اسپین کی ایک مشہور پہاڑی (جبل الطارق) کے پاس تاریخ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار طارق بن زیاد نے ۹۲ھ (۷۱۱ء) میں پانچ ہزار مجاہدین کے لشکر کو ساحل اندلس پر اتارا تھا۔ یہ پہاڑی آج بھی طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلاتی ہے جسے اہلِ یورپ بگاڑ کر جبرالٹر کہتے ہیں بلکہ اس کے جنوب میں وہ تنگ سمندری راستہ بھی آبنائے جبل الطارق یا آبنائے جبرالٹر کہلاتا ہے جو اسپین (اندلس) اور مراکش کے درمیان حائل ہے۔ یہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا اور موسیٰ بن نصیرشمالی افریقہ کا گورنر تھا جس میں تیونس، طرابلس، الجزائر اور مراکش شامل تھے۔ مراکش کے شمالی ساحل پر ستبدشہر اور اردگرد کا علاقہ اسپین کے کنٹرول میں تھا جہاں کاؤنٹ جولین شاہ اسپین کی طرف سے گورنر تھا۔ جولین کی بیٹی فلورندا طلیطلہ کے شاہی محل میں پرورش پارہی تھی جہاں شاہ راڈرک نے اس کی آبروریزی کی۔ اس ظلم پر جوش انتقام میں کاؤنٹ جولین نے موسیٰ بن نصیر کو اسپین پر حملے کی ترغیب دی۔ چنانچہ خلیفہ ولید کی اجازت حاصل کرکے موسیٰ نے بربرنسل کے طارق بن زیاد کو لشکر دے کر بحری کشتیوں میں اسپین روانہ کیا۔ طارق نے ساحل اسپین پر اُتر کر کشتیاں جلوا دیں تاکہ مجاہدین اسلام جزیرہ نما آئی بیریا (اسپین و پرتگال) سے واپسی کا خیال دل سے نکال دیں اور آخر دم تک دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ موسیٰ نے سات ہزار مزید مجاہدین بطور کمک بھیج دیئے۔ دریائے برباط کے کنارے ایک لاکھ کے مسیحی لشکر اور ۱۲ ہزار مسلمانوں میں خونریز جنگ ہوئی جو طارق اور ان کے ساتھیوں کے ایمانی جذبوں نے جیت لی۔ ظالم بادشاہ راڈرک بھاگتے ہوئے مارا گیا۔
مسلمانوں کی اس فتح سے تاریخ اسپین کا وہ ۸سو سالہ سنہری دور شروع ہوا جس میں اہلِ اسلام نے اس سرزمین کوخوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کیا اور یہاں تعلیم و حکمت کے وہ چراغ روشن کیے جن سے یورپ کی ظلمت اور تاریکی دور ہوئی۔ وہاں احیائے علوم کا چرچا ہوا اور جدید دور کا آغاز ہوا۔ ابوالقاسم زہراوی (سرجری کا بانی) ابن رشد، امام ابن حزم، ابن زہرابن طفیل، امام قرطبی اور دیگر سیکڑوں علماء و فضلاء اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعمیرات میں امیر عبدالرحمن اول کی تعمیر کردہ مسجد قرطبہ ایک ایسا شاہکار ہے جس نے علامہ اقبال کو ‘‘مسجدقرطبہ’’ جیسی عمدہ نظم تخلیق کرنے کی راہ دکھائی۔
یہ تاریخ اسلام کا ایک المناک باب ہے کہ مسلمان آٹھ سو برس کی حکمرانی کے بعد اسپین (اندلس) سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی باہمی نااتفاقیاں اور عرب و بربر کے اختلافات تھے جن کے باعث وہ عیسائی جو شمالی اندلس کے پہاڑوں میں سمٹ کر رہ گئے تھے ،دوبارہ دلیر ہوگئے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں اندلس کی اموی خلافت کے خاتمے پر وہاں ملوک الطوائف آئے یعنی طوائف کی طرح آئے دن بدلنے والے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بن گئے جنہیں مسیحی بادشاہ الفانسو ششم نے اپنے ہاتھوں پر نچایا۔ آخرکار مراکش کے امیریوسف بن تاشفین نے جنگ زلاقہ (۱۰۸۶ء) میں الفانسو کو شکست دے کر وہاں مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع دیا مگر اس کے باوجود ریاستی خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کو زوال کی راہ پر ڈال دیا حتیٰ کہ ۱۲۳۶ء میں اندلس کا ہیرا شہر قرطبہ مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گیا اور عیسائیوں نے مسجدقرطبہ کو گرجا بنالیا۔
سقوط قرطبہ اور بواشبیلہ کے بعد اسپین میں مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ (۱۲۳۲ء تا ۱۴۹۲ء) رہ گئی جہاں بنواحمر ۲۵۰ برس تک شمال سے عیسائیوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ حتیٰ کہ لیون وقشلۃ کے حکمران مسیحی جوڑے شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی فوجوں نے غرناطہ کا محاصرہ کرلیا اور ڈیڑھ ماہ بعد غرناطہ کے آخری حکمران ابوعبداللہ نے شہر کی کنجیاں فرڈیننڈ کے حوالے کردیں۔ یہ سانحہ یکم ربیع الاول ۸۹۷ھ (جنوری ۱۴۹۲ء) کو پیش آیا۔
یوں لیون اور وقشتلہ کی مسیحی ریاستوں کے ساتھ غرناطہ کے الحاق سے اسپین کی بادشاہت وجود میں آئی۔ سقوط غرناطہ کے بعد سوا سو برس کی مدت میں اسپین سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کردیا گیا، انہیں جلاوطن کیا گیا۔ رومن کیتھولک عیسائی حکمرانوں اور طورقماچہ جیسے ظالم اور جنونی پادریوں کے حکم پر اَن گنت مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ انھیں تعزیر و تعذیب کے شکنجوں میں کسا گیا اور بیشتر کو جبراً عیسائی بنالیا گیا حتیٰ کہ وہاں ایک مسلمان متنفس بھی باقی نہ رہا۔ لیکن گذشتہ چند عشروں میں اسپین کی صورت حال خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت وہاں تقریباً ۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اگرچہ سرکاری طور پر ان کی تعداد ۳لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ہسپانوی مسلمانوں میں زیادہ تعداد شمالی افریقہ کے تاریکین وطن کی ہے،تاہم ہزاروں کی تعداد میں نومسلم ہسپانوی بھی ہیں اب یہاں مسلمان کو اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہے۔ مسلم اسٹوروں پر حلال گوشت عام مل جاتا ہے۔ شہروں میں مسلمان خواتین یہاں بھی پردہ کرتی ہیں اور کئی تو برقعوں میں نظر آتی ہیں۔ حکومت نے انھیں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ غرناطہ میں ایک شاندار مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔ اسپین اندلس میں اسلام کا یہ احیاء خوش آئند ہے۔
مسجد گرجا میں شاعر مشرق اور مجاہد کی نماز:
مسلم عہد اقتدار کی یادگار مسجد قرطبہ Mezquita Cathedral مسجد گرجا کہلاتی ہے اسے ۱۲۳۶ء میں سقوط قرطبہ کے بعد عیسائیوں نے گرجا بنا لیا تھا۔ سرکاری طور پر یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۱ء میں یہاں گارڈ کی نگرانی کے باوجود موقع پاکر نماز ادا کی تھی۔ ڈائرکٹر دارالاسلام (الریاض، لاہور) مولانا عبدالمالک مجاہد چند سال پہلے اپنے گائیڈ عبدالغنی میلارا کی رہنمائی میں مسجد قرطبہ کی زیارت کو گئے تو گارڈ نے ان پر نگاہ رکھی کہ وہ نماز ادا نہ کرنے پائیں مگر کب تک، گارڈ تھک ہار کر اِدھر اُدھر ہوا تو انھوں نے ستونوں کے پیچھے دو نفل ادا کرلیے۔
مسجد قرطبہ سیاحوں کے لیے باعث کشش ہے۔ علامہ اقبال نے بالِ جبریل میں اسے حرم قرطبہ اور کعبہ ارباب فن قرار دیتے ہوئے کہا:
کعبۂ اربابِ فن سطوتِ دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
اور اس کے سیکڑوں ستونوں کی یوں تعریف کی:
تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
غرناطہ میں ۵۰۰ برس بعد اذان
عبدالغنی میلارا غرناطہ Granda کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک ذی علم مستشرق ہیں۔ انہوں نے ۲۰ سال پہلے عربی سیکھنے کے شوق کے تحت اسلام قبول کیا تھا۔ انہوں نے قرآن پاک کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا جسے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔ ان کا آبائی گھر پرانے غرناطہ کی ایک تنگ گلی میں ہے۔ ۱۹۹۵ء میں مولانا عبدالمالک مجاہد لندن سے مالقہ پہنچے تو عبدالغنی میلارا ہوائی اڈے سے انھیں ٹیکسی میں غرناطہ اپنے گھر لے گئے جو بلندی پر واقع ہے۔ صبح وہ انھیں گھر کی چھت پر لے جاکر انگلی کے اشارے سے ایک ایک کرکے دکھانے لگے کہ اس گرجے کی عمارت پہلے مسجد تھی اور فلاں بھی مسجد تھی۔ دراصل جنونی پادریوں کے زیرنگرانی مسلمانوں اور یہودیوں کا استیصال کرنے والے دیوان تفتیش کے دنوں میں اسپین کی مساجد مسمار کر دی گئیں تھیں یا انہیں گرجے بنا لیا گیا تھا۔ اب چند سال پہلے غرناطہ کے مسلمانوں نے تاریخی شاہ محل الحمرا کے قریب مسجد تعمیر کی ہے۔ اس کے اخراجات شارقہ (شارجہ) کے شیخ القاسمی نے برداشت کیے۔ یوں پانچ سو برس بعد ایک مرتبہ پھر غرناطہ کی فضاؤں میں اذان کی آواز گونجنے لگی ہے اور حال ہی میں اشبیلہ میں ایک مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے جو یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہوگی۔
عبدالغنی میلارا نے مولانا عبدالمالک مجاہد کو بتایا کہ چند سال پہلے غرناطہ کے مسلمانوں نے قصرا الحمرا میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت مانگی تو حکومت نے اجازت دے دی۔ تب اسپین کے گوشے گوشے سے مسلمان الحمرا میں نماز عید پڑھنے کے لیے کھینچے چلے آئے۔ چنانچہ ۵۰ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے وہاں عید کی نماز ادا کی۔ اس پر ہسپانوی حکومت چونک اٹھی اور قصرالحمرا میں نماز کی ادائیگی پر مستقل پابندی لگا دی گئی۔
قدیم عربوں کی نومسلم اولاد:
ایک ہسپانوی ماہر مارٹینو کا خیال ہے کہ آئندہ چند برسوں میں اسپین یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی کا ملک بن جائے گا۔ اسپین کے نومسلموں میں قدیم عربوں کی اولاد بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤاجداد کو زبردستی عیسائی بنالیا گیا تھا۔ ثبوت کے طور پر وہ اپنی آنکھوں کی سیاہ رنگت کی مثال دیتے ہیں کیونکہ اصل ہسپانوی باشندوں کی آنکھیں بھوری ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے اپنی نظم مسجد قرطبہ میں اسپین کے بارے میں کہا تھا:
آج بھی اِس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اِس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اِس کی نواؤں میں ہے
ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ چند برسوں میں اسپین میں ۲۰ ہزار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا ہے۔ صرف غرناطہ میں ایک ہزار عیسائی مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ ۱۴۹۲ء کے بعد مسلمانوں کو عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اب انہی کی اولاد تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہورہی ہے۔
اسپین میں مقیم مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ان میں خوداعتمادی بھی آرہی ہے۔ گذشتہ برسوں میں یہاں کئی مسجدوں کا اضافہ ہوا ہے اور ہرسال نئی اسلامی تنظیمیں اپنے نام رجسٹرڈ کرا رہی ہیں۔ اسپین میں پاکستانی بھارتی بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے باشندے مقیم ہیں۔ بارسلونا (برشلونہ) میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
مسلمانوں کے دورِ حکومت (۷۱۱ء تا ۱۴۹۲ء) میں اسپین علم و دانش اور علوم و فنون کا مرکز تھا۔ ان کے علماء و مفکرین نے یورپ کے لیے روشنی کے دروازے کھولے۔ اب ایک مرتبہ پھر مسلمان طلباء یہاں کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہیں۔ صرف سبتہ شہر کے اسکولوں میں چار ہزار سے زیادہ مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یاد رہے سبتہ Ceuta پر ۱۴۱۵ء میں پرتگالیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ بعد میں اس پر ہسپانوی قابض ہوگئے اور یہ شہر اب تک اسپین کے تسلط میں ہے حالانکہ جغرافیائی لحاظ سے یہ مراکش افریقہ کے ساحل پر واقع ہے۔ سبتہ سے دس بارہ میل شمال میں آبنائے جبل الطارق کے پار ساحل اسپین دکھائی دیتا ہے۔ غرناطہ میں محمد بن الاحمر کا تعمیر کردہ قصرالحمرا بھی اپنی مثال آپ ہے۔ میکسیکو کا شاعر سیاح آری اکاز اور اس کی بیوی دونوں محوحیرت ہوکر اس لاجواب قصر کو دیکھ رہے تھے تو ایک اندھا سائل وہاں گیا۔ سیاح نے اسے دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا: خاتون اسے زیادہ سے زیادہ بھیک دو کیونکہ کسی آدمی کی اس سے بڑی بدبختی نہیں ہوسکتی کہ وہ غرناطہ کے قصر کے سامنے کھڑا ہو مگر اندھا ہونے کے باعث اسے نہ دیکھ سکے۔
‘‘اندلس میں اجنبی’’ کے مصنف مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ میکسیکو کے شاعر اکارا کے یہ مصرے قصرالحمرا کی ایک شکستہ دیوار پر تانبے کی تختی پر کندہ ہیں:
مسلم اسپین اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں خلیفہ عبدالرحمن ثالث کا نصف صدی پر محیط عہد خوشحالی اور تمول کا ایسا زمانہ تھا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جب یورپ کے کسی ملک میں ابھی سکّے رائج نہیں ہوئے تھے اندلس میں لوگوں کی جیبیں سونے اور چاندی کے سکّوں سے بھری رہتی تھیں۔
قرطبہ شہر جو وادی الکبیر کے کنارے ۲۴میل تک پھیلا ہوا تھا اس کی آبادی ۱۰ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ قرطبہ کی سڑکیں راتوں کو دورویہ چراغوں سے جگمگاتیں جب کہ لندن اور پیر س کی گلیاں اس کے ۷۰۰ سال بعد بھی اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ الغرض نویں تا گیارہویں صدی عیسوی کا مسلم اسپین یورپ کا سب سے طاقتور، آباد اور خوشحال ملک تھا۔ اسلامی اثرات کی ایک مثال دیکھیے:
اسپین کا دارالحکومت میڈرڈ ہے جو ملک کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ صدیوں پہلے ایک عرب قبیلے نے دریائے میڈناس کے کنارے ایک اُونچے ٹیلے پر مجریط نام کی بستی آباد کی تھی۔ عربی زبان میں ٹیلے کو مجریط کہتے ہیں یہی مجریط بگڑتے بگڑتے میڈرڈ بن گیا۔
ہسپانویوں اور لاطینی امریکا کے ہسپانوی نژاد لوگوں میں اسلام لانے کے لیے خاص کشش پائی جاتی ہے۔ اس کی گواہی گوانتاناموبے کے ایک اسیر نے اپنی رہائی کے بعد اپنی روداد ابتلا میں بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں: ‘‘گوانتاناموبے میں نگران فوجیوں کا ایک ہسپانوی نژاد گروپ بھی تھا۔ ان میں مسلمانوں کے بارے میں تعصب نہیں تھا۔ ان میں بلا کی انسانی ہمدردی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے آباؤاجداد مسلمان تھا اس وجہ سے وہ نماز کا احترام کرتے، وہ قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں کرتے تھے اور اضافی روٹی کے ساتھ ہمیں پانی، شیمپو اور صابن بھی دیتے۔ وہ انتہائی مختصر مدت کے لیے وہاں رہے کیونکہ بدنہاد امریکیوں کو شک ہوگیا تھا کہ وہ قیدیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ان کے ہٹائے جانے سے بیس دن پہلے ایک ہسپانوی نژاد فوجی نے مجھ سے کہا تھا کہ امریکی حکام انھیں یہاں رہنے نہیں دیں گے اور کسی دوسری جگہ منتقل کردیں گے’’۔ (بشکریہ سہ روزہ ‘‘دعوت’’، دہلی، جون ۲۰۰۷ء)