ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ یوسف ؑ کے ماتھے پر بچپنے ہی سے اقبال اور طالع مندی کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی فراست ایمانی پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ابراہیم ؑاور اسحاق کی جو امانت اللہ تعالیٰ نے انھیں ودیعت کر رکھی تھی اس کے حامل اسی فرزند عزیز کے مضبوط دوش ہوں گے اور بس۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ یوسف علیہ السلام کو اپنے دوسرے بیٹوں کی بہ نسبت زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اُن کی حفاظت اور پرداخت میں معمول سے زیادہ انہماک سے کام لیتے تھے۔ یوسف ؑ کے بھائیوں کو اپنے باپ کی نظروں میں اُس کا یوں منظورِ نظر ہونا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور فطرتِ انسانی کے قبایلی خصائص یعقوب ؑکے ان دس بیٹوں کے دلوں میں پوری شدت کے ساتھ بیدار ہوچکے تھے جو ماں کی طرف سے یوسف ؑکے حقیقی بھائی نہ تھے۔
یوسفؑ نے ایک چاندنی رات میں خواب دیکھا کہ وہ خود ایک نہایت بیش قیمت تخت پر بیٹھا ہے اور آفتاب و ماہتاب گیارہ روشن ستاروں کی معیت میں اس کے سانے سجدۂ تعظیمی ادا کر رہے ہیں۔ یوسفؑ نے خواب کا ماجرا اپنے باپ سے کہہ سنایا۔ باپ کو یقین ہوگیا کہ ہونہار یوسف بڑا ہوکر نبوت و خلافت کے منصب پر سرفراز ہونے والا ہے اور اس کے جاہ و جلال کے سامنے اس کے ماں باپ اور اس کے بھائیوں کی گردنیں جھکنے والی ہیں۔ باپ نے بیٹے کو اس کی آئندہ اقبال مندی کی بشارت دی اور کہا کہ اپنا خواب کہیں بھائیوں سے نہ کہہ دینا کیونکہ وہ تمھارے پہلے ہی سے حاسد اور بدخواہ ہیں۔
یوسفؑ کے اس حیرت انگیز خواب کی بھنک کسی نہ کسی طرح اُس کے بھائیوں کے کانوں تک بھی جا پہنچی اور انھیں خواب کی وہ تعبیر جو یعقوب علیہ السلام نے بیان کی تھی بہت ناگوار گزری۔ چنانچہ انھوں نے حسد کی آگ سے مشتعل ہوکر فیصلہ کرلیا کہ یوسف ؑ کا کام ہی تمام کردیا جائے گا’ تاکہ اُن کا باپ پھر انھیں شفقت و محبت کی انھی نگاہوں سے دیکھنے لگے’ جو یوسف ؑکی پیدائش سے پہلے ان کی طرف مبذول ہوتی تھیں۔
ایک روز یوسف ؑکے بھائی کھیل اور شکار کا بہانہ کر کے اور پوری حفاظت کی ذمہ داری لے کر یوسف ؑ کو جنگل میں لے گئے۔ اگرچہ باپ کے دل کو اپنا عزیز فرزند بھائیوں کی تحویل میں دیتے وقت پورا اطمینان نہ تھا’ تاہم اسے اپنے بیٹوں پر شبہ نہ ہوا اور اُس نے یوسف ؑ کو بھائیوں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
یعقوب ؑکے دسوں فرزند یوسف ؑ کو ساتھ لے کر آبادی سے بہت دُور جنگل میں نکل گئے اور یوسف ؑکو باپ کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل کردینے کی تدابیر سوچنے لگے’ کسی نے قتل کا مشورہ دیا’ کسی نے درخت سے باندھ کر تنہا چھوڑ جانے کی تدبیر بتائی’ کوئی اسے بھیڑیوں اور درندوں کے غار میں پھینکنے کی صلاح دینے لگا۔ بالآخر سب کی رائے قرار پائی کہ یوسف ؑ کو بیابان کے کسی اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا جائے جہاں سانپ اور بچھو اسے کاٹ کاٹ کر کھا جائیں یا وہ فاقوں کے مارے خود مرجائے۔غرض جنگل میں ایک اندھا کنواں تلاش کیا گیا اور باپ کی متاعِ عزیز کو بیٹوں نے اُس میں ڈال دیا۔ فرزندانِ انسان کی یہ شقاوت قلبی دیکھ کر کائنات عالم کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ برادرانِ یوسفؑ نے اس کام سے فراغت پاکر ایک شکار مارا اور یوسف ؑکے کُرتے کو جو اُنھوں نے اس کے بدن سے اُتار لیا تھا جانور کے خون سے رنگین کرلیا۔ ازاں بعد سب بھائی بین و بکا کی مصنوعی ندائیں بلند کرتے ہوئے باپ کی طرف لوٹ گئے۔
باپ صبح ہی یوسف ؑ گم گشتہ کا منتظر تھا۔ یوسف ؑکے بجائے اُس کا رنگین کُرتہ دیکھ کر یعقوب ؑ کی آنکھیں ڈبڈبائیں اور شقی القلب فرزندوں نے کہہ دیا کہ یوسف ؑ جنگل کے ایک بھیڑیئے کا شکار ہوگیا ہے۔ یعقوبؑ کی فراست ایمانی دیکھ رہی تھی کہ اس کے سامنے انسان کی شکل میں دس بھیڑیئے کھڑے ہیں جنھوں نے حسد کی بھوک مٹانے کے لیے اپنے بھائی کا خون نوش کیا ہے۔ باپ نے اپنے ہونہار فرزند کی جدائی کا صدمہ پورے صبر اور رضا کے ساتھ برداشت کیا’ لیکن اس کی کمرہمت ٹوٹ گئی اور یوسفؑ کی یاد اُسے رہ رہ کر ستانے لگی۔
ادھر یعقوبؑ کے گھر میں یوسفؑ سے فرزند کے اس طرح گم ہوجانے پر حزن و ملال بلکہ ماتم کی صفیں بچھ رہی تھیں۔ اُدھر یوسفؑ اندھے کنوئیں میں پڑا اپنے پروردگار کو یادکر رہا تھا۔ شام کے قریب تاجران مصر کا ایک کارواں اس کنوئیں کے پاس اُترا۔ قافلہ والوں میں سے ایک شخص کنوئیں سے پانی کھینچنے کے لیے گیا۔ ڈول کنوئیں میں ڈالا تو یوسفؑ نے رسّی پکڑ لی۔ پانی بھرنے والا شخص یوسفؑ کے چاند سے مکھڑے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اسے سوداگری کا مال سمجھ کر قافلہ میں لے آیا۔
اگلے روز صبح سویرے یوسفؑ کا ایک بھائی جس کے دل میں رات کے وقت جذبۂ رحم کے کچھ اثرات پیدا ہوگئے تھے دریافتِ حال کے لیے کنوئیں پر گیا اور یوسفؑ کو وہاں نہ پاکر قافلہ میں تلاش کرنے لگا۔ یوسفؑ بھائی کو دیکھ کر سہمی ہوئی آواز سے پکار اُٹھا لیکن یوسف ؑ کی صورت دیکھتے ہی فطرتِ انسانی کی قابیلی صفات بیدار ہوگئیں۔ اس نے بھائی کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کارواں سالار سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ لڑکا تو ہمارا غلام ہے اور ہم اسے سزا دینے کے لیے اندھے کنوئیں میں ڈال گئے تھے۔ کارواں سالار نے یوسف ؑ کی طرف دیکھا جو مسترحمانہ نظروں سے بھائی کی صورت تک رہا تھا۔ آخر کچھ رد وکد کے بعد یوسف ؑ کے بھائی نے اُسے چند کھوٹے سکوں کے معاوضہ میں کارواں سالار کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کاروان اس متاعِ عزیز کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوگیا۔
٭٭٭
مصر کے دارالسلطنت میں تاجروں کا ایک قافلہ شام’ کنعان’ فلسطین اور ایشیا کے دیگر ممالک کا تجارتی مال لے کر وارد ہوا اور اہلِ مصر سرزمین ایشیا کے نوادر خریدنے کے لیے اس بازار میں جمع ہونے لگے’ جو اہل کارواں نے لگا رکھا تھا۔ تاجروں کے تجارتی مال میں دس بارہ سال کی عمر کا ایک حسین و جمیل لڑکا بھی تھا جس کی بلند پیشانی پر اقبال مندی کا ستارہ چمک رہا تھا اور جس کی شکل و صورت اور اصناع و اطوار سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ یقینا کسی عالی نسب گھرانے کا فرزند ہے جسے ماں باپ نے نہایت نازونعم سے پالا ہوگا لیکن حوادثِ روزگار کے باعث آج اُس کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ تجار اسے چند ٹکوں کے منافع کی خاطر فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بادشاہ مصر کا ایک رکن حکومت جسے عزیز مصر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا’ دساوری مال کے اس بازار کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے سرزمین ایشیا کی دیگر سوغاتوں میں اس حسین و جمیل ہونہار کو بھی دیکھا جس کے گرد تماشائیوں کا ہجوم نیرنگی قسمت اور گردش بخت پر تاسف کر رہا تھا۔ لڑکے کی موہنی صورت نے عزیزمصر کے دل میں گھر کرلیا۔ اس نے کارواں سالار سے نہایت ناقابل ذکر قیمت پر لڑکا خریدا اور اپنے گھر کی راہ لی۔
عزیز مصر کی بیوی جس کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی’ اس لڑکے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ میاں بیوی نے باہم ٹھان لی کہ ہم اس اجنبی لڑکے کو اپنا فرزند سمجھ کر پالیں گے اور اسی کی موہنی صورت دیکھ دیکھ کر اپنی محروم اولاد آنکھوں کو سیراب کیا کریں گے۔دنیا کا ہر مولود جہاں جاتا ہے اپنی قسمت اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔ چنانچہ یوسف ؑاس طرح فروخت ہوکر عزیزمصر کے گھر پہنچا تو چند روز کے اندر ہی اندر اس کے منصب میں اضافہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے گھر میں رزق کی وہ کشائش ہوئی جو پہلے دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ عزیز بھی چنداں نافہم نہ تھا۔ اس نے اپنی خوش حالی کو اس سعید رُوح کی تشریف آوری کی برکت پر محمول کیا اور عزیز مصر کے گھر میں یوسفؑ کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ گئی۔عزیز مصر نے یوسف ؑکو اپنے بیٹے کی طرح رکھا’ اپنا ہی فرزند سمجھ کر اُس کی پرورش کی اور اس کی تعلیم و تربیت میں بھی خاص اہتمام سے کام لیا گیا۔چند سال کے دوران میں یوسف ؑ جوان ہوگیا اور اُس کی مسیں بھیگنے لگیں۔ عنفوانِ شباب کی رعنائیاں اس کے نیک اور خوبصورت چہرے پر سو جان سے قربان ہو رہی تھیں۔
انسان کی فطرت ایک ایسا معمہ ہے جسے حکما کی کاوشیں آج تک حل نہ کرسکیں۔ پھر صنف نازک کی فطرت تو ایک ایسا عقدۂ لاینحل ہے جو بسااوقات علم النفس کے کسی نظریئے یا ضابطے کے مطابق نہیں اُترتا۔ عزیز کی بیوی جس نے یوسفؑ کو فرزند سمجھ کر پالا تھا۔ اُس کے جوان ہونے پر اُسی پر فریفتہ ہوگئی۔ اُس کے دل میں یوسف ؑکے ساتھ ناجائز تعلقات پیدا کرنے کی زبردست خواہش نشوونما پانے لگی۔ پہلے تو اُس نے طرح طرح کی عشوہ طرازیوں کے ذریعے سے یوسفؑ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اس کے تمام نسوانی اوزار اس صالح نوجوان کے دل پر جس کی نظریں فرطِ حیا کے باعث ہمیشہ جھکی رہتی تھیں کسی قسم کا اثر پیدا کرنے سے قاصر رہے جاتے ہیں تو اُس نے وہ بات کی’ جو محض اس عورت کی ذات میں پائی جاتی ہے’ جس کی فطرت صحیحہ مسخ ہوچکی ہو’ یعنی وہ اپنا حرفِ مطلب زُبان پر لے آئے۔ عزیزمصر کی بیوی شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر علی الاعلان یوسفؑ سے اظہار معاشقہ کرنے لگی۔لیکن یوسف ؑ پر ان باتوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے عورت کے اظہارِ عشق و محبت کے ہرموقع پر اسے حیا اور نیکی کی تلقین کی۔ یوسفؑ کے انکار نے عورت کے دل کی لگی کو اور بھی بھڑکا دیا اور اس نے تہیہ کرلیا کہ میں اس نوجوان کے تقویٰ کو برباد کر کے چھوڑوں گی جو میری التجاؤں کو اس طرح پائے استحقار سے ٹھکرا رہاہے۔ایک روز یوسفؑ کسی کام کی خاطر دالان میں گیا جہاں عزیز کی بیوی نے تنہائی کا موقع پاکر اسے گھیر لیا اور زہد و اتقا کے اس ہما کو دامِ فریب میں پھانسنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرنے لگی۔ یوسفؑ جس کی زبان پر قدرتی طور پر انکارجاری ہوچکا تھا اس کی طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہوا۔ اُس سے کہنے لگا کہ تمھارے شوہر نے مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پالا ہے’ اس گھر میں مَیں اس طرح رہتا ہوں جس طرح گھر کا مالک ہوتا ہو۔ میں اپنے آقا کے احسانوں کا ناشکر گزار نہیں ہوسکتا اور اس کی امانت میں خیانت کرنے کا جرم مجھ سے نہ ہوگا ۔ یہ کہہ کر یوسفؑ نے عزیز کی بیوی کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دروازے کی طرف بھاگا تاکہ اس بدنیت عورت کے پنجہ سے مخلصی حاصل کرے’ جو اسے گناہ اور ناشکر گزاری کی طرف ورغلا رہی تھی۔ عزیز کی بیوی منت سماجت کرتی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی اور اس کے پیراہن کے دامن کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگی۔ جونہی اس عورت نے جوناجائز تعشق کے جذبات سے دیوانی ہو رہی تھی ریشمیں قبا پر ہاتھ ڈالا دامن پھٹ کر تار تار ہوگیا۔
ادھردرواز ہ کی راہ سے عزیز مصر گھر میں داخل ہوا۔ شوہر کو داخل ہوتے دیکھ کر عزیز کی بیوی لرز گئی’ لیکن اپنے بچاؤ کی خاطر اُس کی فطرتِ نسوانی کی دوسری قوتیں بیدار ہوگئیں۔ اُس نے شوہر کی صورت کو دیکھتے ہی گفتگو کا موضوع بدلا اور یوسفؑ کو دھڑا دھڑ کوسنے لگی۔خفت اور شرمندگی کے احساس نے اس عورت کے غصے کا پارہ اور بھی بلند کر دیا اور اُس نے اپنے شوہر کے سامنے یوسفؑ کی پاک دامنی پر صاف اور صریح الفاظ میں یہ تہمت لگا دی کہ اُس نے ناپاک ارادے سے میری طرف رجوع کیا تھا۔ بیوی کی باتیں سن کر عزیز کو طیش آگیا’ وہ تازیانہ لے کر یوسفؑ کو زد و کوب کرنے ہی کو تھا کہ یوسفؑ نے اپنی برأت کا اظہار کردیا۔ اتنے میں گھر کے متعلقین بھی شورو ہنگامہ سن کر جمع ہوگئے اور چالاک عورت کی بہتان طرازی اور سادہ نوجوان کے اقرار معصومیت کا تماشا دیکھنے لگے۔ آخر انھی میں سے ایک شخص نے عزیزمصر سے کہا کہ اگر یوسفؑ کی قبا سامنے سے پھٹی ہوئی ہے تو یوسفؑ کا قصور ثابت ہے اور اگر پیچھے سے چاک ہوئی ہے تو خطا تمھاری بیوی کی ہے۔ یوسف ؑ کی قمیص دیکھی گئی تو عزیزمصر کو اس کی پاکدامنی کا یقین آگیا۔ اُس نے بیوی کو اُس کے ناپاک ارادے پر لعنت ملامت کی اور بات گئی گزری ہوگئی۔
اس حادثہ کے بعد بھی جس میں عزیز کی بیوی کو ندامت اور زبردست زِک اُٹھانی پڑی تھی اُس نے یوسفؑ سے معاشقہ کی راہ و رسم پیدا کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ عزیز کی بیوی کے عشق کی داستان گھر کی خادماؤں کے ذریعے شہر کی اعلیٰ سوسائٹی تک پھیل گئی اور اہلیۂ عزیز کی ملنے والیاں اسے غلام سے عشق کرنے کے طعنے دینے لگیں۔ عزیز کی بیوی اپنی سہیلیوں کو جو اس واقعہ کے بعد اس کی ہم راز ہوگئی تھیں یوسفؑ کے حُسن و جمال اور اُس کی جوانی کے متعلق بہت کچھ کہتی’ لیکن وہ کب ماننے والی تھیں؟ اوّل تو انھیں اس امر کا یقین ہی نہ آتا تھا کہ ایک غلام بچہ میں اس قدر دلفریبیاں موجود ہو سکتی ہیں کہ عزیز کی بیوی یا کوئی اور صاحبِ منصب عورت اُس پر فریفتہ ہوجائے۔ دوسرے وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھیں کہ کوئی نوجوان ایسا صالح ہوسکتا ہے کہ عورت اور پھر حسین عورت کے چرتروں کے سامنے مضبوطی سے ثابت قدم رہ سکے۔آخر یوسف ؑ کے امتحان کے لیے ایک دن مقرر کیا گیا۔ اُس دن عزیز کی بیوی نے اپنی سہیلیوں کو پُرتکلف دعوت دی۔ سرداران مصر کی بہو بیٹیاں اور دیگر عورتیں اس دعوت میں شریک ہوئیں۔ عزیز کی بیوی نے ان کی مہمان نوازی کا کام یوسف ؑ کے سپرد کردیا’ تاکہ عورتیں اسے اچھی طرح دیکھ سکیں اور اُسے دامِ تزویر میں پھنسانے کے لیے جو جتن چاہیں کرلیں۔ دسترخوان بچھا اور سب لوگ کھانے پر آبیٹھے۔ یوسف ؑاُن کی خدمت گزاری کے لیے حاضر تھا’ لیکن اس کی حیا پرور نگاہیں فرش پر گڑی ہوئی تھیں۔ کھانے کے دوران میں مزے مزے کی گفتگو ہوتی رہی اور سب عورتوں نے مل کر اس نوجوان کی حیا دُور کرنے کی کوشش کی۔ جب گفتگو سے کاربرآری نہ ہوسکی تو ان میں سے اکثر عورتوں نے جو بہت شاطر تھیں پھل کاٹنے کی چھریوں سے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے اور عاشقانہ خوشامد کے طور پر یوسفؑ سے کہنے لگیں کہ تمھارے حُسن و جمال کے نظارہ نے ہمیں اس حد تک بے خود بنا رکھا ہے کہ ہمیں اپنے اعضاء کا بھی ہوش نہیں رہا۔زنانِ مصر کے یہ سب تریاچر ناکام ثابت ہوئے اور یوسف ؑ نے کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جس پر سب کو متفقہ طور پر فیصلہ صادر کرنا پڑا کہ یہ نوجوان انسان کی صنف سے نہیں بلکہ آسمان سے اُترنے والا کوئی فرشتہ ہے۔ جس پر ہمارے حُسن اور ہمارے ہنر کا کوئی جادو نہیں چل سکتا۔
عزیز کی بیوی فرشتے کا یہ آخری امتحان لے کر اس کی طرف سے مایوس ہوگئی۔ اب اُس نے یوسفؑ کو برائی پر رضامند کرنے کا دوسرا طریقہ اختیار کیا اور اُسے قید کرانے کی دھمکیاں دیں۔ جب اُس نے دیکھا کہ یوسفؑ ان دھمکیوں میں بھی نہیں آتا تو اُس نے اپنے شوہر سے صاف طور پر کہہ دیا کہ مَیں اس نوجوان غلام سے سخت بیزار ہوں اور صرف اس شرط پر اس گھر میں رہ سکتی ہوں کہ اسے قید کردیا جائے۔ عزیز مصر جسے یوسف ؑکے ساتھ محبت ہوگئی تھی اور جو اس کی نیکی’ پارسائی’ امانت اور سادگی کا بہت مداح تھا۔ اپنی بیوی کی دلجوئی کے جذبہ پر قابو نہ پاسکا۔ اُس نے یوسفؑ کو بے گناہی کے اعتراف کے باوجود زنداں میں ڈال دیا اور عورت کی دلجوئی کی خاطر ایک بے کس اور بے وطن نوجوان پر ظلم کرنے کا مرتکب ہوا۔ یوسف ؑ نے اس گھر پر جس میں ہر وقت اُسے شیطانی اغوا کا خدشہ لگا رہتا تھا۔ برضا و رغبت زندان کو ترجیح دی اور قید میں رہنا پسند کرلیا۔
قیدخانہ کے اندر یوسف ؑکو کئی سال گزر گئے اور کسی نے اس بے گناہ اور مظلوم نوجوان کا حال نہ پوچھا۔ یوسف ؑکی نیک دلی اور صداقت شعاری کے چرچے زندانِ مصر کی محدود دیواروں کے اندر افسانوں کی طرح پھیل گئے اور سب قیدی اس نوجوان کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ قیدی اپنے دلوں کی کلفتیں دُور کرنے کے لیے اس صالح نوجوان کی طرف رجوع کرنے لگے جس کی صحبت میں بیٹھ کر اور جس کی باتیں سُن کر اُن کے بے قرار دلوں کو ایک خاص قسم کی راحت اور تسکین حاصل ہوتی تھی ۔قیدخانہ کے اندر بادشاہِ مصر کے دو ملازم خاص بھی کسی الزام کی پاداش میں قیدوبند کی کڑیاں جھیل رہے تھے۔ ایک رات اُنھوں نے نہایت پُرمعنی خواب دیکھے اور صبح اُٹھ کر اس صالح نوجوان سے تعبیر پوچھنے کے لیے گئے۔ جس کی روشن ضمیری اور نکتہ رسی کی نظیریں وہ پہلے بھی متعدد بار مشاہدہ کرچکے تھے۔ بادشاہ کے ایک مصاحب نے بیان کیا کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں انگور کا رس نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے مصاحب نے کہا کہ مَیں نے خواب میں اپنے سر پر روٹیوں کا ٹوکرا دیکھا ہے جس پر کوے اور چیلیں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہیں اور روٹی کے ٹکڑے اُٹھا اُٹھا کر لے جارہی ہیں۔ یوسف ؑنے دونوں قیدیوں سے خواب کا ماجرا سن لیا اور اُن سے کہا کہ مَیں تمھیں ان خوابوں کی نہایت صحیح تعبیر بتاؤں گا کیونکہ اللہ نے مجھے تعبیر کے علم میں خاص دسترس عطا فرمائی ہے۔یوسف ؑنے تعبیر بتانے سے پیشتر بادشاہ کے ان دونوں مصاحبوں کو اسلام لانے کا پیغام سنایا اور اللہ پر ایمان لانے کی حقیقت و اہمیت بیان کی۔ ازاں بعد اُن سے کہا کہ جس شخص نے خواب میں انگوروں سے رس نکالا ہے وہ ازسرنو بادشاہ کا مقرب خاص بن جائے گا اور جس نے اپنے سر پر روٹیوں کا ٹوکرا دیکھا ہے وہ سُولی پر لٹکایاجائے گا اور کوے اور چیلیں اُس کے سر کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔یوسف ؑنے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے کے بعد مقرب خاص بننے والے شخص سے کہا کہ جب تم پھر اپنے رتبہ ساقی گری پر فائز ہوجاؤ تو اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا کہ ایک بے گناہ شخص محض عورتوں کے مکروفریب کی بدولت جیل میں پڑا سڑ رہا ہے۔
چند روز کے اندر اندر بادشاہ کی عدالت سے ان دونوں ملازموں کے متعلق فیصلے صادر ہوگئے اور یوسفؑ کی تعبیر کے مطابق ایک قیدی بادشاہ کا مقرب خاص بن گیا اور دوسرا سولی پر لٹکا دیا گیا۔
مقرب خاص بننے والا شخص زنداں سے باہر نکل کر یوسفؑ کا پیغام بھول گیا اور اُس نے بادشاہ سے یوسفؑ کے متعلق کوئی ذکر نہ کیا۔ چنانچہ یوسف ؑ کو قید میں پڑے چند سال اور گزر گئے۔
ایک دفعہ بادشاہ مصر نے رات کی تاریکی میں ایک بڑا معنی خیز خواب دیکھا اور صبح اُٹھ کر درباریوں سے بیان کیا۔ خواب چونکہ بہت پیچیدہ تھا اس لیے شاہی معبر اور نجومی اس کی کوئی ایسی توجیہہ بادشاہ کے سامنے پیش نہ کرسکے جس سے اُس کے دل کو تسکین ہوتی۔ بادشاہ اور اس کے مقربین کو کسی تعبیر بتانے والے شخص کی تلاش ہوئی تو ساقی خاص کو زنداں کا قصہ یاد آگیا۔ اس نے بادشاہ سے اپنے خواب کی داستان بیان کی اور کہا کہ قیدخانہ کے اندر ایک نہایت صالح شخص مقید ہے۔ وہی اس خواب کی تعبیر بیان کرے گا۔ چنانچہ بادشاہ سے اجازت لے کر ساقی قیدخانہ میں گیا اور یوسفؑ سے ملا۔ معذرت خواہی کے بعد اُس نے یوسفؑ سے بادشاہ کا خواب بیان کیا اور کہا کہ بادشاہ نے سات موٹی گایوں کو سات دُبلی گایوں کی خوراک بنتے دیکھا اور اس کے بعد اسے خواب میں سات ہری بالیں نظر آئیں اور سات سُوکھی۔یوسفؑ نے کہا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ ملک مصر پر پہلے سات سال خوشحالی کے آئیں گے اور ازاں بعد سات سال بڑے زور کا قحط پڑے گا۔ لوگوں نے خوشحالی کے سات سال کے اندر جتنا ذخیرہ جمع کیا ہوگا وہی قحط کے سات سال کے اندر کام آئے گا۔ اس لیے اہلِ مصر کو چاہیے کہ پہلے سات سال میں ضرورت و احتیاط سے زیادہ جس قدر غلہ پیدا ہو وہ بالیوں ہی کے اندر ذخیرہ کر رکھیں۔ساقی خاص تعبیر پوچھ کر بادشاہ کے پاس واپس گیا۔ تعبیر کی یہ تشریح بادشاہ کے دل کو بہت پسند آئی۔ اُس نے ذہن خداداد رکھنے والے قیدی کے مزید حالات معلوم کیے اور حکم دیا کہ اُسے قیدخانہ سے نکال کر میرے پاس لے آؤ۔بادشاہ کے پیادے رہائی کی نوید لے کر یوسف ؑکے پاس پہنچے اور اس سے بادشاہ کے فرمان کا حال بیان کیا۔ یوسف ؑنے کہا کہ بادشاہ سلامت کو چاہیے کہ پہلے اس الزام کی نسبت تحقیقات کرا لے جس کی پاداش میں مجھے قید میں ڈالا گیا تھا اور اُن عورتوں سے جنھوں نے بیگم عزیز کی دعوت پر اپنے ہاتھ زخمی کرلیے تھے میرے چال چلن کی نسبت استفسار کرے۔بادشاہ نے عورتوں کو بلا کر دعوت کی داستان سنی تو انھیں صاف طور پر اس امر کا اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے یوسف ؑکے اندر کسی قسم کی بُرائی نہیں دیکھی۔ عزیز کی بیوی نے بھی یوسف ؑکی عفت کی شہادت دی۔
اس قصہ کے بعد جس سے یوسفؑ کی پاک دامنی شاہی عدالت کے سامنے پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی اور سب کو یقین ہوگیا کہ یوسفؑ کا دامن خیانت اور بددیانتی کے تمام الزامات سے یکسر منزہ ہے یوسف ؑ بادشاہ کے حضور میں حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے کسی منصب پر سرفراز کرنے کی خواہش ظاہر کی تو یوسفؑ نے وزیرخزائن و ذخائر ہونا قبول کرلیا اور بادشاہ سے کہا کہ میں طبعاً امین پیدا ہوا ہوں اس لیے خزانوں اور ذخیروں کا انتظام میرے ہاتھ میں بہت عمدہ رہے گا۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ اس عہدۂ جلیلہ پر فائز کر دیئے گئے اور ہر اس امتحان میں پورے اُترے جو حوادث روزگار یا گردوپیش کے حالات نے ان کے سامنے لاکر ڈال دیا تھا۔
٭٭٭
ادھر یوسفؑ مصر کے اقتدار پر فائز ہو گئے اور اُدھرسالہا سال گزر گئے’ لیکن نہ تو صبح کو چلنے والی بادِ صبا نے مہجور باپ کے پژمردہ دل کی کلی شگفتہ کی اور نہ شام کو چلنے والی نسیم یوسف ؑ کی کوئی خبر لائی۔ یعقوب ؑ کی فراست ایمانی کہہ رہی تھی کہ یوسفؑ زندہ ہے اور کسی نہ کسی روز اس سے ملاقات ہوکر رہے گی لیکن وقت گزرتا گیا اور یوسف ؑکی کوئی خبر نہ ملی۔ باپ کی قوتیں جوں جوں عمر کے باعث مضمحل ہوتی جاتی تھیں’ بیٹے کی یاد جوان ہوہو کر تازہ ہو رہی تھی۔ یعقوبؑ کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ ہر ملاقاتی سے پہلا سوال یہی کرتا کہ مجھے میرے یوسفؑ کی کوئی خبر بتاؤ۔ دیار و امصار کے کاروان اور مسافر آتے تھے لیکن کوئی یعقوبؑ کے دردِ مہجوری کی تسکین کا پیغام نہ سنا سکتا تھا۔سالہا سال گزر گئے لیکن یوسفؑ گم گشتہ کا سراغ کہیں نہ ملا۔ یعقوبؑ کے فرزند تجارتی مال لانے اور لے جانے کے لیے دُور دُور کے ملکوں کا سفر کرتے لیکن اُن کے دلوں سے یوسفؑ کی یاد محو ہوچکی تھی۔
برسوں کے بعد کنعان اور گردونواح کے دیگر ممالک کو قحط سالی نے آگھیرا۔ زمین نے غلہ پیدا کرنے سے انکار کردیا۔ آسمان نے زندگی اور تازگی بخشنے والا پانی برسانے سے جواب دیا اور بندگانِ خدا قحط کی مصیبتوں میں گرفتار ہوگئے۔ تجار غلہ لانے کے لیے دُور دُور ملکوں کا سفر کرتے لیکن قحط سالی ایسی عام ہو رہی تھی کہ ہر جگہ غلہ کی مانگ پائی جاتی تھی۔ صرف مصر ایک ایسا ملک تھا جہاں پر غلہ کے ذخائر افراط سے جمع تھے اور جہاں سے غیرملکی تاجروں کو بھی کسی نہ کسی قیمت پر غلہ دستیاب ہوسکتا تھا۔ اولادِ یعقوبؑ قحط سالی کے صبرآزما دور میں بھوکوں مرنے لگی۔ آخر فرزندان اسرائیل نے مصر کے سفر کی تیاری شروع کردی اور ایک قافلہ بنا کر ملک مصر کی طرف روانہ ہوگئے۔مصر کے دارالسلطنت کی منڈیاں پُررونق تھیں۔ دیار و امصار کے تاجر غلہ خریدنے کے لیے وہاں جمع ہو رہے تھے اور ہر تاجر کو وہاں کے وزیر خزائن و ذخائر کی منظوری سے غلہ دیا جاتا تھا۔ فرزندانِ اسرائیل (یعقوبؑ) بھی وہاں پہنچے۔ اُنھوں نے بھی وہاں کے وزیر خزائن و ذخائر سے چند بار شتر غلہ خریدنے کی منظوری حاصل کی اور اُونٹوں پر بوجھ لاد کر وطن کی طرف واپس لوٹے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ مصر کا وزیر خزائن و ذخائر اُن کے ساتھ خاص تلطف سے پیش آیا۔ اُس نے فرزندانِ اسرائیل کی خوب دل جوئی کی اور چلتے وقت کہہ دیا کہ آئندہ سفر میں تم اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لانا۔ میں تمھیں زیادہ غلہ لے جانے کی اجازت دے دوں گا اور اپنے باپ سے میرا سلام کہنا۔ اُن کا خیال تھا کہ وزیر خزائن کے اس تلطف کی وجہ یہ ہے کہ ہم پیغمبر کی اولاد ہیں۔فرزندانِ یعقوبؑ نے گھر پہنچ کر اپنی اپنی بوریاں کھولیں تو انھیں یہ دیکھ کر اور بھی حیرت ہوئی کہ مصر کی منڈی میں جو رقمیں اُنھوں نے غلہ کی قیمت کے طور پر ادا کی تھیں وہ جوں کی توں خورجیوں سے برآمد ہوئیں۔ اُنھوں نے مصر کے وزیر خزائن و ذخائر کی نیک دلی’ فیاضی اور سخاوت کی بہت تعریف کی اور اپنے باپ سے کہا کہ ہم نے کبھی ایسا مہربان حاکم نہیں دیکھا جو غیرملکی تاجروں کے ساتھ اس قدر لطف و کرم سے پیش آتا ہو۔
اگلے سال قحط سالی نے پھر زور پکڑا اور فرزندانِ اسرائیل نے مصر کے سفر کی تیاری شروع کردی۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اب کے اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے جائیں گے کیونکہ ہم مصر کے وزیر خزائن و ذخائر سے اس امر کا وعدہ کرچکے ہیں۔ اگر ہم نے وعدہ پورا نہ کیا تو وہ ہمیں جھوٹا خیال کرے گا اور غلہ لانے کی منظوری نہ دے گا۔ یعقوبؑ جو اس سے قبل یوسفؑ کے متعلق تلخ تجربہ کرچکے تھے بنیامین کو برادرانِ یوسف ؑکی حوالگی میں دیتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن اُنھوں نے اپنے باپ کے سامنے قسمیں کھائیں اور کہا کہ ہم یوسفؑ کے اس بھائی کی پوری حفاظت کریں گے اور اُسے ساتھ لے کر واپس آئیں گے۔ چونکہ غلہ اسی صورت میں مل سکتا تھا کہ بنیامین بھائیوں کے ساتھ جائے۔ اس لیے یعقوب علیہ السلام نے بادل ناخواستہ سفر پر جانے کی منظوری دے دی۔
فرزندانِ یعقوبؑ مصر کے دارالسلطنت میں دوبارہ داخل ہوئے۔ غلہ خریدنے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے وہاں کے وزیر خزائن و ذخائر سے ملے۔ منڈیوں کا حاکم اگرچہ پیغمبر کے سارے بیٹوں سے نہایت تلطف و مہربانی کے ساتھ پیش آیا۔ تاہم اُس کے لطف و کرم کی بارش یعقوب علیہ السلام کے سب سے چھوٹے فرزند بنیامین پر خاص طور پر ہوتی تھی اور دورانِ قیام مصر میں بنیامین نے وزیر ذخائر سے ایک دو ملاقاتیں بھی کیں۔ بنیامین وزیرذخائر کی نوازشاتِ خاص سے بہت شاداں نظر آتا تھا۔
فرزندانِ اسرائیل اُونٹوں کے بار لاد کر مصر کے دارالسلطنت سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے اور وزیر ذخائر کے خاص احسانات کا تذکرہ کرنے لگے۔ ابھی شہر سے کچھ ہی دُور نکلے تھے کہ سرکاری پیادوں نے پیچھے سے ‘‘ٹھہرو ٹھہرو’’ کی آوازیں دیں اور فرزندانِ یعقوب ؑ کے کارواں کو حکماً واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ سب کے سب وزیرخزائن و ذخائر کی عدالت میں پیش کیے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ تم میں سے کسی نے چاندی کا وہ کٹورا تو نہیں چرایا جو دعوتِ خاص کے موقع پر پانی پینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ پیغمبر کے بیٹے حاکمِ مصر کا یہ الزام سن کر کانوں پر ہاتھ دھرنے لگے۔ آخر ان کے بار کھولے گئے اور یکے بعد دیگرے اُن کی سامان کی تلاشی ہونے لگی۔ کٹورا بنیا بین کے سامان میں پایا گیا۔ بنیابین کی ندامت کی انتہا نہ رہی ۔بھائیوں نے کہاکہ ہمارے دامن اس چوری سے بالکل پاک ہیں۔ اگر بنیامین نے چاندی کا کٹورا چرایا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس کا ماں جایا بھائی یوسفؑ بھی چور تھا۔وزیر اولادِ یعقوب ؑ کا یہ دعویٰ سن کر خاموش رہا۔ اُس نے فیصلہ صادرکردیا کہ قانون ملکی کی رُو سے چور کا ایک سال کے لیے مصر میں مقید رہنا ضروری ہے۔
فرزندانِ اسرائیل جو باپ سے بنیامین کو واپس لانے کا حتمی وعدہ کرآئے تھے۔ حاکمِ مصر کے اس فیصلہ پر بہت سٹپٹائے۔ اُنھوں نے حاکم سے رحم و عفو کی التجا کی اور ایک ایک نے بنیامین کی جگہ یرغمال کے طور پر قیدوبند کی مصیبتوں کے لیے اپنی اپنی ذات کو پیش کیا لیکن حاکمِ مصر کے سامنے اولادِ پیغمبر کا کوئی عذر مسموع نہ ہوا۔ وزیرخزائن نے کہہ دیا کہ سزا اُسی شخص کو ملے گی جس کی خورجی سے کٹورا برآمد ہوا ہے۔
فرزندانِ اسرائیل نے آپس میں مشورہ کیا اور بڑے بھائی نے کہا کہ جب تک اباجان اجازت نہ دیں گے میں اس ملک سے نہیں جاؤں گا۔ تم جاکر اُن سے سارا قصہ بیان کردو اور کہہ دو کہ بنیامین کی چوری کے ذمہ دار ہم نہیں اور اگر ہم اسے واپس لانے کاوعدہ پورا نہ کرسکے تو اس میں ہم قصوروار نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔یعقوبؑ کے بیٹوں نے کنعان پہنچ کر باپ سے بنیامین کی چوری اور اسیری کا ماجرا بیان کیا تو اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ اُس کے دل میں یوسفؑ کی یاد کا زخم جو کبھی مندمل نہ ہوا تھا تازہ ہوگیا اور اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم نے یوسفؑ کو گم کیا تو ایک بات بنائی اور اب بنیامین کہیں چھوڑ آئے تو دوسری بات بنا لی ہے۔چند روز کے اضطراب اور گریہ و زاری کے بعد یعقوبؑ کے دل کو قدرتی طور پر تسکین ہوگئی۔ اُس نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ’ یوسفؑ اور بنیامین کو تلاش کر کے میرے پاس لاؤ۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں ضرور اپنے بچوں کی صورت دیکھوں گا۔بیٹے سمجھے کہ بڈھے باپ کے دل پر یوسفؑ کی جدائی کا زخم ابھی تک تازہ ہے جس نے اس کے دماغ میں خلل ڈال دیا ہے تاہم وہ پھر ملک مصر کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ یوسفؑ نہیں تو بنیامین ہی کو کسی طرح چھڑا لائیں۔مصر پہنچ کر اُنھوں نے وزیرخزائن و ذخائر سے اپنے باپ کی ابتر حالت بیان کی اور کہا کہ اُس کے دل پر یوسفؑ کے گم ہوجانے کا ایک صدمہ ہی ناقابلِ برداشت تھا ’بنیامین کی اسیری نے اُس کا رہا سہا حوصلہ بھی توڑ دیا۔ فرزندانِ اسرائیل نے حاکمِ مصر سے گزارش کی کہ وہ پیغمبر کے بڑھاپے اور خستہ حالی پر رحم کر کے بنیامین کا قصور معاف کر دے اور اسے واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائے۔وزیر خزائن نے پوچھا کہ یوسفؑ کے گم ہوجانے کا ماجرا کیا تھا۔ اولاد اسرائیل نے بتایا کہ ہم سب جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ یوسفؑ کو ایک بھیڑیا اُچک کر لے گیا۔وزیرخزائن نے کہا کہ مجھے تمھارے بیان کی صداقت پر شک ہے’ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم نے یوسفؑ کو اندھے کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور پھر ایک قافلہ سالار کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ وزیرخزائن کے یہ الفاظ اولادِ یعقوبؑ پر بجلی کی طرح گرے۔ اُن کے مضبوط دل سینوں کے اندر لرز کر رہ گئے اور انھوں نے غور سے وزیرخزائن کے متبسم چہرے کی طرف دیکھا اور بے ساختہ بول اُٹھے کہ ‘‘یوسفؑ ! یہ تو تم ہی ہو’’۔
وزیر خزائن نے کہا کہ ہاں مَیں ہی یوسفؑ ہوں اور بنیامین میرا بھائی ہے’ میں تمھیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے دامن چوری کے الزامات سے سراسر پاک ہیں۔ بنیامین نے کٹورا چرانے کا ارتکاب نہیں کیا تھا بلکہ میرے ایک مصاحب نے جو واقفِ حال تھا’بنیامین کو یہاں رکھنے کے لیے ایک تدبیر بنائی تھی۔
یوسفؑ کے بھائی اپنے کیے پر بہت نادم ہوئے اور یوسفؑ کی عظمت اور احسان کا اعتراف کرکے اپنی گذشتہ خطاؤں کے لیے عفو و درگزر کے طلبگار ہوئے۔ یوسف ؑنے کہہ دیا کہ میرے دل میں تمھاری طرف سے کوئی رنج نہیں۔ تمھارا قصور معاف کیا جاتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں جس نے مجھے نیک اور دیانتدار بنایا اور ان ہی صفات کے بل پر آج میں اس رتبہ پرفائز ہوں۔
یعقوبؑ کے بیٹے یوسف ؑکے اس طرح ملنے پر بہت خوش ہوئے اور منزلیں طے کرتے ہوئے باپ کو مژدۂ جانفزاسنانے کے لیے دوڑے۔ یعقوبؑ کا دل پہلے ہی سے یوسفؑ کی ملاقات کی شہادت دے رہا تھا چنانچہ یوسفؑ کے مل جانے کی خوشخبری سن کر اُس کے مردہ جسم میں زندگی کی نئی روح دوڑ گئی۔
کچھ مدت کے بعد حضرت یعقوبؑ اور اُن کی اولاد عازمِ سفر مصر ہوئی اور یوسفؑ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا۔ بیٹوں نے تخت کے گرد ایک حلقہ ڈال لیا اور سب نے یوسف ؑ کی عظمت کے سامنے سجدۂ تعظیمی ادا کیا۔اس طرح یوسفؑ کے اُس خواب کی تعبیر پوری ہوگئی جو اُس نے اپنے ایام طفولیت میں دیکھا تھا اور جو اس پر جلاوطنی کے مصائب عائد کرانے کا موجب ہوا تھا۔
٭٭٭