اس کے بیٹے کی شادی تھی اور بارات نے لاہور سے شیخوپورہ جانا تھا۔ بارات مقررہ وقت پر پہنچ گئی مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ابھی تو ہال کی صفائی ہو رہی ہے چنانچہ بارات کو ایک پٹرول پمپ پر کافی دیر انتظار کرناپڑا۔بن مانگے انتظار کی اس کوفت سے رہائی پاکر جوں ہی وہ ہال میں پہنچے تو نکاح کا وقت ہو چکا تھا چنانچہ بغیر کسی تاخیر کے رسم نکاح شروع کر دی گئی۔ اس نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کانکاح خود پڑھائے گاکیونکہ و ہ اس خیال کا حامی تھا کہ اہم اسلامی رسوم کی ادائیگی پیشہ ور مولوی حضرات کے ذمہ کرنے کے بجائے خود اداکرنا حضور ﷺ کی سنت سے زیادہ قریب ہے ۔نکاح کے لیے مائیک کا بندوبست کیا گیا تھا ۔ جوں ہی اس نے مائیک سنبھالا تو خطبہ مسنونہ کے بعد اسے خیال آیا کہ یہ اچھا موقع ہے کہ عوام کو شادی بیاہ اور نکاح پہ ہونے و الی فضولیات کی قباحت سے آگاہ کیا جائے ،ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل تک یہ بات پہنچ جائے اور وہ عمل کر نے والا بن جائے ۔ مگر جوں جوں بات آگے بڑھتی گئی تو اس کی تقریر داعیانہ اسلوب سے ہٹ کر کسی شعلہ بیان مقرر کے اسلوب میں ڈھلتی چلی گئی۔ فضول رسومات کی شناعت کے علاوہ ایسی تقریبات پہ وقت کے ضیاع اور وقت کی پابندی نہ کرنے کی برائی کو بھی اس نے بلند بانگ انداز سے بیان کر ڈالا۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی زد میں وہ لوگ بھی آئے جو اس ہال کے کرتا دھرتا تھے کہ بارات کو ان ہی کی بد انتظامی کی وجہ سے خوا ہ مخواہ انتظار کرنا پڑا تھا۔اس کی تقریرختم ہو ئی تو خوب واہ واہ ہوئی حتی کہ بعض بن بیاہی لڑکیوں اور ان کے سرپرستوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ بھی رسم نکاح کے لیے اُ سے تکلیف دیں گے ۔حسب دستور بعد میں کھانے کا اہتمام تھا۔ کھانا شروع ہونے لگا تو ایک صاحب
اُ س کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ جناب وہ ان سے تھوڑی بات کرنا چاہتاہے ۔وہ اس صاحب کے ساتھ ہال سے باہر آ گیا۔ اُ س صاحب نے کہا کہ جناب وہ اس ہال کا مالک ہے ۔ آپ حضرات کو اس لیے لیٹ ہونا پڑا کہ آپ سے قبل جو بارات یہاں موجود تھی وہ ہماری درخواست کے باوجود یہاں سے بہت لیٹ فارغ ہوئی اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے ۔ پھر اس نے کہا کہ جنا ب اس لیٹ کی ہم معذرت چاہتے ہیں مگر آپ نے اپنی تقریر میں جس طرح ہمیں سخت سست کہا اس سے اُسے بہت تکلیف ہو ئی ہے ۔ اس نے کہا کہ محترم یہی بات اگر آپ پیار سے اور داعیانہ اسلوب میں بیان کر دیتے تو شاید ہم پہ اثر کر جاتی مگر اب معاملہ الٹ ہے۔ اب توبہت دیر اسی مرحلے میں گزر جائے گی کہ آپ کی باتوں سے پہنچنے والی تکلیف کوکس طر ح کم کیا جائے اس کے بعد شاید آپ کی باتو ں پہ غور کرنے کا وقت آئے گا مگر جب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ آخر میں اس نے سوال کیا کہ جناب کیا اللہ کے رسول ﷺ ایسے ہی تبلیغ کیا کرتے تھے ؟
اس نے شادی ہال کے مالک کی اس بات کو بہت غور سے سنا اور محسوس کیا کہ واقعتا وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ دعوت اور اصلاح مقصو د ہوتو بات کا انداز بھی داعیانہ اور ہمدردی کا ہونا چاہیے نہ کہ ڈانٹنے کا۔ وہ بوجھل قدموں سے ہال میں واپس لوٹا توکھانے کے بہت سے برتن خالی ہو چکے تھے لیکن اس کا دامن ایک بہت ہی اچھی بات سے بھر چکا تھا اور وہ بات یہ تھی کہ صحیح بات کو اگر غلط طریقے سے کیا جائے تو وہ بھی اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے ۔اس لیے بات چاہے کتنی ہی حق اور سچ کیوں نہ ہو جب تک دل میں مخاطب کی بھلائی اور ہمدردی نہ ہوگی اور انداز بیان پیار اور محبت کا نہ ہو گاتو وہ حق اور سچ بات بھی خلاؤں میں گم ہو کر رہ جائے گی ۔عین اُ س لمحے جب کہ وہ اس بات پر غور کر رہا تھا اسے کہیں دور سے ایک قاری کی آواز آئی جو یہ کہہ رہا تھا أدع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔۔۔۔۔۔۔اور وہ صدق اللہ العظیم کہہ کر واپس بارات میں شامل ہو گیا۔