شیخ محمد بن صالح المنجد(مکہ )
مترجم: شمس الحق بن اشفاق اللہ
رمضان المبارک کے کام
۱- اپنے آپ اور اپنے ماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا، توبہ و استغفار کی طرف جلدی کرنا، رمضان کے آنے پر خوشی منانا اور پورے ادب کے ساتھ روزے رکھنا، تراویح میں دل جمعی اور خشوع کا خیال رکھنا، سُستی سے باز رہنا، خصوصاً آخری دس دن میں شبِ قدر کی تلاش میں لگے رہنا، تدبر و تفکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اسے ایک سے زائد بار مکمل کرنے کی کوشش کرنا رمضان المبارک کے اہم کام ہیں۔ پھر رمضان کا عمرہ بھی حج کے برابر ہے، اس ماہ میں صدقہ کا اجر دوبالا ہوجاتا ہے اور اعتکاف کرنے کی بھی خاص تاکید آئی ہے۔
اس ماہ کی آمد پر مبارکباد دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو رمضان کی آمد کی بشارت دیتے تھے اور اس کے اہتمام پر اُبھارتے تھے، چنانچہ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أتاکم رمضان شہر مبارک ، فرض اللّٰہ عزوجل علیکم صیامہ ، تفتح فیہ أبواب السماء، وتغلق فیہ أبواب الجحیم ، وتغل فیہ مردۃ الشیاطین ، فیہ لیلۃ خیر من ألف شہر من حرم خیرہا فقد حرم۔
‘‘تمہارے پاس رمضان کا مہینا آیا ہے، اس کے روزے اللہ نے تم پر فرض کیے ہے، جن میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور بدمعاش شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس کی خیر سے محروم رہا وہ حقیقی محروم ہے’’۔ (سنن نسائی:۲۱۰۸، صحیح الترغیب: ۱؍۴۱۸)
روزے کے احکام
۲- بعض روزوں میں تسلسل ضروری ہے جیسے رمضان کے روزے، قتلِ خطا کے کفارہ کے روزے، کفارۂ ظہار کے روزے، رمضان کے دن میں جماع کرنے کے کفارہ کے روزے۔ اسی طرح جس نے مسلسل روزے رکھنے کی نذر مانی ہو، اس پر بھی تسلسل سے روزہ رکھنا ضروری ہے۔
جبکہ بعض روزوں میں تسلسل کی شرط نہیں ہے جیسے رمضان کے روزوں کی قضا، حج میں قربانی نہ کرنے والے کے دس روزے، قسم توڑنے والے پر کفارہ کے روزے (جمہور علماء کے نزدیک)، اور (صحیح قول کے مطابق) احرام کی حالت میں کسی ممنوع چیز کے ارتکاب پر فدیہ کے روزے، اس میں بھی تسلسل ضروری نہیں اور مطلقاً نذر کے روزے جس شخص نے تسلسل کی شرط نہ رکھی ہو۔
۳- نفل روزے، فرض روزوں کی کمی کی تلافی کرتے ہیں جیسے عاشورہ، عرفہ، ایامِ بیض، (یعنی ہر قمری ماہ کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ) کے روزے، پیر اور جمعرات کا روزہ اور شوال کے چھ روزے، محرم اور شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا وغیرہ۔
۴- فرض کے علاوہ صرف جمعہ کو یا صرف ہفتہ کو خصوصاً روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے، سارا زمانہ روزہ رکھنا اور صوم و صال یعنی بغیر افطار کے دو یا اس سے زیادہ دنوں تک روزہ رکھنا بھی ممنوع ہے۔
عیدین اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہ، بارہ، تیرہ ذوالحجہ کے دن) روزہ رکھنا حرام ہے، یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔ جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ منیٰ میں ان دنوں میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔
مہینہ کے شروع ہونے کا ثبوت
۵- ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے سے رمضان شروع ہوجاتا ہے یا پھر شعبان کے تیس دن مکمل ہوجانے کے بعد رمضان داخل ہوجاتا ہے۔ جس کسی نے خود چاند دیکھا ہو یا کسی قابلِ اعتماد آدمی سے اس کی خبر ملی ہو تو پھر اس پر روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔
رؤیت کے بغیر صرف حساب کے ذریعہ مہینہ کی شروعات ثابت کرنا بدعت ہے کیونکہ حدیث میں صاف وضاحت ہے: صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ (صحیح بخاری: ۱۹۰۹)
‘‘چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو’’۔
لہٰذا اگر بالغ، عاقل اور امانتدار مسلمان جس کی سچائی اور نگاہ پر بھروسہ ہو اور اس نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہوتو اس کی بات پر عمل کیا جائے گا۔
روزہ کس پر واجب ہے اور کس پر نہیں؟
۶- ہربالغ، عاقل، مقیم اور روزہ کی طاقت رکھنے والے مسلمان پر روزہ واجب ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ جیسے حیض، نفاس وغیرہ۔
۷- بچہ سات سال کی عمر میں روزہ کی طاقت رکھتا ہو تو اسے روزہ کا حکم دیا جائے گا۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ اگر دس سال کی عمر میں روزہ نہ رکھے تو اُسے مارا جائے گا جس طرح نماز ترک کرنے پر مارا جاتا ہے۔
روزہ کا اجر بچے کو اور والدین کو تربیت و تعلیم کا اجر ملے گا۔ ربیع بنت معوذؓ کہتی ہیں:
‘‘جب عاشورہ کے روزے فرض ہوئے تو ہم اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے تھے اور روئی کے کھلونے بناتے۔ جب وہ کھانے کے لیے روتے تو ان کھلونوں سے بہلاتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا’’۔(صحیح بخاری: رقم ۱۹۶۰)
بعض لوگ اپنے بچوں کے روزہ کے سلسلہ میں غفلت برتتے ہیں، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی بچہ جوش و جذبہ کے تحت روزہ رکھتا ہے تو اس کے ماں باپ روزہ توڑنے کا حکم دے دیتے ہیں اور اِسے وہ اپنے گمان کے مطابق بچے پر شفقت سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں خیال کرتے کہ حقیقی شفقت تو روزہ رکھوانے میں ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (التحریم:۶)
‘‘اے ایمان والو! تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں۔ اُنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو کچھ حکم دیا جائے، بجا لاتے ہیں’’۔
بچی کے روزے کے بارے میں اس کی بلوغت کے اوّل مرحلے میں اہتمام ضروری ہے، ممکن ہے کہ ایامِ حیض میں بھی وہ شرم کی وجہ سے روزہ رکھ لے اور پھر اس کی قضا نہ کرے۔
۸- کافر اگر مسلمان ہوجائے یا بچہ بالغ ہوجائے یا مجنون کو افاقہ ہوجائے تو بقیہ دن ان پر کھانے پینے سے بچے رہنا ضروری ہے، اس لیے کہ عذر ختم ہوتے ہی ان پر روزہ واجب ہوگیا۔ رمضان کے جو روزے پہلے گزر چکے ہیں، اس کی قضا ضروری نہیں، کیونکہ اس وقت ان پر روزے واجب نہیں تھے۔
۹- پاگل پر کوئی مؤاخذہ نہیں، اگر کبھی پاگل ہوجاتا ہو اور کبھی ہوش میں آجائے تو صرف ہوش و حواس کی حالت میں اس پر روزہ واجب ہوگا۔ روزہ کی حالت میں دن کے کسی وقت اگر اس پر جنون طاری ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، جس طرح کسی بیماری کی وجہ سے اس پر بے ہوشی چھا جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا، کیونکہ نیت کرتے وقت وہ صاحبِ عقل تھا، لہٰذا اس قسم کے لوگ غشی طاری ہونے والے کے حکم میں ہوں گے۔
۱۰- رمضان کے دوران میں جس کا انتقال ہوجائے ، اس پر یا اس کے وارثین پر بقیہ ماہ کے روزوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
۱۱- جسے رمضان کے روزے فرض ہونے کا علم نہ ہو، یا روزے میں کھانے اور جماع کرنے کی حرمت کا علم نہ ہو تو اکثر علما اسے معذور سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس طرح کے لوگ واقعتاً قابلِ عذر ہوں، مثلاً نومسلم ہو، یا ایسا مسلمان جو دارالحرب میں رہتا ہو، یا کافروں کے درمیان پروان چڑھا ہو۔ لیکن جو مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھا ہو اور مسئلہ معلوم کرنا اس کے لیے ممکن ہو تو ایسی صورت میں وہ معذور نہیں ہے۔
سفر میں روزہ کا رکھنا یا چھوڑنا؟
۱۲- سفر میں روزہ چھوڑنے کے لیے یہ شرط ہے کہ اس پر مسافت کے اعتبار سے سفر کا اطلاق ہو یا عرفِ عام میں سفر کہلائے۔ شہر اور اس کی حدود سے باہر چلا جائے لیکن (جمہور علما کے نزدیک) یہ سفر کسی معصیت کی غرض سے نہ ہو اور روزہ چھوڑنے کے لیے حیلہ نہ ہو۔
۱۳- ساری اُمت کا اتفاق ہے کہ مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے خواہ وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہیں، روزہ رکھنا اس کے لیے آسان ہو یا مشکل، (یعنی اگرچہ سفر آسان ہو اور ساری سہولتیں میسر ہوں) اگر سائے اور پانی میں سفر کر رہا ہو، اس کے ساتھ خادم بھی ہو، پھر بھی اس کے لیے روزہ چھوڑنا اور قصر کرنا جائز ہے۔
۱۴- رمضان میں اگر کوئی شخص سفر کا پختہ ارادہ رکھتا ہو تو سفر شروع کرنے سے پہلے اس کے لیے افطار کرنا جائز نہیں، کیونکہ ممکن ہے اس کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کی وجہ سے وہ سفر نہ کرسکے۔ (تفسیر قرطبی: ۲؍۲۷۸)
مسافر اپنی بستی کی عمارتوں سے باہر نکلنے کے بعد ہی روزہ چھوڑ سکتا ہے، اسی طرح جہاز اُڑ جائے اور شہر سے باہر چلا جائے تو افطار کرسکتا ہے۔ اگر ہوائی اڈہ شہر سے باہر ہو تو وہاں سے روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ اگر ہوائی اڈہ شہر میں یا شہر سے ملحق ہو تو افطار نہ کرے، کیونکہ وہ ابھی شہر ہی میں ہے۔
۱۵- زمین پر سورج غروب ہونے کے بعد اگر افطار کرلیا، پھر جہاز پرواز کرنے کے بعد سورج نظر آئے تو اس پر کسی چیز سے اجتناب کرنا ضروری نہیں۔ کیونکہ اس نے پورے دن کا روزہ مکمل کرلیا، اس لیے کہ کوئی عبادت مکمل کرلینے کے بعد اس کا اِعادہ نہیں ہے۔
اور اگر غروبِ آفتاب سے پہلے جہاز اُڑا اور سفر میں اپنے اس روزے کو مکمل کرنے کی نیت رکھتا ہو تو فضا میں جس جگہ وہ ہے جب تک سورج غروب نہ ہوجائے، افطار نہ کرے اور پائلٹ کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ افطار کی غرض سے جہاز اتنا نیچا کرکے لے جائے جہاں سے سورج نظر نہ آئے کیونکہ یہ حیلہ ہے۔ البتہ اُڑان کی مصلحت کے پیش نظر ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں سورج چھپ جائے تو افطار کرسکتا ہے۔
۱۶- جو شخص کسی شہر میں پہنچ جائے اور وہاں چار دن سے زیادہ رکنے کی نیت رکھے تو جمہور علما کے نزدیک روزہ رکھنا ضروری ہے، اس لیے جو شخص تعلیم وغیرہ کے لیے سفر کرتا ہے جہاں پہنچ کر وہ کئی ماہ یا کئی سال قیام کرے گا تو جمہور علماءؒ اور ائمہ اربعہؒ کے نزدیک وہ مقیم کے حکم میں ہے، وہ مکمل نماز پڑھے گا اور روزہ بھی رکھے گا۔
اگر مسافر اپنے شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر سے گزرے تو اس پر روزہ رکھنا ضروری نہیں مگر یہ کہ وہ وہاں چار دن (صحیح بات یہ ہے کہ مدتِ سفر جس میں قصر و افطار جائز ہے، ۱۹ دن ہے۔ دیکھیے: صحیح بخاری:۱۰۸۰) سے زیادہ رکنے کی نیت رکھتا ہو تو ایسی صورت میں وہ مقیم کے حکم میں ہوگا۔ (فتاویٰ الدعوۃ از شیخ ابن بازؒ: رقم ۹۷۷)
۱۷- اگر کسی نے حالت ِ اقامت میں روزہ شروع کیا پھر دن کے کسی وقت وہ سفر پر نکل گیا تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلق سفر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت کا سبب قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرہ:۱۸۵)
‘‘اور جو بیمار ہو یا مسافر تو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہیے’’۔
۱۸- جس شخص کی عادت ہی سفر ہو (یعنی مسلسل سفر میں رہتا ہو) جیسے ڈاک کا منشی جو مسلمانوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے، یا ٹیکسی ڈرائیور، جہاز کا پائلٹ، اور جہاز میں نوکری کرنے والا تو اُنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، خواہ ان کا سفر دن بھر کا ہی رہتا ہو، ہاں ان پر قضا ضروری ہے اور یہی حکم ملاح کا بھی ہے جس کی خشکی پر کوئی قیام گاہ ہو۔
۱۹- دن میں مسافر اگر اپنے گھر پہنچ جائے تو کیا وہ بقیہ دن روزہ کی طرح گزارے گا یا نہیں؟ اس میں علما کا اختلاف ہے مگر بہتر ہے کہ وہ اس مبارک مہینے کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے کھانے پینے سے رُکا رہے، مگر اس پر قضا ضروری ہے خواہ وہ کھانے پینے سے رُکے یا نہ رُکے۔
۲۰- کسی ملک میں روزہ شروع کرے پھر دوسرے ملک سفر کرجائے، جہاں لوگوں نے اس سے پہلے یا بعد میں روزہ شروع کیا ہو تو اس پر اُنہی لوگوں کا حکم منطبق ہوگا جن کے پاس اس نے سفر کیا ہے۔ انہی لوگوں کے ساتھ روزہ چھوڑے، اگرچہ تیس سے زائد ہی کیوں نہ ہوجائے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ‘‘جس دن تم سب لوگ روزہ رکھو، وہ روزہ کا دن ہے اور جس دن تم روزہ چھوڑ دو، وہی افطار کا دن ہوگا’’۔
اور اگر اس کے روزے اُنتیس سے کم ہوں تو اسے عید کے بعد اُنتیس روزے مکمل کرنے چاہییں، کیونکہ ہجری ماہ اُنتیس دن سے کم نہیں ہوتا۔(فتاویٰ ابن باز، فتاویٰ الصیام، ص ۱۵-۱۶، طبع دارالوطن، ریاض)
مرض کی بنا پر روزہ رکھنا یا چھوڑنا
۲۱-ہر وہ مرض جس کی وجہ سے انسان مریض سمجھا جائے، اس کی وجہ سے وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرہ:۱۸۵)
‘‘اور جو بیمار ہو یا مسافر تو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہیے’’۔
معمولی عوارض جیسے کھانسی یا سردرد کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ اگر طبی طور سے ثابت ہو یا عادت اور تجربہ سے آدمی کو معلوم ہو یا گمان غالب ہو کہ روزہ سے نقصان ہوگا یا مرض میں زیادتی ہوگی یا شفا میں تاخیر ہوگی تو ایسے شخص کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مریض کے لیے روزہ کی نیت کرنا جائز نہیں۔
۲۲- کسی شخص کے لیے روزہ اگر غشی کا سبب بنتا ہو تو اس کے لیے افطار کرنا جائز ہے مگر بعد میں اس پر قضا ضروری ہے۔ دن کے کسی حصہ میں اگر اس پر بے ہوشی طاری ہوجائے، پھر غروبِ آفتاب سے پہلے یا اس کے بعد اسے افاقہ ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا، کیونکہ اس نے روزہ کی حالت میں صبح کی تھی، لیکن اگر فجر سے لے کر مغرب تک بے ہوشی طاری رہے تو جمہور علما کا خیال ہے کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
جہاں تک ایسے شخص کے روزوں کی قضا کا معاملہ ہے تو اکثر علما کے نزدیک واجب ہے، خواہ بے ہوشی کی مدت کتنی طویل ہی کیوں نہ ہو، اور بعض علما کا فتویٰ ہے کہ جس پر بے ہوشی طاری ہوجائے یا عقل کھو جائے، یا کسی مصلحت کے پیش نظر سکون یا خواب آور دوا دی گئی ہو جس سے ہوش و حواس ختم ہوگئے ہوں تو اگر یہ صورت حال تین دن یا اس سے کم رہے تو وہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے روزے کی قضا کرے گا، اور اگر یہ مدت اس سے زیادہ ہو تو پاگل پر قیاس کرتے ہوئے روزوں کی قضا نہیں۔
۲۳- جس شخص کو شدید بھوک یا پیاس لاحق ہوجائے جس سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، یا غالب گمان کے مطابق بعض حواس ضائع ہونے کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ بعد میں اس کی قضا دے دے کیونکہ جان کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ البتہ قابلِ برداشت شدت یا تھکاوٹ یا مرض کے وہم کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اسی طرح مشقت کا کام کرنے والوں کے لیے بھی روزہ چھوڑنا جائز نہیں، بلکہ ان کے لیے رات ہی سے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، روزہ کی حالت میں کام چھوڑنے سے نقصان ہو یا دن کے کسی وقت میں جسمانی نقصان کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ دیں اور بعد میں قضا کریں۔ طالب علم کے لیے امتحانات روزہ چھوڑنے کے لیے عذر نہیں ہیں۔
۲۴- جس مریض کو شفا کی اُمید ہو وہ روزہ چھوڑ دے اور شفا کا انتظار کرے اور بعد میں قضا کرے، کھانا کھلانا کافی نہیں ہے۔ البتہ ایسا مریض جسے شفا کی اُمید نہ ہو، اسی طرح عمررسیدہ شخص جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، یا آدھا صاع اناج دے جو عام طور پر اس شہر کی خوراک ہو (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو اناج) اس فدیہ کو آخر ماہ میں جمع بھی کرسکتا ہے۔ ایک ساتھ تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دے، اسی طرح روزانہ ایک مسکین کو بھی کھلا سکتا ہے۔
وہ مریض جس نے روزہ چھوڑا اور اس کی قضا کے لیے شفا کی اُمید لگائے ہوئے ہے، پھر پتا چلا کہ یہ مرض دائمی ہے تو اس پر واجب ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اور جو مریض شفا کے انتظار میں ہو، پھر انتقال ہوجائے تو اس پر یا اس کے اولیا پر کوئی چیز نہیں۔
۲۵- اگر کوئی ایسا شخص ہو جو مریض تھا، پھر شفایاب ہوگیا اور قضا کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قضا نہیں کیا اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی تو اس کے مال سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، اور اگر کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے روزہ رکھنا چاہے تو جائز ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ۔
‘‘جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر روزے فرض باقی رہ گئے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا’’۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، مجلۃ الدعوۃ، عدد ۸۰۶)
عمر رسیدہ، عاجز اور بہت زیادہ بوڑھا شخص
۲۶- عمر رسیدہ بڑھیا اور بہت زیادہ بوڑھا مرد جس کی قوت ختم ہوچکی ہو اور روز بہ روز مزید کمی واقع ہو رہی ہو، ان پر روزہ رکھنا ضروری نہیں۔ اگر روزہ ان کے لیے مشکل ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔ ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ (البقرہ:۱۸۴)
‘‘اور اُس کی طاقت رکھنے والے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا دیں’’۔
کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ اور جو شخص اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ اس کے حواس بحال نہ رہے ہوں تو اس پر یا اس کے اہلِ خانہ پر کوئی چیز بھی واجب نہیں، کیونکہ وہ اب مکلف نہیں۔ اور اگر کبھی اچھے بُرے کی تمیز ہو اور کبھی ہذیان بکنے لگے تو حالتِ تمیز میں تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ، لیکن حالتِ ہذیان میں نہیں۔ (مجالس شہر رمضان لابن عثیمین، ص ۲۸)
۲۷- دشمن سے لڑائی ہو، یا دشمن کے شہر کا محاصرہ ہو اور روزہ قتال میں کمزوری کا سبب بن رہا ہو تو ایسی صورت میں بغیر سفر کے بھی افطار جائز ہے۔ اسی طرح اگر قتال سے پہلے افطار کی ضرورت محسوس ہو تو روزہ توڑ سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فرمایا: انکم مصبحوا عدوکم والفطر أقوی لکم فافطروا ‘‘تم لوگ صبح کو دشمن سے ملاقات کرنے والے ہو، اور افطار تمہارے لیے باعثِ تقویت ہے، لہٰذا روزہ توڑ دو’’۔ (صحیح مسلم:۱۱۲۰)
۲۸-جس شخص کے روزہ توڑنے کا سبب ظاہر ہو جیسے مریض تو وہ کھلے طور پر اِفطار کرسکتا ہے، اور جس کے روزہ چھوڑنے کا سبب پوشیدہ ہو جیسے حیض تو بہتر ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر ہی روزہ چھوڑے، کھلے طور پر نہ کھائے پئے، تاکہ اس پر کسی قسم کی تہمت نہ آسکے۔
روزہ کی نیت
۲۹- ہر واجب روزہ میں نیت ضروری ہے جیسے قضا یا کفارہ کے روزے۔ حدیث میں ہے: من لم یبیت الصیام من اللیل فلا صیام لہ (سنن نسائی: ۲۳۳۳)
‘‘اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے روزہ کی نیت نہ کی ہو’’۔
رات میں کسی بھی وقت نیت کی جاسکتی ہے خواہ فجر سے ایک منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ نیت کسی کام کے کرنے کے لیے دل کے عزم کا نام ہے، نیت کا زبان سے کہنا بدعت ہے۔
جسے علم ہو کہ کل رمضان ہے اور اس نے روزہ کا ارادہ کرلیا تو یہ اس کی نیت ہوگئی، اور جس نے دن میں روزہ چھوڑنے کی نیت کی اور روزہ نہ چھوڑا، تو راجح قول کے مطابق اس کا روزہ صحیح ہے،جیسے کسی نے نماز میں بات کرنے کا ارادہ کیا اور بات نہیں کی۔ بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ صرف روزہ توڑنے کی نیت کی بنیاد پر ہی وہ مُفطر مانا جائے گا لہٰذا اس روزہ کی قضا کرلے تو بہتر ہے۔ مرتد ہوجانے سے نیت باطل ہوجاتی ہے۔ اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں۔
رمضان میں روزے رکھنے والا روزانہ تجدیدِ نیت کا پابند نہیں، بلکہ مہینہ کے شروع میں نیت کرلے تو کافی ہے۔ سفر یا مرض کی وجہ سے روزہ کو نیت چھوڑ کر افطار کرلے، تو پھر عذر ختم ہوجانے کے بعد تجدیدِ نیت ضروری ہے۔
۳۰- مطلق نفلی روزہ کے لیے رات سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ کی حدیث ہے، فرماتی ہیں: دخل علی رسول اللّٰہ ذات یوم فقال: ‘‘ہل عندکم شیئ؟’’ فقلنا: لا، قال: ‘‘فانی اِذًا صائم’’ (صحیح مسلم: ۱۱۵۴، مسنداحمد: ۶؍۲۰۷)
‘‘ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز تشریف لائے اور فرمایا: کیا کھانے کے لیے کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں تو آپؐ نے فرمایا: پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں’’۔
اگر کوئی خاص نفلی روزہ جیسے عرفہ یا عاشورہ کا روزہ ہو تو رات ہی سے نیت کرلینا بہتر ہے۔
۳۱- جس شخص نے واجب روزہ رکھنا جیسے قضا، نذر یا کفارہ کا روزہ تو اسے چاہیے کہ اسے پورا کرے۔ بغیر عذر کے روزہ توڑنا جائز نہیں البتہ نفلی روزے کے بارے میں حکمِ رسولؐ ہے: الصائم المتطوع أمیر نفسہ اِن شاء صام وان شاء أفطر (مسنداحمد: ۳۴۱/۶)
‘‘نفلی روزہ رکھنے والا خود مختار ہے، چاہے تو پورا کرے یا روزہ توڑ دے’’۔
خواہ یہ عمل بلاعذر ہی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن بغیر عذر روزہ توڑنے والے کو کیا ، اس کے روزہ کی حالت میں گزرے ہوئے اوقات کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ اس سلسلے میں بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ اسے ثواب نہیں ملے گا، البتہ نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے جب تک روزہ چھوڑنے کی کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو روزہ مکمل کرلینا افضل ہے۔
۳۲- اگر کسی شخص کو طلوعِ فجر کے بعد رمضان داخل ہونے کا علم ہوا ہو تو ایسے شخص کو چاہیے کہ بقیہ دن کھانے پینے سے رُکا رہے، اور جمور علما کے نزدیک اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: من لم یبیت الصیام من اللیل فلا صیام لہ (سنن نسائی: ۲۳۳۳)
‘‘اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے نیت نہ کیا ہو’’۔
۳۳- قیدی شخص نے اگر خود رمضان کا چاند دیکھا ہو یا کسی قابلِ اعتماد شخص کی خبر سے رمضان کے داخل ہونے کا علم ہوا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، ورنہ وہ بذاتِ خود اجتہاد کرے گا اور اپنے غالب گمان کے مطابق عمل کرے گا۔ بعد میں اگر اسے معلوم ہوا کہ اس کا روزہ رمضان کے موافق ہے تو جمہور علما کے نزدیک اس کے لیے یہ کافی ہوگا، اور اگر اس کا روزہ رمضان کی ابتدا کے بعد پڑ گیا، تب بھی جمہور فقہاء کے نزدیک کافی ہوگا۔ اور اگر رمضان کی شروعات سے پہلے اس کا روزہ پڑ گیا تو کافی نہیں ہوگا بلکہ اس پر (اتنے دنوں کی) قضا واجب ہوگی۔ اگر قیدی شخص کے بعض روزے رمضان کے موافق ہوئے اور بعض نہیں تو جو رمضان یا اس کے بعد شوال کے موافق ہوں گے، وہ کافی ہوں گے، لیکن جو رمضان سے پہلے ہوں گے، وہ کافی نہ ہوں گے اور اگر یہ اشکال مسلسل باقی رہے اور معاملہ کی وضاحت نہ ہوسکے تو اس کے روزے کفایت کرجائیں گے، کیونکہ اس نے معلومات کے لیے بھرپور کوشش کی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی طاقت کے مطابق ہی پابند کرتا ہے۔
اِفطار اور اِمساک
۳۴- جب سورج پوری طرح غائب ہوجائے تو افطار کیا جائے۔ اُفق میں باقی گہری سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا أقبل اللیل من ہَہنا وأدبر النہار من ہٰہنا …… فقد أفطر الصائم۔
‘‘جب رات مشرق سے نمودار ہونے لگے اور دن مغرب میں چھپ جائے تو روزہ دار افطار کرلے گا’’۔ (صحیح بخاری:۱۹۵۴)
اِفطار میں جلدی کرنا سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد ہی مغرب کی نماز پڑھتے تھے، خواہ پانی کے چند گھونٹ ہی افطار کے لیے ملیں۔ اگر روزہ دار افطار کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو دل سے ہی افطار کی نیت کرلے اور اپنی اُنگلی نہ چوسے جیساکہ بعض عوام کرتے ہیں۔ وقت سے پہلے افطار سے بچنا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو دیکھا جو اُلٹے لٹکے ہوئے تھے اور اُن کے جبڑوں سے خون بہہ رہا تھا۔ آپؐ نے ان کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے افطار کرلیا کرتے تھے۔
۳۵- جب فجر طلوع ہوجائے (فجر سے مراد مشرق کی طرف سے اُفق میں پھیلنے والی سفیدی ہے) تو روزہ دار کو فوراً کھانے پینے سے رُک جانا ضروری ہے۔ اذان سنے یا نہ سنے، اور اگر یہ معلوم ہو کہ مؤذن طلوعِ فجر کے وقت ہی اذان دیتا ہے تو اذان کے ساتھ ہی کھانے پینے سے رُک جانا ضروری ہے، لیکن اگر مؤذن فجر سے پہلے اذان دیتا ہو تو کھانے پینے سے رکنا ضروری نہیں۔ اور اگر مؤذن کی حالت کا علم نہ ہو، یا کئی مؤذنوں کے درمیان اختلاف ہوجائے اور خود طلوعِ فجر کا اندازہ نہ لگا سکے (جیساکہ عام طور پر شہروں میں اُونچی بلڈنگوں اور روشنی کے سبب ہوتا ہے) تو ایسی صورت میں احتیاطی طور پر کسی معتمد کیلنڈر یا جنتری وغیرہ پر عمل کرے۔
طلوعِ فجر سے دس پندرہ منٹ پہلے بطورِ احتیاط کھانے پینے سے رُک جانا بدعت ہے، بعض جنتریوں میں فجر اور سحری کا جو الگ الگ وقت دیا جاتا ہے، وہ شریعت کے منافی ہے۔
۳۵- وہ ملک جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے ہوتے ہیں، اگر وہاں رات اور دن کا امتیاز ممکن ہو تو مسلمانوں پر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ ممالک جہاں رات دن کی تمیز ممکن نہ ہو تو وہ اپنے پڑوسی ممالک کے اعتبار سے روزہ رکھیں گے، جہاں رات اور دن کی تمیز ہوسکتی ہے۔
روزہ توڑنے والی چیزیں
۳۷- حیض و نفاس کے علاوہ روزہ توڑنے والی چیزوں سے تین شرطوں کی بنا پر روزہ توڑا جاسکتا ہے:
۱- اس کا علم ہو۔
۲- اسے یاد ہو، بھولا نہ ہو۔
۳- اپنے اختیار سے کیا ہو، اس پر مجبور نہ کیا گیا ہو۔
روزہ توڑنے والی بعض چیزیں آدمی کے جسم سے باہر آنے والی اور بعض باہر سے اندر جانے والی ہوتی ہیں، جو یہ ہیں: جماع کرنا، عمداً قے کرنا، حیض، پچھنا لگوانا، کھانا اور پینا۔
۳۸- بعض روزہ توڑنے والی چیزیں کھانے پینے کے حکم میں ہیں، جیسے منہ کے ذریعہ دوائیں اور گولیاں وغیرہ کھانا، غذائی انجکشن لینا، اسی طرح خون چڑھانا یا منتقل کرنا۔
ایسے انجکشن جو کھانے پینے کا بدل نہ بن سکتے ہوں بلکہ علاج کے طور پر ہوں جیسے پنسلین، انسولین یا نشہ آور دوائیں یا کوئی ٹیکہ ہو تو اس کا روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا خواہ وہ پٹھے (انٹرامسکولر) پر لگائے جائیں یا رگوں میں (انٹرا وینس) مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے انجکشن بھی رات ہی میں لیے جائیں۔
گردوں کی صفائی کے لیے خون نکال کر پھر دوبارہ اسے اپنی جگہ پر لوٹانے (ڈیالسسز) سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ حقنہ لگانا (اینما) اور آنکھ یا ناک میں دوا ڈالنے، دانت نکالے اور زخموں پر مرہم لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ تنفس کے لیے استعمال کیے جانے والے اسپرے سے بھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ صرف گیس ہے جو پھیپھڑے تک جاتی ہے، غذا نہیں ہے اور وہ شخص رمضان ہو یا غیر رمضان ہمیشہ اس کا محتاج ہے۔ ٹیسٹ کے لیے خون نکالنے سے بھی روزہ پر اثر نہیں پڑتا، کیونکہ یہ ضرورت کی چیز ہے۔ (فتاویٰ الدعوۃ لابن بازؒ: رقم ۹۷۹) غرغرہ کی دوا کے استعمال سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ پیٹ میں نہ جائے، اسی طرح دانت میں کوئی دوا بھرنے سے جس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو، روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۳۹- جس نے جان بوجھ کر روزہ میں بلاعذر کھا پی لیا، اس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا، اس پر توبہ اور اِس روزے کی قضا واجب ہے۔ اور اگر اس نے کسی حرام چیز سے روزہ توڑا ہو، جیسے کوئی نشہ آور چیز تو اس کا یہ عمل حددرجہ قبیح ترین ہے۔ ایسے شخص پر توبہ واجب ہے۔ اسے کثرت سے نفلی نماز اور روزے وغیرہ کی ادائیگی کرنی چاہیے تاکہ فریضہ کی کمی پوری ہوسکے اور ممکن ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے۔
۴۰- ‘‘اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اسے چاہیے کہ روزہ پورا کرے کیونکہ اللہ نے اسے کھلایا اور پلایا ہے’’۔ (صحیح بخاری: ۱۹۳۳) ایک روایت میں ہے: ‘‘اس پر کوئی قضا نہیں ہے نہ کفارہ’’۔ (فتح الباری: ۴؍۱۵۶) اگر کسی کو بھول کر کھاتے پیتے دیکھ لے تو اسے یاد دلائے کیونکہ اللہ کا ارشاد: وتعانوا علی البر والتقوی ‘‘نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کا تعاون کرو’’۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی عام ہے: فاذا نسِتُ فَذَکِّرُونِی ‘‘اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلاؤ’’۔ (صحیح مسلم: ۵۷۱) اور درحقیقت بھولنا ایک ناروا عمل ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔
۴۱- اگر کسی کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑنے کی ضرورت پڑے تو روزہ توڑا جاسکتا ہے، مگر قضا واجب ہوگی جیسے ڈوبنے یا جلنے والوں کو بچانا۔
۴۲- جس پر روزہ فرض ہو اور وہ جان بوجھ کر اپنے اختیار سے دن میں جماع کرلے تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ وہ دن بغیر کھائے پیئے گزارے اور اس پر توبہ، قضا اور کفارۂ مغلظہ ضروری ہے، جیساکہ ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے:
بینما نحن جلوس عند النبیؐ اذا جاء ہ رجل فقال: یارسول اللّٰہ ھلکت ، قال ‘‘ما لک؟’’ قال: وقعتُ علی امرأتی وأنا صائم ، فقال رسولؐ اللّٰہ ‘‘ھل تجد رقبۃ تعتقہا’’ قال لا ، قال: ‘‘فھل تستطیع أن تصوم شھرین متتابعین’’ قال: لا ، قال: ‘‘فھل تجد اطعام ستین مسکینا؟’’ قال لا…… الحدیث’’ (صحیح بخاری: ۱۹۳۶)
‘‘ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تے کہ ایک آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ، میں ہلاک ہوگیا۔ آپؐ نے کہا: کیا ہوگیا تمہیں؟ اس نے کہا: میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرلیا۔ آپؐ نے کہا: کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے کہا: کیا تم مسلسل دو ماہ روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے کہا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں…… الحدیث’’۔
علاوہ ازیں زناکاری، لواطت اور جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔
۴۳- اگر کسی نے اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں جماع کا ارادہ کیا اور پہلے کوئی چیز کھاپی کر افطار کرلیا تو اس کا جرم مزید سخت ہے، کیونکہ اس نے رمضان کی حرمت کی دو مرتبہ پامالی کی، ایک مرتبہ کھانا کھاکر، دوسری مرتبہ جماع کرکے، کفارۂ مغلظہ اس پر اور زیادہ ضروری ہے، اس کا یہ حیلہ اس کے لیے وبالِ جان ہے اور اس پر خلوصِ دل سے توبہ ضروری ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ۲۵؍۲۶۲)
۴۴- روزہ دار کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا، جسم سے جسم ملانا، گلے ملنا اور بار بار دیکھنا جائز ہے بشرطیکہ اپنے نفس پر قابو ہو۔ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ لیتے اور جسم سے جسم ملاتے تھے لیکن وہ تم سے زیادہ اپنے آپ پر قابو رکھنے والے تھے’’ (صحیح بخاری: ۱۹۲۷، صحیح مسلم: ۱۱۰۶)۔ لیکن اگر کوئی شخص تیز شہوت والا ہو، اپنے آپ پر قابو نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے روزہ فاسد ہونے کی نوبت آسکتی ہے اور جماع کا وقوع یا اِنزال وغیرہ ہوسکتا ہے، شریعت کا قاعدہ یہ ہے: ‘‘جو چیز حرام کا ذریعہ ہو، وہ بھی حرام ہے’’۔
۴۵- اگر کسی نے جماع شروع کیا اور فجر طلوع ہوگئی تو اس پر بیوی سے الگ ہوجانا ضروری ہے، اس کا روزہ صحیح ہے خواہ بیوی سے الگ ہونے کے بعد منی کیوں نہ خارج ہو، اور اگر طلوعِ فجر کے بعد بھی جماع میں لگا رہا تو وہ مُفطر (روزہ توڑنے والا) شمار ہوگا۔ اس پر توبہ، روزہ کی قضا اور کفارۂ مغلظہ واجب ہے۔
۴۶- جنابت کی حالت میں صبح کرنے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ غسل جنابت، حیض اور نفاس کا غسل طلوعِ فجر (صادق) کے بعد تک مؤخر کیا جاسکتا ہے، مگر نماز کی خاطر جلدی کرنی چاہیے۔
۴۷- اگر روزہ دار کو نیند کی حالت میں احتلام ہوجائے تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ایسا شخص اپنا روزہ مکمل کرلے۔ اس بات پر سب کا اجماع و اتفاق ہے۔
۴۸-اگر کسی نے روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کسی ایسے طریقے سے منی نکالی ہو جس سے اجتناب ممکن تھا، جیسے چھونے یا بار بار دیکھنے کی وجہ سے تو اس پر توبہ ضروری ہے۔ وہ بقیہ دن کھانے پینے سے رُکا رہے اور بعد میں اس روزے کی قضا کرے۔ اگر ہاتھ رگڑنا شروع کیا لیکن خروجِ منی سے پہلے باز آگیا تو اس پر صرف توبہ ضروری ہے، روزہ کی قضا نہیں۔ روزہ دار کو شہوت اُبھارنے والی ہرچیز سے دُور رہنا چاہیے، اور گندے خیالات کو دل سے دُور رکھنا چاہیے، البتہ خروجِ مذی کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
۴۹- اگر کسی شخص کو خود بخود قے ہوجائے تو اس پر قضا نہیں، اور جس نے عمداً قے کی،وہ قضا دے گا۔ جس نے جان بوجھ کر منہ میں اُنگلی ڈال کر یا پیٹ دبا دبا کر، نا پسندیدہ بو سونگھ کر یا کسی ایسی چیز کو لگاتار دیکھ کر جس سے اس کو قے آجاتی ہے، قے کردی تو اس پر قضا واجب ہے اور اگر قے کا غلبہ ہوا مگر کچھ باہر آئے بغیر اندر واپس چلا گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ اس میں اس کے ارادہ کا دخل نہیں، اور اگر دوبارہ اُس نے خود سے باہر کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
اور اگر معدہ سے اُبکائی اُٹھے تو اس پر قے کا روکنا ضروری نہیں، کیونکہ یہ اس کے لیے مضر ہوسکتا ہے۔ دانتوں کے درمیان کوئی معمولی سی چیز پھنسی ہوئی تھی، جس کی تمیز نہ ہوسکی اور اس کو نگل لیا تو وہ تھوک کے تابع ہے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اور اگر زیادہ ہو جس کا تھوکنا ممکن ہو تو اگر تھوک دیا تو اس پر کوئی چیز نہیں اور جان بوجھ کر نگل لیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
کُلّی کے بعد منہ میں جو تری ہوتی ہے اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے بچنا ناممکن ہے۔ اگر مسوڑھے میں زخم ہو یا مسواک کی وجہ سے خون نکل آئے تو اس کا نگلنا جائز نہیں بلکہ تھوک دینا ضروری ہے۔ ہاں اگر حلق میں بلاقصد و ارادہ چلا جائے تو کوئی قباحت نہیں۔
کھانسی یا کسی اور سبب سے نکلے ہوئے بلغم کو منہ تک پہنچنے سے پہلے اگر نگل لیا تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ ایسا عام طور پر ہوتا ہے۔ لیکن اگر منہ میں آجانے کے بعد نگل لیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اگر بلاقصد اندر چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ بلاضرورت کھانا چکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے روزہ فاسد ہونے کا خطرہ ہے، بطورِ ضرورت جیسے بچے کو کھلانے کے لیے لقمہ چبانا جب کہ اس کے سوادوسرا کوئی چارہ نہ ہو، یا خریدنے کے وقت اور پکاتے وقت ذائقہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں، جیساکہ ابن عباسؓ سے مروی ہے، فرمایا:
‘‘سرکہ وغیرہ خریدنے کے وقت چکھنے میں کوئی حرج نہیں’’۔
۵۰- روزہ دار کے لیے دن کے کسی بھی حصے میں مسواک کرنا سنت ہے خواہ مسواک تازہ ہی کیوں نہ ہو۔ روزہ کی حالت میں مسواک کرنے سے تلخی یا کوئی لذت محسوس ہوئی اور اسے نگل لیا، یا مسواک منہ سے نکالنے کے بعد دوبارہ کرنا شروع کیا اور اس پر لگا ہوا تھوک نگل لیا تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۰۶/۳)
روزہ دار کو کسی قسم کا زخم؍نکسیر لاحق ہوجائے یا پانی یا پٹرول بلارادہ حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر پیٹ میں غبار یا دھواں یا مکھی بلاقصد و ارادہ داخل ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
حلق میں آنسو اُترنے، سر میں تیل، مہندی لگانے سے جس کا مزہ حلق میں محسوس ہو اور سرمہ و کریم وغیرہ لگانے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،اسی طرح عطر اور عود کی خوشبو سونگھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن دھواں حلق میں پہنچنے سے بچنا چاہیے۔ دن میں ٹوتھ پیسٹ نہ ہی استعمال کرے تو بہتر ہے کیونکہ اس کی تاثیر قوی ہوتی ہے۔ (المغنی:۳؍۳۳)
۵۱- پچھنا لگوانے کے سلسلے میں بڑا اختلاف ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ روزہ دار پچھنا نہ لگوائے۔
۵۲- سگریٹ نوشی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر روزہ چھوڑنے کے لیے وہ عذر نہیں ہے، اللہ کی معصیت عذر کیسے ہوسکتی ہے؟
۵۳- پانی میں ڈبکی (غوطہ) لگانا، یا تَر کپڑے کو ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے لپیٹنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباری، ۱۳۵/۴)۔ تیراکی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے روزہ فاسد ہوسکتا ہے۔ جس شخص کا کام غوطہ خوری ہو، یا اس کا کام بغیر غوطہ لگائے نہ چل سکے اور پانی اندر جانے کا امکان نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
۵۴- رات کے باقی ہونے کا گمان ہو، اسی حالت میں کھایا پیا اور جماع کیا، پھر پتا چلا کہ صبح ہوچکی ہے تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ قرآن کریم کی آیت: حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ……الایۃ معلوم ہونے تک کھانے وغیرہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ عبدالرزاق نے ابن عباسؓ سے صحیح سند سے روایت ذکر کی ہے، اُنھوں نے کہا: أحل اللّٰہ لک الأکل والشرب ما شککت (فتح الباری ۱۴۸/۴)
‘‘اللہ نے تمہارے لیے کھانا پینا حلال کیا جب تک تم شک میں رہو ’’۔
۵۵- اگر فجر طلوع ہونے کے وقت کسی کے منہ میں کھانا یا پانی ہو تو فقہا کا اتفاق ہے کہ اسے تھوک دے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ اسی طرح بھول کر کھانے پینے والے کا بھی حکم ہے۔اس کا روزہ بھی صحیح ہے بشرطیکہ یاد آنے پر جو کچھ اُس کے منہ میں ہے تو فوراً تھوک دے۔
عورت کے لیے روزے کے احکام
۵۶- جو لڑکی بالغ ہوجائے مگر حیا کی وجہ سے اظہار نہ کرسکے اور روزہ چھوڑتی رہے تو اس پر توبہ اور چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا لازم ہے۔ اور اگر دوسرا رمضان آنے سے پہلے قضا نہیں دی تو قضا کے ساتھ ہی ہر دن کے بدلے میں مسکین کو بطورِ کفارہ کھانا کھلائے۔ یہی حکم اس لڑکی کا بھی ہے جو اپنے حیض کے ایام میں شرم کی وجہ سے روزہ رکھتی گئی ہو اور بعد میں قضا نہ کیا ہو۔
۵۷- شوہر کی موجودگی میں عورت رمضان کے علاوہ دوسرے روزے بغیر اس کی اجازت کے نہیں رکھ سکتی، ہاں اگر شوہر سفر پر ہو تو کوئی حرج نہیں۔
۵۸- جس عورت کو معلوم ہو کہ اس کی ماہواری کل سے شروع ہوگی پھر بھی وہ نیت کرے اور روزہ رکھے اور جب تک خون نہ آجائے روزہ نہ چھوڑے۔
۵۹- بہتر یہ ہے کہ حائضہ عورت اپنی فطرت پر باقی رہے، اور اللہ نے اس کے لیے جو مقدر کیا ہے، اس پر راضی رہے۔ خون روکنے والی دوائیں استعمال نہ کرے، حالتِ حیض میں روزہ چھوڑ دے اور پھر قضا کرے۔ اسی طرح اُمہات المومنینؓ اور سلف کی بیویاں کیا کرتی تھیں لیکن اگر اس نے کوئی چیز استعمال کی جس سے خون رُک گیا تو روزہ رکھ سکتی ہے اور اس کا یہ روزہ صحیح ہوگا۔
۶۰۔ نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے قبل پاک ہوجائے تو روزہ رکھے اور نماز کے لیے غسل بھی کرے، اور اگر چالیس دن کے بعد بھی خون جاری رہا تو روزہ کی نیت کرے گی اور غسل کرلے اور اس کا یہ خون استحاضہ شمار ہوگا، اور اگر اس کی عادت کے مطابق حیض کے دن پڑ جائیں تو حیض سمجھا جائے گا۔
۶۱- استحاضہ کے خون سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۶۲- صحیح بات یہ ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو مریض پر قیاس کیا جائے گا، ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور بعد میں ان پر صرف قضا ہے، چاہے اُنہیں اپنے لیے ضرر کا اندیشہ ہو یا بچے کے لیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللّٰہ تعالٰی وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاۃ وعن الحامل والمُرضع الصوم۔
‘‘اللہ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز معاف کردی ہے، اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ معاف کردیا ہے’’۔ (سنن ترمذی: ۷۱۵ وقال الترمذی: حدیث حسن)
۶۴- وہ عورت جس پر روزہ فرض ہو، اگر اس کے شوہر نے اس کی رضا سے روزے کی حالت میں جماع کرلیا تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو مرد کا ہے۔ ہاں اگر شوہر نے زبردستی کی تو عورت کو حتی المقدور روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اس دن کی قضا کرلینا، اس کے لیے بہتر ہے۔
روزہ کے ان ذکر کردہ مسائل کے اختتام پر اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ذکروشکر اور اپنی عبادت پر ہماری مدد فرمائے اور ماہِ رمضان کو ہمارے لیے مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنائے۔آمین!
(بشکریہ ،ماہنامہ محدث، اکتوبر ۲۰۰۷ء)