خدا کا نام روشن ہے خدا کا نام پیارا ہے
دلوں کو اس سے قوت ہے زبانوں کو سہارا ہے
خدا ہی ہے زمین و آسمان کا خالق و مالک
اسی کی قدرت و صنعت نے عالم کو سنوارا ہے
تماشا اس کی قدرت کا ہے بر و بحر میں ہر دم
ادھر موجیں ہوا کی ہیں ادھر پانی کا دھارا ہے
اسی کے حکم سے ہے رات دن کی یہ کمی بیشی
اسی کے حکم کا تابع فلک پر ہر ستارا ہے
زمیں پر سبزہ و گل کی نمودیں کیسی پیاری ہیں
فلک پر چاند سورج کا بھی کیا دلکش نظارا ہے
کوئی ذرہ نہیں عالم میں اس کے علم سے باہر
جو مرضی اس کی ہے دخل اس میں دے، یہ کس کو یارا ہے
وہی دنیا میں ہے اس زندگی و موت کا خالق
ہر اک کو اپنی مرضی سے جلایا اور مارا ہے
دو روزہ زندگی ہے جاہ و حشمت پر نہ ہو غافل
فریدوں ہے نہ کیخسرو سکندر ہے نہ دارا ہے
کرو طاعت خداکی بس وہی معبود برحق ہے
اسی کی شان یکتائی جہاں میں آشکارا ہے
اکبر الہ آبادی
(انتخاب ، پروفیسر خضر حیات ناگپوری)