دلی کے لال قلعہ سے تھوڑے فاصلے پر صدیوں پرانا خونی دروازہ 1857 کی جنگ آزادی کی کچھ تلخ یا دیں اپنے پہلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو قتل کیا گیا تھا۔
مورخ پرفیسرمجیب اشرف اس وقت کا منظر کچھ اس طرح بتاتے ہیں۔‘ تیرہ اور انیس ستمبر کے درمیان انگریزوں نے دلی کا محاصرہ کیا تھا، لاہوری گیٹ اور اجمیری گیٹ سے حملے ہوتے رہے، بالآخر انگریزوں نے لاہوری گیٹ سے پیش قدمی کی تو بہادر شاہ ظفر نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی۔ بعض غداروں کی مدد سے کیپٹن ہڈسن نے انہیں قید کرلیا اور ان کے بیٹوں سے اپنے آپ کوحوالے کرنے کو کہا لیکن بیٹوں نے جان کی امان مانگی اور کیپٹن نے جب امان دینے سے منع کر دیا تو انہوں نے خود سپردگی سے انکار کیا’۔
پروفیسر اشرف کے مطابق تاریخی دستاویزات میں ان باتوں کا ذکر نہیں ملتا ہے کہ ان کے بیٹے، مرزا مغل، مرزا خضر اور پوتے مرزا ابو بکر کے سر کاٹ کر تھالی میں پیش کیے گئے تھے یا ان کی لاشوں کو لٹکایا گیاتھا، لیکن روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان کی لاشوں کو خونی دروازے پر لٹکایاگیا تھا۔ مورخین کے مطابق انگریزوں نے اس وقت دلی کے فصیل بند شہر کے مکینوں پر بڑے ظلم ڈھائے تھے۔ پروفیسر مجیب کہتے ہیں کہ ہرگلی میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔‘صرف کوچہ چیلان میں ایک دن کے اندر 1400 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا، ایک انگریز نے یہ ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ بوڑھوں کو قتل ہوتے دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوتا تھا۔’
کہا جاتا ہے کہ کیپٹن ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو صدمہ پہنچانے کی غرض سے ان کی اولاد کو قتل کیا تھا لیکن بوڑھے باپ نے بیٹوں کی لاشیں دیکھیں تو وہ اور جوش میں آگئے۔ ثقافتی امور کے تجزیہ نگار فیروز بخت بتاتے ہیں۔‘ جب ان کے سامنے ان کے عزیزوں کی لاشیں پیش کی گئیں تو بجائے افسردہ ہونے کے وہ اور جوش میں آگئے اور کہا کہ تیموری شہزادے اپنے باپ کے سامنے ایسے ہی سرخ رو ہوکر پیش ہوا کرتے ہیں۔’
آخری مغل باد شاہ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور ان کے بیٹوں کے قتل کا واقعہ ڈیرھ صدی پرانا ہے لیکن پرانی دلی کے بہت سے لوگ خونی دروازہ کو دیکھ کر آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ پروفیسر اشرف کے مطابق خونی دروازہ کئی ادوار کے نشیب و فراز کا گواہ ہے لیکن اب یہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے قتل کے لیے سبب زیادہ مشہور ہے۔‘ اس دروازے کی تعمیر شیر شاہ سوری کے عہد میں ہوئی تھی اور یہ پرانے قلعہ کا داخلی گیٹ تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے عبدالر حیم خان خاناں کے دو لڑکوں کو اسی گیٹ پر پھانسی دی تھی، پھر اورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو بھی وہیں قتل کیا تھا لیکن خونی دروازہ اب اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے سبب سے زیادہ جانا جاتا ہے۔’
خونی دروازہ سے تاریخ کے کئی اہم پہلو جڑے ہوئے ہیں۔ اب یہ مصروف ترین روڈ کے درمیان ہے جس کے دونوں طرف تیز بھاگتی گاڑیوں کا شور بپا رہتا ہے اور بہت کم لوگ اس کی تاریخی حقیقت سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں۔