ترجمہ ،توراکینہ قاضی
ایک نابینا چرواہے اور معصوم بچے کی دل چُھو لینے والی داستان
مغربی شہروں میں کرسمس کی آمد سے کئی دن قبل رونق اور گہماگہمی شروع ہوجاتی ہے۔ تب تیاریاں اور خریداریاں عروج پر ہوتی ہیں، لیکن اُس قصبے میں کوئی رونق یا ہنگامہ نہیں تھا حالانکہ اگلے ہی روز کرسمس تھا۔
گویہ کوئی نئی بات نہیں تھی، غریب غربا کے اُس قصبے میں اہتمام ہوتا بھی تو کیونکر؟ بس بچوں کے لیے اتنا اہتمام ہوتا کہ انہیں ایک جگہ جمع کر کے کرسمس کی کہانی سنا دی جاتی۔ اس قصبے میں مدت دراز سے یہی ریت چلی آرہی تھی۔ صرف ہر سال کہانی سننے والے بچے بدل جاتے اور یہ معمول آج تک نہیں بدلا تھا۔ ان کے نزدیک کرسمس یہی تھا۔
علاقے میں جوناتھن نامی ایک آدمی جس پہاڑ پر رہتا تھا، اس کا نام ‘اُمید’ تھا مگر اس کی زندگی میں اُمید کی کوئی کرن نہیں تھی، کیونکہ وہ نابینا تھا۔ جوناتھن طویل القامت اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس دکھائی دیتا۔ بیوی اس کا بے حد خیال رکھتی۔ نابینا ہونے کے باوجود اس کی چال میں وقار اور تمکنت تھی۔ سراپے اور رکھ رکھاؤ سے شکستہ حالی دکھائی نہ دیتی ۔ اس کی زندگی میں اگر تاریکی اور افسردگی تھی، تو اس کی ذات کے اندر، کیونکہ وہ ایک سزا یافتہ تھا۔ اسے سزائے موت کا حکم سنایا جاچکا تھا، تاہم نابینا ہونے کے سبب سزا بستی سے اخراج اور معاشرتی قطع تعلقی میں تبدیل کر دی گئی۔ ہرچند اسے زندگی کی خیرات مل گئی لیکن لوگوں سے قطع تعلقی کا دکھ اسے اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا رہا تھا اور سزائے موت، جس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا، کوڑھ کا داغ بن کر اس کی پیشانی پر ثبت تھی۔
دو سال پہلے شکار کے ایک حادثے میں اس کی بینائی جاتی رہی۔ ہوا یہ کہ وہ جنگل میں ایک جھاڑی کے قریب کھڑا تھا۔ کچھ شکاری ایک زخمی بارہ سنگھے کے تعاقب میں قریب سے گزرے۔ ایک شکاری نے جوناتھن کے اتنے قریب سے بندوق چلائی کہ بارود کے ذرے اس کی آنکھوں میں گھس گئے۔ تب سے اسے مسلسل تکلیف رہنے لگی۔ آہستہ آہستہ اس کی بینائی زائل ہوتی گئی۔ اس نے ان تمام اشیا کو جن سے اسے محبت تھی، خوب اچھی طرح الوداعی انداز میں دیکھا۔ بہرحال بینائی جانے کے اس افسوسناک حادثے نے اس کے اندر تلخی اور قنوطیت کو جنم نہیں دیا۔
سزائے موت اسے اس جرم میں ملی کہ اس نے جنگل میں ریچھ کے شکار کے لیے شکنجہ نصب کیا تھا۔ کچھ برسوں سے ان پہاڑی آبادیوں میں یہ قانون نافذ ہوچکا تھا کہ آہنی شکنجے لگانے والوں کو سزائے موت دی جائے گی اور اس جرم میں کئی افراد کو سزائے موت مل بھی چکی تھی۔ یہ خطرناک شکنجے بالعموم گھنی جھاڑیوں اور گھاس پھونس میں لگائے جاتے، اس لیے اکثر تاریکی یا لاعلمی کے باعث ان میں ریچھوں کے بجائے انسان پھنس جاتے۔ انسان کا جو بھی عضو شکنجے کی زد میں آتا، فوراً ہی ٹوٹ جاتا اور اکثر بے بسی کے عالم میں زیادہ خون نہ جانے سے اس کی موت واقع ہوجاتی۔ اس لیے شکنجے لگانا قانوناً جرم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کی سزا موت رکھی گئی۔
حقیقت یہ تھی کہ جوناتھن نے ہرگز کوئی شکنجہ نہیں لگایا تھا۔ وہ تو خود اس شکنجے کی زد میں آتے آتے بچا تھا۔ جوناتھن نے بینائی کھونے کے بعد بھی اپنے سابقہ معمولات نہیں چھوڑے تھے۔ وہ پہاڑ کی چوٹی پر رہتا تھا۔ اس دن وہ جنگل میں چھڑی کی مدد سے راستہ تلاش کرتا جا رہا تھا کہ اس کی چھڑی جھاڑیوں میں رکھے ایک آہنی شکنجے میں جاپھنسی۔ ایک زوردار کھٹکے سے آہنی شکنجہ بند ہوا اور چھڑی یوں کٹ گئی اور جوناتھن اس کی زد میں آنے سے بال بال بچ گیا۔
اس وقت وہ زمین پر بیٹھ کر شکنجے کو ٹٹول رہا تھا۔ جب کچھ لوگ دوڑتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ اسے دیکھتے ہی انھوں نے سمجھا کہ وہ جھاڑیوں میں شکنجہ نصب کر رہا تھا۔ ان کی یہ غلط فہمی کسی طور بھی دُور نہ ہوسکی۔ چونکہ اندھا ہونے کے باوجود جوناتھن کی گزربسر اچھی طرح ہورہی تھی اس لیے بستی والوں کو یہ شبہ بھی ہوا کہ شاید وہ شکنجے کے ذریعے جانوروں کا شکار کر کے خوب کمائی کرلیتا ہے۔
اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس شکنجے کے قریب ہی بیٹھا پایا گیا تھا۔ لیکن کسی نے اس کی بے گناہی تسلیم کی اور نہ ہی اس کے بیان پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی۔ اس پر کسی نے اعتبار ہی نہ کیا تھا۔ جس شخص نے قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہوئے وہ شکنجہ نصب کیا تھا وہ بھی سامنے نہ آیا۔ اسے بھلا کیا پڑی تھی کہ خواہ مخواہ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے موت کو دعوت دیتا؟
اس کے نابینا ہونے کی وجہ سے بستی والوں نے اسے سزائے موت نہیں دی، لیکن انھوں نے اسے سچے دل سے معاف بھی نہیں کیا۔ پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل کبھی کبھی بہت سخت ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے اس کی جان بخشی تو کردی لیکن اس کا مکمل معاشرتی مقاطعہ کردیا۔ نیز اسے عز ت و وقار سے بھی محروم کردیا اور اس سے بہتر مستقبل کی آس چھین لی۔ ایک خوددار اور باحمیت انسان کے لیے یہ طریقہ انتہائی ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ جوناتھن کو اپنے نابینا ہونے کا اتنا دکھ نہیں تھا، لیکن بستی والوں کے اس رویے سے اس پر دکھوں کا پہاڑ ہی ٹوٹ پڑا تھا۔ اس نے زندگی بھر انہیں اپنا سمجھا، ان پر بھروسا کیا، لیکن انھوں نے اسے بھروسے کے قابل نہ سمجھا۔
صرف بوڑھی مس لوریل نے جوناتھن کے اندر کی اس ناگفتنی تبدیلی کو محسوس کیا تھا۔ مس لوریل بہت ہی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ وہ بالعموم اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھی رنگ برنگے دھاگوں سے فیتے بناتی رہتی۔ یہ فیتے اور کچھ بھیڑیں ان کی گزربسر کا ذریعہ تھیں۔ نابینا ہونے سے پہلے بھی جوناتھن ان کی بھیڑیں چرایا کرتا تھا۔ اس کے اندھا ہونے کے بعد بھی مس لوریل نے یہ ذمہ داری اس کے سپرد کیے رکھی تھی حتیٰ کہ جب بستی والوں نے اس کا مقاطعہ کرلیا تب بھی مس لوریل نے جوناتھن کو یہ ذمہ داری سونپے رکھی۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ وہ جوناتھن کو بے گناہ سمجھتی تھی۔ طویل العمری نے اُسے بے شمار تجربات سے گزارا تھا اور بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ وہ پہاڑوں کو بھی سمجھتی تھی اور پہاڑوں میں بودوباش رکھنے والوں کو بھی۔ اُس کی سماعت اور بصارت کمزور تھی۔ مگر اُسے زندگی کے فلسفے کے ہرپہلو سے آگاہی تھی۔ وہ بستی کو اور بستی میں رہنے والوں کو ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھتی تھی۔ اُسے معلوم تھا کہ ‘کوہِ امید’ پر رہنے والے جوناتھن کا دل اُمید سے خالی ہوچکا تھا۔
جوناتھن کی سزائے موت کی خبر پانے پر اُس نے کہا تھا : ‘‘میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسا کیوں ہوگیا ہے۔ لیکن میں اس پر اعتقاد رکھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس معاملے میں بھی اللہ کی مصلحت ضرور موجود ہوگی، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ہماری نظر کب اس پہلو تک پہنچے گی’’۔
شاید قدرت کو ان کے اس نظریے کا امتحان مقصود تھا کہ عین کرسمس کی شام ان کی بھیڑیں چوری ہوگئیں۔ بھیڑوں کی حفاظت کی ذمہ داری جوناتھن کی تھی۔ جوناتھن نے ان کے لیے ایک چراگاہ بنائی تھی جس کے چاروں طرف اس نے تاروں کی باڑ لگائی تھی۔ جوناتھن انہیں وہاں محفوظ چھوڑ کر اپنے دوسرے کام اور گھریلو ذمہ داریاں بھی نمٹا لیتا تھا۔ اگر اس کے پاس وقت ہوتا تو وہ ان کے پاس ہی موجود رہتا ورنہ اندھیرا پھیلتے ہی چراگاہ پہنچتا اور دروازے کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بھیڑوں کو پکارتا جو اس کی آواز سنتے ہی دوڑی دوڑی اس کے پاس آجاتیں۔ وہ بازو پھیلائے ایک ایک بھیڑ کو سینے سے لگاتا اور پیار کرتا اور یہ اس کا بھیڑیں گننے کا طریقہ تھا۔ مطمئن ہونے کے بعد وہ انہیں لوریل کے باڑے میں لے آتا۔ مس لوریل کا مکان وہاں سے زیادہ دُور نہیں تھا۔ کئی مہینوں سے یہ معمول کامیابی سے روبہ عمل تھا۔ لیکن آج شام اندھیرا ہوتے ہی جب جوناتھن چراگاہ کے دروازے پر پہنچا، تو اس کی پکار کے جواب میں کسی بھیڑ کے ممیانے کی آواز سنائی نہ دی۔ فضا میں گھنٹیوں کی مترنم آواز بھی سنائی نہ دے رہی تھی۔ جوناتھن انہیں پکارتا ہوا چراگاہ میں داخل ہوا تو اس کا پاؤں ایک گھنٹی پر آگیا۔ اس نے زمین پر بیٹھ کر اِدھر اُدھر ہاتھ مارے تو اسے معلوم ہوا کہ بھیڑوں کی تمام گھنٹیاں اور پٹے زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ اس نے وہ تمام گھنٹیاں اور پٹھے اکٹھے کیے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔
جوناتھن کا گھر قریب ہی تھا۔ اس کی بیوی اتفاقاً وہاں آنکلی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر زمین پر بیٹھا گھنٹیاں اور پٹے اکٹھے کر رہا تھا۔ اس کی بے نور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ گمشدہ بھیڑوں کو پکار رہا تھا۔ وہ دیوانہ وار بستی کی طرف بھاگی اور ہر دروازے پر پہنچ کر دہائی دینے لگی کہ مس لوریل کی بھیڑیں کوئی چرا لے گیا ہے، ان کی حفاظت اس کے شوہر کی ذمہ داری تھی اور یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی مصروفیت بھی تھی۔ اس واقعے کے بعد اس کی جو تھوڑی بہت خود اعتمادی باقی رہ گئی تھی وہ بھی ختم ہوجائے گی اور وہ گھٹ گھٹ کر مرجائے گا۔
بستی کے لوگ اس وقت اپنے بچوں کو گرجا گھر لے جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے جہاں انہیں کرسمس کی کہانی سنائی جاتی تھی۔ کسی کو بھی بھیڑوں کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا، تاہم انہوں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر ان کا کوئی سراغ ملا تو اسے اطلاع کردیں گے۔
بالآخر تاریکی کی چادر ہر چیز پر تن گئی۔ جوناتھن بھیڑوں کی تلاش میں اِدھر اُدھرپھر کر تھکا ہارا گھر لوٹ آیا۔ اس کے چوبی مکان کے گرد خاصا وسیع احاطہ تھا، وہ اس کے چھپر میں داخل ہوا تو کسی چیز سے ٹکرا گیا۔ اس نے اسے ٹٹولا۔ اس کی انگلیوں نے اُون کا مانوس لمس محسوس کیا۔ اس نے بے تابانہ اس چیز کو اچھی طرح ٹٹولا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ مصنوعی بھیڑ تھی جسے بھیڑ کی کھال میں بھس بھر کر تیار کیا گیا تھا۔ اس کی ٹانگیں لکڑی کی بنائی گئی تھیں اور آنکھوں کی جگہ دو گول گول چکنے پتھر لگائے گئے تھے۔ وہ ان آنکھوں کو ٹٹول ہی رہا تھا کہ اسے قریب ہی کسی بچے کی آواز سنائی دی۔ ‘‘یہ آنکھیں سیاہ ہیں۔ میں نے کئی مہینوں کی محنت سے یہ بھیڑ تیار کی ہے۔ کاش آپ دیکھ سکتے۔ یہ بالکل اصلی اور زندہ بھیڑ نظر آتی ہے’’۔ جوناتھن نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر بچے کو پکڑ لیا۔ بچے نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ گیارہ بارہ سال کا ایک خستہ حال لڑکا تھا۔ اس نے کوٹ میں بٹنوں کی جگہ ڈوریاں باندھ رکھی تھیں۔ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے تھے۔‘‘اے لڑکے تم کون ہو اور ویران راستے پر چل کر یہاں کیا کرنے آئے ہو؟’’ جوناتھن نے لرزاں لہجے میں پوچھا۔
‘‘میرا نام ایبن ہے۔ میں اس لیے یہاں آیا ہوں کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ کی تمام بھیڑیں کھو گئی ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اگر کسی چرواہے کی تمام بھیڑیں کھو جائیں تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے’’۔ لڑکا متانت سے بولا۔ایبن پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا۔ اس کے پانچ بہن بھائی تھے جو اس وقت اپنے والدین کے ساتھ کرسمس کی کہانی سننے گرجا گئے ہوئے تھے۔ گرجے روانہ ہوتے ہوئے انھوں نے راستے میں جوناتھن کی بیوی کو دیوانہ وار لوگوں کے دروازوں پر بھیڑیں گم ہونے کی خبردیتے دیکھا تھا۔ اس وقت ایبن نے فیصلہ کیا کہ وہ کہانی سننے کے بجائے اپنی بھیڑ لے کر جوناتھن کے پاس جائے گا اور اسے تحفتاً دے گا۔
‘‘ہم بہت غریب لوگ ہیں مسٹر جوناتھن’’۔ ایبن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ‘‘میرے والدین مجھے زندہ بھیڑ خرید کر نہیں دے سکتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ہمیں بھیڑ کی کھال تحفے میں دی۔ میں نے اس کھال میں بھُس بھرا اور باقی تمام چیزیں جمع کرکے یہ بھیڑ تیار کی ۔ میں اسے ہر روز گھروں کے سامنے کھڑا کرتا ہوں اور اس کی حفاظت کرتا ہوں۔ میں نے اس کے گلے میں گھنٹی بھی باندھی ہے جسے ہلاکر میں اس کی آواز سنتا ہوں۔ یہ آواز مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بڑا ہوکر چرواہا بنوں۔ اس وقت میرے پاس اس بھیڑ کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں یہ بھیڑ اس لیے آپ کے پاس لایا ہوں کہ شاید آپ کا دکھ کچھ کم ہو جائے۔ ایک چرواہے کا سب سے بڑا اثاثہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ جانوروں کا مالک ہے اور ان کا نگران۔ اگر اس کے پاس کچھ بھی نہ رہے تو اس کا دل بھی خالی ہوجاتا ہے’’۔
جوناتھن نے محسوس کیا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر بھی اس لڑکے کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ اس کا اپنا بچپن تھا۔
ایبن بھیڑ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا: ‘‘میں نے سنا ہے کہ کرسمس کی رات معجزے رونما ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا ہوسکتا ہے کہ کرسمس کی رات کوئی فرشتہ یہاں سے گزرتے ہوئے میری دعا سن لے اور اس بھیڑ کو زندہ کردے۔ آپ کا کیا خیال ہے، کیا فرشتے ایسا کرسکتے ہیں؟’’‘‘کیوں نہیں کرسکتے’’۔ جوناتھن نے بمشکل کہا۔ایبن بھیڑ کو چومتے ہوئے بولا: ‘‘پھر تو اور بھی اچھا ہے۔ میں یہ بھیڑ آپ کے پاس اسی لیے چھوڑے جا رہا ہوں کہ شاید ادھر سے گزرنے والا کوئی فرشتہ اس میں جان ڈال دے اور آپ اپنے آپ کو بالکل تہی دست محسوس نہ کریں۔ مجھے تو خدا نے آنکھیں دے رکھی ہیں۔ میں اگلے کرسمس تک دوسری بھیڑ تیار کرلوں گا’’۔ اس کے قدموں کی آواز دُور ہونے لگی۔ لڑکا وہاں سے رخصت ہو رہا تھا۔
‘‘نہیں نہیں! تم مجھے یہ بھیڑ مت دو، تمہارا شکریہ! اسے لے جاؤ’’۔ جوناتھن چلایا لیکن جواباً خاموشی ہی رہی، لڑکا وہاں سے جا چکا تھا۔
جوناتھن مصنوعی بھیڑ کو لے کر مس لوریل کے پاس جاپہنچا اور اُس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا: ‘‘آپ نے مجھ پر جو بھروسا اور اعتماد کیا تھا اس کے بدلے میرے پاس آپ کو دینے کے لیے یہی رہ گئی ہے’’۔
مس لوریل اپنے مخصوص نرم اور بُردبار لہجے میں بولیں: ‘‘بات صرف بھیڑوں ہی کی نہیں ہے، جوناتھن۔ میں نے تمہیں صرف بھیڑیں ہی نہیں دے رکھی تھیں بلکہ تمہیں زندگی گزارنے کا ایک بہانہ، ایک ذریعہ بھی دے رکھا تھا۔ صرف چرواہا ہونے کے لیے بھیڑوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ یوں سمجھو کہ ہر وہ شخص چرواہا نہیں ہوتا جس کے پاس بھیڑیں ہوں’’۔‘‘آپ مجھے جو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں میں سمجھ نہیں پا رہا’’۔ جوناتھن بے بسی سے بولا۔
‘‘یہ دنیا بڑے بڑے کانوں سے بھری پڑی ہے’’۔ مس لوریل عجیب سے لہجے میں بولیں۔ ‘‘کان جو لوگوں کی چیخ و پکار، الزام تراشیاں اور بہتان طرازیاں تو سنتے ہیں لیکن خاموشی کی زبان میں کی جانے والی باتیں یا فطرت کی آوازیں نہیں سنتے۔ تمہارے کان بھی انہی میں شامل ہیں۔ تمہارے کان ایک مدت سے یہی سن رہے ہیں کہ تم سزایافتہ ہو…… تمہیں سب نے دھتکار دیا ہے اور تم انسانوں میں رہنے کے قابل نہیں ہو۔ تمہارے کان یہی کچھ سننے کے قابل رہ گئے تھے۔ تمہارا ناقص ذہن صرف انہی الفاظ پر یقین رکھتا تھا۔ تم یہ حقیقت فراموش کرچکے تھے کہ صرف کسی کے کہہ دینے سے ہی کوئی انسان راندۂ درگاہ نہیں بن جاتا۔ ضروری نہیں ہوتا کہ اگر کوئی انسان دوسروں کی نظروں میں بے قصور قرار پائے تو وہ واقعی بے قصور ہو۔ ضروری نہیں کہ انسان کسی کا دوست اسی وقت ہوسکتا ہے جب دوسرے بھی اس کے دوست ہوں’’۔
جوناتھن پر خفیف سی کپکپاہٹ طاری تھی۔ مس لوریل کی باتیں کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ وہ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بولیں: ‘‘بھیڑیں چوری ہوگئی ہیں یا کھو گئی ہیں، یہ بات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ تم نے خود کو کھو دیا ہے۔ تم بھیڑوں کو نہیں، اپنے آپ کو تلاش کرنے کی کوشش کرو’’۔
جوناتھن گویا دل کی آنکھوں سے مس لوریل کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے جب دروازہ کھولا تو اسے اندازہ ہوا کہ باہر برف باری ہورہی تھی۔‘‘اس مرتبہ تو وقت سے کچھ پہلے ہی موسم کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے’’۔ اس نے کہا۔ ‘‘ہاں…… سردی کی شدت کی وجہ سے میں نے چہل قدمی مختصر کردی ہے۔ آج میں صرف غار تک ہی ٹہلنے گئی تھی’’۔مس لوریل نے کہا۔ ‘‘غار تک……’’ جوناتھن نے بے ساختہ دہرایا۔ غار تک تو کوئی بھی نہ جاتا تھا۔ لیکن اس نے مزید کچھ نہ کہا اور دروازے سے باہر نکل آیا۔ وہ تھوڑی ہی دُور گیا تھا کہ اسے ایبن کی آواز سنائی دی۔ ‘‘مسٹر جوناتھن! بھیڑ کہاں ہے؟ میں تو انتظار کر رہا تھا کہ شاید وہ زندہ ہوچکی ہوگی’’۔‘‘میں نے اسے حفاظت کے خیال سے بوری میں ڈال رکھا ہے’’۔ جوناتھن بولا۔‘‘اچھا ہوا تم مل گئے ۔ میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا کہ تمہارے خیال میں چرواہا کسے کہتے ہیں؟’’ جوناتھن نے پوچھا۔‘‘گلہ بان کو’’۔ ایبن پُرسوچ لہجے میں بولا۔ ‘‘ایک ایسا شخص جس کے سپرد کسی کی حفاظت ہو، جو جان و مال کی نگہداشت کرتا ہو’’۔‘‘بہت خوب…… بہت عمدہ’’۔ جوناتھن پُرجوش لہجے میں بولا اور لڑکے کا ہاتھ تھام لیا ۔ اس کا ہاتھ برف کی طرح یخ بستہ تھا۔‘‘کیا آپ بھیڑوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں’’ ۔ ایبن نے استفسار کیا۔‘‘ہاں میں انہی کی تلاش میں ہوں’’۔ جوناتھن نے کہا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے پہاڑ کی ڈھلوان اُترنے لگے۔ وہ ‘کوہِ اُمید’ کے دامن میں جا رہے تھے۔ برف برابر گرتی رہی اور وہ پوری وادی میں چکر کاٹتے رہے۔ تاریکی اور خاموشی میں ڈوبے ہوئے مکانوں کے آگے سے گزرتے رہے۔ ایک جگہ جوناتھن کو فضا میں دھوئیں کی بو محسوس ہوئی۔‘‘ایبن کیا کہیں آگ جل رہی ہے؟’’ اس نے دریافت کیا۔‘‘ہاں، ایک مکان کی چمنی سے دھواں نکل رہا ہے۔ کیا آپ کی بھیڑیں اس مکان میں ہوں گی؟’’ ایبن نے استفسار کیا۔‘‘نہیں’’۔ جوناتھن نے جواب دیا۔ لیکن ایسی سرد اور سنسان راتوں میں ہمیں اپنی گمشدہ چیزوں کے علاوہ دوسری چیزوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے’’۔ اتنا کہہ کر اس نے آگے بڑھ کر مکان کے دروازے پر دستک دی اور بآواز بلند دریافت کیا۔ ‘‘کیا بات ہے، یہاں اتنی رات گئے آگ کیوں جل رہی ہے؟’’‘‘میں بیمار ہوں اس لیے جاگ رہی ہوں’’۔ جواباً ایک عورت کی کراہتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ‘‘میں گھر میں اکیلی ہوں۔ یہاں کوئی نہیں جو کسی کو میری مدد کے لیے بلا لائے’’۔‘‘ایبن! جاؤ ذرا دوڑ کر اس مکان پر جاؤ جس کے سامنے سے ہم ابھی گزر کر آئے ہیں۔ وہاں سے تم کسی عورت کو بلا لاؤ’’۔ جوناتھن نے ایبن سے کہا۔ایبن فوراً ہی چلا گیا اور جلد ہی کئی عورتوں کو ساتھ لیے وہاں آن پہنچا۔ عورتیں فوراً اندر جاکر بیمار عورت کی دیکھ بھال کرنے لگیں، جوناتھن ایبن کو ہمراہ لیے آگے ہولیا۔
‘‘آج کرسمس کی رات ہے’’۔ وہ چلتے چلتے ایبن سے بولا۔ ‘‘یعنی زخموں پر پھاہا رکھنے کی رات’’۔رات ڈھل رہی تھی۔ ہر چیز برف کی دبیز چادر سے ڈھک چکی تھی۔ وہ دونوں آگے بڑھتے رہے۔ ایک جگہ جوناتھن نے لالٹین کے دھوئیں کی بو محسوس کی۔‘‘ایک باڑے میں روشنی دکھائی دے رہی ہے’’۔ ایبن نے اُسے بتایا۔ باڑے میں ایک کسان اور اس کے بیوی بچے ایک گائے کے گرد بیٹھے تھے۔ گائے زمین پر ڈھیر تھی اور کھڑی نہیں ہو پارہی تھی۔ حالانکہ اُنہوں نے اسے آگ کی گرمائش پہنچا پہنچا کر تقریباً جھلسا ہی دیا تھا۔ پہاڑی کسانوں کا عقیدہ تھا کہ مویشی خواہ کتنے ہی برے حال میں ہوں اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہوجائیں تو بچ جاتے ہیں، لیکن اگر وہ لیٹ جائیں تو مرجاتے ہیں۔‘‘ایبن! ایسے موقع پر چرواہا کیا کرتا ہے؟’’ جوناتھن نے ایبن سے دریافت کیا۔‘‘چرواہا پیار اور شفقت سے کام لیتا ہے۔ اس کے محبت بھرے لمس میں شفا ہوتی ہے’’۔ لڑکے نے اپنی عمر سے بڑھ کر جواب دیا اور بیٹھ کر گائے کا سر محبت سے سہلانے لگا۔ ان دونوں نے مل کر گائے کے جسم کو سرتاپا پیار سے سہلایا۔ گھنٹے بعد وہ گائے لرزتی کانپتی اپنی ٹانگوں پر اُٹھ کھڑی ہوئی۔
‘‘یہ بھی کرسمس کی رات کا ایک معجزہ ہے’’۔ جوناتھن نے کہا اور وہ آگے روانہ ہوگئے۔
ایک جگہ انھوں نے پہاڑ پر جمی برف پر ننھے ننھے پیروں کی سرسراہٹ سنی۔ یہ بے شمار چوہے تھے جو ایک شکستہ سی کان سے نکل کر بھاگے چلے جا رہے تھے۔ پہاڑ کے پہلو میں کوئلے کی ایک چھوٹی سی کان تھی جس میں صرف ایک ہی آدمی کام کرتا تھا۔ کان کی چھت کو لکڑی کا ایک ستون سہارا دیے ہوئے تھا۔ ستون اپنی جگہ سے ہل چکا تھا اور اس شخص نے اپنی تمام تر قوتیں بروئے کار لاتے ہوئے ستون کو پھسلنے سے روک رکھا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ ستون چھوڑ دیتا اور باہر دوڑ پڑتا تو دہانے تک پہنچنے سے پہلے ہی چھت اور پہاڑ کا ایک بہت بڑا حصہ اس پر آن گرتا اور وہ دب کر مرجاتا۔ دوسری طرف دباؤ بھی اس شخص کے لیے لمحہ بہ لمحہ ناقابلِ برداشت ہو رہا تھا۔ چوہوں کی جبلی صلاحیت متوقع حادثوں کی آمد فوراً محسوس کرلیتی اور وہ بروقت ایسی جگہوں سے نکل بھاگتے ہیں۔ پہاڑوں کے باسی چوہوں کے کسی جگہ سے اجتماعی فرار سے سمجھ جاتے تھے کہ وہاں کوئی حادثہ رونما ہونے والا ہے۔ کان کے سامنے مضطرب و متوحش لوگوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ چند عورتیں تو باقاعدہ رو رہی تھیں، لیکن کوئی بھی کان کے اندر جاکر مصیبت میں مبتلا شخص کی مدد کرنے کی ہمت نہ کرپا رہا تھا۔ ایبن نے یہ سب جوناتھن کو بتا دیا تھا اور جوناتھن بھی گویا دل کی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کان میں پھنسا ہوا شخض اب تک صرف اُمید کے سہارے پہاڑ کو گرنے سے روکے ہوئے تھا، لیکن اس کی قوتِ برداشت کسی بھی لمحے جواب دے سکتی تھی۔جوناتھن نے وہاں موجود آدمیوں سے کہہ کر لکڑی کا ایک شہتیر منگوایا اور اسے کسی نہ کسی طرح اُٹھا کر کان کے اندر لے گیا۔ کان کے اندر پھنسے آدمی نے گھٹی گھٹی آواز میں اس کی رہنمائی کی کہ اسے شہتیرکہاں پھنسانا چاہیے۔ شہتیر کو پھسلتے ہوئے شہتیر کی جڑ میں پھنسا کر اس نے دوسرے شہتیر کے سرے پر کدال سے کھانچا بنایا۔ وہ زیادہ زور سے کدال بھی نہیں چلا سکتا تھا کیونکہ اس طرح کان کی گرتی ہوئی چھت ایک دم ہی گر سکتی تھی۔ نہایت احتیاط سے کھانچا بناتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ اس طریقے سے انھیں ایک لمحہ سے زائد کی مہلت مل سکتی تھی۔ یہ کھانچا بنتے ہی پھنسے ہوئے آدمی نے ایک دم شہتیر چھوڑ دیا۔ ہرچند کہ اس کے اعضا سن ہوچکے تھے، وہ جوناتھن کا ہاتھ تھامے گرتا پڑتا تیزی سے کان سے باہر نکل آیا۔ دوسرے ہی لمحے ایک زبردست گڑگڑاہٹ کے ساتھ کان کی چھت زمین بوس ہوگئی۔
جوناتھن ایبن کا ہاتھ تھامے مسرور فخر سے سراُٹھائے آگے روانہ ہوگیا۔ چلتے چلتے بالآخر وہ ایک غار کے قریب جاپہنچے۔ ایبن نے بتایا کہ بہت دُور ایک جگہ اب بھی روشنی نظرآرہی تھی۔‘‘میں یہاں رک جاتا ہوں تم جاکر دیکھ آؤ کہ وہاں ابھی تک کیوں روشنی نظر آرہی ہے’’۔ جوناتھن بولا۔ایبن جا چکا تھا تو جوناتھن بوری اُٹھائے غار میں گھس گیا۔ اسے ہوا سونگھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی بھیڑیں وہاں موجود تھیں اور سو رہی تھیں۔ اسے پہلے ہی سے امید تھی کہ اس کی بھیڑ ضرور وہاں ہوں گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مس لوریل ہی بھیڑوں کو وہاں چھوڑ گئی تھیں۔ اس طرح وہ اسے یہ احساس دلانا چاہتی تھیں کہ بھیڑیں زیادہ اہم نہیں تھیں بلکہ سب سے زیادہ اہم اس کی اپنی گم گشتہ ذات اور اس کا کھویا ہوا اعتماد تھا۔ مس لوریل چاہتی تھیں کہ وہ ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کے ساتھ بہت سی دوسری کھوئی ہوئی چیزوں کو بھی تلاش کرے۔ انھوں نے اس کے ساتھ بھلائی ہی کی تھی۔
وہ سوئی ہوئی بھیڑوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ بدستور سوتی رہیں۔ وہ اس کے ہاتھوں کے لمس سے بخوبی آشنا تھیں۔ اس نے ایک ماں کی طرح نہایت احتیاط اور محبت سے ایک چھوٹی سی سوئی ہوئی بھیڑ کو اٹھایا اور بے جان بھیڑ کی جگہ بوری میں ڈال دیا۔ بے جان بھیڑ کو اس نے سوئی ہوئی بھیڑوں کے درمیان رکھ دیا۔ چھوٹی بھیڑ بوری میں سوتی رہی۔ جوناتھن بوری کمر پر لادے غار سے باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد ایبن واپس آگیا۔
‘‘مسٹر جوناتھن! وہ روشنی بوڑھے مورس کے مکان سے آرہی ہے، وہ بہت بیمار ہے، چل پھر نہیں سکتا۔ وہ اپنے گھر میں تنہا بستر پر پڑا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار کرسمس کی کہانی سن لے۔ اسے کوئی بھی اپنے ساتھ گرجا گھر نہیں لے کر گیا کیونکہ وہ بچہ نہیں تھا۔ وہ ابھی تک یہی حسرت دل میں لیے تڑپ رہا ہے کہ کاش کوئی اس کے سرہانے بیٹھ کر اسے کرسمس کی کہانی سنا دے’’۔‘‘ہم اسے کرسمس کی کہانی سنائیں گے’’۔ جوناتھن نے تیزی سے کہا اور ایبن کا ہاتھ تھام کر بوڑھے مورس کے گھر روانہ ہوگیا۔لالٹین کی روشنی میں بستر مرگ پر پڑے مورس کا ہاتھ تھام کر جوناتھن نے اسے نہایت صبروسکون سے دھیمے اور ملائم لہجے میں کرسمس کی کہانی سنائی جسے سن کر مورس کو قرار آگیا اور وہ سکون سے سو گیا۔ اس کے بعد وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رات کی تاریکی اور سناٹے میں اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ درختوں کے درمیان ہوا سرسرا رہی تھی۔
‘‘ہر طرف بکھری سفید بے داغ برف چاندنی میں کتنی پاکیزہ اور حسین لگ رہی ہے’’۔ ایبن چلتے چلتے بولا: ‘‘اور ہوا کی یہ سرسراہٹ، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا فرشتے اُدھر سے گزر رہے ہوں’’۔‘‘ہوسکتا ہے’’۔ جوناتھن بولا۔ پھر ثانیے بھر توقف کے بعد بولا: ‘‘ایبن، اللہ چرواہوں سے ضرور محبت رکھتا ہوگا، کیونکہ اس کے کئی محبوب پیغمبروں نے بھی مویشی چرائے ہیں’’۔‘‘ہاں…… فرشتے یقینا اس جگہ سے گزرے ہیں مگر انھوں نے میری بھیڑ میں جان ڈالنا پسند نہیں کیا’’۔ایبن کچھ مایوسی سے بولا۔ پھر اس نے جوناتھن کی کمر پر لدی بوری پر ایک گھونسا رسید کیا۔ بوری میں حرکت سی ہوئی اور جوناتھن نے رُک کر بوری برف پر رکھ دی۔ دوسرے ہی لمحے وہ چھوٹی سی بھیڑ اس میں سے باہر نکل آئی۔ ایبن وفورِ مسرت سے چلّا اُٹھا۔ اس نے بھیڑ کو بازوؤں میں لے لیا۔ بھیڑ نے اس کے سینے سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں جیسے وہ ہمیشہ سے اس سے مانوس رہی ہو۔
ایبن کو اس کے گھر چھوڑ کر جب جوناتھن اکیلا اپنے گھر پہنچا تو اس وقت صبح طلوع ہوچکی تھی۔ ساتھ ہی اس کے دل کی تاریکیاں بھی رخصت ہوچکی تھیں۔ کیونکہ بستی کے بہت سے لوگ اس کے دروازے پر جمع تھے۔ وہ جوناتھن کے رات کے تمام کارناموں سے آگاہ ہوچکے تھے۔ ایک اندھے شخص نے کس طرح لوگوں کے گھروں میں اُمید کی روشنی پھیلائی تھی۔
ایک معمرشخص آگے بڑھ کر اس سے بولا: ‘‘جوناتھن! کیا تم ہمیں معاف کرسکتے ہو؟ ہم معافی کے قابل نہیں۔ لیکن تمہاری عالی ظرفی اور وسیع القلبی سے ہمیں امید ہے کہ تم ضرور ہمیں معاف کردو گے۔ تم ہرگز وہ نہیں ہو جو ہم سمجھتے رہے ہیں اور نہ ہی تم اندھے ہو، اندھے تو دراصل ہم سب تھے’’۔
یوں جوناتھن کو کرسمس کی رات ایک نئی زندگی کا تحفہ ملا۔