نہ آئے دیدہ وروں کو نظر نہ آئے وہ
دلوں میں اہلِ محبت کے جگمگائے وہ
نہیں ہے کوئی بھی فخر و غرور کے لائق
مگر زمانہ جہاں اپنا سر جھکائے ، وہ
حیات و موت کو تخلیق کیا اس نے
حیات و موت کے انداز بھی بتائے وہ
نہ ابتدا کوئی اس کی نہ انتہا معلوم
حصار فکر میں آئے تو کیسے آئے وہ
مخالفوں کو نوازے ہے لطف پیہم سے
اور اپنے چاہنے والوں کو آزمائے وہ
نہ رنگ اس کا ہے کوئی نہ چہرہ ہے لیکن
ہزار پردوں میں جلوے ہمیں دکھائے وہ
ستم زدوں سے محبت سہی عزیز اس کو
ستم گرانِ جہاں پر بھی رحم کھائے وہ
عزیز بگھروی
انتخاب: خضر حیات ناگپوری