شادی کے پانچ برس بعد اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ ان دونوں نے اس گھرمیں یہ سارے سال نہایت خوش و خرم گزارے تھے بیوی کے بغیر،اب یہ گھر اسے کھانے کو دوڑتا تھا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ بیوی کے بغیر بھی اس کا دل اس گھر میں لگ جائے مگر وہ کیا کرتا ،گھرکی ہر ہر چیز اور اس کے سارے درودیوار اسے اپنی بیوی کی یاد دلاتے تھے۔ اسے یوں لگتا تھاکہ ہر ہر چیز میں اُس کی یاد بکھر ی پڑی ہے ۔ آخراس نے فیصلہ کیا کہ اسے یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے ۔ یہ سوچ کر اس نے نئے گھر کا انتظام کیا اور منتقل ہونے کے لیے سامان باندھنا شروع کیا۔ وہ سامان باند ھ چکا تو اسے کاغذکا ایک پرزہ ملا ۔ کاغذکے اس پرز ے پر اس کی بیوی نے اپنی یادداشتیں اشارات کی صورت لکھی ہوئی تھیں۔ اس پہ لکھا تھا قراقرام ہوٹل ،کلفٹن، فردوس مارکیٹ ، دودھ والا، اخبار ،سلیمہ ، پی آئی اے، گلشن اقبال ، بیڈ شیٹ، تکیہ ، ستارہ لان، شہاب نامہ، الارم ،پردے،ملتان روڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ٹکڑا چھوٹا تھا لیکن اس پر اشارات کی فہرست بڑی تھی ۔ ہرایک اشارہ ایک مکمل کہانی اس کے پردہ ذہن پرمتشکل کرتاگیا۔خوشیوں کے یہ پورے پانچ برس اس کے آنکھوں کے سامنے نئے سرے سے گھوم رہے تھے ۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ دل گرفتہ ہو رہاتھا۔اس نے گھر پر ایک آخر ی نظر ڈالی اور ٹرک لانے کے لیے باہر کی طرف چلا۔ کاغذ بدستور اس کے ہاتھ میں تھا ۔ جوں ہی اس نے کاغذکو تہ کر کے جیب میں ڈالا تواسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کاغذمیں سے ایک روشنی سی نکلی ہو ۔ اس روشنی میں اسے ایک تحریر صاف نظر آرہی تھی ، لکھا تھا ‘‘ اگر تمہیں خوشیوں کے یہ پانچ برس بھی نہ ملتے تو تم کیا کر لیتے ’’ ۔ اس کے اٹھتے قدم رک گئے اوروہ سوچنے لگا کہ بات تو ٹھیک ہے ، مجھے رنجید ہ ہونے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے مجھے پورے پانچ سال خوشیوں کے دے دیے ۔ اگر وہ یہ بھی نہ دیتا تو میں کر لیتا ۔کتنے ایسے ہیں جنہیں اتنی خوشیاں بھی میسر نہیں۔ یہ سوچ کروہ سکون سے بیٹھ گیا اور اب وہ سامان کھول رہا تھا۔
کم و بیش یہی حال آج کے ہر انسان کا ہے ۔ وہ یہ سوچ سوچ کے کڑھتا رہتا ہے کہ میرے پاس کیا کیا نہیں ہے اور یہ کبھی نہیں سوچتا کہ میرے پاس کیا کیا ہے۔مطمئن اور خوش زندگی گزارنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر انسان ہر وقت اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ مجھے ماضی یا حال کی جواورجتنی خوشیاں بھی میسر ہیں اگر اللہ وہ بھی نہ دیتا تو میں کیا کر لیتا۔