اللہ کی سرزمین پر پہلے انسان کا قتل
آدمؑ و حوا کو سطح ارضی پر آباد ہوئے سالہا سال گزر چکے تھے۔ اولادِ آدمؑ سادگی اور معصومی کے ایک عالم خود فراموشی میں پھل پھول رہی تھی۔ حوا کی بیٹیاں اور آدمؑ کے بیٹے اپنے شب و روز کا غالب حصہ خالق ارض و سما کی تمجید و تقدیس میں بسر کرتے اور مرنجاں مرنج انبساط کی دلفریبیوں میں کھیل کود کر زندگی کے دن گزار رہے تھے۔ کرۂ ارض کی اس وارد اور نادر مخلوق پر ملاء اعلیٰ کے فرشتوں کا دھوکا ہوتا تھا۔ برادرانہ اخلاص اور ہم نوعی کا احساس ان کی اجتماعی زندگی میں اتحاد و یگانگی کی رُوح بن کر سرایت کرچکا تھا۔ گناہ اور حق تلفی کا نام تک نہ تھا۔ ابھی ان کے سادہ اور پاک دلوں میں باہمی رنجشوں اور کدورتوں کے پیدا ہونے کی نوبت ہی نہ آئی تھی۔ آدمؑ کی شفقت اور حوا کی محبت بھائیوں اور بہنوں کے ان تمام معصومانہ جھگڑوں کے لیے جو اُن کے درمیان کبھی کبھی پیدا ہوجاتے تھے ایک شریعتِ مرغوب کی طرح ضامن تھی۔ غرض مٹھی بھرانسانوں کی یہ جماعت خدا کی اَن جتی زمین پر معصومانہ انبساط کے ساتھ زندگی بسر کر رہی تھی اور سطح ارضی پر انسان کا پہلا گھرانا محبت و خلوص کا ایک دلکش گہوارہ تھا جس پر ہر وقت رحمت ایزدی کے موتی برستے رہتے تھے۔
آدمؑ اور حوا ؑنے اپنی بودوباش کے لیے پہاڑ کے دامن میں ایک نہایت پُرفضا وادی منتخب کر رکھی تھی’ جس کی سرسبزی دامانِ نگاہ کی طرح چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس جنت ارضی میں کئی ندیاں کوہستان کی برفانی چوٹیوں سے اُتر اُتر کر اور دامنِ کوہ کے شفاف اور مصفیٰ چشموں سے پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہی تھیں۔ مختلف قسم کے میووں سے لدے ہوئے خودرَو پودوں اور بڑے بڑے تناور اور سایہ دار درختوں کے جھنڈ اس پُرفضا مقام کی رونق کو دوبالا کر رہے تھے۔ قدرت کی قلمکاری نے اس تختۂ زمردین پر گلہائے رنگارنگ کے اجتماع سے خط نستعلیق میں یہ عبارت لکھ رکھی تھی کہ فردوس بریں کی حوریں پھولوں کا بھیس بدل کر زمین پر اُتر آئی ہیں اور اس سبزہ زار میں پرے جمائے مصروفِ خندہ آفرینی ہیں۔سبزہ’ سایہ’ پھول اور میووں کی یہ کائنات تھی جسے آدم ؑ و حوا ؑنے اپنے مسکن ارضی کے لیے پسند کرلیا تھا۔ صبح و شام میں بسی ہوئی نسیم خوشگوار اولاد آدم کے اجسام و مشائم سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی چلا کرتی اور آسمان کی نیرنگیاں انسان کے لیے ہر روز حیرت و استعجاب کا ایک نیا پیغام لے کر آتیں۔ جن کے ساتھ ساتھ اس کی کائناتِ قلبی میں پُرلطف کیف انگیز مگر مرعوب کُن رد و بدل ہوتا رہتا تھا۔ قدم قدم پر پیش آنے والے نئے نئے مشاہدات و تجربات اس کی رُوح کے اندر ہرلحظہ نئے نئے جذبات و احساسات پیدا کرتے رہتے تھے۔
آدمؑ و حواؑ کی نگاہ انتخاب نے گھر بنانے کے لیے اس پُرفضا وادی کو اس لیے پسند کیا تھا کہ اس آئینہ میں انھیں اپنے آسمانی نشیمن یعنی جنتُ عدنٍ تجری من تحتھا الانھٰر ط کی ایک دھندلی سی جھلک نظر آتی تھی۔ جس دن سے انھوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا وہ اپنے حافظہ سے مدد لے لے کر اس عالمِ سفلی کو عالمِ علوی کا ہم پلہ بنانے کی دُھن میں لگے ہوئے تھے اور جہانِ آب و گل کے خط و خال میں وہی دلفریبیاں پیدا کرنے کے متمنی تھے جو اُن کے نہاں خانۂ دماغ پر جنت کی یاد نے نقش کر رکھی تھی۔ اُنھوں نے نیچر کی بے پناہ اور بے ترتیب خوبصورتی میں ایک سلیقہ اور قرینہ پیدا کرنے کے لیے شب و روز اَن تھک محنت شروع کر دی۔ یہیں سے آرٹ کی بنیاد رکھی گئی اور آدمؑ کے مسکن اوّل کی یاد آرٹ کے بہترین تخیل کی صورت میں آج تک اولادِ آدم ؑ کے دماغوں میں محفوظ ہے۔
اس پُرفضا وادی کے وحوش و طیور بھی مخلوق خداوندی کی اس نئی جنس یعنی انسان کے ساتھ مانوس ہوچکے تھے یا یوں کہیے کہ مانوس کرلیے گئے تھے۔ ہابیل ابن آدمؑ جب مرغزار کے وسط میں کھڑا ہوکر پورے زور کے ساتھ تعال تعال کی صدا بلند کرتا تو دامانِ کوہ کی آزاد بھیڑیں اور بکریاں چوکڑیاں بھرتی اور چھلانگیں مارتی اس کے گرد جمع ہوجاتیں اور ہابیل اپنے ہاتھ سے درختوں کے پتے توڑ کر انھیں کھلاتا۔ ان میں سے ایک ایک کی پیٹھ پر اپنا دست شفقت پھیرتا ویسے تو وادی کے ان حیوانوں کے لیے گھاس اور سبزی کی کچھ کمی نہ تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ انھیں ہابیل کے ہاتھ سے پتے کھانے میں خاص لذت حاصل ہوتی اور ان کے دلوں میں بھی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا ایک اضطراری احساس پیدا ہوتا۔آدمؑ کے بیٹے دن بھر نئی نئی چیزوں کی دریافت اور نئے نئے جانوروں کی تسخیر میں مصروف رہتے اور حوا کی بیٹیاں صبح و شام پھول توڑنے اور پھل جمع کرنے کے دلچسپ مشاغل میں اپنا وقت صرف کیا کرتیں۔ سرشام غروب آفتاب کے دُھندلکے میں سب کے سب ایک مرغزار میں جو دامن کوہ کے ایک چشمہ سے پھوٹنے والی دو چھوٹی چھوٹی ندیوں کے درمیان واقع تھا’ آدم و حوا کے گرد جمع ہوجاتے اور دن بھر کی معلومات و تسخیرات کی داستانیں سنا سنا کر ایک دوسرے کا دل بہلاتے۔ آدم و حوا بھی اپنی اولاد کی ان سرگرمیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور اپنے مسکن اوّل کی تفصیلات و جزئیات بیان کرکے اس لغزش پر افسوس کیا کرتے جس نے انھیں خالق حقیقی کی دائمی حضوری سے محروم کردیا تھا۔ ان کی زبانوں پر ہر وقت اپنی معصیت کے اقرار کا ورد جاری رہتا اور وہ بات بات میں اپنے پروردگار سے مخاطب ہوکر کہتے:‘‘پروردگار! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔ ہمارے گناہ معاف کر اور ہم پر رحمت کے دروازے کھول۔ اگر تو نے ہمارے گناہ معاف نہ کیے اور ہم پر رحمت کے دروازے نہ کھولے تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔’’
غرض اسی قسم کے دلچسپ مشغلوں اور کڑی مشقتوں کے درمیان اولاد آدمؑ اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ حوا کا پہلوٹا قابیل اپنی زندگی کے ابتدائی سال باپ اور ماں کی انتہائی شفقت و محبت کے جھولے جھول جھول کر بسر کرچکا تھا۔ جب ہابیل اور آدمؑ کے دوسرے بیٹے اس نعمت سرمدی میں برابر کے شریک ہونے لگے تو قابیل کے دل میں ناپسندیدگی کا ایک مجہول سا احساس پیدا ہوگیا جو اُسے بعض اوقات چند لمحوں کے لیے مغموم و متفکر سا بنا دیتا اور اس کی حس تمیز تنہائی کی ساعتوں میں اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیتی کہ دنیا کی ہر بات اس کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ اس کی زندگی کے جام میں بعض ایسے تلخ گھونٹ بھی ہیں جنھیں اسے جبراً و قہراً اپنے حلق سے نیچے اُتارنا پڑتا ہے۔قابیل ابن آدمؑ کو اس کے باپ نے زمین کھود کر بیج بونے اور غلّہ پیدا کرنے پر لگا رکھاتھا اور ہابیل دامان کوہ کی بھیڑوں اور بکریوں اور وادی کے دیگر جانوروں کو مطیع و منقاد بنانے کے دلچسپ مگر مشکل کام پر مامور تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہیبت و طاقت کے کسی پیکر یعنی وحشی درندے کو دونوں بھائی مل کر اور پتھر مارمار کر بھگا دیتے۔ اس وقت قابیل پر اپنے بھائی کی ضرورت و اہمیت پوری طرح روشن ہوجاتی تھی۔ وہ برادرانہ محبت کے نشہ میں آکر جھومنے لگتا اور فتح و کامرانی کی مسرتوں میں ہابیل کو گلے سے لگالیتا۔
اس قسم کی نیرنگیوں اور دلبستگیوں میں اولادِ آدم ؑکے دن گزر رہے تھے۔ آدمؑ اور حوا ؑانھیں ہمیشہ اپنے خالق و پروردگار سے طلب عفو کرنے کی تلقین کیا کرتے تاکہ اُن کی خطائیں معاف ہوں اور وہ اپنی اولاد عزیز کو لے کر پھر جناتِ عدن میں جاکر آباد ہوجائیں۔ وہ کہا کرتے کہ ہمارے پروردگار نے ایک قصور کی پاداش میں ہمیں اپنے اعلیٰ گھر سے جلاوطن کردیا ہے اور مشقت یہ تجویز کی ہے کہ ہم اس عالم کون و فساد کی تمام قوتوں کو مسخر کریں اور عناصر کی اس دنیا کو کلی طور پر مطیع و منقاد کر کے خلافت ارضی کا تاج اپنے سروں پر رکھیں۔ پھر ہمیں حیاتِ ابدی کے اس شجرہ ممنوعہ کے پاس جانے اور اس کے پھل کھانے کی اجازت مل جائے گی جس کے قریب جانے کی پاداش میں ممکنات مضمر کی اس امتحان گاہ میں بھیجا گیا ہے۔ پھر ہم کامل عیش و تنعم کے ساتھ اپنے مالک و خالق کے قرب و حضور میں رہا کریں گے۔
آدمؑ اور حوا ؑنے کرۂ ارضی پر آکر جب سربفلک پہاڑوں اور بڑے بڑے دریاؤں’ وحشی درندوں اور قدرت کی ان خوفناک نیرنگیوں کو دیکھا تھا جو طوفان باد و باراں’ صاعقہ اور تلاطم ہائے امواج کی مختلف صورتوں میں ظاہر تھیں تو ان کے دل میں یہ حوصلہ فرسا خیالات پیدا ہوجاتے تھے کہ اس وسعت زارعالم اور اس کی خوفناک قوتوں کو مسخر کرنے میں خدا جانے کتنا وقت صرف ہوگا لیکن اولاد کی پیدائش کے تجربہ نے ان کی ڈھارس بندھا دی تھی اور انھیں یقین ہوگیا تھا کہ ہم اپنی اولاد کی مدد سے اس مشکل مہم کو سر کرنے میں جلد کامیاب ہوجائیں گے۔
ہر صبح کا آفتاب اولادآدم ؑکے لیے جدید سرگرمیوں اور نئے مشغلوں کا پیغام لے کر آتا اور تمدن انسانی کے یہ اوّلین معمار اپنے وظائف مفوضہ کی انجام دہی میں مصروف ہوجاتے۔ قابیل اپنے کھیتوں میں چلا جاتا اور فصلوں کو پانی دینے اور بیج بونے کے لیے نئی زمینیں تیار کرنے میں مصروف ہوجاتا۔ ہابیل بھیڑوں اور بکریوں کے گلہ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتا اور پتھروں کے ڈھیروں میں خوشنما سنگریزوں کی تلاش میں لگا رہتا۔ آدمؑ اور حوا ؑاپنی اور اپنی اولاد کی روزافزوں ابتدائی ضروریات و حاجات کے لیے مکانات کی تعمیر اور خوراک و پوشاک کی نئی نئی دریافتوں میں منہمک رہتے۔ آدمؑ کے دوسرے بیٹے اور حوا کی بیٹیاں ان کی مددگار بنتیں اور اِدھر اُدھر سے مطلوبہ اشیاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر آدم و حوا کے پاس لے آتیں۔
ایک روز اس پُرفضا وادی پر گرجتے ہوئے سیاہ بادل چھا گئے اور عناصر سماوی کے خوفناک اجتماع نے آدمؑ کے گھر کا احاطہ کرلیا’ ایسا معلوم ہونے لگا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے ہیں اور فضائے نیلگوں کے لامتناہی سمندر میں ایک قیامت آفریں تلاطم برپا ہے جو زمین کی طرف اُمڈا چلا آتا ہے۔ تیز اور تندآندھی نے پہاڑوں اور درختوں سے ٹکرا ٹکرا کر ایک پُرہیبت شور برپا کر رکھا تھا اور رعد و صاعقہ کے غیظ و غضب نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو ایک محشرستان فریاد بنا دیا تھا۔ آدم ؑکی اولاد اپنے جھونپڑوں میں دبکی بیٹھی تھی اور وادی کے وحوش و طیور بھی عناصر کی اس خوفناک آمیزش اورقوائے قدرت کی اس ہولناک نمائش سے ڈر ڈر کر اور سہم سہم کر اپنی اپنی جائے پناہ میں چھپ گئے تھے۔چند لمحہ کے لیے بارش ذرا تھمی’ بادل کی تاریکیوں میں آناً فاناً روشنی کے تڑپتے ہوئے شعلے دوڑنے لگے۔ کائنات ارضی و سماوی کھلکھلا کر ہنسی اور پھر تاریکی میں غائب ہوگئی۔ ایک لمحہ کے لیے سکون اور خاموشی کا عمل ہوا۔ رعد اپنے انتہائی زور کے ساتھ گرجا اور اس کے دل دہلا دینے والے نعرہ نے کائنات میں ایک لرزہ پیدا کردیا۔اولادِ آدم ؑکی چندھیائی ہوئی آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ اُس کے اندوختہ مال پر بجلی گر چکی تھی۔ قابیل کا خرمن جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔ ہابیل کی بکریاں مر گئی تھیں اور آدمؑ کا باغ ویران ہوگیا تھا۔قابیل کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لاسکیں۔ اس کا دل افسردہ ہوگیا۔ اس کے چہرہ پر رنج و افسوس کی تاریکی چھا گئی۔ اس کی رُوح درد کے عذاب میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا دماغ تلملانے لگا اور اس کی آنکھوں میں رنج اور غصے کے آنسو ڈبڈبا آئے۔ اُس نے ایک طویل ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:‘‘میری محنت برباد ہوگئی۔ قدرت کی غیبی قوتوں نے میرے حال پر ظلم کیا اور آدم ؑ کے اللہ نے بھی میری کوئی مدد نہ کی’’۔بھیڑوں اور بکریوں کی اچانک موت پر ہابیل کو بھی افسوس تو ہوا لیکن اس کی بلندفطرت نے وہ اثر قبول نہ کیا جو قابیل پر ہوا تھا۔ اُس نے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی اور مالک حقیقی کی بارگاہ میں یوں گڑگڑانے لگا۔‘‘اے خالق ارض و سما! تو کائنات کی ہر شے کا مالک ہے’ مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں’ مجھے اور بکریاں مطیع کرنے کی توفیق عطا کر’’۔
آدمؑ و حوا قدرت کی ان نیرنگیوں کو دیکھ دیکھ کر حسب ِ معمول یہ دعا پڑھ رہے تھے کہ:
‘‘پروردگار ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔ ہمارے گناہ معاف کر اور ہم پر رحمت کے دروازے کھول اگر تو نے ہمارے گناہ معاف نہ کیے اور ہم پر رحمت کے دروازے نہ کھولے تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے’’۔
اُس دن سے قابیل سخت مغموم رہنے لگا۔ اس کی رُوح بے قرار ہوگئی اور اُسے دنیا کی ہرچیز بھدی اور بھونڈی نظر آنے لگی’ حتیٰ کہ بعض اوقات وہ خود اپنی ذات سے بیزار ہوجاتا۔ہابیل نے چند ہی روز میں بکریوں کا ایک اور گلہ جمع کرلیا اور اس کے شب و روز مسرت و انبساط کی روحانی کیفیتوں میں بسر ہونے لگے۔ وہ حسبِ معمول پہاڑ کی چوٹیوں پر جاتا اور اپنی آنکھوں کو کوہستان کی قدرتی کرشمہ سازیوں سے سیراب کرتا۔ اُس کے دل میں فرحت و شادمانی کی ایک وجدانی کیفیت پیدا ہوجاتی اور اُس کیفیت کے سرور میں گھنٹوں بیٹھا جھوما کرتا۔ایک روز اس کا دل بجلی گرنے کے حادثہ کی یاد سے بہت متاثر ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ قابیل کیوں اس قدر اُداس رہتا ہے۔ اس کی روح میں ان خیالات نے ایک قسم کی موسیقی پیدا کردی اور اس کے دماغ میں ایسے الفاظ جمع ہونے لگے جو ایک دوسرے سے مل کر ترنم پیدا کر رہے تھے۔ چند لمحہ کے بعد وہ انتہائی مسرت کی ترنگ میں آکر ایک سادہ سا گیت الاپنے لگا جس کا مفہوم قریب قریب یہ تھا:‘‘بجلی گری جس نے آدمؑ کا باغ تاراج کردیا’’
‘‘بجلی گری جو قابیل کے کھیتوں کو برباد کر گئی’’
‘‘بجلی گری اور ہابیل کی بکریاں مرگئیں’’
‘‘لیکن پروردگار! مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں’’
‘‘مجھے اپنی بکریوں کے مرجانے کا غم نہیں’’
‘‘خداوند کی زمین بکریوں سے بھری پڑی ہے’’
‘‘قابیل اس قدر مغموم اور اُداس ہے’’
‘‘لیکن پروردگار! میں تیری رضا پر شاکر ہوں’’
شعر اور موسیقی کی اس نئی دریافت نے ہابیل کے دل میں خوشی کا ایک سمندر موجزن کردیا۔ اس کے رگ و ریشہ میں انبساط کی ایک نئی لہر متحرک ہوگئی اور وہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ نغمہ الاپنے لگا۔ اس کی رُوح کا ذرّہ ذرّہ رقص کر رہا تھا اور گیت کی صدائے بازگشت نے کائنات میں ایک تھرتھراہٹ پیدا کر دی تھی۔
قابیل افسردہ دلی کے ساتھ دامن کوہ میں اپنے کھیتوں کو پانی دے رہا تھا۔ اس کے کانوں میں ہابیل کے اس نغمہ شیریں کی دلکش آواز پہنچی۔ وہ کوہستان کی چوٹیوں کے فاصلۂ بعید سے آنے والی گونج سن کر مبہوت ہوگیا۔ ٹھٹکا اور کان لگا کر شعر اور موسیقی کے اس اجتماع پر غور کرنے لگا۔ اُس نے ہابیل کی آواز پہچان لی لیکن گیت کے معانی نے اُس کے دل میں جذبات کا ایک تلاطم برپا کردیا اور اس کے دماغ میں بجلی گرنے کے حادثہ کی رُوح فرسا یاد تازہ ہوگئی۔وہ سوچنے لگاکہ بجلی آدمؑ کے باغ پر بھی گری اور اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بجلی ہابیل کی بکریوں پر بھی گری اور وہ بدستور مطمئن ہے لیکن مجھے کیوں رنج و الم نے اس عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ہابیل کی گونجتی ہوئی آواز برابر اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی اور قابیل کے دل میں حسد کی آگ نے جو چنگاریاں پیدا کر دی تھیں انھیں ہوا دے رہی تھی۔
‘‘ہابیل مطمئن ہے’ میں مغموم اور اُداس ہوں۔ آدمؑ کا خدا ہابیل پر مہربان ہے اور مجھ سے ناراض۔ آخر یہ امتیاز کیوں ہے؟ آدمؑ اور حواؑ بھی ہابیل کی تعریف کرتے ہیں اور اسے بہت اچھا سمجھتے ہیں’ حالانکہ مَیں عمر میں ہابیل سے بڑا ہوں’’۔
اس قسم کے خیالات تھے جو قابیل کے دماغ کو پریشان کر رہے تھے۔ اس کا غصہ لمحہ بہ لمحہ تیز ہورہا تھا۔ ہابیل کے گیت کی دلکش آواز لحظہ بہ لحظہ نزدیک آرہی تھی۔ وہ اُچھلتا کودتا تانیں اُڑاتا دامن کوہ میں پہنچ گیا۔قابیل نے غصہ و رنج سے بھری ہوئی آواز میں ہابیل کو بلایا اور اُس سے اس قدر خوش ہونے کا سبب دریافت کیا۔ ہابیل نے کہا کہ ‘‘میرے پروردگار نے مجھ پر انعام کیا اور مجھے شعر اور گانا سکھا دیا۔ میرا دل بہت خوش ہے اور مجھے بکریوں کے مرجانے کا کوئی غم نہیں’’۔
قابیل ہابیل کی اس خوشی کی تاب نہ لاسکا۔ گرج کر بولا:‘‘تمھارا پروردگار تم پر مہربان ہے اور مجھ سے ناراض۔ مَیں تم سے اور تمھارے پروردگار دونوں سے بیزار ہوں’’۔ہابیل نے مسرت و شادمانی کے لہجہ میں جواب دیا: ‘‘بھائی! تمھارے دل میں چور گھس گیا ہے اور تم بہکی بہکی باتیں کرتے ہو’’۔قابیل کی آنکھوں سے آگ برسنے لگی۔ اُس نے جھنجھلا کر کہا: ‘‘تمھارا پروردگار ظالم ہے اور تم……’’ہابیل بھائی کی یہ وارفتگی دیکھ کر ہنس دیا اور اس جوش انبساط کی ترنگ میں آکر جو شعر اور موسیقی نے اس کے دل میں پیدا کر رکھا تھا اپنا تازہ گیت الاپنے لگا۔قابیل کا غصہ قابو سے باہر ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اُس کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں’ اس کے نتھنے پھول گئے اور اُسے اپنی تمام مصیبتیں ہابیل کی ذات کے اندر منعکس ہوتی نظر آئیں۔اُس کے ہاتھ کو ایک اضطراری جنبش ہوئی اور اُس نے پتھر کا ایک بھاری ٹکڑا اُٹھا کر ہابیل کی طرف پھینکا۔ ہابیل کا سر پھوٹ گیا۔ وہ تیورا کر گر پڑا اور زمین کنپٹی سے بہنے والے خون سے رنگین ہوگئی۔
عالم کون و فساد کی ظاہر و مخفی قوتون نے سفک الدماء کا یہ پہلا سین دیکھا اور کائنات خلافت ارضی کے وارث اعلیٰ کی اس حرکت پر خوف کے مارے کانپ اُٹھی۔
ہابیل جان کنی کی بے تابیوں میں چند لمحوں کے لیے تڑپا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ زُبانِ حال سے پکار اُٹھا:…… ‘‘پروردگار! کیا تو اُن لوگوں کو خلافت ارضی کا وارث بنانے والا ہے جو تیری زمین پر فساد برپا کرتے ہیں اور خون گراتے ہیں۔ ہم ہیں کہ ہر وقت تیری تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں’’۔