اسے تیرنا نہیں آتا تھا مگر وہ پھر بھی طواف کے سمندر میں اتر گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ اتنا مہربان سمندر ہے کہ یہ خود ہی تیرنا بھی سکھا دیتا ہے۔یہ کسی کو دھتکارتانہیں۔ یہ ہر پہنچنے والے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ یوں تو ہر سمند ر کا ظرف بڑا ہوتاہے مگر اس سمندر کے ظرف کا کیا کہنا۔ یہ ہر کالے گورے ، لمبے چھوٹے ، ادنی اعلی ، حاکم محکوم ، عورت مرد ، بچے بوڑھے سب کو اپنے دامن میں بڑی محبت سے سمیٹ لیتاہے البتہ اس کی لہریں سب کوآگے پیچھے ، اوپرنیچے کرتی رہتی ہیں۔ کبھی اندر کی طرف دھکیلتی ہیں تو کبھی باہر کی طرف مگر کسی کو نکال باہر نہیں کرتیں۔ اب یہ تیراک کی ہمت ہے کہ وہ کیا کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے قلب سے چمٹارہے تو یہ اس کی کوشش کو آسان کر دیتا ہے اور اسے اپنے قریب جگہ دے دیتا ہے اور اگر کوئی کوشش نہ کرے تو بھی کنار ے کنارے تو چلتا ہی رہتا ہے ۔
وہ بھی حسب استطاعت ہاتھ پاؤں مارتا رہا مگر اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ اس سمندر کے شایان شان تیرنے سے قاصر ہے ۔اسے خیا ل آیا کہ کہیں اس سمندر کی لہر اسے اچھال باہر نہ کرے ۔ اس خیال کا آنا تھا کہ ایک لہر آئی او راس نے دیکھا کہ وہ تو عین بیچ سمندر پہنچ گیا۔ اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہاں موجود بہت سے موتیوں کی طرح، وہ بھی اس سمندر کا ایک موتی اور گہر ہے ۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں ایک اور لہر نے اسے پھر کنارے کر دیا۔اس وقت اسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں وہ جھاگ کی طرح باہرنہ اچھا ل دیا جائے۔اسی کشمکش میں اس نے اپنا تیرنا مکمل کیا اور باہر نکل آیا۔ لیکن تب سے لے کر اب تک وہ سوچ رہا ہے کہ آیا وہ اس سمندر کا موتی اور گہر تھا یا کہ جھاگ۔ وہ اپنی معصیت اور نافرمانی کی طرف دیکھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ تو بس جھاگ ہے ، محض جھاگ ،،اور جھاگ کا کیا ہے اسے تو کسی وقت بھی باہر اچھالا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس بحر کے مالک کے کرم اور رحمت کی طرف دیکھتا ہے تو امید لگا بیٹھتا ہے کہ شاید وہ بھی اس بحر کا ایک گوہر اور موتی ہے۔امید اور خوف کی اس کیفیت میں جب وہ ڈوبنے لگتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ مالک اپنے اُس بندے پر رحم فرما کہ جس کے پاس دعاؤں کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں اور مالک اپنے اس بندے کو ایسا نہ کرنا کہ یہ تجھ سے مانگ کر بھی محروم رہے ۔ مالک جو تجھ سے مانگ کر بھی محروم رہا، وہ توپھر ازلی محروم ہے ازلی ۔ اللھم لا تجعلنا منھم۔