کیٹ چاپن
مترجم، خضر حیات ناگپوری
کیٹ چاپن (۱۹۰۴۔۱۸۵۱) کا اصل نا م کیتھرین اوفلاہرٹی تھا۔ ۱۹ سال کی عمر میں اس کی شادی آسکر چاپن سے ہوئی۔ کیٹ کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۸۸۲ میں آسکر کے انتقال کے بعد ہوا۔ ۱۸۸۹میں اس کے دو افسانے اور ایک نظم شائع ہوئی۔ ایک مختصر سے عرصے میں اس نے ملک بھر میں ایک صاحب طرز افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی ۔ اس کے ا فسانوں میں نفسیاتی حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ عورتوں کی زندگی کی نقاب کشائی بھی ہوا کرتی تھی۔ در حقیقت اس نے نسوانی تجربات کے ایک وسیع سلسلے کو ڈرامائی انداز میں قلم بند کیا اور خصوصا ان کی نسوانیت اور عورتوں کی آزادی پر کھل کر اظہار خیا ل کیا جس کا اس دور کے ادیبوں کی تحریروں میں فقدان نظر آتاہے ۔
زیر نظر افسانہ the story of the an hour کے نام سے ۱۸۹۴ میں شائع ہو اتھا۔ افسانے کے مطالعے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کا دانش مند طبقہ کس طرح آہستہ آہستہ آزاد ی نسواں کے ایک مخصوص تصور کو ذہنوں میں جاگزیں کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اور اس کا نتیجہ آج ہم امریکہ میں خاندانی نظام کی شکست و ریخت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
مسز ملارڈ عارضہ قلب کی مریض تھی۔اس لیے اس کے شوہر کے ناگہانی انتقال کی خبر حتی الامکان احتیاط کے ساتھ اسے سنانے کی کوشش کی گئی۔
اس کی بہت جوزیفائن نے اسے یہ خبر سنائی ۔ ادھورے جملوں اور اشاروں کنایوں سے ۔ اس کے شوہر کادوست رچرڈس بھی اس وقت اس کے پاس موجود تھا۔
رچرڈس اس وقت اخبار کے دفتر ہی میں تھا جب ریل کے تباہ کن حادثے کی خبر موصو ل ہوئی تھی ۔ہلا ک شدگان کی فہرست میں برینٹلی ملارڈ کا نام سر فہرست تھا۔ خبر کی تصدیق کے لیے اس نے ٹیلی گرام کے آنے کا انتظارکیا اور پھر اس سے قبل کہ کوئی غیرمحتاط شخص اس اندوہ ناک خبر سنانے میں عجلت سے کام لیتا ، وہ تیزی سے وہاں آ گیاتھا۔
اس نے یہ خبر اسطرح نہیں سنی جس طرح دوسری بہت سی خواتین ایسی خبریں سنا کرتی ہیں۔وہ فورا ً رو پڑی اوراپنی بہن کی باہوں میں جھول گئی۔ جب درد و غم کا طوفان کچھ تھما تو وہ تنہا کمرے میں چلی گئی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کے پیچھے پیچھے آئے۔
اس کے کمرے میں کھلی کھڑکی کے مقابل ایک آرام کرسی رکھی ہوئی تھی وہ اس میں دھنس گئی۔ وہ ایک ایسی تکان محسوس کر رہی تھی جو اسکی روح کے اند ر تک اتر گئی تھی۔ کھڑکی میں سے وہ اپنے گھر کے سامنے کھلے میدان میں ان درختوں کے اوپر ی حصے دیکھ سکتی تھی جو موسم میں حیات نو پا کر لہلہا رہے تھے ۔ فضا میں بارش کی پر کیف مہک رچی بسی تھی ۔ نیچے گلی میں ایک خوانچہ والاآوازیں لگا کر اپنا سامان فروخت کر رہا تھا۔ کہیں دور کوئی گانا گا رہاتھا اور اس کے بول ان کے کانوں تک پہنچ رہے تھے ۔ بے شمار چڑیاں چھجوں میں چہچہا رہی تھیں کھڑکی کے سامنے مغربی سمت میں ایک دوسرے پر لدے بادلوں کے اندر سے جہاں تہاں نیلے آسمان کے ٹکڑے نظر آر ہے تھے۔
وہ اپنی کرسی پرایک دم بے حس و حرکت بیٹھی تھی سوائے اس کے کہ جب اس کے گلے میں کوئی سسکی اٹک جاتی اوراسے ہلا کر رکھ دیتی۔ اس کی حالت ایک بچے کی طرح تھی جو روتے روتے سو جاتا ہے لیکن خواب میں سسکیاں لیتا رہتا ہے ۔
وہ نوجوان تھی۔۔ایک خوبصورت چہرہ جس کے خطوط دبے ہوئے جذبات کے ساتھ ساتھ کچھ طاقت کا اظہار بھی کر رہے تھے ۔۔لیکن اب اس کی آنکھوں میں بے جان سا تحیر تھااور وہ ٹکٹکی باندھے دور پرے نیلے آسمان کے ٹکڑوں کو دیکھے جارہی تھی۔
کچھ نہ کچھ احساس تو اسے ہو رہا تھا اور وہ خوف زدہ سی اس احساسکا انتظار کر رہی تھی وہ کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔ وہ احساس جو اتنا نا گریز پا اور سبک تھا کہ اسے کوئی نام دینا بھی ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔
اس کا سینہ دھڑ دھڑ کر تا ہوا اوپر نیچے ہو رہا تھا اب وہ اس چیز کو پہچان پا رہی تھی جواس پر قابو پانے کے لیے قریب آ رہی تھی اور وہ اسے پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی اپنی اس قوت ارادی کے ذریعے جو اس کے کمزور ہاتھوں کی طرح ہی کمزور تھی۔
جس اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو اس کے جزوی طور پر کھلے ہونٹوں سے ایک لفظ سرگوشی کے انداز میں باہر آیا۔ اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے بار بار اس لفظ کو دہرایا۔‘آزاد ، آزاد ، آزاد ’’ خالی پن اورخو ف کے اثرات اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئے ۔ وہ پھر سے پرامید اور پرجوش ہو گئی ۔ اس کی نبضوں نے تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیا اور دوڑتے ہوئے خون نے جسم کے ایک ایک انچ حصے کو گرم اور پر سکون کر دیا۔
وہ یہ سوچنے کے لیے نہیں رکی کہ آیایہ کوئی بہت بڑی لا یعنی خوشی تھی جس نے اسے تھا م رکھا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ پھر روئے گی جب وہ موت کی حالت میں اس مہربان اورنرم ہاتھوں کو مڑا ہوئے دیکھے گی۔اس چہرے کو بے حس ، بے رنگ اور مردہ دیکھے گی جس نے اسے سوائے محبت کے کسی اورنظر سے نہیں دیکھا تھا لیکن پھر اس نے ان تلخ لمحوں سے آگے آنے والے برسوں کی ایک لمبی قطار دیکھی جو مکمل طو ر پر اس کے ہو ں گے اور اس نے مستقبل کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے بازو کھول دیے۔
آنے والے برسوں میں کوئی ایسا نہ ہوگاجس کے لیے اسے زندہ رہنا پڑے وہ صرف اپنے لیے زندہ رہے گی اب اس کے ارادوں کوموڑنے والا دوسرا کوئی مضبوط ارادہ نہیں ہو گا۔ وہ اندھی ضد نہیں ہو گی جس میں بہت سے مرد اور عورتیں یقین رکھتی ہیں کہ انہیں اپنی ذاتی پسند اورناپسند دوسروں پرنافذ کرنے کا حق حاصل ہے وہ اس مختصر لمحہ منور میں سوچ رہی تھی کہ مہربان ارادہ یا ظالمانہ ارادہ ۔۔ دونوں بھی اس عمل کو کم مجرمانہ نہیں بناتے۔
لیکن پھر بھی وہ کبھی کبھی اس سے محبت کرتی تھی اکثر نہیں اس سے کیا ہوتا ہے محبت ایک لاینحل اسرار ، کیا حیثیت رکھتی ہے ۔ محبت اظہار ذات کے اس احساس ملکیت کے سامنے جسے وہ اچانک اپنے وجود کی طاقت ور ترین رو کی حیثیت سے شناخت کر رہی تھی۔
آزاد۔۔جسم و روح آزاد۔۔۔۔ وہ بڑبڑاتی رہی۔ دروازے کی قفل کے سوراخ سے لب پیوستہ جوزیفائن بند دروازے پر جھکی اندر آنے کی اجازت کی التجا کر رہی تھی لوئز دورازہ کھولو میں منت کرتی ہوں کہ دروازہ کھول دو تم اپنے آپ کو بیمار کر لو گی تم کیا کر رہی ہو لوئز خدا کے واسطے دروازہ کھول دو۔
چلے جاؤ چلے جاؤ ۔۔۔ میں اپنے آپ کو بیمار نہیں کرر ہی وہ تو اس کھلے دریچے سے آب حیات نوش کر رہی تھی اس کا تصور آنے والے ہنگامہ خیز دنوں میں کھویا ہواتھا بہاد کے دن موسم گرماکے دن او ر ہر طرح کے دن جو اب بلا شرکت غیرے اس کے اپنے ہوں گے ۔ اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے جلدی جلد ی دعا مانگی کہ ان آنے والے دنوں کو حیات طویل حاصل ہو۔ یہ ابھی گزشتہ روز کی ہی بات تھی کہ وہ اس خیال سے کپکپا اٹھی تھی کہ زندگی لمبی بھی ہوسکتی ہے۔
وہ سرو قد کھڑی ہوئی اور اپنی بہن کی التجاؤں کو سن کر اس نے دروازہ کھو ل دیا اس کی آنکھیں ایک حرارت آمیز فتح کے رنگ سے جگمگا رہی تھیں وہ غیر محسوس طریقے پر فتح کی دیوی کی طرح آگے بڑھی۔ اس نے اپنی بہن کی کمر کے گرد اپنے بازو حمائل کر دیے وہ دونوں ساتھ ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اتریں۔ نیچے رچرڈس ان کا منتظر تھا۔
کوئی باہری دروازے کو کنجیوں سے کھول رہا ہے۔ یہ برینٹل ملارڈ تھا جو اند ر داخل ہوا۔ سفرسے گرد آلود اپنا سفری جھولا اور چھتری سنبھالے ہوئے وہ جائے حادثہ سے بہت دور تھا اور اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھاکہ کوئی حادثہ بھی ہوا تھا۔
وہ جوزیفائن کی فلک شگاف چیخ سن کر حیرت زدہ کھڑا رہ گیا۔ رچرڈس نے بہت تیزی سے حرکت کہ وہ اپنی بیوی کی نظروں میں نہ آسکے لیکن اسے دیر ہو چکی تھی ۔ جب ڈاکٹر آئے تو انہوں نے کہا کہ مسز ملارڈ عارضہ قلب کی وہ سے مر چکی تھی۔ اس خوشی کی وجہ سے جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ یعنی شادی مرگ۔۔۔