چھینک تو سبھی مارتے ہیں مگر یہ ایسی چھینک کی داستان ہے جس نے ایک شخص کی زندگی میں ہلچل مچا دی۔
ایک شان دار شام کو ایک شان دار کلرک ‘‘ایوان’’ تھیٹر کی اگلی نشستوں کی دوسری صف میں بیٹھا دوربین کی مدد سے ڈرامے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس کی نظریں اسٹیج پر جمی تھیں اور وہ خود کو دنیا کا مسرور ترین شخص تصور کر رہا تھا۔ اتنے میں اچانک……
یہ ‘‘اتنے میں اچانک’’ واقعی بڑا گھسا پٹا جملہ ہے لیکن جب زندگی میں غیرمتوقع باتوں کی اتنی ریل پیل ہے تو بے چارے ادیب اسے استعمال نہ کریں تو کریں بھی کیا؟
خیر، تو اتنے میں اچانک اس کے چہرے پر شکنیں پڑ گئیں، آنکھیں آسمان کی طرف گھوم گئیں، سانس رک سی گئی…… اس نے چہرے کو دوربین سے ہٹایا، اپنی نشست پر تقریباً دہرا ہوگیا اور…… ‘‘آخ چھیں!’’
چھینکنے کا کیا، جس کا جب جی چاہے آزادی سے چھینک سکتا ہے۔ کسان، پولیس افسر، حتیٰ کہ مشاورتی کونسل کے ارکان تک چھینکتے ہیں۔ بھلا کون ہے جو چھینکتا نہ ہو۔ چنانچہ ایوان کو ذرا بھی شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر اپنی ناک پونچھی اور شائستہ آدمی کی طرح یہ دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں کہ اس کی چھینک سے کسی کوکوئی زحمت تو نہیں اٹھانی پڑی۔ اور تب اسے شرمندگی محسوس ہوئی جب اس نے دیکھا کہ پہلی صف میں ٹھیک اس کے سامنے بیٹھا ہوا پستہ قد بوڑھا اپنی گنجی چندیا اور گردن کو احتیاط کے ساتھ دستانے سے پونچھ رہا ہے اور منہ ہی میں کچھ بڑبڑاتا بھی جا رہا ہے۔ ایوان نے بوڑھے کو پہچان لیا، وہ تو وزارتِ رسل و رسائل کا جنرل ‘‘بریز’’ تھا۔
‘‘ارے، میں نے تو ان پر چھینٹیں ڈال دیں!’’ ایوان نے سوچا۔ ‘‘ویسے تو یہ میرے باس نہیں ہیں، پھر بھی ہوا بہت بُرا۔ معافی مانگ لینی چاہیے’’۔ایوان دھیرے سے کھانس کے آگے کی طرف جھکا اور جنرل کے کان میں کہا:‘‘معاف کیجیے گا سر، چھینک آگئی اور آپ پر چھینٹیں پڑ گئیں…… میرا قطعاً یہ ارادہ نہ تھا’’۔کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں……’’‘‘خدا کے لیے معاف کردیجیے…… یہ میری دانستہ حرکت نہ تھی’’۔
‘‘افوہ، کیا مصیبت ہے ، خاموش بیٹھئے! مجھے سننے دیجیے!’’۔ایوان بوکھلا سا گیا، مصنوعی انداز سے مسکرایا اور اسٹیج کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کی۔ وہ اداکاروں کو دیکھ رہا تھا لیکن اب خود کو دنیا کا مسرور ترین شخص تصور نہیں کر رہا تھا۔ شرمندگی کے احساس نے اسے عجیب اذیت میں مبتلا کردیا تھا۔ وقفے میں جنرل بریز کے پاس پہنچ کر وہ ذرا دیر اِدھر اُدھر چکر کاٹتا رہا۔ پھر ہمت کر کے کہا: ‘‘میں نے آپ پر چھینک دیا تھا، سر مجھے معاف فرمایئے…… دیکھئے نا، میرا قطعاً یہ ارادہ نہ تھا’’۔ ‘‘اوہ، واقعی میں تو بھول ہی چکا تھا مگر آپ ہیں کہ اسی کی رَٹ لگا رکھی ہے’’۔ جنرل نے کہا اور اس کا نچلا ہونٹ بے صبری سے پھڑک رہا تھا۔ ‘‘ کہہ رہے ہیں کہ بھول گئے، پر ان کی آنکھیں کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں’’۔ ایوان نے جنرل پر شک بھری اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے سوچا۔ ‘‘دراصل مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے، ان سے کہنا چاہیے کہ میرا قطعاً یہ ارادہ نہ تھا۔ یہ تو ایک قدرتی بات ہے، ورنہ سوچیں گے کہ میں ان کے اُوپر تھوکنا چاہتا تھا! وہ اس وقت یہ بات نہ سوچ رہے ہوں گے تو بعد میں سوچ سکتے ہیں!’’
گھر پہنچ کر ایوان نے بیوی کو بتایا کہ اس سے کیسی ناشائستہ حرکت سرزد ہوگئی۔ اسے ایسا لگا کہ بیوی نے اس قصے کو خاک بھی اہمیت نہیں دی۔ وہ پل بھر کے لیے تو ضرور تشویش میں مبتلا ہوئی لیکن یہ معلوم ہوتے ہی کہ بریز ‘‘غیر’’ افسر ہے، اس کا اطمینان بحال ہوگیا۔ اس نے شوہر سے کہا : ‘‘پھر بھی میرا خیال ہے کہ آپ کو جا کے معافی مانگ لینی چاہیے نہیں تو وہ آپ کو مجلسی آداب سے ناواقف سمجھ بیٹھیں گے’’۔‘‘یہی تو بات ہے! میں نے معافی مانگنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے عجیب رویہ اپنایا……ایک لفظ بھی ایسا نہ کہا جو معقول ہوتا اور پھر باتیں کرنے کا وقت بھی کہاں تھا’’۔
اگلے روز ایوان نے اپنا نیا سرکاری کوٹ پہنا، بال کٹوائے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے جنرل کے ہاں گیا…… جنرل کا استقبالی کمرہ درخواست گزاروں سے بھرا ہوا تھا، خود جنرل بھی وہیں تھا اور لوگوں کی درخواستیں قبول کر رہا تھا۔ آخرکار جنرل نے اپنی نگاہیں ایوان کے چہرے کی طرف اٹھائیں۔وہ فوراً ہکلاتے ہوئے بولا: ‘‘گذشتہ شام کو ‘‘آرکادیا’’ تھیٹر میں…… اگر آپ کو یاد ہو، یور اکسیلنسی…… م……م…… مجھے چھینک آگئی تھی…… او …… اور اور اتفاق سے…… میری التجا ہے کہ……’’جنرل کے چہرے پر شکنیں پڑ گئیں ، وہ غصے سے پھٹ پڑا: ‘‘تھو، کیا بکواس ہے!’’وہ اسے نظرانداز کرتے ہوئے دوسرے شخص سے مخاطب ہوا: ‘‘کہئے، میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟’’‘‘یہ تو میری بات ہی نہیں سن رہے!’’ ایوان کا چہرہ فق ہوگیا تھا۔ اس نے سوچا: ‘‘اس کا مطلب ہے کہ سخت غصے میں ہیں…… میں معاملے کو اس حالت میں نہیں چھوڑ سکتا…… میرے لیے وضاحت ضروری ہے’’۔جنرل آخری درخواست گزار سے نپٹ کر اپنی نجی نشست گاہ کو واپس جانے کے لیے مڑا تو ایوان نے اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے آہستہ سے کہا:‘‘مجھے معاف کردیجیے، حضور! محض اپنی دلی ندامت ہی کی بنا پر آپ کو زحمت دینے کی جرأت کر رہا ہوں……’’جنرل نے رونی صورت بنائی اور اپنا ہاتھ جھٹک دیا اور بے بسی سے بولا: ‘‘آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں’’۔ اور اندر داخل ہوکر دروازہ زور سے بند کردیا۔‘‘مذاق اُڑا رہا ہوں؟’’ ایوان نے سوچا۔‘‘میں مسخرا پن نہیں کر رہا۔ اتنے بڑے جنرل ہیں، پھر بھی کچھ سمجھ نہیں پارہے! اچھی بات ہے، اب میں معافی مانگ مانگ کر ان بھلے مانس کا دماغ نہ چاٹوں گا۔ بھاڑ میں جائیں! انہیں ایک خط لکھ دوں گا اور بس، دوبارہ ان کے پاس نہ آؤں گا، ہرگز نہ آؤں گا، نہ بس قصہ ختم!’’
ان خیالات کے ساتھ ایوان گھر لوٹ آیا لیکن اس نے خط نہ لکھا۔ اس نے لاکھ سرکھپایا پر خط کا کوئی مضمون ہی نہ سوجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاملے کو سلجھانے کے لیے اسے اگلے روز پھر جنرل کے پاس جانا پڑا۔‘‘میں نے کل آپ کو زحمت دینے کی جرأت کی تھی، سر’’۔ جنرل کی سوالیہ نگاہ کے جواب میں اس نے کہنا شروع کیا۔ ‘‘لیکن آپ کا مذاق اڑانے کے لیے نہیں، جیساکہ آپ نے فرمایا، سر! دراصل میں معافی مانگنے کے لیے حاضر ہوا تھا کیونکہ میری چھینک آپ کے لیے باعثِ تکلیف ہوئی تھی…… جہاں تک آپ کا مذاق اڑانے کا سوال ہے تو ایسی بدتمیزی کا میں کبھی تصور تک نہیں کرسکتا۔ اگر ہم دوسروں کا مذاق اڑانے پر اُتر آئیں تو احترام کا وجود ہی باقی نہ رہے…… اعلیٰ افسروں کی عزت ہی خاک میں مل جائے’’۔‘‘نکل جاؤ یہاں سے!’’ جنرل آگ بگولا ہوکر کانپتے ہوئے چیخ اُٹھا۔‘‘کیا فرمایا؟’’ ایوان نے خوف کی شدت سے بالکل بے جان ہوکر دھیرے سے کہا۔‘‘نکل جاؤ!’’ جنرل پاؤں پٹختے ہوئے غرایا۔
ایوان کو ایسے لگا جیسے اس کے اندر کوئی چیز تڑاخ سے ٹوٹ گئی۔ اب نہ وہ کچھ سن رہا تھا، نہ دیکھ رہا تھا اور اسی حالت میں دروازے کی طرف پیچھے ہٹا، سڑک پر نکل آیا اور چل دیا۔ اسی حالت میں ٹھوکریں کھاتا ہوا، گھر پہنچا۔ اپنا سرکاری کوٹ پہنے پہنے ہی صوفے پر لیٹ گیا…… دراصل اسے اس صدمے سے دل کا دورہ پڑا تھا اور لیٹے لیٹے ہی اس کی روح اس کا جسم چھوڑ چکی تھی۔