۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طو ر پرعلما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المنا ک باب ہے ۔ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے وہ الگ سے ایک باب ہے ۔ سوئے حرم اس بارے میں سچی کہانیوں کا سلسلہ شروع کرنے والا ہے۔ اس ہنگامے میں بعض لوگ محض غلط فہمیوں کی نذر ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ انہی میں سے زیر نظر کہانی کاایک کردار یوسف ہے ۔اس کی تفصیلی کہانی ہم کسی اور شمارے میں شائع کریں گے۔یہاں اس کہانی کا وہ درد ناک حصہ دیا جا رہا ہے کہ جب یوسف کی آدھے دن کی دلہن اسے پھانسی کے لیے رخصت کرتی ہے۔
جس زمانے میں دہلی پر گولہ باری ہو رہی تھی اور شہر کے سب باشندے بھاگ رہے تھے اس وقت یوسف کے چچا نے یوسف کے باپ سے کہا کہ انجام برا نظر آتا ہے بہتر ہے کہ یوسف کانکاح کر دیا جائے تا کہ جب ہم سب باہر نکلیں تو پردے کی دقت نہ رہے ۔ یوسف کے باپ نے اس رائے کو پسند کیا اور یوسف کی شادی ہو گئی مگر نکاح ہوتے ہی خبر ہوئی کہ انگریزی فوج دہلی میں داخل ہو گئی اور بادشاہ قلعے سے نکل کر مقبرہ ہمایوں میں چلے گئے۔ یوسف کے والدین اور سب کنبے والے بھی رتھوں میں بیٹھ کر بھاگے اور سید ھے قطب صاحب پہنچے ۔ یوسف نے اس وقت تک دلہن کا چہر ہ بھی نہ دیکھا تھا۔ قطب صاحب میں جہاں ٹھہرے وہ جگہ بہت خراب تھی اور اتنی کہ اس کنبے کا گزارہ دشوار تھا۔ دستو ر کے مطابق اس پریشانی میں بھی دلہن نے شرم و حیا کا لحاظ رکھا ۔ آدھی رات کو جب لوگ سو گئے تو فوج آئی او راس نے سب مردوں کو گرفتار کرلیا۔ او ر نام معلوم کر کے یوسف ’ اس کے با پ اور چچا کو ساتھ لے گئے ۔ جس وقت یوسف رخصت ہو ا اس کی ماں بے قرار ہوگئ۔ اور اس نے رو رو کر کہاکہ یہ میری بیس برس کی کمائی ہے یہ میر اکلوتا بیٹا ہے اس کے بغیر زندہ نہیں رہوں گی کل اس کی شادی ہوئی ہے ابھی تو اس نے اپنی دلہن کا چہر ہ بھی نہیں دیکھا تم اسے کہاں لیے جاتے ہو اور کیوں لیے جاتے ہو ۔ ایک فوجی نے کہا کہ یہ بڑا باغی مجرم ہے اس کو پھانسی دی جائے گی تم اس سے آخر ی بار مل لواب یہ دوبارہ تمہارے پاس نہیں آئے گایہ سن کر یوسف کی ما ں تو بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔ یوسف کی بیوی ابھی تک گھونگھٹ نکالے شرمائی ہوئی بیٹھی تھی فوجی کی یہ بات سن کر اس نے گھونگھٹ اٹھا دیا او ردونوں ہاتھ ملتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نکلا۔ اس کے ہونٹ شدت غم سے لرز رہے تھے وہ منہ سے کچھ نہ بولی اور حسرت بھری نگاہوں سے یوسف کو دیکھنے لگی اور ٹکٹکی باندھ کر برابر دیکھتی رہی۔ یوسف بھی یہ منظر دیکھ کر بے تاب ہو گیا اور مایوس نظروں سے اپنی دلہن کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی چپ تھا اور دلہن بھی چپ۔ دلہن کی آنکھوں کا سرمہ آنسوؤں کے ساتھ بہ بہ کر سرخ و سفید رخساروں پر دھبے لگا رہا تھا اور یوسف کا چہر ہ بھی یاس و ہراس سے زرد اور خشک ہو چکا تھا۔ یوسف اور اس کے چچا کے ہاتھ رسی سے باندھ دیے گئے اور سوار ان کو لے کر روانہ ہو نے لگے تو یوسف کی دلہن نے بہت دھیمی آواز سے کہا ‘‘ جاؤ میں نے مہر معاف کیا ’’
صبح کو یوسف اور اس کے چچا کو پھانسی دے دی گئی۔