مرید اپنی روحانی ترقی پر بہت خوش تھا۔وہ یہ خوشخبری لے کر پیر کے پاس پہنچااور کہا کہ، حضرت الحمد للہ اب مجھے نماز میں ‘‘درجہ احسان’’ حاصل ہو گیا۔یعنی نماز پڑھتے ہوئے میری توجہ کامل اللہ کی طرف رہتی ہے اور اللہ کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔ حضرت مسکرائے اور کہا ،بیٹا، درجہ احسان فقط نماز میں مطلوب نہیں بلکہ زندگی کے ہرہر لمحے میں مطلو ب ہے۔ یہ بتاؤ جب تم گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہوتے ہو تو کیا پھر بھی یہ خیال رہتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے؟ جب تم دفتر میں ہوتے ہو تو کیا پھر بھی یہ احساس زندہ رہتا ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے ؟ جب جھوٹ بولنے کو دل چاہتا ہے تو کیا پھر بھی یہ خیال تمہیں تھام لیتا ہے کہ اللہ تمہاری شہ رگ سے قریب ہے؟جب کسی نافرمانی کا خیال دل میں انگڑائیاں لیتا ہے تو کیا پھر بھی یاد الہی اسے محو کر دیتی ہے؟ ۔مرید شرمند ہ سا ہوا او ر کہا حضرت ایسا تو نہیں ۔ حضرت نے کہا بیٹا ،درجہ احسان یا ذات باری کا استحضار یا اخلاص زندگی کے ہرہر لمحے میں مطلوب ہے ۔ اسے ٹارگٹ بنا کے محنت کرو۔٭اس مرید کی طرح ہم بھی روزے کی حالت میں چند گھنٹے کھانے پینے سے پرہیز کر کے بہت خوش ہوجا تے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید رمضان کا مطلوب حاصل ہو گیا جب کہ ایسا ہر گز نہیں۔ رمضان کا مطلوب تقوی ہے (لعلکم تتقون)اور تقوی یہ ہے کہ زندگی کے شب و روز میں جہاں جہاں اللہ تمہیں دیکھنا چاہتا ہے وہاں وہاں سے غیر حاضر نہ پائے اور جہاں جہاں نہیں دیکھنا چاہتا وہاں وہاں موجود نہ پائے۔ ٭ہماری زندگی میں کتنے رمضان آئے اور ان کے نتیجے میں ہمیں کتنا تقوی حاصل ہوااس کا اندازہ ہر شخص خود ہی کر سکتاہے ۔میرا تو یہ حال ہے کہ میں روزے بھی رکھتا رہا اور جھوٹ بھی بولتا رہا، روزے بھی رکھتا رہا اور غیبت بھی کرتا رہا، روزے بھی رکھتا رہا اور نافرمانی کی جسارت بھی کرتارہا، روزے بھی رکھتا رہا اور رب کو بھی بھولا رہا، اس سب کچھ کی موجودگی میں، میں تو یہ سوچتا ہوں کہ جس رمضان سے مجھے تقوی حاصل نہ ہو سکا اس رمضان کے نتیجے میں مجھے جنت کیسے حاصل ہو گی اور جو رمضان مجھے گنا ہ سے نہ بچا سکا وہ رمضان مجھے جہنم سے کیسے بچائے گا؟