۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طو ر پرعلما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المنا ک باب ہے ۔ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے ، اس کے بارے میں سوئے حرم خواجہ حسن نظامی کی تحریر کردہ سچی کہانیاں شائع کر رہا ہے ۔ یہ تاریخ کا وہ عبرت کدہ ہے کہ جس سے سبق ملتا ہے کہ جو قومیں جفا کشی ، علم و عمل اور اعلی اقدار چھوڑ کر عیش و عشرت کی دلدادہ ہوجاتی ہیں ان کا اور ان کے ورثا کا حشر پھر یہی ہوا کرتا ہے ۔
دہلی کی جامع مسجد سے جو راستہ مٹیا محل اور چتلی قبر ہوتا ہوا دہلی دروازہ کی طرف گیا ہے وہاں ایک محلہ کلو خواص کی حویلی کے نام سے مشہور ہے ۔اس محلہ سے روزانہ رات کا اندھیرا ہو جانے کے بعد ایک فقیر باہر آتا ہے اور جامع مسجد تک جاتا ہے ۔پھر وہاں سے واپس چلا آتا ہے ۔اس فقیر کا قد بہت لمبا ہے ۔جسم دبلا ہے ،ڈاڑھی چگی ہے اور سفید ہے ۔کلے پچکے ہوئے ہیں ۔آنکھوں سے معذور ہے ۔میلا پیوند لگا ہو اایک پاجامہ ہے ٹوٹی ہوئی جوتیاں جن کو لیتڑے کہنا چاہیے ،پیروں میں ہیں ۔کرتہ بہت میلا ہے اور اس میں بھی دس بارہ پیوند ہیں ۔سر پر پٹھے ہیں لیکن بال بہت الجھے ہوئے ہیں ۔پھٹی ہوئی ایک ٹوپی تالو پر رکھی ہے فقیر کے ایک ہاتھ میں بانس کی اونچی سی لکڑی ہے اور ایک ہاتھ میں مٹی کا پیالہ ہے ،جس کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہے ۔فقیر کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یا تو چنڈو پیتا ہے اور یا کئی مہینے کی بیماری کے بعد آج ہی اٹھا ہے کیوں کہ چہرہ پرزردی چھائی ہوئی ہے جب چلتا ہے تو داہنے پاؤں کو گھسیٹ کر قدم اٹھاتا ہے ۔شاید اسے کبھی فالج ہوگیا ہوگا ۔
اس کی آواز بہت بلند اور بہت درد ناک ہے ۔جب وہ نہایت مایوس اور حسرت آمیز لہجہ میں بلند آواز سے کہتا ہے :‘‘یااللہ ایک پیسہ کا آٹا دلوادے ،تو ہی دے گا ،تو ہی دلوائے گا۔ایک پیسہ کا آٹا دلوادے ’’تو بازار والے اور بازار کے قریب جتنے گھر ہیں ان کے رہنے والے اس آواز سے خود بخود متاثر ہو جاتے ہیں ۔اگرچہ ان میں سے سوائے دو چار کے کوئی بھی واقف نہیں ہے کہ یہ فقیر کون ہے اور اس کی آواز میں اتنا درد کیوں ہے ۔بعض گھر وں کی عورتیں تو یہ کہنے لگتی ہیں کہ شام ہوئی اور یہ منحوس آواز کانوں میں آئی۔ہماراتو کلیجہ پاش پاش ہوجاتا ہے جب یہ آواز سنتے ہیں ۔خبر نہیں کون فقیر ہے جو ہمیشہ رات کے وقت بھیگ مانگنے نکلتا ہے ،دن کو کبھی اس کی آواز نہیں آتی ۔
فقیر جب کلو خواص کی حویلی سے بازار میں آتا ہے تو سیدھا جامع مسجد کی طرف سے لکڑی ٹیکتا ہوا اپنے داہنے مفلوج پاؤں کو کھنچتا ہوا ٹوٹے ہوئے لیتڑوں سے خاک اڑاتا ہواآہستہ آہستہ چلاجاتاہے ۔ایک ایک منٹ کے وقفہ کے بعد اس کی زبان سے بس یہ صدا بلند ہوتی ہے :‘‘یا اللہ ایک پیسہ کا آٹا دلوادے ۔تو ہی دے گا ،توہی دلوادے گا ،ایک پیسہ کاآٹا دلوادے۔’’
فقیرکسی دکان پر یا کسی شخص کے سامنے ٹھہرتانہیں ،سیدھا چلتا رہتا ہے ۔اگر کسی راہ گیر کو یا دکان دار کو رحم آگیا اور اس نے فقیر کے پیالہ میں پیسہ ڈال دیا یا آٹا اور کچھ کھانے کی چیز ڈال دی تو فقیر نے بس اتنا کہا :ــ‘‘بھلا ہو بابا،خدا تم کو برا وقت نہ دکھائے ’’ اور آگے بڑھ گیا آنکھوں کی معذوری کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتا کہ اس کو خیرات دینے والا کون تھا اور کون ہے ۔
جامع مسجد سے واپسی کے وقت بھی یہی آواز لگاتا ہوا کلو خواص کی حویلی میں آجاتا ہے اس حویلی میں غریب مسلمانوں کے بہت سے الگ الگ چھوٹے چھوٹے مکان ہیں ۔انہی مکانوں میں ایک بہت ہی چھوٹا اور ٹوٹا پھوٹا مکان اس فقیر کا بھی ہے ۔گھر کے دروازہ پر واپس آتا ہے تو کوٹروں میں لگی ہوئی کنڈی کھول کر اندر آجاتا ہے ۔اس مکان میں صرف ایک دلان ہے اور ایک کوٹھڑی ہے اور ایک پاخانہ ہے اور چھوٹا سا صحن ہے ۔دلان میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی ہے اور فرش پر ایک پھٹا ہوا کمبل بچھا ہوا ہے ۔
دہلی والوں کو معلوم نہیں کہ یہ فقیر کون ہے ۔بس دو چار جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بہادر شاہ بادشاہ کا حقیقی نواسہ ہے اور اس کا نام مرزا قمر سلطان ہے ۔ غدر سے پہلے خوب جوان تھا اور قلعہ میں اس کے حسن کی اور قد راعنا کی بڑی دھوم تھی ۔گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتا تھا تو قلعہ کی عورتیں اور دہلی کے بازار والے راستہ چلتے چلتے کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتے تھے اور سب لوگ جھک جھک کر سلا م کرتے تھے ۔
یا آج یہ وقت ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء کے انقلاب نے اور مسلمانوں کی سلطنت اور تہذیب کی بر بادی نے اس کو بھکاری بنا دیا گورنمنٹ نے پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کی تھی وہ بھی فضول خرچی کی وجہ سے بنئے کے ہاں رہن ہوگئی ۔اب رات کو گداگری کے لیے نکلتا ہے اور جو کچھ مل جاتا ہے، اس سے دونوں وقت کی گزر اوقات کر لیتا ہے ۔
کسی نے پوچھا :مرزا تم دن کو باہر کیوں نہیں آتے ؟شہزادہ قمر سلطان نے جواب دیا :جن بازاروں میں میری اچھی صورت اور شان دار سواری کی دھوم مچاکرتی تھی ان بازاروں میں یہ بری صورت اور بری حالت لے کر دن کے وقت نکلتے ہوئے شرم آتی ہے۔اس لیے رات کو نکلتا ہوں اور صرف خدا سے مانگتا ہوں اور اسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں اور وہی مجھے دیتا ہے۔
پھر کسی نے کہا :اور مرزا کیا افیون کی عادت بھی ہے ؟تو شہزادہ قمر سلطان جواب دیتا ہے کہ جی ہاں بری صحبت کے سبب افیون کی عادت بھی پڑ گئی اور کبھی کبھی چنڈو بھی پی لیتا ہوں
پھر پوچھا گیا کہ غدر سے لے کر آج تک کیا کیا گزری ذرا اس کا حال بھی تو سناؤ تو قمر سلطان ایک ٹھنڈی سانس لے کر چپ ہو جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعدکہتا ہے : کچھ نہ پوچھو ۔ خواب دیکھ رہا تھا ،آنکھ کھل گئی اب جاگ رہا ہوں اور وہ خواب پھر کبھی نظر نہیں آیا ۔نہ اس کے نظر آنے کی امید ہے ۔