جو مارٹینیز
ترجمہ، خضر حیات ناگپوری
(Rehabiliation and Treatment)
مجرم قید خانے کی انتظامیہ کی عمارت میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا داخل ہوا ۔ وہ یہاں اپنے ذاتی مسائل کے سلسلے میں مشورہ اور مد د طلب کرنے آیا تھا۔صدر دروازے کے ٹھیک آگے اندر کی طرف متعد دروازے اور تھے ۔ جن پر اس طرح کی تختیاں آویزاں تھیں۔ عارضی رہائی، (پیرول) ، مشیر ، پادری (چیپلن) ، معلم، ( ٹیچر) ، اصلاح ، معالج خصوصی ، ۔۔۔
مجرم نے جس دروازے کا انتخا ب کیا اس پر ‘اصلاح’ لکھا ہوا تھا۔ اس دروازے سے اندر داخل ہونے پردواور دروازے نظر آئے ‘ نگرانی ’ اور ‘ علاج’ اس نے علاج والا دروازہ چنا ۔اسے مزید دو دروازوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔نو عمر اور بالغ ۔۔اس نے مناسب دروازے کا انتخاب کیا۔ اندر جانے پر اسے پھر مزید دو دروازے ملے ۔ سابقہ خطا کار ۔۔اولین خطا کار۔۔ وہ مناسب دروازے سے گزر گیا۔ مزید دروازے اس کے سامنے تھے ۔۔ ڈیمو کریٹ ۔۔ری پبلکن۔۔ مجرم ڈیموکریٹ تھا ، اس لیے وہ مناسب دروازے سے تیزی سے آگے بڑھا تو دو اوردروازوں سے ٹکر اگیا۔۔ سیاہ فام ۔۔ سفید فام وہ سیاہ فام امریکی تھا اس لیے وہ اس دروازے میں سے گزرا ۔۔اور ۔۔اور نو منزلہ عمارت سے نیچے سڑک پر آن گرا۔
٭٭٭
‘جومار ٹینیز’ انڈیا نااسٹیٹ ( امریکا) کی جیل کا ایک سیاہ فام قید ی تھا۔اس کے علاوہ اس کے متعلق مزید معلومات میسر نہیں ہیں۔مشہور سیاہ فام شاعر اور ادیب ایتھرج نائٹ نے اپنے مجموعے ‘‘ قید خانے کی سیاہ فام آوازیں’’
(Black voices in prison) میں اس مختصر کہانی کو ‘ جو مارٹینیز’ کے نام سے شامل کیا ہے ۔ نائٹ کا یہ مجموعہ بقول اس کے ان وصیت ناموں ، مضامین، مختصر افسانوں، نظموں اور مقالوں پر مشتمل ہے جنہیں ان سیاہ فام قیدیوں نے لکھا تھا جو انڈیانا اسٹیٹ جیل میں بند تھے۔ خود ایتھرج نائٹ ۱۹۶۰ سے ۱۹۶۸ تک جرم سیاہ فامی میں اس جیل میں قید رہا ہے ۔ نائٹ لکھتا ہے کہ سیا ہ فام امریکی کی زندگی کا تمام تر تجربہ ایک لفظ میں کشید کیاجا سکتا ہے اور وہ لفظ ہے ‘قید خانہ’ اس نے لکھا ہے کہ قید خانہ مجسم انتہائے جبر ہے۔ زیر انتخاب کہانی بزعم خود مہذب اور انصاف پسند نئی دنیا کی تہذیب اور اس کے طریقہ انصاف پر ایک کرارا طنز ہے ۔ کیا ہوا ایک سیاہ فام امریکی صدارتی عہدے کا امیدوار ہے ۔۔۔سیاہ فام ہوں یا مسلم ۔۔۔قید خانہ وہی ہے ۔ ( خضر حیات ناگپوری )