اکابرین امت
مولانا اصلاحی ؒ کی علمی خدمات
صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمدبگوی
قرآن حکیم کا مطالعہ اور اُس کے اسرار ومعانی کی تفہیم مسلمان اہل علم کا محبوب موضوع رہاہے تاہم تعلیم و تربیت اور اشاعت وتبلیغ کے لئے اُن کے نزدیک دوسرے موضوعات کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔مولانا حمید الدین فراہیؒ (م1930ع) کا شمار مسلمانوں کی علمی تاریخ میں اُن محدود ے چند علماء میں ہوتاہے جنہوں نے قرآن پر غوروفکر کرنے اور اس کے علوم وتعلیمات کو سمجھنے سمجھانے کو اپنی زندگی کا مقصد وحید قرار دیا۔گو یہ موضوع زندگی بھران کے مطالعے کا عنوان بلکہ حاصل رہا لیکن آخری عمر میں یہ موضوع اُن کا اوڑھنابچھونا بن گیا تھا۔اُن کے تدبر کی اساس قرآنِ حکیم کی آیات و سور میں باہمی ربط اورتفکر کا محور اُن سورتوں کا مربوط مفہوم ومطلب اور اُن کے اندر پوشیدہ حکمت ومعرفت کی تلاش رہاہے۔مولانا فراہی کے نزدیک قرآن کے اولین مخاطبین اور اُس کتاب پر ایمان لانے والوں کی زبان وہی تھی جو قرآن مبین کی تھی۔تمام باتوں کا پس منظر اور پیش منظر جانا پہچانا تھااس لئے قرآن کی آیتوں اور سورتوں کے باہمی نظم وربط اور معانی وحکم کی تفہیم میں اُنہیں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا مختلف علاقوں،زبانوں اور تہذیبوں کے لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے۔قرآن کی تعلیمات کوسمجھنے میں دشواریاں پیدا ہوتی چلی گئیں،عربی زبان اور ادب کاذوق اور نظم قرآن کم ہوتاگیا۔ہردور کے اہل علم وقت کے تقاضوں ،مسلکی مصالح اور ذاتی ذوق کے تحت قرآن کوسمجھنے لگے ۔یہیں سے قرآن جو اُمت کے لئے اُم الکتاب تھی،اُس کی تعلیمات،ہدایات اور حکمت ومصلحت کے بارے میں پے درپے،چند در چند اختلافات در آتے گئے۔
آخر کیاوجہ ہے کہ دوررسالتؐ ،خلافت راشدہؓ اور عہدبنو اُمیہؒ میں قرآن کو سمجھنے میں ایسا اختلاف نظر نہیں آتا جو آج سینکڑوں تراجم اورتفاسیر میں کھلا کھلا نظر آتاہے؟
مولانا فراہی نے قرآن پر غوروفکر کرنے کے اُصول مدون کئے اور اس مقصد کے لئے منابع ومصادر کو اپلائی کیا۔اُن اُصولوں کی مدد سے قرآن فہمی میں اپنی عمر بتادی۔اس عظیم کام کے لئے انہوں نے تمام کام چھوڑ کراعظم گڑھ کے ایک قریے سرائے میر میں ایک علمی ادارہ قائم کیا۔اپنی زندگی کے آخری سال اسی دیہات میں گذارے اور سقراط کی طرح اپنے منتخب کردہ شاگردوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا۔
مولانا فراہی کی تحقیق اورتفہیم کا مرکز چونکہ قرآن حکیم تھا اس لئے اس سے متعلق انہوں نے بیک وقت مختلف موضوعات پرگہر ے غوروفکر کاآغاز کیا۔چند سورتوں کی تفسیر "نظام القرآن"کے علاوہ درجن بھر مطبوعات کا تعلق قرآن کے علوم ومعارف سے ہے۔زیادہ تر تصانیف عربی زبان میں،دو فارسی میں اور غالباً ایک ایک اُردو انگریزی میں ہے۔
مولانا امین حسن اصلاحی مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے فارغ التحصیل تھے۔ مولانا فراہی کے طے کردہ اُصول تفسیر کے تحت،مولانا اصلاحی نے9 جلدوں میں" تدبرقرآن" کے نام سے ایک ضخیم تفسیر تحریر کی۔مسلمانوں خصوصاً برصغیر کے تفسیری اثاثے میں یہ ایک گرانقدر اور عظیم الشان اضافہ ہے۔جدید دور کے تفسیری ادب میں یہ ایک رجحان سازکتاب ہے۔اب تک اس تفسیر کے ایک جز کا انگریزی زبان میں ترجمہ چھپ چکاہے۔
اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ مولانا اصلاحی نے تدبر قرآن وحدیث،تفہیم دین،دعوت واقامت دین ، اسلامی ریاست کی تشکیل ،تزکیہ نفس اور تعمیر کردار کے لئے جماعت اسلامی اورمولانا مودودی کے ساتھ اوراُن سے الگ ہوکر زبردست علمی اور نظری کام کیا ہے۔جماعت اسلامی کے اندر تحریکی کارکنوں کی کردار سازی اور دین کی دعوت کے حوالے سے جامع خدمات سرانجام دی ہیں۔مولانا کے تبحر علمی کی تائیدمولانا کی درج ذیل فہرست کتب سے ہوتی ہے جو موضوعات کے تنوع،وسعت،گہرائی،اہمیت اور ضرورت کے لحاظ سے برصغیر کے دیگر نظریاتی یا تحریکی علماء میں کم نظر آتی ہیں:
____________________
* اُصول فہم قرآن
* مبادی تدبر قرآن
* مبادی تدبر حدیث
* تدبرقرآن سیٹ(کامل)۹جلدیں
* مجموعہ تفاسیر فراہی (ترجمہ)
* تدبرحدیث (صحیح بخاری) جلد1
* تدبرحدیث (صحیح بخاری) جلد2
* تدبرحدیث (شرح موطاامام مالک)
* تزکیہ نفس(کامل)دوجلدوں پرمشتمل
* حقیقت نماز
* حقیقت تقویٰ
* حقیقت شرک وتوحید
* دعوت دین اور اُس کا طریق کار
* اسلامی ریاست
* اسلامی قانون کی تدوین
* اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل
* تفہیم دین
* قرآن میں پردے کااحکام
* اسلامی معاشرے میں عورت کامقام
* فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں
* مقالات اصلاحی(جلد نمبر1)
* مقالات اصلاحی(جلد نمبر2)
مولانا اصلاحی کی علمی خدمات میں تین کام بہت قابل قدرہیں۔
پہلاکام قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے ایسے اصول مرتب کرنا جو عقل و استدلال کے اوروحی الٰہی اور شارع علیہ السلام کی تعلیم و اطاعت کے مطابق ہوں ۔یہ صرف قرآن حکیم ہے جس کی محفوظیت اور کاملیت پرایمان ہے۔کسی مجموعہ حدیث کا گو یہ درجہ حاصل نہیں ہے لیکن قرآن کو سمجھنے اور اقامت دین کے لئے سنت ہی وہ ذریعہ ہے جو رہنمائی کرتا اور مقصودحاصل کرنے میں مدد دیتاہے۔دوسرا کام دین کی دعوت اور اقامت کے لئے اور اس کام کو سرانجام دینے والے کارکنوں کی تربیت اورتزکیہ کے لئے کیا فکری اور عملی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اس ضمن میں فرد کی اصلاح اور اس کے نفس کے تزکیہ کے لئے قرآن وسنت کونسی راہ متعین کرتے ہیں۔تیسرایہ کہ اسلامی نظام میں ایک اسلامی ریاست کے خدوخال کیاہونے چاہئیں۔چنانچہ دیکھاجاسکتاہے کہ مولانا کی تصانیف میں اس اعتبار سے صورتحال کچھ اس طرح ہے:*تدبر قرآن کے حوالے سے ۶عنوانات پر ۱۸ کتابیں *تدبر حدیث کے حوالے سے۴ عنوانات پر۵ کتابیں*تفہیم دین کے حوالے سے۳ عنوانات پر۶ کتابیں*اسلامی معاشرت اور مسلمان عوت کے حوالے سے۲عنوانات پر۳کتابیں*فقہی اختلاف اوراتحاد اُمت کے حوالے سے۱ عنوان پر۱ کتاب
*دعوت دین اور تزکیہ نفس کے حوالے سے۲عنوانات پر۲ کتابیں*اسلامی فلسفہ وحکمت کے حوالے سے۱ عنوان پر۱ کتاب*اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کے حوالے سے۲ عنوانات پر۲ کتابیں
مولانا اصلاحی کی ہرکتاب اپنی جگہ ایک اوریجنل تحقیق،اسلام کا خوبصورت تعارف اور اقامت دین کے لئے نہایت موزوں کوشش ہے۔
برصغیر کے علماء نے جو لکھا ہے اکثر پر اُن کے مخصوص مکتب فکر کی چھاپ ہے۔یہی محدود اندازنظر اکثر کی تفاسیر اور کتابوں میں بھی چھلکتاہے۔یہی وہ اسلاف پرستی اور اکابر پوجا کا انداز ہے جس نے سوچوں پر پہرے بٹھا دیئے ہیں اور غوروفکر کی راہیں محدود کردی ہیں۔ قرآن تو ایک آسمانی کتاب ہے جس کی تعلیمات آفاقی اورتفہیم وتطبیق ہر دورکی ضرورت ہے۔اس کے اُصول ہردور میں قابل غور اور لائق اطاعت ہیں۔سنت ہر دور کے لئے رہنما ہے اور دنیا کے تمام خطوں کے مسلمان ان چشموں سے ہمیشہ فیضیاب ہوتے رہیں گے۔ اُن کے بغیر اسلام کا تصور ممکن نہیں ہے۔کیاہمارے قدماء تمام انسان اور اچھے مسلمان نہیں تھے؟وہ بھی تو کسی استاد کے شاگرد،کسی شیخ کے راوی تھے،کیا ان تمام پرانے اساتذہ اور شیوخ کے خیالات سے اختلاف اور اُن کی تحریروں پر شدید اعتراضات نہیں ہوئے؟ کیا ان کے بعد بھی اہل علم قرآن حدیث پر غور کرتے نہیں چلے آرہے ہیں؟کیا قرآن میں غوروفکر کا دروازہ بندہوگیاہے؟کیا قرآن پر انسانوں کے آخری مفسر کے غورکرنے کے بعد کام ختم ہوگیا؟ اگر نہیں توپھر مولاناا صلاحی کو غور وفکر کرنے اور دلائل کے ساتھ اپنی رائے دینے کا کیوں اختیار نہیں ہے؟
مولانا اصلاحی کی تفردات کے حوالے سے عرض ہے کہ ایک تفرد غلط بھی ہوسکتاہے اور صحیح بھی۔لیکن اخلاص اور دلیل سے کیاگیا تفردرحمت ہے۔ ایک ذہین صاحب علم جب مروجہ رائے سے اختلاف کرتاہے تو وہ معاملے کی تحقیق میں پہلے سے موجود نتائج کو نئے زاویے سے پرکھتا اور تحقیق کے اصولوں کو ایک دوسرے انداز سے اپلائی کرتاہے تب وہ کسی اور نتیجہ پر پہنچتاہے۔یہ تفرد اسلامی تاریخ کے " ہر عبقری ،نابغہ روزگار عالم دین،منفرد مفسر،عظیم فلسفی اور صاحب طرزادیب" کا خاصہ ہے۔زندگی میں یہ لکیری فقیری،یکَ ڈگری اور مکھی پہ مکھی جاری رہے تو علم جمود واضمحلال کا شکار ہو کر ٹھرے ہوئے پانی کاتالاب بن کررہ جائے۔ اسلام وقت کے نئے چیلنجزکامقابلہ نہ کرسکے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں آج سینکڑوں تفسیریں موجودنہ ہوتیں۔ تفکر وتدبر اور کیاہے؟ اکثر امور میں اصول واساس موجود ہیں۔البتہSituation ملی جلی یا بالکل نئی ہوتی ہے یا نئے دلائل کو زیر بحث لاتاہے۔صاحب فکر،غوروتدبرسے ایک رائے بناتاہے۔اس کی رائے سے انکار کرنا اسی طرح فطری اور حقیقی ہے جس طرح تفرد یا اجتہاد کرنے والے نے پہلوں کی رائے سے اختلاف کیا تھا۔دلیل دونوں کے پاس ہے۔اس میں کفراورکجی کاکیابیان؟
مولانا اصلاحی کے تدبر اور تفرد کودقت نظر سے دیکھئے۔ایک تحقیق کے مطابق تفسیر تدبر قرآن کی9جلدوں کے ہزاروں صفحوں میں ایسے اختلافی موضوعات کی تعداد دودرجن سے بھی کم ہے۔ماضی کی تفاسیر کا بنظرغائرمطالعہ کیجئے ان کا آپس میں تقابلی جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ " زلف کی سیاہی اور تیرگئی اعمال" کے دائرے بہت وسیع اور قدیم ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان تفردات کا تعلق عقائد سے ہے اور نہ دیگر مبادیات دین سے۔شیخ الہند کے شاگردجلیل مولانا عبیداللہ سندھی کو پڑھئیے،شاہ ولی اللہ دہلوی کو دیکھئے،جگہ جگہ تدبر اور تفرد نظر آئے گا۔کیا اُن کے فکر کو کج کہا جائے گا۔ایک رائے ہے اس سے اختلاف کیجئے اس کودین کی مبادیات یاضروریات نہ بنائیے۔
قارئین کے لئے یہ بات دلچسپ ہوگی کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مولانا اصلاحی کے شاگرد،معترف اوراس وقت ہم نواتھے جب سینئر اور صف اول کی قیادت مولانا مودودی کی پالیسیوں اور جماعت کے طریق کار سے نالاں اور شاکی تھی۔اُن میں مولانااصلاحی ،مولانا عبدالغفار حسن،مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف،مولانا عبدالجبارغازی،مولانا افتخار احمد بلخی،ڈاکٹر اسراراحمد،ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق وغیرہ شامل تھے۔جماعت اسلامی کے اکابرین کے ساتھ اسے خیر باد کہنے کے بعد ڈاکٹر صاحب ساہیوال سے کرشن نگرلاہور منتقل ہوگئے۔یہاں انہوں نے اپنا کلینک قائم کیا جہاں وہ صبح وشام مریضوں کو دیکھتے اوردوا بھی دیتے تھے۔لاہو ر میں اُن کا جماعت اسلامی سے باہر کوئی علمی،فکری اورتحریکی مرکز یا حلقہ موجود نہ تھا۔لاہور میں آنے کا اُن کا ایک اہم مقصد مولانا اصلاحی سے قرآن فہمی میں استفادہ کرنا بھی تھا۔چنانچہ وہ مولانا اصلاحی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔اُن کے لاہور آنے سے پہلے حلقہ تدبر قرآن وحدیث کا آغاز مولانا کی رہائش واقع رحمانپورہ میں ہو چکاتھا۔حلقہ تدبرقرآن کے اولین طلبہ میں خالد مسعود،عبداللہ غلام احمد،محبوب سبحانی ،سعید احمد ،سید اسحاق علی،محمود احمد لودھی،سلیم کیانی، حمید المشرقی ،منصوریوسفی،ماجد خاور ، محمد احسن خان، انورچوہدری، انواربگوی وغیرہ شریک تھے۔یہ1962ع کا واقعہ ہے۔مولانا نے بعض اوقات ڈاکٹر صاحب کے گھر میں بھی درس قرآن دیا۔ڈاکٹر صاحب انتہائی ذہین ،حددرجہ فعال اور جماعت چھوڑنے کے بعد کچھ کرنے کے جذبہ وجوش سے بھرے ہوئے تھے۔بلاشبہ نئی تنظیم قائم کرنے میں اکابرین کی سوچ کے ساتھ اُن کا ولولہ پوری طرح موجودتھا۔اس تنظیم میں مولانا اصلاحی کے ساتھ مولانا عبدالغفارحسن صاحب،شیخ سلطان احمد صاحب، سردار محمد اجمل لغاری صاحب کے ساتھ مولانا حکیم محمد عبدالرحیم اشرف صاحب بھی شریک کارتھے۔تنظیم کا سلسلہ زیادہ دیرنہ چل سکا۔کیونکہ مولانا اب صرف ایک ہی کام پر اپنی تمام توانائیاں مرکوز کرچکے تھے اور وہ تفسیر تدبرقرآن کی تکمیل تھی۔ادھر مولانا کی تفسیر تدبر قرآن کی سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران مولانا کے جاری کردہ رسالہ مثیاق 1959) ع ) میں قسط وار شائع ہوکرمکمل ہوچکی تھی۔ مولانا کم وسائل کی بنیاد پر کتاب کی طباعت کے لئے فکر مند تھے۔کسی اور شاگردکے پاس وسائل تھے اور نہ ہمت۔ڈاکٹر صاحب پوری عقیدت اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھے اور اس دور کے معیار کے مطابق تدبر قرآن کی پہلی جلد بہت خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کی۔پہلی جلد کی رونمائی ڈاکٹر صاحب کے گھر کے پاس واقع مسجد میں منعقد ہوئی۔مولانا اصلاحی کی مسرت دیدنی تھی۔اس قرب کے بعد کیاہوا۔مولانا کے ساتھ تعلقات کے سنورنے اور بگڑنے کی داستان دونوں اطراف کے موقف کے مطابق اب چھپ چکی ہے۔اس کا اعادہ یہاں بے فائدہ ہے۔البتہ ان اشارات سے یہ واضح کرنا مقصودہے کہ مولانا اصلاحی کے افکار اور کردار کی گہری چھاپ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب پر موجودہے۔ڈاکٹر صاحب کا منتخب نصاب،بیان القرآن کی تفصیل اور ڈاکٹر صاحب کے دروس ہر ذہین طالب علم کی طرح اپنے استاد کے فیض سے خالی نہیں ہیں۔یوں کہاجاسکتاہے کہ قرآن حکیم اور دیگر دینی علوم میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے کوئی اُستاد اگر ہیں تو وہ مولانا اصلاحی ہیں۔دیگر اہل علم کے اسماء اُن کے سلسلہ اساتذہ میں برکت وسند کے لئے ہیں۔یہاں اس امر کا ذکر بے جانہ ہوگاکہ جب ڈاکٹر صاحب نے 47 - کے ماڈل ٹاؤن لاہور میں خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کا آغاز کیا تو اُن کے پاس ایک نامی گرامی اُستادتھا،اپنی تعمیر کردہ مسجد تھی،مولاناکاجاری کردہ مثیاق رسالہ تھااور اپنا ایک حلقہ اثروجود میں آچکاتھا۔تب جاوید احمد غامدی صاحب کے پاس نہ اُستاد تھا،نہ مسجداورنہ-51کے ماڈل ٹاؤن لاہور کا مرکز تھا۔اُن کارسالہ اشراق(1988 ع )بہت دیر میں آراستہ ہوا۔لیکن اس دوران میں ڈاکٹر صاحب اور غامد ی صاحب کا اختلافِ نظر سامنے آچکاتھا۔اس پس منظر میں وہ واقعہ پیش آیا جب غامدی صاحب کو خدام القرآن کی مسجد سے نکلناپڑا اور دونوں اصحاب کے درمیان فاصلے مزیدبڑھ گئے۔
معاف کیجئے ماضی کے یہ واقعات گذر چکے ہیں ۔ان کے تذکرے کا مقصد محض یہ بتانا ہے کہ قرآن کے معروف خادم اورمدرس ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم مولانا اصلاحی کے شاگرد اور فیض یافتہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا اصلاحی اور اُن کے اُستاد مولانا فراہی کے افکار ونظریات میں کبھی کجی نہیں رہی ہے۔وہ سیدھے سادھے عالم تھے۔قرآن کو سمجھنااور سمجھانا اُن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ماضی کے ہر مفسر نے قرآن فہمی کے لئے کوئی نہج،کوئی انداز یا اسلوب اختیارکیا ہے اور اسی کی بنیاد پر قرآن کا ترجمہ،تفسیر اور تشریح کی ہے۔مولانا فراہی اور اُن کے بعد مولانا اصلاحی کے اُصول فہم قرآن کھلے ڈلے اور لکھے چھپے موجودہیں۔وہ دونوں حدیث کے بھی طالب علم ہیں۔اُن سے ہر سطح کے طالب علموں نے علم کشید کیاہے۔لیکن طالب علمی کے دوران کسی نے انہیں کج فکر،منکرحدیث ،مانع سنت نہیں قرار دیا۔راست فکر تو وہی ہے، جو قرآن وسنت سے توحید،رسالت اورمعاد کے بارے میں ثابت ہے۔دیگر اُموروہ تاریخی ہوں یا فقہی،ان کا تعلق شخصیات سے ہو یا اخلاقیات سے،واقعات سے ہو یااثرات سے اُن میں بار بار تحقیق ہوئی ہے۔گذرے ہوئے مسلمان عالموں کا ایک ہی مسئلے پر باہمی تحقیق میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ایک دوسرے کی رائے سے گریز ہواہے لیکن یہ کجی ،کفر یا گمراہی نہیں ہے۔فکری اختلاف ہے ۔ تفرد ہے۔یہ گردن زنی اور ایمان کشی نہیں ہے۔یہ اختلاف ایسی تحقیق ہوتی رہے گی۔صرف بندذہن اور لکیر کے فقیر دفتین سے باہر نہیں سوچ سکتے ۔تفسیر تدبر قرآن میں مولانا اصلاحی کے تفردات کی تعداد 2درجن کے لگ بھگ ہے۔اگرماضی کی معروف عربی تفاسیر میں اور زمانہ حال کی مشہور اردو تفاسیر کابنظر غورجائزہ لیاجائے خصوصاً صرف تفردات تلاش کرنے کے لئے تو معترض یانقاد نگاہوں کو اس سے کہیں زیادہ نکات مل جائیں گے۔دیوبندی عالموں نے تفہیم القرآن پر مخالفانہ کتابیں لکھ دی ہیں۔
مولانا اصلاحی نے قرآن حکیم کو بطور طالب علم اُن بینّ اُصولوں کی روشنی میں سمجھا اور بیان کیا جو قرآن کے ایک اور طالب علم اور اُن کے اُستاد مولانا عبدالحمید فراہی نے مدون کئے تھے۔ نظم وحکمت کے یہ اُصول روزِ روشن کی طرح واضح ہیں۔اُن میں کوئی ابہام ہے اورنہ کہہ مکرنی۔اُن اصولوں اور اُن کے اطلاق میں کہیں نفسانی خواہشات کا شائبہ گذرتاہے نہ کسی متعین اور پہلے سے طے شدہ مقصد کی تائید مطلوب ہوتی ہے اور نہ کسی مزعوعہ فکر،لغت یا نظریے کو مضبوط کرنا یاپیش کرنا ہوتاہے۔جو قرآن کہنا چاہتا ہے جس کی تشریح وتوضیح وہ اپنے دوسرے مقامات پر کرتاہے۔جس کی تائید دیگر نظائیر اور خو دصحیح احادیث اور سنت خیرالانام سے ہوتی ہے۔ تدبرقرآن میں یہی باتیں خوبصورت اور مدلل انداز میں بیان کی گئی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ تدبرقرآن اس صدی کی تفاسیر میں Trend Setter ہے جس نے نظم وحکمت کی مدد سے قرآن کے احکامات اور اسرار کھولے ہیں ،اختلافات کودورکیاہے۔مولانا اصلاحی نے اپنے استاد مولانا فراہی سے اپنی تفسیر میں کئی جگہوں پر اختلاف کیاہے۔تدبر قرآن پر کام کرنے والے کئی مدبر کل کلاں مولانا اصلاحی سے بھی اختلاف کریں گے کیونکہ اُن کے تمام خیالات سنجیدہ اور علمی بحث کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ قرآن حکیم کی تحقیق وتشریح میں اور اضافے ہوں گے۔اس اسلوب پر قرآن کی حکمت اور نظم کے نئے پہلو سامنے آئیں گے۔ مولانا کے ان علمی اختلافات کواہانت وتضحیک کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔جو باتیں کسی ذہن کو پسند ہیں انہیں لے لیجئے(خُذ ماصفا) اور جو ناپسند ہیں انہیں چھوڑ دیجئے(ودع ماکدر)۔انہیں کج نہ کہئیے گمراہی نہ قرار دیجئے۔اختلاف رائے کو احسن اور متین انداز میں بیان کرنا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی تفسیر ایک زندہ رہنے والی خدمت ہے۔یہ تفسیر جدید ذہن کو تشکیک سے نکالتی، ایمان کو مضبوط بناتی اور مغرب کے فلسفہ اور نظام کو ردکرتی ہے۔سائنس زدہ اور مغرب آلودہ ذہن کوفکری آسودگی اور صحیح رہنمائی ملتی ہے۔ یہ رواجی تصوف کی بجائے ایک مسلمان میں محسن کا کردارپیداکرتی ہے جو دین کو اصل میں مطلوب ہے۔***
وقت کی تیز رو باد سودائیوں کی طرح
بے ڈگر،
بے سبب،
بے ارادہ
بڑی بے نیازی سے چلتی ہوئی
عمر کے پیڑ کی سب جڑیں
آخرِکار دھرتی کے سینے سے
اک ایک کر کے اکھڑتی ہوئیں
ذہن کی سر زمیں پر دراڑیں
نمودار ہوتی ہوئیں
زلزلوں میں گری بستیوں کی طرح
سوچ بے آسرا
ساری زرخیزیاں
دیکھتے دیکھتے بانجھ ہوتی ہوئیں
جسم کی رعنا ئی کے طائر بھی سب کوچ کرتے ہوئے
سر میں چاندی کا سیلاب اترتا ہوا
اور بصارت کی قندیل بجھتی ہوئی
خیمہ جاں بالآخر اکھڑتا ہوا
اک چمن زار سے جس طرح تازگی، رنگ، خوشبو، تراوت بچھڑتے ہوئے
گلستانِ بدن دشت ہوتا ہوا
وقت کی تیز رو
عمر کے کھیل کے آخری مرحلے کی طرف گامزن
وقار رامز