیدت مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان سعودی عرب جا کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ ظہور اسلام سے قبل مشرکین مکہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ چونکہ وہ ۳۶۰ بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اس لیے وہ بھی مشرک تھے جن کو قرآن کریم میں نجس کہا گیا ۔ جبکہ ہندو مت کوئی نظریاتی مذہب نہیں ۔ یہ ایک معاشرتی نظام ہے جو بھارت کے ہی مختلف فلسفیوں کی فکر و آرا کا مجموعہ ہے۔ ان کے نزدیک جو شخص بھارت کو اپنی اندھی عقیدت کا محور بنا لیتا ہے وہ ہندو کہلاتا ہے۔ بھارت کا ترانہ ‘‘بندے ماترم’’ اے ماں میں تیری پوجا کرتا ہوں’’ اس کا ثبوت ہے۔
بجروید میں ایک روایت کے مطابق ہندومت میں ۳۳۴۰ دیوتا ہیں جن کی وہ پوجا پاٹ کرتے ہیں ۔ اس لیے ہندو پرلے درجے کے مشرک ہیں۔ وہ جن دیوتاؤں کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کا ربِّ ذوالجلال سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ موجودہ دور کے ہندو آج بھی ان ہی ضابطوں پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔اسی لیے کسی کا یہ کہنا کہ ‘‘ہندو ازم اپنی اصل میں توحید کا قائل ہے۔’’ حقیقت سے جی چرانے کے مترادف ہے۔
سعودی عرب میں اسلامی قانون نافذ ہے۔ وہاں عفت و پاک دامنی کا ماحول ہے۔ پابند صوم صلوٰۃ مسلمان وہاں جائے تو اسے روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اجنبیت کا احساس مٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں ہندو مت کے نام پر بے حیائی اور بد کاری کی تعلیم ہے۔ پروفیسر محمد نواز چودھری کے بقول‘‘ لنگ اور یونی کی پرستش، دیوتاؤں کے سامنے ننگا ڈانس، نیز مذہبی کتابوں میں ایسے اشلوک ہیں جنہیں ایک با حیا اور شریف آدمی اپنی زبان پر نہیں لاسکتا۔ پھر نیوگ یعنی کسی بے اولاد شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے اختلاط اولاد کی خاطر مذہباً جائز ہے ۔ جو سراسر بدکاری اور بد اخلاقی ہے۔’’( مطالعہ مذہب اسلام ۔ص۱۶۱)
مغرب اور ہندستان کے ثقافتی ماحول میں ہم آہنگی ہے۔ اس لیے مغربی افکار سے متاثر کوئی مسلم سکالر ہندستان جائے تو اسے واقعی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس قسم کے تاثرات کو بیان کرنا دراصل اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔